Friday 23 January 2015

شاه عبدالله بن عبدالعزيز

انتقال سے قبل مرحوم شاہ عبداللہ کی آخری تصاویر
سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ بن العزیز کی زیر نظر تصاویر گذشتہ برس دسمبر میں ان کی خریم گارڈن روانگی کی ہیں جو ان کی آخری تصاویر ثابت ہوئیں کیونکہ جمعہ کو علی الصباح انتقال کے بعد اسلامی اور دیگر دنیا بڑے پیمانے پر افسوس اور دکھ کا اظہار کر رہی ہے۔

شاہ عبداللہ بن عبدالعزيز

ریااض ۔ ماجد الھزاع

سعودی عرب کے فرمانروا اور خادم الحرمین الشریفین علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انہوں نے اگست سنہ 2005ء میں زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ عمرکے آخری عرصے میں وہ زیاد ترعلیل رہنے لگے تھے۔ گذشتہ ماہ دسمبر میں بھی انہیں نمونیا کے بعد ریاض میں شاہ عبدالعزیز میڈیکل سٹی میں علاج کے لیے داخل کیا گیا تاہم انہیں جلد ہی وہاں سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ خرابی صحت کے باوجود انہوں نے امور حکومت کی انجام دہی میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی۔

شاہ عبداللہ عبدالعزیز مرحوم کا شمار سعودی عرب کے ان حکمرانوں میں ہو گا جن کے دور حکومت میں ملک نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں غیر معمولی ترقی اور خوش حالی کے نئے باب رقم کیے۔ شاہ عبداللہ کی کامیابیوں کا سلسلہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں۔ معیشت، تعلیم، صحت سوشل ویلفیئر، نقل وحمل، مواصلات، صنعت، بجلی، پانی، زراعت، تعمیرات غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں انہوں نے ماضی کی نبست سعودی عرب کو زیادہ ترقی یافتہ بنا دیا۔ مرحوم نہ صرف اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مشہور تھے بلکہ اس باب میں ان کی شہرت منصوبوں کو ان کے وقت مقررہ سے بھی قبل مکمل کرنے کے حوالے سے رہی۔

ان کے دور حکومت میں سعودی عرب میں تعلیم کے شعبے نے خوب ترقی کی۔ کم وبیش 20 نئی جامعات قائم کی گئیں، درجنوں کی تعداد میں ٹیکینکل اور میڈیکل کالجز کا قیام، شاہ عبداللہ سائنس وٹیکنالوجی یونیورسٹی، جازان، مدینہ منورہ، حائل اور رابغ شہروں میں شاہ عبداللہ اکنامک سٹی کا قیام بھی انہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔

شاہ عبداللہ (مرحوم) کی مساعی جلیلہ کے نتیجے میں مملکت میں آج تعلیمی بیداری کی ایک ہمہ جہت تحریک موجود ہے۔ ملک کے طول عرض میں کالجوں اور اسکولوں کا ایک جال بچھا دیا گیا۔ کئی جامعات کے زیر انتظام نئے کالجز قائم کیے گئے اور 701.681 طلباء وطالبات کی تعلیمی ضروریات سے ہم آہنگ نئے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ کالجوں کے قیام کے ساتھ ساتھ 32 ہزار نئے اسکول قائم کیے گئے جن کے قیام کے بعد سعودی عرب میں اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد پانچ ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے قیام سے چار لاکھ چھبیس ہزار مردو خواتین اساتذہ کو روزگار فراہم کیا گیا۔
شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز

نئے سعودی فرمانروا

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعود کے بعد ان کے بھائی اور ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز ملک کے نئے بادشاہ بن گئے ہیں۔

شاہ عبداللہ کے انتقال کا اعلان جمعہ کو علی الصباح سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق: "سلمان بن عبدالعزیز، آلِ سعود اور سعودی قوم "خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے انتقال پر انتہائی افسردہ ہے جو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ٹھیک ایک بجے دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں"۔
شاہ عبداللہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے نمونیا کے مرض میں مبتلا اور اسپتال میں داخل تھے۔ سرکاری ٹی وی کے مطابق ان کی نمازِ جنازہ جمعہ کی شام دارالحکومت ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ مسجدمیں ادا کی جائے گی جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔

شاہ عبداللہ کی عمر 91 برس تھی اور وہ اگست 2005ء میں اپنے پیش رو شاہ فہد کے انتقال کے بعد ملک کے بادشاہ بنے تھے۔ لیکن شاہ عبداللہ نے ولی عہد ہونے کے ناتے 1996ء سے ہی اپنے پیش رو شاہ فہد کی علالت کے باعث عملاً ملک کے باگ دوڑ سنبھالی ہوئی تھی۔

سعودی عرب کے نئے فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کی عمر 79 برس ہے اور انہیں مرحوم شاہ عبداللہ نے 2012ء میں ولی عہد اور ملک کا وزیرِ دفاع مقرر کیا تھا۔ وہ اس سے قبل پانچ دہائیوں تک دارالحکومت ریاض کے گورنر بھی رہے تھے۔

بیان کے مطابق سلمان بن عبدالعزیز نےنائب ولی عہد شہزادہ مقرن کو اپنا جانشین اور ولی عہد مقرر کر دیا ہے اور شاہی خاندان میں نامزدگیوں کی نگران کونسل سے اس تقرری کی توثیق کرنے کی درخواست کی ہے۔

اکہتر سالہ شہزادہ مقرن مملکتِ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں اور گزشتہ دو برسوں سے مملکت کے نائب وزیرِ اعظم کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

انہیں گزشتہ سال مارچ میں شاہ عبداللہ نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار نائب ولی عہد مقرر کیا تھا۔ شہزادہ مقرن سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ رہنے کے علاوہ مدینہ اور شمال مغربی صوبے حائل کے گورنر اور شاہ عبداللہ کے خصوصی مشیر بھی رہ چکے ہیں

No comments:

Post a Comment