Sunday, 18 January 2015

عشق رسول صلی الله علیه وسلم

حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت عشق کی یہ تعریف کرتی ہے کہ عشق وہ ہے جو ضرورت پڑنے پر راہِ عشق میں اپنی جان نچھاور کرنے کو باعث افتخار سمجھے اور محبوب کا نام لیتے لیتے اپنی جان دے دے۔ جب حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی پر لٹکاکر لوہے کی کیل ٹھونک دی گئی، اس عاشق جاں نثار کے آخری کلمات یہ تھے: ’’یااللہ! کوئی ایسا شخص ہوتا جو تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا آخری سلام پہنچا دیتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ تمنا پوری فرمائی۔ خبیبؓ کے مقام سولی سے سینکڑوں میل دُور مدینۂ منورہ میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کی جھرمٹ میں اچانک کہتے ہیں ’’وعلیک السلام یاخبیبؓ‘‘۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور فرمایا کہ خدا نے خبیبؓ کا سلام مجھے پہنچا دیا ہے۔ اس روایت کو علامہ جامی علیہ الرحمہ نے بھی شواہد النبوۃ میں نقل فرمایا ہے۔
عشق نبی کے یہ روح پرور مناظر و واقعات ایک مومن کے لئے سامانِ ہدایت ہیں، خصوصاً آج کے اس دور میں جب کہ مال اور متاع دُنیا کی محبت عفریت بن کر انسانیت کے قلب و دماغ پر مسلط ہوچکی ہے۔ عاشقانِ رسول کی زندگیاں ہی ایک مومن کی روح و قلب کو تازگی بخشتی ہیں۔ اگر تاریخ عالم میں عشق و محبت کا کوئی حسین باب ہے تو وہ حیاۃ الصحابہ کا باب ہے جنھوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا، مگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گوہر آبدار کو داغدار ہونے نہ دیا۔ مارے گئے، آگ میں جلائے گئے، قتل کئے گئے، سولی پر لٹکائے گئے، مگر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو نہیں چھوڑا۔ اپنے خون کا آخری قطرہ بہا دیا اور اپنی زندگی کی آخری سانس ختم کردی، مگر عشقِ رسول کی دولت کو اپنے دِل کی تجوری سے لٹانا گوارا نہیں کیا۔ ان کی زندگیاں یہ اعلان کررہی ہیں:
آتشِ عشقِ نبیؐ میں جل کے سکھ پانے کا نام
زندگی ہے آپ پر قربان ہو جانے کا نام
صحابہ کرامؓ کی طرزِ حیات ہم سے مطالبہ کررہی ہے:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اِسم محمدؐ سے اُجالا کردے
عشقِ نبیؐ کا یہ مضمون ہر زمانے میں لکھا جاتا رہا، لکھا جارہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا، مگر آخرکار ہر کاتب کا قلم زبان حال سے کہتا:
ورق تمام ہوا اور ذکر باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے

No comments:

Post a Comment