خالد عرفان |
میں تو اہل ہوں کسی اور کا، مری اہلیہ کوئی اور ہے
میں ردیف ِ مصرعہء عشق ہوں، مِرا قافیہ کوئی اور ہے
جو لغت کو توڑ مروڑ دے، جو غزل کو نثر سے جوڑ دے
میںوہ بدمذاقِ سخن نہیں، وہ "جدیدیا" کوئی اور ہے
میںوہ بدمذاقِ سخن نہیں، وہ "جدیدیا" کوئی اور ہے
مجھے اپنے شعر کے سارقوں سے کوئی گلہ تو نہیں مگر
جو کتاب چھاپ کے کھا گیا وہ فراڈیا کوئی اور ہے
جو کتاب چھاپ کے کھا گیا وہ فراڈیا کوئی اور ہے
میں ترا کزن، تو مِری کزن، کریںرقص پھر سرِ انجمن
نہ تِرا چچا کوئی اور ہے نہ مِرا چچا کوئی اور ہے
نہ تِرا چچا کوئی اور ہے نہ مِرا چچا کوئی اور ہے
وہ سہاگ رات جہیز میں سگِ پالتو بھی لے آئی تھی
جو سحر ہوئی تو پتہ چلا یہاں تیسرا کوئی اور ہے
جو سحر ہوئی تو پتہ چلا یہاں تیسرا کوئی اور ہے
ہے مِری غزل کا بھرم ابھی، مرے نرخرے میں ہے دم ابھی
میں جوابِشاعرِ عصر ہوں، مِرا ٹیٹوا کوئی اور ہے
میں جوابِشاعرِ عصر ہوں، مِرا ٹیٹوا کوئی اور ہے
کسی تجربے کی تلاش میں مِرا عقدِ ثانوی ہوگیا
مِری اہلیہ کو خبر نہیں، مِری اہلیہ کوئی اور ہے
https://rekhta.org/poets/khalid-irfan/?lang=Ur
مِری اہلیہ کو خبر نہیں، مِری اہلیہ کوئی اور ہے
https://rekhta.org/poets/khalid-irfan/?lang=Ur
No comments:
Post a Comment