Thursday, 19 December 2019

ریاستی جبرواستبداد کے خلاف پرامن احتجاجی جدوجہد

ریاستی جبرواستبداد  کے خلاف پرامن احتجاجی جدوجید
اسلام سراپا امن وآشتی کا مذہب ہے، دنیا میں  اسلام ہی نے سب سے پہلےحقوق انسانی کی بنیاد رکھی،حقوق انسانی کا اسلامی منشور انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے،
اس نے تمام قسم کے امتیازات ، ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ کر تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ بحیثیت انسان تمام انسانوں: امیر، غریب، سفید، سیاہ، مشرقی، مغربی، مرد، عورت، عربی، عجمی، گورا، کالا، شریف اور وضیع کو یہ چھ 6 بنیادی حقوق فراہم کیے ہیں:
(1) جان کا تحفظ-
(2) عزت وآبرو کا تحفظ-
(3) مال کا تحفظ-
(4) اولاد کا تحفظ-
(5) روزگار کا تحفظ-
(6) عقیدہ ومذہب کا تحفظ-
یہ منشور پر امن معاشرتی زندگی کا ضامن ہے یعنی ان  بنیادی چھ حقوق کے ذریعہ انسان معاشرہ میں ہر طرح پرامن زندگی گزار سکتا ہے. انسانیت کو فراہم کردہ ان بنیادی حقوق پہ ظلم و تعدی کو اسلام قطعی برداشت نہیں کرتا. ظلم و زیادتی دیکھنے کا مشاہدہ کرنے والے کو نمبر وار ہدایت کی گئی ہے کہ طاقت ہو تو دست وبازو سے روکے، نہیں تو زبان سے ظلم وجبر پہ آواز بلند کرے، یہ بھی نہ ہو تو دل سے اسے برا سمجھے، لیکن کسی طور ظالم کا ممد ومعاون نہ بنے!
ہر جمہوری ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان، مال، عزت وآبرو اور بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ اگر ارباب اقتدار اور حکمراں رعایا کے کسی خاص طبقے کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کرے، اسکے حقوق کی پاسداری نہ کرے یا دستور وآئین میں دیئے گئے اس کے حقوق یا مذہبی آزادی کو دبانے کی کوشش کی جائے تو اب اس طبقہ کی ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بنیادی ومذہبی حقوق کی حصولیابی کے لئے اس ظالم حکمرانوں کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں، آئینی ودستوری حقوق کے لئے طاقت بھر کوشش کرے۔ آئینی جد وجہد کے ساتھ پر امن عملی جد وجہد بھی جاری رکھے۔ ریاست کے ظلم وناانصافی کے سامنے خاموش ہوجانا اس کی زیادتی اور تعدی کو فروغ دینے کے مرادف ہے ۔
ایسے موقع سے کی جانے والی کوشش کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے " افضل الجھاد " کہکر تحسین فرمائی ہے۔
أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ قَالَ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ 
سنن النساي 4209
مظلوم اور معاشرہ میں دبے اور پسے ہوئے طبقہ کے حقوق کی فراہمی اور بازیابی کی کوشش میں اسلام سے پہلے بھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی ہے اور اسلام کے بعد  خلفاء کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔
سنہ 590 عیسوی ماہ ذی قعدہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر مکہ مکرمہ میں قریش کے معزز سرداروں کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیس سال کی عمر میں ایک معاہدے میں شرکت فرمائی تھی۔ جو "حلف الفضول" کے نام سے مشہور ہوا۔ یمن کے ایک تاجر (قبیلہ زبید کے) شخص پہ مکہ کے قدآور شخص عاص بن وائل نے ظلم کیا تھا۔ سامان لیکر قیمت ہضم کرگیا تھا۔ اس مظلوم کی مدد اور دکھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی کی متحدہ آواز کے طور پر ایک کمیٹی قائم ہوئی۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اس طرح کی کمیٹی قائم تھی جس کے روح رواں اور بانی مبانی "فضل" نامی تین اشخاص تھے۔ جب آپ کے زمانے میں اس کمیٹی کا احیاء ہوا تو اسے اسی نام کے ساتھ موسوم "حلف الفضول" کردیا گیا. یہ معاہدہ در اصل مقتدر طبقہ کے ظلم وتعدی کے خلاف ایک اجتماعی آواز (احتجاج) ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ایک عملی شکل تھی۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:
«لقد شهدت في دار عبدالله بن جدعان حلفًا ما أُحب أن لي به حمر النعم، ولو أُدعي به في الإسلام لأجبت»
(لقد شَهِدتُ مع عمومَتي حِلفًا في دارِ عبدِ اللَّهِ بنِ جُدعانَ ما أُحبُّ أن لي بهِ حُمْرَ النَّعَمِ، ولَو دُعيتُ بهِ في الإسلامِ لأجَبتُ . .
عن عبدالرحمن بن عوف۔ (فقه السيرة - الرقم: 72- الحدیث مرسل. ولكن له شواهد تقويه وأخرجه الإمام أحمد مرفوعاً دون قوله, لو دعيت به في الإسلام لأحببت وسنده صحيح)
معاشرتی اور سماجی استبداد وخلفشار کے خلاف انفرادی آواز مقتدر حلقوں کے لئے نقار خانے میں طوطے کی آواز سے زیادہ اثر نہیں رکھتی! لیکن جب بہت سے افراد ہم آواز ہوکے اس کے ساتھ  اٹھ کھڑے ہوں تو پہر اجتماعیت کی قوت سامنے حکمراں طبقہ مظلوم  طبقہ کے مطالبات تسلیم کرنے پہ مجبور ہوجاتا ہے۔
ظلم وجور کے خلاف اجتماعی آواز اٹھانے کی ایک مثال سنت نبویہ سے تو اوپر آگئی لیکن ظلم وجور کے خلاف سڑکوں پہ دھرنا دینے کی مثال بھی سنت نبوی میں موجود ہے ،پڑوسی سے ستائے ہوئے پریشان حال ایک صحابی سے بطور چارہ کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور اپنا سامان گھر سے باہر نکال کر سڑک پر رکھ دو، انہوں نے ایسا ہی کیا، اب گزرنے والے لوگ ان سے اس کا سبب پوچھتے تو وہ پڑوسی کے ظلم کی روداد سنا دیتے، چنانچہ ہر کوئی اسے لعنت ملامت کرتا، جب یہ بات پڑوسی کو معلوم ہوئی تو اس نے انہیں گھر بھیجا اور ہمیشہ کے لیے ظلم سے باز رہنے کا وعدہ کیا۔ اور یوں سڑک پہ پرامن احتجاج سے اپنا حق وصول ہوا:
جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يشكو جاره فقال اطرح متاعك على الطريق فطرحه، فجعل الناس يمرون عليه ويلعنونه، فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال "يا رسول الله ما لقيت من الناس"، فقال : وما لقيت منهم؟ قال: "يلعنوني"، قال: لقد لعنك الله قبل الناس، قال: "إني لا أعود"، فجاء الذي شكاه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال ارفع متاعك فقد كفيت. ورواه البزار بإسناد حسن بنحو إلا أنه قال: "ضع متاعك على الطريق أو على ظهر الطريق" فوضعه، فكان كل من مر به قال: "ما شأنك؟"، قال جاري يؤذيني فيدعو عليه فجاء جاره فقال: "رد متاعك فلا أؤذيك أبدا". و"روى" أبو داود واللفظ له وابن حبان في صحيحه والحاكم وصححه على شرط مسلم: (جاء رجل يشكو جاره فقال له: «اذهب فاصبر»، فأتاه مرتين أو ثلاثا، فقال اذهب فاطرح متاعك في الطريق ففعل، فجعل الناس يمرون ويسألونه ويخبرهم خبر جاره فجعلوا يلعنونه فعل الله به وفعل، وبعضهم يدعو عليه فجاء إليه جاره فقال: "ارجع فإنك لن ترى مني شيئا تكرهه" (كتاب الزواجر عن اقتراف الكبائر باب الصلح، الكبيرة العاشرة بعد المائتين: إيذاء الجار ولو ذميا). (تفسير القران العظيم لإبن كثير ٧٤٦/٤ سورة النساء ١٤٧)
دوسری مثال دیکھیں: 
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مشرف باسلام ہوجانے کی خوشی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم علانیۃً سڑکوں سے ہوتے ہوئے اور مشرکین وسرداران قریش کو اپنی قوت وحشمت دکھاتے ہوئے مسجد حرام داخل ہوئے، اب تک چھپے چھپائے رہتے تھے، لیکن آج کے اجتماعی مظاہرے سے دشمنوں پہ خاصا رعب طاری ہوا، اور یہ سڑکوں پہ مظاہرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہوئے:
روى أبو نعيم في الحلية بإسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما وفيه: فقلت: يا رسول الله ألسنا على الحق إن متنا وإن حيينا؟ قال: «بلى، والذي نفسي بيده إنكم على الحق إن متم وإن حييتم»، قال فقلت: "ففيم الاختفاء؟ والذي بعثك بالحق لتخرجن"، فأخرجناه في صفين: حمزة في أحدهما، وأنا في الآخر، له كديد ككديد الطحين حتى دخلنا المسجد، قال فنظرت إلي قريش وإلى حمزة فأصابتهم كآبة لم يصبهم مثلها، فسماني رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ الفاروق. وفرق الله به بين الحق والباطل" انتهى (حلية الأولياء 1/40).
وأورد صاحب الإصابة في أسماء الصحابة هكذا: "وأخرج محمد بن عثمان بن أبي شيبة في تاريخه بسند فيه إسحق ابن أبي فروة عن ابن عباس أنه سأل عمر عن إسلامه فذكر قصته بطولها وفيها أنه خرج ورسول الله صلى الله عليه وسلم بينه وبين حمزة وأصحابه الذين كانوا اختفوا في دار الأرقم فعلمت قريش أنه امتنع فلم تصبهم كآبة مثلها، قال فسماني رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ الفاروق" انتهى (الإصابة 2/512).
وذكره ابن حجرـ رحمه الله ـ في فتح الباري قائلاً: "وروى أبو جعفر بن أبي شيبة نحوه في تاريخه من حديث ابن عباس، وفي آخره "فقلت يا رسول الله ففيم الاختفاء؟"، فخرجنا في صفين: أنا في أحدهما، وحمزة في الآخر، فنظرت قريش إلينا فأصابتهم كآبة لم يصبهم مثلها"، وأخرجه البزار من طريق أسلم مولى عمر عن عمر مطولاً" انتهى (فتح الباري 7/59)
جائز حقوق کی وصولی یا معاشرتی ظلم وجور کے خلاف احتجاجی دھرنا کی حیثیت محض"انتظامی اور تدبیری" ہے، اس کی حیثیت شرعی نہیں! شرعی امور کی بنیاد "اتباع" پہ ہوتی ہے، جبکہ دنیوی اور تدبیری وانتظامی امور کی بنیاد "اِبتِدَاعْ" (تقاضے اور نئے چیلنجس کے مطابق ردعمل) پہ ہوتی ہے، یہ فرق ملحوظ نہ رکھنے سے تطبییق حکم شرعی میں الجھنوں اور شبہات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ احتجاج کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں ہے۔ شرعی اور ریاستی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ہر جائز، موثر، قابل سماع اور زوداثر احتجاجی طریقوں کو اپنایا جاسکتا ہے۔
تشدد، جلائو، گھیرائو، ریاستی وعوامی  املاک کو نقصان پہنچانے، شرانگیزی، راہگیروں، دکانداروں، بیماروں، ہاسپیٹلوں اور ضرورت مند شہریوں  کی آمدورفت یا دیگر بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کئے بغیر ہر قسم کے احتجاجی مظاہروں کی اجازت ہے۔ رواں ماہ پارلیمان میں اپنی عددی برتری کے زعم میں ہندو انتہاء پسند برسر اقتدار بھارتی جنتا پارٹی نے ہندوستان  کے سیکولر دستور سے متصادم  شہریت کا متنازع بل پاس کروادیا ہے۔ متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔ اس کے بعد  صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے بھی اس متنازع شہریت بل دستخط کردیئے، ان  کے دستخط کے بعد یہ سیاہ اور ظالمانہ بل باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا۔ یہ بل مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہہریت ملنے کا ضمانت دیتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پہ شہریت ملنے کا تصور ہمارے ملک کے سیکولرآئین کی روح کے خلاف اور سراسر غیر آئینی وبد نیتی پر مبنی  اقدام ہے۔ اس ظالمانہ و  شاطرانہ بل کی کانگریس، این سی پی، ایس پی، آر جے ڈی، بی ایس پی سمیت ملک کی تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں نے ایوان میں مخالفت کی تھی۔ لیکن  طاقت کے نشہ میں بدمست حکمراں جماعت نے ایک نہ سنی۔ بل پاس ہوجانے کے بعد شمال مشرقی علاقوں آسام ومیگھالیہ  میں  اس تعلق سے پرتشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے، دیکھتے دیکھتے یہ مظاہرہ  راجدھانی دہلی، پٹنہ، اتر پردیش دیوبند، لکھنو، علی گڑھ، کرناٹک،  کیرل، مہاراشٹر غرضیکہ ملک کے چپہ چپہ میں پھیل گیا۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف عوامی غم وغصہ اب ملک گیر شکل اختیار کرچکا  ہے، مذہب اور دھرم کی تفریق کے بغیر ہر محب وطن ہندستانی سڑکوں پہ آگیا ہے۔ عوام کا یہ ردعمل بتاتا ہے کہ سیکولرازم ہی اس ملک کے سماجی تنوع کی حفاظت وبقاء کا ضامن ہے۔
 نئی دہلی ان احتجاجی مظاہروں کا مرکز بنا ہوا ہے، مسلم اکثریتی علاقہ اوکھلا اور جامعہ نگر میں جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کے پرامن مظاہرین اور نہتے طلبہ وطالبات پہ پولیس اور آر ایس ایس کے غنڈوں کا بہیمانہ تشدد جاری ہے۔ رہائشی عمارت پر براہ راست فائرنگ اور پتھراؤ، لائبریری اور مسجد کے توڑ پھوڑ کی ویڈیو وائرل ہوچکی ہے۔ پولیس گردی میں اب تک کئی طلبہ اور معصوم  شہری ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے تک کو  کہنا پڑا  کہ متنازع قانون بنیادی طور پر امتیازی ہے، انہوں نے حکومت ہند سے اس کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی حکومت کو اپنی جمہوری اقدار اور آئین کی پاسداری کا لحاظ کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے،ادھر بدھ 18 دسمبر کو  سپریم کورٹ نے شہریت کے متنازع قانون کا نفاذ فوری طور پر روکنے سے انکار کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 60 سے زائد درخواستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت سے جواب طلب کرلیا ہے، مقدمے کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی میں تین رکنی بینچ ان درخواستوں پر 22 جنوری کو سماعت کرے گا۔ ملک کی مختلف تنظیموں نے جمعرات کو ملک گیر احتجاج اور بھارت بند کا اعلان بھی کر رکھا ہے، 
ملک کے سیکولر ڈھانچہ کے تحفظ اور دستور وآئین کے بقاء کے لئے پورا ملک سڑکوں پہ امنڈ پڑا ہے، ایسی عوامی بیداری اور سیاسی شعور پہلے دیکھنے میں کم ہی آئی ہے، پرامن احتجاجی دھرنوں اور اجتماعی جدوجہد میں جادوئی طاقت اور سحر انگیزی  ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ حکمراں اشرافیہ کے جبروظلم اور ان کی چیرہ دستیوں کے خلاف انقلابی تحریک کا نقطہ آغاز یہی شہریت ترمیمی قانون بنے گا۔
مودی حکومت کیا؟ حقیقی جمہوریت کے مطالبے  کے لئے احتجاجی مظاہروں ودھرنوں نے نہ جانے  تاریخ کی کیسی کیسی طاقتور سلطنتوں کو زیر وزبر کردیاہے۔ 'کیا پِدّی کیا پِدّی کا شوربہ؟؟'
اگر مودی حکومت کے جبرواستبداد کے خلاف اٹھنے والے عوامی غم و غصہ کو  فرقہ جاتی ومذہبی رنگ دیئے بغیر، مکمل شعور،  دوراندیشی اور حکمت ودانائی کے ساتھ آئین کی بالا دستی پہ یقین رکھنے والے محب وطن  تمام برادران وطن کے اشتراک و تعاون اور انہیں ساتھ ملاکر  ہینڈل کیا گیا تو اس عوامی جدوجہد کی لہریں بڑی انقلاب آفریں ہونگی اور ایوانِ اقتدار کو اپنی لپیٹ میں لیکر انہیں زیر وزبر کرکے رکھدیں گی ان شاء اللہ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مصلحت اندیشی کی چادر اتار پھینکیں، جمہوریہ ہند کے جمہوری اقدار پہ فاشسٹ عناصر کا راست حملہ ہورہا  ہے، دستور اورملک کے جمہوری ڈھانچے کے تحفظ کے لئے عزم وحوصلہ کے ساتھ گھروں سے نکلیں، مادروطن کی عظمت وتقدس کی حفاظتی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیں۔ تانا شاہ مودی حکومت کے مکروہ اور دستور مخالف عزائم کو پرامن آئینی جدوجہد سے خاک میں ملادیں۔ بابری مسجد تو ہاتھ سے جاچکی، اب اپنی شہریت بھی خطرے میں ہے، آخر گھروں سے اب نہیں نکلیں گے تو پھر کب؟؟ عدل ومساوات، دستوری آزادی، ملک کی جمہوری اقدار وروایات اور  قومی یگانگت وہم آہنگی کے بقاء وتحفظ کے لئے جد وجہد کرنے، وقت کے طاغوت کی فرعونیت کا مقابلہ کرنے، اس راہ میں عزم وجواں مردی، ثبات وشجاعت کی تاریخ رقم کرتے ہوئے قربانیاں دینے، خون وپسینہ اور دل وجان نذر کردینے والے عظیم  بھائیوں وبہنوں کو دونوں ہاتھوں سے سلیوٹ پیش کرتا ہوں۔  خدا وند تعالی آپ کی حفاظت ونصرت فرمائے۔ 
شکیل منصور القاسمی 
بیگوسرائے
18 دسمبر 2019 ،چہار شنبہ
https://saagartimes.blogspot.com/2019/12/blog-post_19.html

1 comment:

  1. سر آپکی پوشٹ ٹویٹر پر کس طرح شیئر کریں
    فیس بک پر تو ہو رہی ہیں

    ReplyDelete