حفیظ نعمانی
فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’چوں قضا آید حکیم ابلا شود‘‘ جب موت آجاتی ہے تو حکیم اور ڈاکٹر بے عقل ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ کانگریس کے سیاہ و سفید کے مالکوں کی چوپالوں میں ہورہا ہے۔ لوک سبھا کی شرمناک ہار کے بعد ہریانہ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اور کسی حد تک کشمیر کے نتیجوں سے جو سامنے آیا ہے اسے مسلمانوں سے دوستی اور ہندو دشمنی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ کانگریس کے ایک لیڈر اے کے انٹونی بہت پہلے سے مسلمانوں کو قریب کرنے کے مخالف رہے ہیں اب دوسروں نے بھی کھل کر مسلم دوست اور ہندو دشمن پالیسی کو اس شکست کا سبب بتایا ہے۔
ایک قومی اخبار میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس کی تنظیم میں اعلیٰ ترین سطح پر یہ خیال مسلم ہوچکا ہے کہ لوک سبھا کے انتخابات میں کانگریس کو جو شکست فاش ہوئی ہے وہ اس کے اقلیت نواز موقف کے خلاف عوامی ردّ عمل کا نتیجہ ہے۔ کانگریس اب اس معذوری سے اپنے شانے جھٹک کر نکلنا چاہتی ہے۔ یہ تو ہر پارٹی کو اختیار ہے کہ وہ ملک کے کس طبقہ کے ساتھ کیا رویہ رکھے لیکن اپنے کو مسلم دوست اور ہندو دشمن کہنا بہت آگے کی بات ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ مسٹر انٹونی یا کوئی اور اس کا تجزیہ اس طرح کریں لیکن ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم اگر تجزیہ کرنے بیٹھیں تو کانگریس صرف آزادی سے پہلے اپنی غرض کے لئے مسلم دوست رہی اور آزادی کے بعد بمشکل دس سال تک کسی حد تک مسلمانوں کو اپنے قریب کیا ورنہ وہ ہمیشہ ہندو دوست اور مسلم دشمن رہی۔
پنڈت نہرو کے زمانہ میں 1961 ء میں جبل پور میں فساد ہوا تھا جس میں سیکڑوں مسلمان مارے گئے تھے اور سیکڑوں مکان اور دکانیں جلاکر راکھ کردی گئی تھیں۔ اس زمانہ میں جبل پور مدھیہ پردیش میں تھا اور نہرو کے دوست کیلاش ناتھ کاٹجو وزیر اعلیٰ تھے۔ ہم نہیں کہتے کہ مسلمانوں کے اوپر اتنے بڑے حملے کی پاداش میں دو چار ہندوؤں کو پھانسی کیوں نہیں دی؟ سو پچاس پولیس والوں کو برخاست کیوں نہیں کیا؟ اور مسلمانوں کو ان کے نقصان کا معاوضہ کیوں نہیں دیا؟ لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ مسٹر کاٹجو نے مسلمانوں کے نقصان کی ذمہ داری یہ کہہ کر مسلمانوں پر ہی ڈال دی کہ ابتدا مسلمانوں کی طرف سے ہی ہوئی تھی۔ بات 1961 ء کی ہی نہیں جمشید پور راؤڑ کیلا اور کلکتہ میں ہزاروں مسلمانوں کو کاٹ کر پھینک دیا اور یہ سب جواہر لال کی زندگی میں ہوا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے وہ محترم علماء حضرت مولانا علی میاں، حضرت مولانا منظور نعمانی، حضرت مولانا عمران خاں ازہری کبھی سیاست میں نہیں رہے اور نہ کبھی کسی کو ووٹ دینے نہ دینے کی بات کی انہیں بھی جب تفصیلات کا علم ہوا اور کلکتہ سے ان کے ایک بہت معتمد دوست حاجی غلام رسول صاحب نے وہاں کے حالات لکھ کر بھیجے اور بلایا تو تینوں حضرات جمشید پور اور کلکتہ گئے۔ وہاں کی بربادی اور حکومت کی جانبداری اور پولیس کی مسلم دشمنی دیکھی تو ایک کام تو یہ کیا جو کبھی نہیں کیا تھا کہ ندائے ملت میں قوم سے دردبھری اپیل کی روپئے کے لئے بھی اور سامان کے لئے بھی اور اس کے علاوہ یہ فیصلہ کیا کہ آچاریہ ونوبا بھاوے سے مل کر ان پر زور ڈالا جائے کہ وہ گاندھی جی کا کردار ادا کریں۔
تینوں حضرات کی طرف سے انہیں خط لکھا گیا اور وقت اور تاریخ مانگی گئی اس خط میں یہ نہیں لکھا تھا کہ کس مسئلہ پر بات کرنا ہے۔ ناگ پور کے ہی ایک عالم دین اور تھے ان کو بھی خط لکھا تھا کہ ہم لوگ آرہے ہیں آپ کے یہاں قیام کریں گے اور آپ کے ساتھ ہی آچاریہ جی کے پاس جائیں گے۔ ونوباجی کے سکریٹری کا جواب آگیا اور تاریخ اور وقت دے دیا گیا۔ یہ چاروں حضرات حسب پروگرام پہونچے تو سکریٹری نے بتایا کہ آچاریہ جی نے مون برت رکھا ہے آپ حضرات کو جو کہنا ہے وہ لکھ کر دے دیجئے وہ آپ کو جواب بھیج دیں گے۔ ان حضرات کو اندازہ ہوگیا کہ وہ بات نہیں کرنا چاہتے اس لئے فوراً واپس چلے آئے۔
یہ بھی جواہر لال نہرو کے زمانہ کی بات ہے کہ آزادی کے فوراً بعد وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ایک سرکلر ہر صوبہ کی حکومت کو بھیجا کہ مسلمانوں کی بھرتی بند کردی جائے۔ سنا ہے دو چار سال کے بعد اعلان ہوا تھا کہ وہ سرکلر واپس لے لیا گیا لیکن پورے ملک میں مرکز ہو یا صوبہ مسلمانوں کی بھرتی آج بھی نہ ہونے کے برابر ہے یہ بھی شاید مسلم دوستی تھی کہ جب 1975 ء میں اندراجی نے ایمرجنسی لگائی تو تمام مخالف سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگادی اور جماعت اسلامی پر بھی لگادی جبکہ اس کا سیاست سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹی کے لیڈروں کو تو دنیا کا ہر آرام دیا گیا اور لاکھوں مسلمانوں کے محترم مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت اسلامی اور مولانا عبدالغفار ندوی صاحب یوپی جماعت اسلامی کے امیر کو نینی جیل الہ آباد کے بی کلاس میں ڈال دیا۔
جانے کتنی جگہ اندرا جی کے زمانہ میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ یہ ریکارڈ ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کے قتل ان کی جائیدادوں اور کاروبار کی بربادی کے الزام میں آج تک کسی ایک ہندو کو سزا ہوئی نہ کسی پولیس والے کی نوکری ختم کی اور نہ کسی کو معاوضہ دیا گیا۔ 1980 ء میں عیدگاہ میں مراد آباد میں پولیس کی گولی سے پچاس سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے۔ اس کے بعد کرفیون لگاکر جس طرح مسلمانوں کو مارا گیا ہے اور ان کے کاروبار کو لوٹا گیا اور تباہ کیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ مسلمان آج تک سیدھے نہیں ہوئے اور وہ مراد آباد اس وقت آئیں جب امام عیدگاہ نے اعلان کیا کہ میں عیدالاضحی کی نماز اس وقت تک عیدگاہ میں نہیں پڑھاؤں گا جب تک بے گناہ مسلمانوں کو نہ چھوڑا جائے گا۔ تب میڈم آئیں اور امام عیدگاہ سے ملیں کہ آپ نماز ضرور پڑھائیں مگر وہ نہیں مانے اور محترمہ منھ لٹکاکر چلی گئیں۔
پھر راجیو گاندھی کا دَور آیا تو انہوں نے بابری مسجد کا تالا کھلوایا پوجا پاٹ شروع کرائی نماز پر بدستور پابندی رہی۔ اسے مسلم دوستی اور ہندو دشمنی کہا جارہا ہے۔ ان کے زمانہ میں 1987 ء میں میرٹھ میں ویر بہادر سنگھ نے جیسا مسلمانوں کو خون میں نہلایا اور جس طرح چالیس جوان لڑکوں کو لائن میں کھڑاکر کے پی اے سی نے گولیوں سے مارا وہ بھی مسلم دوستی تھی اور یہ ہندو دشمنی تھی کہ آج تک معلوم ہونے کے بعد بھی کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ ان کی بیگم سونیا مودی کو خون کا سوداگر کہتی ہیں اور اپنے سسرالی خاندان کو مسلم دوست اس سے زیادہ شرم کی کیا بات ہوسکتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کبھی مسلم دوست نہیں رہی اور کبھی ہندو دشمن نہیں رہی وہ ہاری اس وجہ سے کہ اس کا مقابلہ اس ہندو سے پڑگیا جس نے ہر مندر میں پوجا کی اور گنگا کنارے کھڑے ہوکر کہا کہ مجھے ماں گنگا نے بلایا ہے۔ انہوں نے گنگا کی آرتی اتارنے سے پہلے وشوناتھ مندر کے پجاری سے پوجا کرائی اور اس نے سادھو سنتوں کو ٹکٹ دیئے انہیں وزیر بنایا یہ کام نہرو سے لے کر سونیا تک کسی نے نہیں کیا اور مقابلہ کرنا ہے تو آدھے ٹکٹ بھگوا دھوتی والوں کو دو اور یہ تم سے نہ ہوسکے گا۔
ایک طرف ہار کی ذمہ داری اس مسلم دوستی پر ڈالی جارہی ہے جو دشمنی سے بدتر ہے دوسری طرف اترپردیش اقلیتی شعبہ کا چیئرمین سراج مہدی کو بنایا جارہا ہے اور منور رانا اپنے اشعار سے کانگریس کے دفتر کو اپنا مرید بنارہے ہیں۔ راہل اور انٹونی کی اتنی گندی گالی کے بعد تو مسلمانوں کو کانگریس پر تھوک دینا چاہئے اس لئے کہ جن مسلمانوں کے صدقہ میں حکومت کی آج ان پر ہی شکست کی ذمہ داری ڈالی جارہی ہے
تفو بر تو دے چرخ گردوں تفو
پنڈت نہرو کے زمانہ میں 1961 ء میں جبل پور میں فساد ہوا تھا جس میں سیکڑوں مسلمان مارے گئے تھے اور سیکڑوں مکان اور دکانیں جلاکر راکھ کردی گئی تھیں۔ اس زمانہ میں جبل پور مدھیہ پردیش میں تھا اور نہرو کے دوست کیلاش ناتھ کاٹجو وزیر اعلیٰ تھے۔ ہم نہیں کہتے کہ مسلمانوں کے اوپر اتنے بڑے حملے کی پاداش میں دو چار ہندوؤں کو پھانسی کیوں نہیں دی؟ سو پچاس پولیس والوں کو برخاست کیوں نہیں کیا؟ اور مسلمانوں کو ان کے نقصان کا معاوضہ کیوں نہیں دیا؟ لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ مسٹر کاٹجو نے مسلمانوں کے نقصان کی ذمہ داری یہ کہہ کر مسلمانوں پر ہی ڈال دی کہ ابتدا مسلمانوں کی طرف سے ہی ہوئی تھی۔ بات 1961 ء کی ہی نہیں جمشید پور راؤڑ کیلا اور کلکتہ میں ہزاروں مسلمانوں کو کاٹ کر پھینک دیا اور یہ سب جواہر لال کی زندگی میں ہوا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے وہ محترم علماء حضرت مولانا علی میاں، حضرت مولانا منظور نعمانی، حضرت مولانا عمران خاں ازہری کبھی سیاست میں نہیں رہے اور نہ کبھی کسی کو ووٹ دینے نہ دینے کی بات کی انہیں بھی جب تفصیلات کا علم ہوا اور کلکتہ سے ان کے ایک بہت معتمد دوست حاجی غلام رسول صاحب نے وہاں کے حالات لکھ کر بھیجے اور بلایا تو تینوں حضرات جمشید پور اور کلکتہ گئے۔ وہاں کی بربادی اور حکومت کی جانبداری اور پولیس کی مسلم دشمنی دیکھی تو ایک کام تو یہ کیا جو کبھی نہیں کیا تھا کہ ندائے ملت میں قوم سے دردبھری اپیل کی روپئے کے لئے بھی اور سامان کے لئے بھی اور اس کے علاوہ یہ فیصلہ کیا کہ آچاریہ ونوبا بھاوے سے مل کر ان پر زور ڈالا جائے کہ وہ گاندھی جی کا کردار ادا کریں۔
تینوں حضرات کی طرف سے انہیں خط لکھا گیا اور وقت اور تاریخ مانگی گئی اس خط میں یہ نہیں لکھا تھا کہ کس مسئلہ پر بات کرنا ہے۔ ناگ پور کے ہی ایک عالم دین اور تھے ان کو بھی خط لکھا تھا کہ ہم لوگ آرہے ہیں آپ کے یہاں قیام کریں گے اور آپ کے ساتھ ہی آچاریہ جی کے پاس جائیں گے۔ ونوباجی کے سکریٹری کا جواب آگیا اور تاریخ اور وقت دے دیا گیا۔ یہ چاروں حضرات حسب پروگرام پہونچے تو سکریٹری نے بتایا کہ آچاریہ جی نے مون برت رکھا ہے آپ حضرات کو جو کہنا ہے وہ لکھ کر دے دیجئے وہ آپ کو جواب بھیج دیں گے۔ ان حضرات کو اندازہ ہوگیا کہ وہ بات نہیں کرنا چاہتے اس لئے فوراً واپس چلے آئے۔
یہ بھی جواہر لال نہرو کے زمانہ کی بات ہے کہ آزادی کے فوراً بعد وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ایک سرکلر ہر صوبہ کی حکومت کو بھیجا کہ مسلمانوں کی بھرتی بند کردی جائے۔ سنا ہے دو چار سال کے بعد اعلان ہوا تھا کہ وہ سرکلر واپس لے لیا گیا لیکن پورے ملک میں مرکز ہو یا صوبہ مسلمانوں کی بھرتی آج بھی نہ ہونے کے برابر ہے یہ بھی شاید مسلم دوستی تھی کہ جب 1975 ء میں اندراجی نے ایمرجنسی لگائی تو تمام مخالف سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگادی اور جماعت اسلامی پر بھی لگادی جبکہ اس کا سیاست سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹی کے لیڈروں کو تو دنیا کا ہر آرام دیا گیا اور لاکھوں مسلمانوں کے محترم مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت اسلامی اور مولانا عبدالغفار ندوی صاحب یوپی جماعت اسلامی کے امیر کو نینی جیل الہ آباد کے بی کلاس میں ڈال دیا۔
جانے کتنی جگہ اندرا جی کے زمانہ میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ یہ ریکارڈ ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کے قتل ان کی جائیدادوں اور کاروبار کی بربادی کے الزام میں آج تک کسی ایک ہندو کو سزا ہوئی نہ کسی پولیس والے کی نوکری ختم کی اور نہ کسی کو معاوضہ دیا گیا۔ 1980 ء میں عیدگاہ میں مراد آباد میں پولیس کی گولی سے پچاس سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے۔ اس کے بعد کرفیون لگاکر جس طرح مسلمانوں کو مارا گیا ہے اور ان کے کاروبار کو لوٹا گیا اور تباہ کیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ مسلمان آج تک سیدھے نہیں ہوئے اور وہ مراد آباد اس وقت آئیں جب امام عیدگاہ نے اعلان کیا کہ میں عیدالاضحی کی نماز اس وقت تک عیدگاہ میں نہیں پڑھاؤں گا جب تک بے گناہ مسلمانوں کو نہ چھوڑا جائے گا۔ تب میڈم آئیں اور امام عیدگاہ سے ملیں کہ آپ نماز ضرور پڑھائیں مگر وہ نہیں مانے اور محترمہ منھ لٹکاکر چلی گئیں۔
پھر راجیو گاندھی کا دَور آیا تو انہوں نے بابری مسجد کا تالا کھلوایا پوجا پاٹ شروع کرائی نماز پر بدستور پابندی رہی۔ اسے مسلم دوستی اور ہندو دشمنی کہا جارہا ہے۔ ان کے زمانہ میں 1987 ء میں میرٹھ میں ویر بہادر سنگھ نے جیسا مسلمانوں کو خون میں نہلایا اور جس طرح چالیس جوان لڑکوں کو لائن میں کھڑاکر کے پی اے سی نے گولیوں سے مارا وہ بھی مسلم دوستی تھی اور یہ ہندو دشمنی تھی کہ آج تک معلوم ہونے کے بعد بھی کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ ان کی بیگم سونیا مودی کو خون کا سوداگر کہتی ہیں اور اپنے سسرالی خاندان کو مسلم دوست اس سے زیادہ شرم کی کیا بات ہوسکتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کبھی مسلم دوست نہیں رہی اور کبھی ہندو دشمن نہیں رہی وہ ہاری اس وجہ سے کہ اس کا مقابلہ اس ہندو سے پڑگیا جس نے ہر مندر میں پوجا کی اور گنگا کنارے کھڑے ہوکر کہا کہ مجھے ماں گنگا نے بلایا ہے۔ انہوں نے گنگا کی آرتی اتارنے سے پہلے وشوناتھ مندر کے پجاری سے پوجا کرائی اور اس نے سادھو سنتوں کو ٹکٹ دیئے انہیں وزیر بنایا یہ کام نہرو سے لے کر سونیا تک کسی نے نہیں کیا اور مقابلہ کرنا ہے تو آدھے ٹکٹ بھگوا دھوتی والوں کو دو اور یہ تم سے نہ ہوسکے گا۔
ایک طرف ہار کی ذمہ داری اس مسلم دوستی پر ڈالی جارہی ہے جو دشمنی سے بدتر ہے دوسری طرف اترپردیش اقلیتی شعبہ کا چیئرمین سراج مہدی کو بنایا جارہا ہے اور منور رانا اپنے اشعار سے کانگریس کے دفتر کو اپنا مرید بنارہے ہیں۔ راہل اور انٹونی کی اتنی گندی گالی کے بعد تو مسلمانوں کو کانگریس پر تھوک دینا چاہئے اس لئے کہ جن مسلمانوں کے صدقہ میں حکومت کی آج ان پر ہی شکست کی ذمہ داری ڈالی جارہی ہے
تفو بر تو دے چرخ گردوں تفو
No comments:
Post a Comment