Thursday 19 April 2018

نماز جمعہ واجب ہے یا فرض؟

نماز جمعہ واجب ہے یا فرض؟

صحیح بخاری: کتاب: جمعه کا بیان
((باب: جمعہ کی نماز فرض ہے))
CHAPTER: The prescription of Friday [Salat-ul-Jumuah (Jumuah prayer)].
لِقَوْلِ اللهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ. (سورة الجمعة آية 9)
اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان:
”جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کی یاد کے لیے چل کھڑے ہو اور خرید و فروخت چھوڑ دو کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے ہو“.
(آیت میں) «فاسعوا» «فامضوا» کے معنی میں ہے (یعنی چل کھڑے ہو).
تشریح: ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم خطبہ جمعہ دے رہے تھے. اچانک تجارتی قافلہ اموال تجارت لے کر مدینہ میں آگیا اور اطلاع پاکر لوگ اس قافلے سے مال خرید نے کے لیے جمعہ کا خطبہ و نماز چھوڑ کر چلے گئے. آنحضرت ﷺ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے، اس وقت عتاب کے لئے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی.
آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا:
"اگر یہ بارہ نمازی بھی مسجد میں نہ رہ جاتے تو مدینہ والوں پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی".
نہ جانے والوں میں حضرات شیخین (رضى الله عنهما) بھی تھے (ابن کثیر)
《حديث نمبر: 876》
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ،‏‏‏‏ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ هُرْمُزَ الْأَعْرَجَ مَوْلَى رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ،‏‏‏‏ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا ثُمَّ هَذَا يَوْمُهُمُ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏ فَاخْتَلَفُوا فِيهِ،‏‏‏‏ فَهَدَانَا اللهُ فَالنَّاسُ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ الْيَهُودُ غَدًا وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن حارث کے غلام عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج نے بیان کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
"ہم بعد میں آئے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے. صرف اتنی بات ہے کہ پہلے لوگوں کو ہم سے قبل کتاب دی گئی، پھر یہی جمعہ کا دن ان کے لیے بھی مقرر تھا مگر وہ اس کے متعلق اختلافات کا شکار ہوگئے لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کردی، اس بنا پر سب لوگ ہمارے پیچھے ہوگئے. یہود کل (ہفتہ) کے دن اور عیسائی پرسوں (اتوار) کے دن (عبادت کریں گے)".
Narrated Abu Huraira: I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "We (Muslims) are the last (to come) but (will be) the foremost on the Day of Resurrection though the former nations were given the Holy Scriptures before us. And this was their day (Friday) the celebration of which was made compulsory for them but they differed about it. So Allah gave us the guidance for it (Friday) and all the other people are behind us in this respect: the Jews' (holy day is) tomorrow (i.e. Saturday) and the Christians' (is) the day after tomorrow (i.e. Sunday)."
........
سوال # 2414
کیا نماز جمعہ واجب ہے یا فرض؟ براہ کرم، باحوالہ جواب دیں
Published on: Apr 4, 2017
جواب # 2414
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 719/ م= 713/ م
نماز جمعہ فرض ہے کما في الدر المختار: ھي فرض عین یکفر جاحدھا لثبوتھا بالدلیل القطعي الخ لیکن جمعہ کی صحت کے کچھ شرائط ہیں جو کتب فقہ میں مفصل مذکور ہیں، اور واجب بھی عملاً فرض کی طرح ہوتا ہے اس اعتبار سے فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Jumuah--Eid-Prayers/2414
...........

نماز جمعہ صحیح ہونے کی شرطیں

١. مصر یعنی شہر یا قصبہ یا بڑا گائوں ہونا پس چھوٹے گائوں یا جنگل میں نماز جمعہ درست نہیں ہے، قصبہ یا بڑا گاؤں وہ ہے جس کی آبادی مثلاً تین چار ہزار کی ہو یا اپنے آس پاس کے علاقہ میں وہ بڑا گاؤں یا قصبہ کہلاتا ہو اور اس میں ایسی دکانیں ہوں جن میں روزمرہ کی ضروریات بلعموم میسر آجاتی ہوں کوئی حاکم یا پنچائت وغیرہ بھی ایسی ہو جو ان کے معاملات میں فیصلہ کرتی ہو نیز کوئی ایسا عالمِ دین بھی رہتا ہو جو روزمرہ کے ضروری مسائل ان لوگوں کو بتاسکے اور جمعہ میں خطبہ پڑھ سکے اور نماز جمعہ پڑھاسکے پس ایسے گاؤں میں نماز جمعہ درست و فرض ہے، شہر کے آس پاس کی ایسی آبادی جو شہر کی مصلحتوں اور ضرورتوں کے لئے شہر سے ملی ہوئی ہوں مثلاً قبرستان، چھاؤنی، کچہریاں اور اسٹیشن وغیرہ یہ سب فنائے مصر کہلاتی ہیں اور شہر کے حکم میں ہیں ان میں نماز جمعہ ادا کرنا صحیح ہے
٢. بادشاہِ اسلام کا ہونا خواہ وہ عادل ہو یا ظالم یا بادشاہ کا نائب ہونا یعنی جس کو بادشاہ نے حکم دیا ہو اور وہ امیر یا قاضی یا خطیب ہو ان کے بغیر جمعہ ادا کرنا صحیح نہیں ہے، بادشاہ کا نائب موجود ہو اور وہ کسی دوسرے شخص سے نماز پڑھوائے تو جائز و درست ہے، اگر کسی شہر یا قصبہ میں ان میں سے کوئی موجود نہ ہو اور وہ بادشاہ سے اجازت نہ لے سکتے ہوں تو شہر کے لوگ ایک شخص کو مقرر کرلیں اور وہ خطبہ و نماز جمعہ پڑھائے یہ جائز و درست ہے چونکہ ہمارے زمانے میں حکومت کو ان امور کی طرف توجہ نہیں ہے لہذا لوگ خود کسی شخص کو مقرر کرلیں وہ ان کو خطبہ دے اور نماز پڑھائے یہ جائز و درست ہے
٣. دارالسلام ہونا، دارالحرب میں نماز جمعہ درست نہیں ہے (بعض فقہ نے دارالسلام کو شرائط جمعہ میں نہیں لکھا غالباً اس لئے کہ بادشاہِ اسلام ہونے میں یہ شرط خود ہی داخل ہے اور بعض نے بادشاہ اسلام یا اس کے نائب کا ہونا بھی شرط قرار نہیں دیا کیونکہ یہ شرط عقلی احتیاط کے درجہ میں ہے نہ یہ کہ اس کے بغیر شرعاً نماز جمعہ درست نہیں ہوتی اسی لئے بعض فقہ کے نزدیک بادشاہ کا مسلمان ہونا بھی شرط نہیں ہے، واللّٰہ عالم بصواب)
٤. ظہر کا وقت ہونا، پس وقت ظہر سے پہلے یا اس کے نکل جانے کے بعد نماز جمعہ درست نہیں حتیٰ کہ اگر نماز پڑھنے کی حالت میں وقت جاتا رہا تو نماز فاسد ہو جائے گی اگرچہ قاعدہ اخیرہ بقدرِ تشہد ادا کر چکا ہو یعنی یہ نماز نفل ہو جائے گی اور اس کو نمازِ ظہر کی قضا دینی ہو گی جمعہ کی قضا نہیں پڑھی جاتی بلکہ اب ظہر ہی کی قضا واجب ہو گی اور اسی نیت جمعہ پر ظہر کی بنا نہ کرے کیونکہ دونوں مختلف نمازیں ہیں بلکہ نئے سرے سے ظہر قضا کرے
٥. وقت کے اندر نماز سے پہلے بلا فصل خطبہ پڑھنا، اگر بغیر خطبہ کے نماز جمعہ پڑھی گئی یا وقت سے پہلے خطبہ پڑھا یا نماز کے بعد پڑھا، یا خطبہ پڑھنے میں خطبہ پڑھنے کا ارادہ نہ ہو یا خطبہ و نماز میں زیادہ فاصلہ ہوجائے تو نماز جمعہ درست و جائز نہیں ہے.
http://majzoob.com/1/13/133/1331870.htm
.......

No comments:

Post a Comment