ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے ذریعہ بینک سے میت کا قرض معاف کروانا
السلام علیکم ورحمةالله وبركاته
محترم مفتی صاحب ایک شخص کا انتقال ہوگیا ہے،
اس نے بینک سے لون (قرض) لیا تھا اور اس کے گھر میں اس کے علاوہ قرض کے ادا کرنے والا کوئی شخص موجود نہیں ہے،
اب سوال یہ ہے اگر بینک میں اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ (انتقال کی سند) بتایا جائے تو قرضہ معاف ہوجاتا ہے،
تو کیا اس طرح کرنے سے مرحوم پر قرض نہ لوٹانے کا گناہ تو نہیں ہوگا؟
نوٹ:- مرحوم کی کفالت میں اس کے بوڑھے والدین اور بیوی اور دو بچے تھے_
محترم مفتی صاحب اسی کے ضمن میں ایک اور سوال یہ ہے کہ اس کے بچے اسکول جاتے ہیں اور ان کے لانے لیجانے کی ذمہ داری بچوں کی والدہ کرتی ہے اور بازار وغیرہ کے کام کاج بھی اسی کے ذمہ ہے اور اس کے ساس اور سسر اس قابل نہیں کہ اس ذمہ داری کو نبھاسکے،
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عورت حالت عدت میں سابقہ ذمے داریاں نبھاسکتی ہے خصوصاً بچوں کو لانے لیجانے والی ذمے داری؟
محترم مفتی صاحب جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں.
جزاک اللہ خیرا
سید محمد بلال بمبئی
الجواب وباللہ التوفیق:
عمومی اور معتدل حالتوں میں بینک سے سودی قرض لینا جائز نہیں ہے، حددرجہ مجبوری واحتیاج کے وقت اس کی گنجائش نکلتی ہے.
میت کے ذمے قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اسے جنت میں جانے سے روک دیا جاتا ہے، جب تک اسے ادا نہ کیا جائے وہ جنت سے محروم رہتا ہے۔
میت کے قرض کی ادائیگی انتہائی ضروری: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مومن کی جان اس کے ذمے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے، حتیٰ کہ اسے ادا کردیا جائے۔" (سنن الترمذی، الجنائز: 1078)
قرض کی ادائی خواہ اس کے ترکہ سے کی جائے ، یا اقارب اس کی طرف سے ادا کردیں، یا مسلمان آپس میں مل کر کوئی بندوبست کرلیں یا بیت المال یا رفاہی تنظیم سے اس کی بھرپائی کردی جائے، یا قرض خواہ خود ہی معاف کردے۔
جو شکل بھی ہو، دخول جنت کے لئے قرض کی ادائی ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقروض کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا تو حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اس کا جنازہ پڑھائیں، اس کا قرض میں ادا کروں گا۔ (صحیح البخاری، الکفالۃ: 2289)
ڈیتھ سرٹیفکیٹ جمع کرنے سے بینک اگر یہ قرض معاف کردے تو میت اس سے بھی بری الذمہ ہوجائے گی کہ یہ دائن کا خود قرض معاف کرنا ہے۔
دوران عدت کسی شدید ضرورت کے بغیر عورت کا گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔
اگر بچوں کو اسکول چھوڑنے والا واقعی کوئی نہ ہو تو بربنائے ضرورت دن کے اوقات میں وہ نکل سکتی ہے.
لیکن رات گھر میں گزارنا ضروری ہے:
ومعتدۃ موت تخرج فی الجدید وتبیت أکثر اللیل فی منزلہا لأن نفقتہا علیہا فتحتاج للخروج۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدۃ زکریا ۵/۲۲۴، کراچی ۳/۵۳۶)
والمتوفی عنہا زوجہا تخرج نہارا وبعض اللیل۔ (ہندیہ زکریا قدیم ۱/۵۳۴، جدید ۱/۵۸۶، ہدایہ اشرفی ۲/۴۲۸)
واللہ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment