Tuesday 10 September 2019

آج کچھ زعماء دیوبند سے ۔۔۔۔

آج کچھ زعماء دیوبند سے ۔۔۔۔ 

ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ' دارالعلوم کی شہرت قصبہ دیوبند کی وجہ سے نہیں ہے۔۔۔ لیکن دیوبندکی شہرت دارالعلوم کی مرہون منت ہے ۔۔۔۔ لہذا اگر کوئی واقعہ دیوبند میں ہوا ہے یا کسی واقعہ سے اہل دیوبند کا تعلق ہے تو اسے دارالعلوم سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہئے ۔۔۔۔ لیکن اب یہ چلن عام ہوگیا ہے کہ جب عمومی طورپر بھی اہل دیوبند سے متعلق کوئی بات کرتا ہے تو کٹگھرے میں کھڑے لوگ اسے دارالعلوم کو بدنام کرنے کی سازش سے جوڑدیتے ہیں۔ گفتگو نفسِ موضوع پر ہونی چاہئے۔ محلّ موضوع پر نہیں۔
گزشتہ 10 اگست کی شب رونما ہونے والے واقعہ کا تعلق بھی صرف دیوبند سے تھا۔ لیکن چندفتنہ پردازوں نے اسے دارالعلوم سے جوڑ دیا ۔۔۔ دارالعلوم محض اینٹ پتھر اور مٹی و گارے کی عمارت کا نام نہیں ہے۔۔۔ دارالعلوم ہندوستان کی عظیم اسلامی تاریخ کی ایک ایسی روشن تحریک کا نام ہے جسے ہمارے ان اسلاف نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا جن کا نام لینے کی ہماری زبانیں اہل نہیں ہیں ۔۔۔۔ جو لوگ اپنے مکروفریب کو دارالعلوم کی آڑ لے کرپارسائی میں بدلنا چاہتے ہیں نہیں معلوم وہ روز محشرکون سامنہ لے کر بارگاہ خداوندی میں کھڑے ہوں گے۔ 
قصہ صرف اتنا تھا کہ دیوبند کی ایک لڑکی‘ اس روز گڑگاؤں سے آرہی تھی اورتھانہ حضرت نظام الدین دہلی سے دیوبند جا نے والی اس معمول کی بس سے دیوبند جانا چاہتی تھی۔ اسے آنے میں کچھ تاخیر ہورہی تھی اور وہ اس بس کو کچھ دیر کیلئے روکنا چاہتی تھی۔ وہ میٹرو اسٹیشن کے جس پوائنٹ پر تھی وہاں سے تھانہ حضرت نظام الدین تک کا فاصلہ ڈیڑھ کلو میٹرتھا۔ لیکن بس میں پہلے سے سوار دیوبند کے مسافروں نے بس کو انتظار کرنے نہیں دیا۔ ڈرائیور نے لڑکی سے کہا کہ وہ مدر ڈیری آجائے وہاں سے اسے بٹھالیں گے۔ مدر ڈریری کا فاصلہ 12 کلومیٹر تھا۔ لیکن آخر کار مدر ڈیری پر بھی بس کو روک کر اسے نہیں بٹھایا گیا۔
اِس سلسلہ کا تفصیلی مضمون میرے 22 اگست کی پوسٹ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔
اس مضمون پرنہ صرف اہل دیوبند نے بلکہ دارالعلوم کے فارغین اور اس سے مختلف حیثیتوں میں وابستہ افراد کے علاوہ دنیا کے مختلف گوشوں میں مقیم ہندوستانیوں نے بھی مختلف ردعمل کا اظہار کیا۔ زیادہ تر احباب کو تکلیف ہوئی کہ بس کے مسافروں نے اس تنہا لڑکی کے ساتھ یہ سلوک کیا۔لیکن جن فتنہ پردازوں کو خیر کے اندر سے بھی شر نکالنا ہے انہیں اطمینان نہ ہوا ۔۔۔ گو کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے تاہم انہوں نے جس انداز میں ردعمل کا اظہار کیا اس سے نہ صرف میری فیس بک وال کا پُر سکون ماحول مکدر ہوا بلکہ دیوبند میں بھی فضا مسموم ہوئی۔
میں عام طورپر فتنہ پردازوں کا جواب نہیں دیتا۔کیونکہ تحریر اُن کیلئے ہوتی ہے جن کی سمجھ میں وہ آجائے۔۔۔جن کی سمجھ میں نہ آئے تحریران کے لئے نہیں ہوتی۔۔۔ مجھے بعض احباب نے مختلف ذرائع سے اس پر آمادہ کیا کہ میں اس سلسلہ کی پچھلی تحریر پرچند مفار پرست اور شرپسند افراد کے ذریعہ پیدا کردہ شکوک وشبہات کے ازالہ کیلئے ایک وضاحت تفصیل کے ساتھ لکھوں۔۔۔ ان فتنہ پردازوں کی جانب سے طعن وتشنیع کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔میں اس سلسلہ کو یہیں روک دینا چاہتا تھا لیکن بہت سے احباب کا اصرار ہے کہ جواب دیا جائے ۔۔۔ 
میرے 22 اگست کے پوسٹ پرسب سے پہلے حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب نے لکھا: ”بہت ہی افسوس ناک واقعہ ہے۔ سنگ دلی اور بے حسی کی انتہا ہے۔آپ کے مضمون نے ہلاکررکھ دیا۔“۔۔۔۔۔۔ 
اس پر جمعیت علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب نے لکھا: ”نہایت افسوسناک‘ سخت قابل مذمت‘ ایسی بس جو کسی بے بس کے کام نہ آئے‘ اسے تو بند ہی ہوجانا چاہئے۔ ویسے ملت کی اجتماعی بے حسی کے تو بے شمار واقعات علم میں آتے رہتے ہیں۔“ 
 حضرت مولانا سجادنعمانی صاحب دامت برکاتہم نے بھی اپنی تشویش کا اظہارکیا اور مولانا محمود مدنی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: اس بس کے ڈرائیور اور متعلقہ ذمہ داروں کو اہل دیوبند کی طرف سے سزا دلوائیں۔“
 کچھ دیر بعد مولانا محمود مدنی صاحب نے پھر لکھا: ”یہ بھی سوال ہے کہ ایک لڑکی بغیر محرم کے انٹرویو دینے اکیلی گڑگاؤں جاتی ہے؟؟؟ 
اس کے بعد مولانا محمد مدنی صاحب نے ایک گروپ پر لکھا کہ ”یہ لڑکی تنہا کیوں گئی تھی؟“۔ اب اسکے بعد تو لڑکی کا کردار ہی مشکوک ہوگیا۔۔۔۔۔
اگلی سطور بہت غور سے ملاحظہ کیجئے گا۔۔۔۔
دیوبند میں جامعہ معہدالانور کے استاذِ حدیث مولانا فضیل ناصری نے لکھا کہ ۔۔۔۔۔ ”لڑکی آوارہ معلوم ہوتی ہے جو اتنی دور انٹرویو کے لئے گئی تھی۔“ 
اس پر انہیں سکون نہیں آیا۔ کچھ دیر بعد پھر لکھا کہ: ”پوری کہانی ہی فرضی ہے۔“ اسی طرح دیوبند اور دوسرے مقامات کے کچھ اور افراد نے بھی ”کہانی فرضی ہے“ --- ”کہانی جھوٹی ہے“ --- ”مضمون کو سنسنی خیز بنانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا گیا ہے۔“ وغیرہ وغیرہ لکھا ۔۔۔ کسی نے لکھا کہ یہ دو ٹکے کا صحافی ہے ۔۔۔ کسی نے لکھا: یہ بکواس کرتا ہے ۔۔۔ 
ملاحظہ کیا آپ نے اہل علم کا متضاد' غلیظ اور مکروہ کردار؟ کیا پڑھے لکھوں کی' اور خاص طورپر فضلاء مدارس کی یہی زبان ہونی چاہئے ۔۔۔؟ 
24 اگست کو دن میں ساڑھے دس بجے دیوبند سے سلیم عثمانی صاحب نے مجھے فون کیا ۔۔۔ اس روز میں بیرونی سفر پر تھا ۔۔۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ محمد مدنی آپ کی تحریر سے بہت ناراض ہیں ۔۔۔ وہ آپ کی تحریرکو جھوٹی قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ میں نے محمد مدنی صاحب سے کہا کہ اگر تحریرجھوٹی ہے تو آپ ودود ساجد کے خلاف کارروائی کریں۔ تو محمد مدنی صاحب نے جواب میں لکھا کہ کارروائی کی کوئی ضرورت نہیں۔ سلیم عثمانی صاحب نے محمد مدنی صاحب سے یہ بھی کہا کہ وہ دوپہر کے بعد ایم ودود ساجد سے بات کریں گے کیونکہ دیوبند میں یہ خبر اُن کی تحریر آنے سے پہلے سے گرم ہے۔
اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ نہ کہانی فرضی تھی اور نہ ہی میں نے اپنی جانب سے اس میں کوئی مبالغہ آرائی کی۔ اہل دیوبند کو اس واقعہ کی اطلاع میری تحریر سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ گوکہ یہ واقعہ میری تحریر کے بعد ہی موضوع بحث بنا۔دوران بحث بعض گروپوں پر بس کے دیگر کئی مسافروں نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کردی۔ ان سب کی تحریرمیرے پاس محفوظ ہے ۔۔۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ محمد مدنی صاحب اتنے برگشتہ کیوں ہوئے۔۔۔ ؟ 
تقریباً 36 گھنٹوں تک اس پوسٹ پر دنیا بھر سے ردعمل آتا رہا۔ لیکن اس وقت تک نہ بس کے ڈرائیور نے‘ نہ بس کے دہلی اور دیوبند کے مالکان نے اور نہ ہی کسی دوسرے متعلقہ فرد نے میرے مشمولات کی کوئی تردید کی اور نہ لڑکی کے تعلق سے کوئی خبر دی۔۔۔
36 گھنٹوں کے بعد اچانک مولانا محمد مدنی صاحب کے داماد مولانا ذہین صاحب کا بیان آتا ہے کہ دہلی میں بس کے مالک نے اس لڑکی کو اپنی لڑکی کے گھر ٹھہرا دیا تھا اور صبح کو اسے پہلی بس سے دیوبند کے لئے روانہ کردیا تھا ۔۔۔۔ اس پر سہارنپور کے بزرگ صحافی شبیر شاد نے لکھا کہ یہ وضاحت آنے میں غیرعمولی تاخیر ہوئی  لہذا یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ لڑکی کو مینیج کرلیا گیا ہو۔۔۔۔ 
اس کے بعد تو فتنہ پردازوں کے مزید بال وپر آگئے۔ جو صاحب لڑکی کو آوارہ قرار دے چکے تھے اور جو میرے مضمون کو ’فرضی کہانی‘ قرار دے رہے تھے انہوں نے تمام تر مغلظات سے بھرپور ایک تحریرجاری کردی۔ ابھی تک ان کے نزدیک کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھا اور لڑکی آوارہ تھی ۔لیکن اب انہوں نے سارا زور اس پر صرف کرنا شروع کردیا کہ لڑکی کو بس کا مالک اپنی لڑکی کے گھر لے گیا تھا‘ اور یہ کہ ودودساجد نے تحریر کو سنسنی خیز بنانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔ ابھی تک واقعہ ہوا ہی نہیں تھا اور اب لڑکی کی غیرمعمولی مدد کرنے کے لئے بس کے مالک کی قصیدہ خوانی شروع ہوگئی ۔۔۔ اور مجھے بھی کہا گیا کہ بس مالک کی تحسین کروں ۔۔۔ 
اتنے قابل وفاضل افراد یہ بھول گئے کہ صحافی کی ذمہ داری مجرمانہ واقعات کو منظرعام پر لانے کی ہوتی ہے ۔۔۔۔ ان کی ذمہ داری مجرمانہ واقعات کو چھپانے والے افراد کے کسی حسن سلوک پر داد دینے کی نہیں ہوتی ۔۔۔۔ 
مجھے حیرت ہے کہ دیوبند میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے نام پر قائم معہدالانور میں جو شخص استاذ حدیث ہو اس کا کردار اور اس کی زبان  یہ ہے۔پہلے وہ تحقیق کے بغیر اس مظلوم بچی کو آوارہ قرار دیتا ہے۔ پھر بغیر تحقیق کے میری پوری تحریر کو ہی فرضی کہانی قراردیتا ہے اور پھر بس مالکان کا دفاع کرنے لگ جاتا ہے۔ اب وہ لڑکی ایک غیرمحرم کے گھر ٹھہرتی ہے تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ۔۔۔۔
استاذ حدیث کی تحریر کے الفاظ اتنے سطحی تھے کہ میں نے اسے اپنی وال پر رکھنا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے اسے ڈلیٹ کردیا۔ اس کے بعد کئی روز تک ایک درجن سے زائد مختلف افراد کے ذریعہ میری وال پر وہ تحریر بار بار پوسٹ کروائی گئی ۔۔۔ ایسی حرکتیں علماء حدیث نہیں کرتے ۔۔۔۔ جہلاء پر کوئی حد متعین نہیں ہے ۔۔۔۔ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔۔۔۔ ایسے جہلاء' حدیث کا درس دیں گے تو نئے فضلاء کی کیسی کھیپ تیار ہوکر نکلے گی بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔۔۔۔ 
دیوبند سے بہت سے ممتاز شہریوں نے مجھے فون کرکے میری تحریرکی ستائش کی اور ناشائستہ تبصروں پر اپنی تکلیف کا اظہار کیا ۔۔۔۔۔ ایک بزرگ نے کہا کہ اہل دیوبند باہر کے کسی آدمی کی کوئی بات برداشت نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔ ایک صاحب 70 سال سے ابوالمعالی میں رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ دہلی اور دیوبند سے چلنے والی بغیر لائسنس کی ان بسوں کے کاروبار میں دیوبند کے کئی بڑے لوگ ملوث ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک صاحب نے کہا کہ اہل دیوبند نے دارالعلوم کی بہت مدد کی لیکن آج دارالعلوم بس چند افراد کا نام ہوکر رہ گیا ہے ۔۔۔۔۔ ایک صاحب نے بتایا کہ اس عظیم ادارہ سے وابستہ بعض افراد اتنے بدمعاملہ ہوگئے ہیں کہ ہر کام میں کمیشن لیتے ہیں ۔۔۔۔
سلیم عثمانی صاحب کو لڑکی پر فضیل ناصری اور انہی جیسے لوگوں کے بے ہودہ الزام پر بے حد ناراضگی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دیوبند کی 25 فیصد سے زائد لڑکیاں دہلی‘ نوئیڈا اور گڑگاؤں پڑھنے اور نوکری کرنے جاتی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ سب آوارہ ہیں؟ انہوں نے پوچھا کہ  اہل دیوبند نے اور خاص طور پر لڑکی کے بغیر محرم باہر نکلنے پر اعتراض کرنے والوں نے کیا آج تک اتنی بڑی تعداد میں باہر جانے والی لڑکیوں کے گھر کے احوال جاننے کی کوئی کوشش کی؟ 
مظفرنگر کے کئی ممتاز شہریوں نے فون کرکے بتایا ہے کہ ان بسوں میں تبلیغی جماعت کے مسافروں سے بھی بدسلوکی کی جاتی ہے ۔۔۔۔ دیر رات کو تبلیغی جماعت کے مسافروں کو میناکشی چوک پر نہ اتارکر رانا چوک پر اتار دیا جاتا ہے۔۔۔۔ یہاں تک کہ مظفرنگر کی مسافر خواتین کو بھی رانا چوک پر اتار دیا جاتا ہے ۔۔۔۔ اگر ڈرائیوروں سے میناکشی چوک پر اتارنے کیلئے کہا جاتا ہے تو وہ بدتہذیبی پر اترآتے ہیں۔ ایک صاحب نے اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ایک غیر ملکی جماعت کو لے کر اس بس سے مظفرنگر کے لئے سوار ہوئے ۔۔۔۔ شہر کا ماحول خراب تھا۔ لیکن بس ڈرائیور نے دیررات کو شہر سے ایک کلومیٹر دور اتار دیا۔ لاکھ منت سماجت کے باوجود وہ میناکشی چوک جانے کو تیار نہیں ہوا۔ اگر واقعی یہ بسیں تبلیغی افراد کی آسانی کے لئے ہیں تو پھر تبلیغی مسافروں کے ساتھ یہ سلوک کیوں؟
وافر مواد ہونے کے باوجود اس موضوع کو طول دینا مجھے مطلوب نہیں ہے ۔۔۔لیکن اب یہ موضوع اس امر کا متقاضی ہوگیا ہے کہ اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اس ضمن میں میرے چند سوال اہل دیوبند اور خاص طور پر زعماء دیوبند سے ہیں:
1- اگر میری تحریر میں ”ایک بڑے ادارے“ اور ”ایک خانوادہ کے ایک فرد“ لکھنے پر اتنا اعتراض تھا تو اس معاملہ پر جاری بحث میں ادارے اور خانوادہ سے وابستہ افراد اتنے زور شور سے کیوں میدان میں کود پڑے؟
2- میں نے تو کسی کا نام نہیں لیا تھا۔ پھر کیوں مولانا محمد مدنی نے اتنا سخت تبصرہ لڑکی کے کردار پر کیا اور کیوں ان کے داماد مولانا ذہین نے بس مالک کی طرف سے صفائی پیش کی؟ اور کیوں خود بس کا مبینہ مالک سامنے نہیں آیا۔۔۔؟ 
3-  بس کے مسافروں اور ڈرائیور کے ذریعہ پریشان حال لڑکی کو دہلی کی سڑکوں پر گھمانے کا واقعہ زیادہ قابلِ مذمت تھا یا اس لڑکی کو بس مالک کے ذریعہ اپنے گھر ٹھہرائے جانے کا واقعہ زیادہ قابل تعریف تھا؟ آخر نفس موضوع کو چھوڑکر بس مالک کا اتنی شدت سے کیوں دفاع کیا گیا اور کیوں مجھ سے بھی یہی مطالبہ کیا گیا ۔۔۔۔ ؟ 
4- جامعہ معہدالانور میں استاذ حدیث کی اس ہرزہ سرائی پر اہل دیوبند کیوں خاموش ہوگئے کہ ”لڑکی آوارہ معلوم ہوتی ہے؟“ اور بس مالک کے دفاع میں مغلظات بھری تحریرکو کیوں بار بار آگے بڑھایا گیا؟
5- یہ سوال کیوں اہم نہیں ہے کہ دہلی اور دیوبند کے درمیان چلنے والی یہ بسیں جائز طور پر لائسنس لے کر چلائی جارہی ہیں یا یوں ہی بغیر لائسنس کے چل رہی ہیں؟ یہ سوال ایسے میں اور بھی ضروری ہوجاتا ہے جب حال ہی میں دارالعلوم کی لائبریری کی نئی عمارت کی تعمیر میں ادارے کو سرکاری اڑچنوں اور سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔۔۔ 
6-  ان بسوں کی پیشانی پر اوپر کی طرف لکھا ہے 
'HAZRAT NIZAMUDDIN' جبکہ نیچے کی طرف لکھا ہے 
'DEOBAND MADARSA'  کیا کبھی کسی نے پوچھنے کی زحمت کی کہ ان دونوں سطور سے کیا مراد ہے؟ 
7-  کیا اس سے پولس اور افسران کو یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ یہ بس درگاہ حضرت نظام الدین اور دارالعلوم دیوبند کی ملکیت ہے؟ 
8-  اس بس کی پشت پر یہ بھی لکھا ہے 'ONLY FOR JAMAAT' کیا اس سے یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ یہ بس مرکز تبلیغی جماعت کی ملکیت ہے؟ اور اگر یہ بس صرف جماعت کے مسافروں کے لئے ہے تو دوسرے مسافروں کو کیوں سوار کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ ؟ کیا شرعی طور پر یہ روا ہے ۔۔۔۔ ؟ 
ان بسوں پر ان تین مختلف اداروں کے نام کا استعمال فہم سے بالا تر ہے ۔۔۔۔۔ کیا یہ بس بیک وقت تبلیغی جماعت میں آنے والے افراد اور درگاہ حضرت نظام الدین آنے والے معتقدین کو دارالعلوم دیوبند کا دورہ کروانے کے لئے مخصوص ہے؟ 
اہل دیوبند کو ان سوالوں کے جواب ضرور حاصل کرنے چاہئیں ۔۔۔۔۔ یہ جوابات خود دارالعلوم اور اہل دیوبند کے وقار کے لئے بے حد ضروری ہیں ۔۔۔
ایم ودود ساجد


No comments:

Post a Comment