Wednesday 28 January 2015

کتے کی غیرت

آج ایک جانب پوری دینا کے مسلمان احتجاج کے ذریعے پیغمر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت اور گستاخوں کے ساتھ نفرت کا اظہار کررہے ہیں..... 
تو دوسری جانب فیس بک کی مختلف شاخوں پہ بیٹھے ہوئے کچھ لوگ مسلمانوں کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے بھانت بھانت کے دلائل جمع کررہے ہیں...ایسے تماملوگوں سے سے گزارش ہے کہ آپ کے دلائل اپنے پاس رکھئے۔ ۔۔۔۔ اور کتے کی غیرت دیکھئے .... !
ہلاکو خان کی ایک بیوی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھی.....اس کے زمانے میں عیسائیت کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا.....ہلاکوکے ایک اہم جنگی سردار نے عیسائی مذہب قبول کرلیا.....اس خبر سے عیسائی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.....اس موقع پر کلیسا نے اس خوشی میں ایک جشن کی تقریب کا اہتمام کیا.....اس تقریب میں مرکزی کلیسا کے کئی پادری نمائندگی کے لیے شریک ہوگئے .....اور عیسائیت کے فضائل میں ہرجوش تقریریں کیں......
اس تقریب میں ایک بدبخت پادری نے اپنی تقریر میں پیغمر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی شروع کردی.....قریب ہی ایک ےاتاری سپاہی کا خونخوار کتا بندھا ہوا تھا.....اچانک لوگوں نے دیکھا کہ کتا پادری کی طرف منہ کرکے زور زور سے بھونکنے لگا اور رسی تڑانے کی کوشش کرنے لگا.....پادری نے پھر تقریر شروع کردی مگر کتے کی آواز نے اسے پریشان کردیا.....ابھی وہ تقریر کے لیے آگے بڑا ہی تھا کہ کتے نے رسی تڑالی اور اس پر حملہ کردیا.....فورا ہی لوگوں نے آگے بڑھ کر کتے پرقابو پاکر رسی کے ساتھ باندھ دیا اور پادری کو سمجھانے لگے کہ اآپ ایک قابل احترام شخصیت کی شان میں نازیبا کلمات ادا کررہے ہو...... اس لیے یہ کتا آپ پر حملہ آور ہورہا ہے آپ اس سے باز آجاو...... پادری نے ان کی باتوں کو ہنسی میں اڑاتے ہوئے کہا .....کہ میں تقریر کے دوران ہاتھوں سے اشارے کررہا تھا اس لیے کتے نے سمجھا کہ میں اس پر حملہ کرنے والا ہوں..... اس لیے اس نے مجھے پر حملہ کرنے کی کوشش کی...... یہ کہہ کر اس نے گستاخانہ کلمات کے ساتھ دوبارہ تقریر کا آغاز کیا.....کتے نے پھر رسی تڑالی اور حملہ کرکے اسے دبوچ لیا ......اور اس کی گردن میں دانٹ گڑادیے اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک وہ مر نہیں گیا....
جس کتاب سے یہ حوالہ نقل کیا گیا ہے اس کا نام ہے
"تحفظ ناموس رسالت کیوں اور کیسے"اس کتاب میں لکھا ہے کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے ....کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ ودلم کی شان میں گستاخی کرنے والے سے قدرت کا یہ انتقام دیکھ کر وہاں موجود چالیس ہزار افراد نے اسلام قبول کرلیا (ازحقایات وواقعات: ص 338).
اس واقعے کے بعد میرا دل تو یہی کہتا ہے ....کہ یہ کتا ان سب نام نہاد مسلمانوں سے بہتر تها....جو آذادی اظہار رائے کے نام پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کرنے والوں کا مختلف طریقوں سے دفاع کررہے ہیں.....
Hazrat Molana Tariq Jameel

No comments:

Post a Comment