Monday 23 April 2018

ڈیجیٹل تصویر

ڈیجیٹل تصویر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1781 )

اسلام میں ذی روح کی تصاویر کی تمام فرسودہ، مروجہ، ترقی یافتہ اور نت نئی شکلیں (ڈیجیٹل تصویر) ناجائز وگناہ کبیرہ ہیں۔
کھینچنا اور کھنچوانا دونوں حرام ہے۔ البتہ کھنچوانے میں قصد وارادہ نہ ہو تو معذور سمجھا جائے گا۔
ذی روح کی تصاویر کی حرمت پہ فقہی مذاہب کے چاروں ائمہ متفق ہیں۔ بعض فقہاء مالکیہ کا بعض جزئیوں میں  اختلاف ضرور ہے! لیکن فقہ مالکی کی اکثر روایتیں وجمہور فقہاء مالکیہ حرمت پہ متفق ہیں۔
  "قال الله عز وجل في حديث قدسي:
ومن أظلم ممن ذهب يخلق كخلقي فليخلقوا ذرة أو ليخلقوا حبة أو شعيرة" (البخاري 7559) ،وقول النبي صلى الله عليه وسلم: "إن أشد الناس عذابًا عند الله يوم القيامة المصورون" (البخاري 5950, مسلم 2109), وقوله: "من صور صورة في الدنيا كُلّف يوم القيامة أن ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ" (البخاري 5963، مسلم 2110).
عن أبي الهياج الأسدي، قال: قال لي علي بن أبي طالب: "ألا أبعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ أن لا تدع تمثالاً إلا طمسته،  ولا قبرًا مشرفًا إلا سويته" (مسلم 969)

ہاں ناقص تصاویر جیسے  سر بریدہ یا غیر ذی روح کی تصاویر مثلا پہاڑ تالاب جھیل پارک وغیرہ کی تصویر کشی کی گنجائش ہے۔ جس کے جواز پہ متعدد روایتیں ہیں۔ چند یہ ہیں:

•  عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أتاني جبريل عليه السلام، فقال لي: أتيتك البارحة فلم يمنعني أن أكون دخلت إلا أنه كان على الباب تماثيل، وكان في البيت قرام ستر فيه تماثيل، وكان في البيت كلب، فمُرْ برأس التمثال
الذي في البيت يقطع، فيصير كهيئة الشجرة، ومُرْ بالستر فليقطع، فليجعل منه وسادتين منبوذتين توطآن، ومُرْ بالكلب فليخرج"، ففعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا الكلب لحسن -أو حسين- كان تحت نضد لهم، فأمر به فأخرج. (أبو داود 4158, الترمذي 2806 وقال: هذا حديث حسن).
قال البغوي: "فيه دليل على أن موضع التصوير إذا نقض حتى ينقطع أوصاله، جاز استعماله" (شرح السنة 12/134).
• قول ابن عباس رضي الله عنه:"الصورة الرأس فإذا قطع الرأس فليس بصورة" (البيهقي14275).
قال الطحاوي: "فلما أبيحت التماثيل بعد قطع رأسها الذي لو قطع من ذي الروح لم يبق،  دلَّ ذلك على إباحة تصوير ما لا روح له, وعلى خروج ما لا روح لمثله من الصور, مما قد نهي عنه في الآثار" (شرح معاني الآثار 4/287).
(المبسوط 1/210, منح الجليل 3/529, تحفة المحتاج 7/433, كشاف القناع 1/280).

ذی روح کی تصاویر کی حرمت کی علت مسلمانوں کے دلوں سے غیر اللہ کی توقیر وتعظیم کے یکسر خاتمہ کے ساتھ "مضاہات خلق اللہ" - تخلیق خداوندی کی نقل اتارنا ہے۔
اور یہ نقالی وتخلیق خداوندی کی مشابہت کسی خاص شکل وصورت پہ موقوف نہیں۔ یہ مضاهاة جیسے قدیم زمانے میں ہاتھ سے بنائی گئی تصویروں سے ہوتی تھی ویسے ہی ڈیجیٹل تصویر میں بھی  بلکہ اس سے بڑھ کے مزید بھڑکدار و شاندار انداز میں ہے۔
یہ کہنے کی تو چنداں ضرورت نہیں کہ احکام کے تعلق کا مدار نتیجہ وثمرہ ہے۔ آلات، اسباب وذرائع مقصود نہیں ہوتے۔
شراب خواہ ہاتھ سے بنائی جائے یا مشین سے، قتل خواہ چھڑی سے ہو یا پستول کے بٹن دبانے سے، نتیجہ کو دیکھتے ہوئے دونوں ہی حرام ہیں۔
تصویر سازی یا تصویر کشی پہلے بھلے ہی ہاتھ سے ہوتی ہو لیکن کیمرہ کی تصویر کا بھی یہی حکم ہوگا۔
حرمت والی ساری احادیث مطلق ہیں۔ڈیجیٹل وغیر ڈیجیٹل کی کوئی تخصیص وتفریق نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ممانعت  ساری شکلوں کو شامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس بابت جب کوئی تخصیص واستثناء نہیں تو کسی کو ڈیجیٹل وغیر ڈیجیٹل میں تخصیص، تفریق واستثناء کا حق کیسے اور کیونکر ملے گا؟ عرف عام بھی دلیل شرعی ہے۔ عرفا بھی اس پہ تصویر ہی کا اطلاق ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل تصویر کو عکس آب وآئینہ پہ قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔
مصر وعرب کے معدودے چند علماء کے علاوہ عرب وعجم کے جمہور علماء کا بھی اس پہ اتفاق ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی شروع میں تصویر کے جواز کے قائل تھے۔ مفتی شفیع صاحب عثمانی کی کتاب "التصویر لاحکام التصویر"  سامنے آنے کے بعد وہ اپنے موقف سے رجوع فرمالیں ۔۔۔ مولانا ابو الکلام آزاد الہلال اپنی تصویر کے ساتھ شائع فرماتے تھے۔ لیکن آخر عمر میں وہ تصویر کو غلط سمجھنے لگے تھے۔
مفکر اسلام حضرت علامہ سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ جمہور علماء ہند کی طرح حرمت کے قائل تھے۔ اور علماء عرب کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی جہاں اختیار ہوتا اپنی تصویر اتارنے سے لوگوں کو منع فرماتے۔سعودی عرب کی فتوی کمیٹی "اللجنة الدائمة" کا فتوی بھی کراہت واجتناب کا ہے۔
ہاں ضرورت: پاسپورٹ، شناختی کارڈ، بس ریلوے پاسس ودیگر ضرورت یا قومی وملکی مصلحت  کے مواقع مستثنی ہیں۔الضرورات تبيح المحظورات.
رخصت وجواز بقدر ضرورت مقدر مانی جاتی ہے۔شوقیہ اس وبا میں ابتلاء عام علماء کی شایان شان نہیں ۔قیل وقال کی بجائے قوت دلیل قابل اعتناء ہوتی ہے۔
ذی روح کی تصاویر کی تمام انواع میں "اصل" حرمت ہے۔
اباحت خلاف اصل ہے۔ جو محتاج دلیل ہے۔جو یہاں موجود نہیں۔ اس لئے حرمت اپنی جگہ باقی رہے گی۔
إلا ما استثني منها من مواقع الضرورة .
پھر جب علماء کے مابین کسی امر کی حلت وحرمت میں اختلاف ہوجائے تو تقاضائے ورع واحتیاط حرمت کو اختیار کرنے میں ہے۔ دع ما يريبك إلى مالا يريبك .

ویڈیو گرافی حقیقت میں تصویر ساکن ہی کی ایک قسم ہے۔
ویڈیو کیمرے کے بارے میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ یہ متحرک تصویر بناتا ہے , حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ ویڈیو کمیرہ بھی متحرک تصویر نہیں بناتا بلکہ ساکن تصاویر ہی بناتا ہے لیکن اسکی تصویر کشی کی رفتار بہت تیز ترین ہوتی ہے، ایک ویڈیو کیمرہ ایک سیکنڈ میں تقریبا نو صد (900) سے زائد تصاویر کھینچتا ہے، اور پھر جب اس ویڈیو کو چلایا جاتا ہے تو اسی تیزی کے ساتھ انکی سلائیڈ شو کرتاہے ۔ جسے اس فن سے نا آشنا لوگ متحرک تصویر سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ متحرک نہیں ہوتی بلکہ ساکن تصاویر کا ہی ایک تسلسل ہوتا ہے کہ انسانی آنکھ جسکا ادراک نہیں کرسکتی ۔
لہذا تبلیغی ودعوتی مقاصد کے علاوہ دیگر چیزوں کی خاطر ویڈیو گرافی بھی ممنوع ہوگی۔ وہ بھی الیکٹرانک تصویر ہی کے حکم ہوگی۔
ہاں تبلیغ دین یا حکمرانوں تک اپنے بنیادی حقوق کے مطالبہ کے لئے اس سے استفادہ کی گنجائش نکل سکتی ہے۔علی العموم یہ بھی مباح نہیں۔

شکیل منصور القاسمی
6 شعبان 1439 ہجری

No comments:

Post a Comment