جنگ حطین 4 جولائی 1187ء کو عیسائی سلطنت یروشلم اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی افواج کی درمیان لڑی گئی۔ جس میں فتح کے بعد مسلمانوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے بیت المقدس کو عیسائی قبضے سے چھڑالیا۔
مصر میں فاطمی حکومت کے خاتمے کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ 4 سالہ معاہدہ صلح طے پایا جس کی رو سے دونوں کے دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی ثابت ہوا۔ اور صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔
1186ء میں عیسائیوں کے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ ناپاک جسارت کی کہ وہ دیگر عیسائی جنگجو امرا کے ساتھ شہرِ نبوی، مدینہ منورہ پر ناپاک حملے کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے فوری اقدامات کیے۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حقیقی غلام نے اس بدبخت صلیبی سردار ریجنالڈ کا فوری تعاقب کرتے ہوئے اسے حطین کے تاریخی مقام پر جا لیا۔
سلطان نے اپنے آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مقدس پر حملے کی ناپاک جسارت کرنے والے صلیبی لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ پھینکوایا کہ جس سے میدان جنگ کی زمین پر چاروں طرف بھیانک آگ بھڑک اٹھی۔ اس خوفناک آتشیں ماحول اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کے درمیان 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی اس خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا جس کے انجام کو یاد کر کے آج بھی صلیبی حکمرانوں کے کانوں سے تپتا ہوا دھواں برامد ہوتا ہے۔ اس تاریخی جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار سے زیادہ عیسائی حملہ آور جہنم واصل ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ بدبخت ریجنالڈ کو زندہ گرفتار کیا گیا اور پھر سلطان نے مدینۃ النبوی پر حملے کی ناپاک جسارت کرنے والے اس گستاخ صلیبی سالار کا سر اپنے ہاتھ سے قلم کیا۔ اس فتح کے بعد اسلامی افواج چاروں طرف عیسائی علاقوں پر پوری طرح چھا گئیں۔ جنگ حطین کی شاندار فتح کے فوری بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا۔ سات دن کی خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال کر سلطان سے رحم کی اپیل کی۔ اور یوں پورے اکانوے برس کے بعد قبلہ اول بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا۔ بیت المقدس کی فتح مبارک سلطان صلاح الدین ایوبی کا ناقابل فراموش اورعظیم الشان کارنامہ تھا۔ میرا ایمان ہے کہ فتح بیت المقدس کے موقع پر اللہ کی طرف سے نصرت و مدد کی وجہ جنگ حطین کے خوں ریز معرکے میں شہر نبوی مدینہ منورہ کی حفاظت و حرمت کیلیے والہانہ سربکفن لڑنے والے ایوبی سلطان کا عشق مصطفائی کا جذبہء ایمانی تھا۔ صد آفرین کہ اس مرد مجاہد نے جب تک شہر نبوی مدینہ منورہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے صلیبی لشکر کو خاک و خون میں روند نہیں ڈالا ، تب تک یا تو وہ مرد مومن مصلے پر اپنے اللہ کے حضور حالت سجدہ میں یا گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ میں تلوار تھامے میدان جنگ میں موجود رہا۔ میرا حق الیقین ہے کہ ایک سچے عاشق رسول سلطان صلاح الدین ایوبی اور اس کے سربکف مجاہدوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کے محبوب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس نگری کی حفاظت کی تو پھر مولائے کائنات اللہ سبحان تعالی نے بھی قبلہ اول بیت المقدس کی مبارک فتح کا سہرا ان کے ماتھے پر سجا کر انہیں تاریخ میں امر کر دیا ۔ مرحبا اس مسلم مجاہد کا کردار کہ سقوط بیت المقدس کے وقت صلیبیوں کے مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کے برعکس سلطان ایوبی نے عیسائیوں پر کسی قسم کی زیادتی اور ظلم نہیں کیا۔ یروشلم اور ملحقہ علاقے کے عیسائیوں کو چالیس دن کے اندر سلامتی کے ساتھ شہر سے نکل جانے کی اجازت عطا کی گئی ۔ رحمدل اور منصف ایوبی سلطان نے فدیہ کی بڑی معمولی سی رقم مقرر کی اور جو لوگ وہ بھی ادا نہ کر سکے انہیں بغیر ادائیگی فدیہ ہی شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ بعض اشخاص کا زر فدیہ سلطان ایوبی نے اپنی طرف سے ادا کر کے انہیں آزادی دی۔ اس فتح عظیم کے بعد بیت المقدس پر تقریباً 762 سال تک مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔
مصر میں فاطمی حکومت کے خاتمے کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ 4 سالہ معاہدہ صلح طے پایا جس کی رو سے دونوں کے دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی ثابت ہوا۔ اور صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔
1186ء میں عیسائیوں کے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ ناپاک جسارت کی کہ وہ دیگر عیسائی جنگجو امرا کے ساتھ شہرِ نبوی، مدینہ منورہ پر ناپاک حملے کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے فوری اقدامات کیے۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حقیقی غلام نے اس بدبخت صلیبی سردار ریجنالڈ کا فوری تعاقب کرتے ہوئے اسے حطین کے تاریخی مقام پر جا لیا۔
سلطان نے اپنے آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مقدس پر حملے کی ناپاک جسارت کرنے والے صلیبی لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ پھینکوایا کہ جس سے میدان جنگ کی زمین پر چاروں طرف بھیانک آگ بھڑک اٹھی۔ اس خوفناک آتشیں ماحول اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کے درمیان 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی اس خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا جس کے انجام کو یاد کر کے آج بھی صلیبی حکمرانوں کے کانوں سے تپتا ہوا دھواں برامد ہوتا ہے۔ اس تاریخی جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار سے زیادہ عیسائی حملہ آور جہنم واصل ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ بدبخت ریجنالڈ کو زندہ گرفتار کیا گیا اور پھر سلطان نے مدینۃ النبوی پر حملے کی ناپاک جسارت کرنے والے اس گستاخ صلیبی سالار کا سر اپنے ہاتھ سے قلم کیا۔ اس فتح کے بعد اسلامی افواج چاروں طرف عیسائی علاقوں پر پوری طرح چھا گئیں۔ جنگ حطین کی شاندار فتح کے فوری بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا۔ سات دن کی خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال کر سلطان سے رحم کی اپیل کی۔ اور یوں پورے اکانوے برس کے بعد قبلہ اول بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا۔ بیت المقدس کی فتح مبارک سلطان صلاح الدین ایوبی کا ناقابل فراموش اورعظیم الشان کارنامہ تھا۔ میرا ایمان ہے کہ فتح بیت المقدس کے موقع پر اللہ کی طرف سے نصرت و مدد کی وجہ جنگ حطین کے خوں ریز معرکے میں شہر نبوی مدینہ منورہ کی حفاظت و حرمت کیلیے والہانہ سربکفن لڑنے والے ایوبی سلطان کا عشق مصطفائی کا جذبہء ایمانی تھا۔ صد آفرین کہ اس مرد مجاہد نے جب تک شہر نبوی مدینہ منورہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے صلیبی لشکر کو خاک و خون میں روند نہیں ڈالا ، تب تک یا تو وہ مرد مومن مصلے پر اپنے اللہ کے حضور حالت سجدہ میں یا گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ میں تلوار تھامے میدان جنگ میں موجود رہا۔ میرا حق الیقین ہے کہ ایک سچے عاشق رسول سلطان صلاح الدین ایوبی اور اس کے سربکف مجاہدوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کے محبوب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس نگری کی حفاظت کی تو پھر مولائے کائنات اللہ سبحان تعالی نے بھی قبلہ اول بیت المقدس کی مبارک فتح کا سہرا ان کے ماتھے پر سجا کر انہیں تاریخ میں امر کر دیا ۔ مرحبا اس مسلم مجاہد کا کردار کہ سقوط بیت المقدس کے وقت صلیبیوں کے مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کے برعکس سلطان ایوبی نے عیسائیوں پر کسی قسم کی زیادتی اور ظلم نہیں کیا۔ یروشلم اور ملحقہ علاقے کے عیسائیوں کو چالیس دن کے اندر سلامتی کے ساتھ شہر سے نکل جانے کی اجازت عطا کی گئی ۔ رحمدل اور منصف ایوبی سلطان نے فدیہ کی بڑی معمولی سی رقم مقرر کی اور جو لوگ وہ بھی ادا نہ کر سکے انہیں بغیر ادائیگی فدیہ ہی شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ بعض اشخاص کا زر فدیہ سلطان ایوبی نے اپنی طرف سے ادا کر کے انہیں آزادی دی۔ اس فتح عظیم کے بعد بیت المقدس پر تقریباً 762 سال تک مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔
No comments:
Post a Comment