Thursday 5 April 2018

اگر مدیون بطیب خاطر کچھ دیدے تو کیا اس کا لینا جائز ہے؟

اگر مدیون بطیب خاطر کچھ دیدے تو کیا اس کا لینا جائز ہے؟

سوال: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.
مفتیان کرام سے ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے وہ یہ کہ زید نے بکر کی مالی خستہ حالی کی وجہ سے بغرض تجارت کچھ روپیوں کی مدد کی، روپیہ دیتے وقت صرف معاونت مقصود تھا، لیکن بکر نے کہا کہ جو بھی تجارت میں نفع ہوگا اس میں سے میں آپ کو بھی کچھ دونگا، فیصد متعین نہیں کیا گیا، بکر نے زید کو کچھ رقم دی اور زید بخوشی جو بھی رقم دی، اس کو قبول کرلیا.
مسئلہ دریافت کرنا یہ ہے کہ کیا زید کا بکر سے پیسے لینا درست ہے؟ اگر درست نہیں ہے تو زید اس رقم کا کیا کرے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں، مہربانی ہوگی
المستفتی کبیر احمد

جواب: ہر قرض پہ وصول شدہ منفعت سود کے دائرے میں نہیں آتی ہے بلکہ قرض پہ ملنے والی وہ منفعت سود ہے جو قرض دیتے وقت مشروط کردی جائے یا وہ معتاد و معروف ہو۔
عن فضالۃ بن عبید صاحب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: کل قرض جر منفعۃ، فہو وجہ من وجوہ الربا۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، کتاب البیوع، باب کل قرض جر منفعۃ فہو ربا، دارالفکر ۸/۲۷۶، رقم:۱۱۰۹۲)
کل قرض جر نفعھا فھر ربا  ( الجامع الصغیر :۲/۲۸۴) محشی

اگر بغیر اشتراط کے مقروض ومدیون حسن قضاء  یا انعام واحسان کے طور پر اپنی طرف سے کچھ زیادہ دیدے تو یہ زیادتی نہ صرف جائز بلکہ بہتر بھی وافضل بھی ہے۔اس زیادتی کو سود نہیں کہیں گے ۔بخاری شریف میں ہے :

2264 حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ مِسْعَرٌ أُرَاهُ قَالَ ضُحًى فَقَالَ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ لِي عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَانِي وَزَادَنِي
صحيح البخاري.
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر میرا کچھ قرض تھا چنانچہ جب آپ ﷺ نے وہ قرض واپس کیا تو مجھے کچھ زیادہ دیا (بخاری)

استقرض رسول اللّٰہ سنا فاعطی سنا خیرا من سنہ وقال : خیارکم أحاسنکم قضاء ، عن أبي ھریرۃ ص (الجامع للترمذي ، حدیث نمبر : ۱۳۱۶ ، باب ماجاء في استقراض البعیر أو الشییٔ من الحیوان) محشی

مخصوص شرطوں پہ قرض دینا ناجائز اور حرام ہے ایسی شرطیں باطل ہوجاتی ہیں۔ نیز قرض کے ساتھ کوئی دوسرا عقد بیع کرنا بھی باطل ہے۔

عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یحل سلف وبیع … ولا ربح ما لم یضمن الخ۔ (سنن الترمذي / باب ما جاء في کراہیۃ بیع ما لیس عندہ ۱؍۲۳۳، سنن أبي داؤد رقم: ۳۵۰۴، مشکاۃ المصابیح / باب المنہيعنہا من البیوع رقم: ۲۴۸، مرقاۃ المفاتیح ۶؍۷۹ دار الکتب العلمیۃ بیروت، ۶؍۸۲ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)

لہذا صورت مسئولہ میں اگر مدیون بطیب خاطر کچھ دیدے تو اس کا لینا جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
17 رجب 1439 ہجری

No comments:

Post a Comment