Wednesday, 21 January 2015

بچےچار یا پانچ ہی کیوں?

چار یا پانچ ہی کیوں
 وید کے مطابق بذریعہ نیوگ دس بچے پہلے خود پیدا کریں
چند دنوں سے وشو ہندو پریشد کے رہنما پروین توگڑیا نے ہندوﺅں سے اپیل کی ہے کہ ہر ہندو خاندان تین بچے پیدا کریں۔اس سے آگے بڑھ کر بی جے پی لیڈر اور ایم پی ساکچی مہاراج نے چار بچوں کو پیدا کرنے کی صلاح دے ڈالی۔ابھی یہ بحث ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ وشو ہندو پریشد کی ایک سادھوی پراچی نے بھی اپنا بیان داغ ڈالا کہ ہر ہندو چار بچے پیدا کریں ۔ایک سرحد پر فوج بن کر دیش کی حفاظت کرے گا تو دوسرا سادھو سنتوں کےلئے دھرم کے کام آئے گا، تیسرا سماج کے کام آنے کےلئے اور چوتھا وشو ہندو پریشد کی جھولی میں ڈال دیں۔اس کے دوسرے دن مغربی بنگال کے شہر کلکتہ سے دور دراز علاقہ ضلع بیر بھوم میںبی جے پی رہنما سمیر گوسوامی نے صلاح دے ڈالی کہ پانچ بچے پیدا کریں مزید مسلما نوں کو آئے دن طعنہ یا جا رہا ہے کہ چار بیوی اور چالیس بچے نہیںچلے گاوغیرہ وغیرہ ۔بی جے پی کی مرکز میں آئے بر سر اقتدار رہنما پھولے نہیں سما رہے ہیں کہ اب انہیں 800سال کے بعد غلامی سے نجات ملی ہے ۔ اس لئے اپنے ہندو کارڈ کو جتنا جلد ہو سکے کھیل کر اپنے خفیہ پلان پر عمل در آمد کیا جا سکے ۔اسلئے اقتدار کی طاقت کے نشے میں اول فول بکنے لگے ہیں اور یہ انکی بہکی ہوئی باتیں خود انکی جڑیں کھوکھلا کر رہی ہیں بلکہ نشے میں انکی بدھی بھرشٹ ہو گئی ہے یعنی عقل ماری جا رہی ہے جو کہ انکی تباہی و بربادی کی پہچان ہے کیونکہ بپردھ بدھی بیناش کال یعنی جب تباہی آنے والی ہوتی ہے تو عقل ماری جاتی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ جس ہندو شبد(لفظ) کا وہ استعمال کر رہے ہیں انہیں اس کا ارتھ (معنی) خود ہی پتہ نہیں ہے اور نہ ہی انکا ہندو دھرم کی اصلیت پتہ ہے اسلئے تو ساکچی مہاراج اور دیگر نے یہ بھی بیان دیا تھا کہ گھر واپسی یعنی عیسائی اور مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنا یا جائے۔جس کا آغاز ساکچی مہاراج کے مطابق دیا نند سرسوتی نے کیا تھا اسلئے پہلے ہندو دھرم کو ماننے والے پہلے سناتن یعنی ویدک دھرم قبول کر کے گھر واپسی کریں۔ آر ایس ایس کا خفیہ ایجنڈہ ہے کہ مسلمان ہندو نہ بن سکیں تو انہیں مسلم ممالک میں بھیج دیا جائے یا انکی زمین تنگ کر دی جائے وغیرہ وغیرہ ۔سچی بات یہ ہے کہ جو پہلے آیا وہ پہلے نکلے اور اپنے آبائی وطن میں دیا نند سرسوتی کے بموجب تبت یعنی ترو شپ میں چلے جائےں ۔یا دوسروں کے مطابق ایران ،وسط ایشیا وغیرہ ممالک سے جو آریہ آئے اسلئے پہلے جانے کی شروعات آر ایس ایس اور انکی ذیلی تنظیموں سے منسلک لوگ ہندو اور ہندو دھرم والے کب عمل کریں گے جس کا سب کو انتظار رہے گا لیکن سناتن یا ویدک دھرم والے اس سے بری الذمہ ہیں کیونکہ وہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔بعد میں مسلمانوں کا نمبر آتاہے۔
بہر حال بات بچوں کی پیدائش اور بیوی کے حوالے سے نکلی تھی مگر بات دوسری طرف نکل گئی لیکن یہ بھی ضروری تھی تاکہ مزید حقائق سامنے آ سکیںاور اس کا مدلل ثبوت کے دائرے میں جواب دیا جاسکے۔اس کےلئے ہمیں انکی مذہبی کتابوں کے مطابق اور راجہ مہاراجا ﺅں اور رشی منیوں کے حالات کا جائزہ لینا ہو گا تب حقائق کھلے گا ۔اہل ہنود کی مذہبی کتابیں کیا کہتی ہیں اور راجہ مہاراجاﺅں کا فیصلہ اور انکا کردار کیا ہے۔ساکچی مہاراج نے چونکہ دیا نند سرسوتی کا ذکر کیا ہے ۔اسلئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان ہی کی لکھی ہوئی کتاب ”ستیا رتھ پرکاش“کے حوالے سے جواب دیا جائے۔انہوں نے وید کے حوالے سے دس دس بچے پیدا کرنے کی صلاح دی ہے تو پھر توگڑیا کے بیان پر تین یا سادھوی پراچی یا ساکچی مہاراج ایم پی کی نصیحت پر چار ہی کیوں بلکہ حد تب ہو گئی جب بنگال کے سمیر گوسوامی نے ان لوگوں سے آگے بڑھ کر پانچ بچوں کو پیدا کرنے کی صلاح دے ڈالی ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے توگڑیا پہل کریں گے یا سادھوی یا ساکچی مہا راج یا سمیر گوسوامی کے پہلے خود ہی وید کے مطابق دس بچے پیدا کر کے دکھائیں جیسا کہ وید میں لکھا ہے بلکہ دھرت راشٹر کے کورو یا چندر گپت موریہ (مورا نامی شودر عورت کے شکم سے پیدا)کے بیٹے بندو سار اور سمراٹ اشوک کے والد کی طرح سو سو بچے پیدا کرکے دکھائیں ۔دیا نند نے بھی تو یہاں تک لکھا ہے کہ اولاد نرینہ پیدا کرنے کےلئے عورت دس یا گیارہ مردوں سے ہم بستر(نیوگ) ہو کر دس بچے پیدا کر سکتی ہے ٹھیک اسی طرح مر د بھی دس تا گیارہ عورتوں سے (نیوگ) صحبت کر کے بچہ پیدا کر سکتا ہے ۔ اس کے مختلف اصول بتائے ہیں جسے نیوگ کہا جاتا ہے۔اسی بات پر دیا نند سرسوتی کے آریہ سماج سے منحرف ہو کر غیر منقسم پنجاب کے علاقہ میں ستیہ دھاری نے جون 1910میں اردو زبان میں ایک کتاب ”معیار صداقت “ یعنی دھرم کسوٹی لکھا ۔جس میں جدید سماج میںنیوگ کا منکر اور نہ اقرار کرنے والا بتایا ہے ۔کتاب کے سر ورق کے نیچے نوٹ میں لکھا ہے کہ سچ کو قبول کرنے اور جھوٹ کو چھوڑنے کےلئے ہر وقت تیار رہو۔
دیا نند نے اپنی کتاب ستیا رتھ پرکاش میں نیوگ کے سبق میں صفحہ نمبر 112تا119 پر مختلف عذر کی بنیاد پر لکھا ہے کہ :بیوہ (رانڈ) اور رنڈوے مرد (جس کی بیوی مر گئی ہو)ضبط نفس کر لیں تو بہت اچھی بات ہے مگر جوان ہونے کے سبب ضبط نہ کر سکیں تو نیوگ کے ذریعہ اولاد پیدا کریں۔نیوگ والے مرد و زن ساتھ ساتھ میاں بیوی کی طرح نہ رہیں بلکہ انکا ساتھ صرف استقرار حمل کےلئے ہو ۔حمل قرار پا جائے تو دونوں قطع تعلق کر لیں۔اگر مرد کےلئے نیوگ ہو تو یہی صورت انکے لئے بھی ہو گی ۔ نیوگ کرنے والی عورت دو تین سال تک ان بچوں کی پرورش و پرداخت کے بعد نیوگ کرنے والے مرد کے حوالے کر دے۔ اگر عورت کا خاوند مر جائے یا بیمار ہو یا گھر سے باہر تعلیم حاصل کرنے یا روزی کمانے گیا ہو اور تین تا 8دس سال ہو گیا ہو تو وہ بھی نیوگ کر سکتی ہے۔اس طرح نیوگ کرنے والی عورت اپنے لئے دو اور دو دو چار مردوں کےلئے کل دس بچے پیدا کر سکتی ہے کیونکہ وید میں کل دس اولاد پیدا کرنے کی اجازت ہے ۔رگ وید (10-85-4)میں ذکر ہے کہ اے طاقت مردمی سے مستعد قوی مرد !تو اس منکوحہ عورت یا (بیواﺅں )کو صاحب اولاد اور سہاگن کرو اور گھر کا گیارہواں فرد عورت کو شمار کر ۔اسی طرح عورت کے متعلق ہے کہ اے عورت تو بھی شادی کرنے والے شوہر یا نیوگ کرنے والے مردوں سے دس اولاد پیدا کر اور گیارہوا ں فرد خاوند کو شمار کر۔مزید صفحہ 117 اور 119 پر مذکور ہے کہ عورت گیارہ مردوں سے نیوگ کر سکتی ہے اور ایسے ہی مرد بھی گیارہ عورتوں سے نیوگ کر سکتا ہے بلکہ شوہر کی موجودگی میں بھی ہو سکتا ہے اگر وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے ۔اس کےلئے شوہر کے بڑے بھائی یا چھوٹے بھائی سے نیوگ کے ذریعہ اولاد پیدا کر سکتی ہے۔ ثبوت کےلئے رگ وید کے2-40-10یا 10-10-10یا نروکت کے 15-3یا پھر اتھر وید 18-2 - 14اور منو سمرتی کے 165-9 یا 76-9یا 58-59-9بھی دیکھا جا سکتا ہے۔دیا نند سرسوتی نے اس کی مثال پانچ ہزار سالہ تاریخی مہابھارت کے حوالے سے بھی دیا ہے کہ کنتی اور مادری نے پانچ پانڈﺅں کو بذریعہ نیوگ ہی پانچ بچے پیدا کئے،تو دوسری مثال وید ویاس کے ذریعہ چترانگد کی بیوہ امبیکا سے نیوگ کے ذریعہ دھرت راشٹر (بینائی سے محروم اندھے) کو پیدا کیا تو دوسری چتر ویر کی بیوہ امبالکا سے پانڈو کو نیوگ کے ذریعہ پیدا کیا اور تیسری باندی (داسی) کو نیوگ کے ذریعہ مہا منتری (وزیر اعظم) بیندور کو پیدا کیا۔انہوں نے مزید یہ بھی لکھا ہے کہ نیوگ اپنے سے اونچے برن (ذات) سے کرانا چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ جب تاریخی دیو مالائی کتاب رامائن کا مطالعہ کرتے ہیں یا سیریل دیکھا جاتا ہے تو راجہ دسرتھ کی تین بیویاں تھیں مگر اولاد سے محروم تھے۔تب ایک رشی کو بلوا کر یگیہ کیا جاتا ہے اور اس میں سے ایک رشی نکلتے ہیں اور کھیر عطا کر تے ہیں اور اس کے ذریعہ دسرتھ کے تین رانیوں کے یہاں کل چار بچے پیدا ہوتے ہیں ،یہاں پردہ پوشی کی گئی ہے۔یہ بات اچھے پڑھے لکھے گیانی پنڈت اوراہل ہنودبھی جانتے ہیں ۔یہی نہیںبلکہ مہا بھارت میں دروپدی کے والد پنچال نریش کے یہاں مخنث صفت ایک بیٹا جو کاشی نریش کی بیٹیاں امبیکا اور امبالکا کی بڑی بہن امبہ تھی نے بھشم پتامہ کو مارنے کےلئے بار بار جنم لیتی ہے ۔اس بار مخنث کے روپ میں جنم لیتی ہے مگر درون اچاریہ سے اپنا بدلہ لینے کےلئے پنچال کے راجہ کو ایک بیٹے کی ضرورت تھی تاکہ درون اچاریہ کو مار سکے۔اسلئے انہوں نے بھی یگیہ کرایااور رشی نے آگ سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی دروپدی کو عطا کیا ۔ان سب کو کیا کہا جائےگا جبکہ دیا نند نے نیوگ کےلئے اپنے سے اونچی ذات میں نیوگ کےلئے لکھا ہے ۔تب ساکچی مہاراج ، پروین توگڑیا جی اور سادھوی پراچی یا سمیر گوسوامی کب اس اصول پر عمل کریں گے تاکہ تعداد بڑھ سکے۔اسلئے کہ فلاحی کام کی شروعات گھر سے ہی ہوتی ہے ۔اسلئے کیا اپنی بیوی ،بہو اور بیٹیوں کو اس پر عمل کرائیں گے یا خود پہل کریں گے تب عوام پر اثر پڑے گا ۔اسی بات پر تو اتر پردیش کے وزیر اعظم خان نے کہا تھا کہ ایوارڈ دینے سے بچے پیدا نہیں ہوتے بلکہ مردانگی کی ضرورت ہوتی ہے ۔رامائن اور مہا بھارت کی طرح وزیر اعظم نریندر مودی جی بھی عمل کریں تو زیادہ اثر پڑے گا جیسا کہ سوچھ بھارت مشن کےلئے اثر پڑا ہے ۔ویسے بھی انہوں نے اپنی بیوی کو چھوڑ رکھا ہے اور گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ایک انجینئر لڑکی کا واقعہ تو یاد ہی ہوگا جس پر اپوزیشن نے خوب خوب چٹکی لی تھی اور عشق زادہ بھی کہا تھا ۔اپنی بیوی کا حق نہ ادا کرنے پر مہا بھارت میں پانڈو جب پہلی بار تپو بن (جنگل ) میں اپنی پرائشچت کےلئے گئے تو وہاں سورگ باس رشیوں نے انکے ساتھ یگیہ کیا تھا ۔جب پانڈو بھی پیچھے پیچھے جانے لگے تو ان رشیوں نے کہا تھاکہ پانڈو تم کہا ہمارے ساتھ جا رہے ہو تم پہلے اپنی پتنی(بیوی) کا حق یعنی حق زوجیت ادا کرو اور موت کے بعد ہی ہمارے ساتھ جا سکتے ہو۔اس سے اداس ہو کر ہی کنتی نے اپنی بردان کا واقعہ بتایا اور پانچ پانڈو پیدا ہوئے مگر پانڈو کے نطفے سے نہیں بلکہ بذریعہ نیوگ ہوئے تھے۔لہٰذا دیش کا راجہ یا تو اپنے لوگوں پر لگام کسیں یا پھر انہیں سچا سناتن دھرمی بنائیں اور اپنے حد میں رکھیں ورنہ یہ ملک جو قومی یکجہتی اور رشی منیوں کا دیش ہے اس کا توازن بگڑ نہ جائے اور پھر ایک مہابھارت مچ جائے ۔اسلئے کہ دھرم اور ادھرم کا پھر ایک الرم بجا رہاہے۔

مہتا عالم ،کمرہٹی ،کلکتہ 58،(ترجمنا بنگال اردو جرنسلٹ ویلفیئر ایسو سی ایشن )
صفحہ ۔6

No comments:

Post a Comment