امریکی صدر باراک اوباما نے کہاہے کہ آگے بڑھنا ہے تو مذہبی رواداری کا دامن نہ چھوڑیں اور عورتوں کو بھی آگے بڑھنے کا برابر موقع دیں۔دہلی کے سیری فورٹ آڈیٹوریم میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے مہمان امریکی صدر کاکہناتھاکہ طاقت کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے، ہندوستان کو خطے میں اور عالمی سٹیج پر زیادہ موثر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے،دنیا میں آج بھی بہت عدم مساوات ہے۔صدر اوباما نے کہا کہ وہ ملک زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جن کی عورتیں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں اور کوئی ملک کتنی ترقی کرے گا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔اوباماکاکہناتھاکہ دنیا بھر میں ہم مذہب کے نام پر تشدد دیکھتے ہیں، تین سال پہلے امریکہ کے ایک گرودوارے میں ایک شخص نے چھ معصوم لوگوں کو ہلاک کردیا تھا اور سوگ کے اس ماحول میں عزم دہرایا تھا کہ ہر شخص کو اپنے عقیدے پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے اور اگر وہ چاہے تو بے خوف و خطر کسی بھی مذہب پر عمل نہ کرے۔جبکہ ہندوستان میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے بہت سی ایسی تنظیمیں سرگرم ہوگئی ہیں جو یا تو براہ راست ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ہیں یا اس سے نظریاتی مماثلت رکھتی ہیں۔ خود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کہہ چکے ہیں کہ ان لوگوں کو دوبارہ ہندو بنانے میں کوئی برائی نہیں جبکہ بھارت خواتین کی عزتوں سے کھلواڑ پر بھی شہرت رکھتاہے حتیٰ کہ بھارتی دارلحکومت نئی دہلی کو ’ریپ سٹی‘ بھی کہ دیاجاتاہے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے اپنے تین روزہ دورہ ہند میں ترقی، تعاون اور اشتراک کی بات کی، بڑے پروجیکٹوں میں شرکت کے وعدے کیے، جدید ترین ٹکنالوجی منتقل کرنے کی راہ ہموار کی، دونوں ملکوں کی مضبوط جمہوری روایات کا ذکر کیا۔
تاہم روانگی سے پہلے انھوں نے یہ پیغام بھی دیا کہ آگے بڑھنا ہے تو مذہبی رواداری کا دامن نہ چھوڑیں اور عورتوں کو بھی آگے بڑھنے کا برابر موقع دیں۔
صدر اوباما نے دہلی کے سیری فورٹ آڈیٹوریم میں اپنی تقریر کا بڑا حصہ مذہبی یک جہتی اور عدم مساوات کے نام کیا۔ ان کا پیغام تھا:ہندوستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا ہے اور ’گھر واپسی‘ کے نام پر مذہب کی تبدیلی ایک انتہائی متنازع سماجی اور سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔اس موضوع پر تو وزیر اعظم نریندر مودی اب تک خاموش رہے ہیں لیکن حقوق نسواں کے لیے انھوں نے ’بیٹی بچاو ¿ بیٹی پڑھاو ¿‘ کے نام سے ایک بڑا پروگرام شروع کیا ہے۔
’طاقت کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے، ہندوستان کو خطے میں اور عالمی سٹیج پر زیادہ موثر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔‘
اور پھر اوباما نے یہ بھی بتایا کہ یہ کیسے ہو گاکہ ’ہندوستان کی رنگارنگی ہی اس کی پہچان ہے۔ یہاں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں، ہر رنگ و نسل اور مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔ امریکہ میں بھی ہر رنگ و نسل اور قومیت کے لوگ رہتے ہیں۔ دنیا میں آج بھی بہت عدم مساوات ہے، لیکن مجھے کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں ایک باورچی کا بیٹا امریکہ کا صدر بن سکتا ہے اور ایک چائے بیچنے والا وزیراعظم بن سکتا ہے۔‘
صدر اوباما نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ وہ ملک زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جن کی عورتیں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں اور کوئی ملک کتنی ترقی کرے گا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔‘
اور پھر انھوں نے اس متنازع موضوع کا ذکر کیا جس پر بحث روز بروز تلخ ہوتی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمارے دونوں ملکوں میں، ہندو اور مسلمان، یہودی اور بودھ، عیسائی، سکھ اور جین، اور کئی دوسرے مذاہب پر عمل کرنے والے رہتے ہیں۔گاندھی جی نے کہا تھاکہ یہ سب ایک ہی گلدستے کے پھول ہیں۔ کسی بھی مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہمارے دونوں ملکوں کے دستوروں میں شامل ہے، اور اس حق کا تحفظ کرنا حکومت اور ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔‘
’دنیا بھر میں ہم مذہب کے نام پر تشدد دیکھتے ہیں۔ تین سال پہلے امریکہ کے ایک گرودوارے میں ایک شخص نے 6 معصوم لوگوں کو ہلاک کردیا تھا اور سوگ کے اس ماحول میں ہم نے یہ عزم دہرایا تھا، اور ہمیں آج پھر دہرانا چاہئے، کہ ہر شخص کو اپنے عقیدے پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے اور اگر وہ چاہے تو بے خوف و خطر کسی بھی مذہب پر عمل نہ کرے۔‘
’دنیا میں ہمیں جس امن کی تلاش ہے، اس کی ابتدا انسانوں کے دلوں سے ہی ہوتی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم مذہبی اختلافات سے اوپر اٹھ کر سوچیں۔ اور ہندوستان میں یہ بات سب سے زیادہ اہم ہے، ہندوستان تبھی کامیاب ہو گا جب وہ متحدہ ہو گا، اس میں مذہب کی بنیاد پر کوئی تقسیم نہیں ہوگی۔ ہمارے دونوں ملکوں میں ہمارا تنوع ہی ہماری طاقت ہے اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہمارے معاشرے مذہب یا کسی بھی دوسرے فرق کی بنیاد پر تقسیم نہ ہوجائیں، اور اگر ہندوستان اپنے جمہوری اقدار کا مسلسل تحفظ کرتا رہتا ہے تو دوسرے ملکوں کے لیے ایک مثال قائم ہو گی۔‘
یاد رہے کہ ہندوستان میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے بہت سی ایسی تنظیمیں سرگرم ہوگئی ہیں جو یا تو براہ راست ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ہیں یا اس سے نظریاتی مماثلت رکھتی ہیں۔ خود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کہہ چکے ہیں کہ ان لوگوں کو دوبارہ ہندو بنانے میں کوئی برائی نہیں ہے جنھوں نے ماضی میں کبھی اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا۔
No comments:
Post a Comment