Friday 20 April 2018

انٹرنیٹ پر ویڈیو کالنگ یا ٹیلی فون کے ذریعہ نکاح کرنا کیسا ہے؟

سوال: انٹرنیٹ پر ویڈیو کالنگ یا ٹیلی فون کے ذریعہ نکاح کرنا کیسا ہے؟ کیا یہ نکاح ہوجائے گا یا نہیں؟

جواب: واضح رہے نکاح کی شرائط میں سے یہ ہے کہ مجلس نکاح میں عاقدین (لڑکا و لڑکی) ایک ہی مجلس میں اصالةً موجود ہوں یا دونوں میں سے ایک اصالةً موجود ہو اور دوسرے کی طرف کوئی وکیل ہو (یعنی وہ وکالةً موجود ہو) یا دونوں ہی اصالةً نہ ہوں بلکہ دونوں کی طرف سے کوئی وکیل ہو اور پھر ان کے ساتھ اسی مجلس میں نکاح کے گواہان بھی ہوں اور ساتھ ساتھ اولیاء کی رضامندی سے نکاح کررہے ہوں یا کم از کم دونوں کفو میں برابر ہوں، ان شرائط کی موجودگی میں نکاح ہوتا ہے، انٹرنیٹ ویڈیو کالنگ یا فون پر نکاح کی صورت میں بھی یہی شرائط لازمی ہیں ورنہ اس کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

کتاب النوازل (٤٨/٨) میں ہے کہ
ٹیلی فون پر نکاح کی تین صورتیں ہیں:
(۱) مجلس عقد میں لڑکا حاضر نہیں ہے، لیکن لڑکے نے فون پر مجلس میں موجود کسی شخص کو نکاح کا وکیل بنادیا اور اس وکیل نے لڑکے کی طرف سے مجلس میں گواہوں کے سامنے ایجاب یا قبول کیا، تو یہ نکاح شرعاً درست ہے۔

(۲) لڑکی ٹیلی فون کے ذریعہ مجلس میں موجود کسی شخص کو اپنا وکیل بنادے اور وہ وکیل اسی مجلس میں لڑکی کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے، تو یہ عقد بھی شرعاً درست ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ ۱۰؍٦٨٠ ڈابھیل)

(۳) براہِ راست ایجاب یا قبول ٹیلی فون پر ہو، تو یہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا، اس پر نکاحِ فضولی کا اطلاق بھی نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ نکاح کی صحت کے شرائط میں سے یہ بات ہے کہ ایجاب و قبول کرنے والے دونوں فریق (اِصالةً وکالةً) کی مجلس ایک ہو اور دونوں کے کلام کو اسی مجلس میں کم از کم دو گواہوں نے ایک ساتھ سنا ہو، اگر لاعلمی میں ایسا نکاح ہوگیا، تو دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے، تاہم اس طرح کے نکاح میں عقد صحیح سمجھ کر جو وطی کی گئی ہے، وہ کم از کم وطی بالشبہ کے درجہ میں ہے، اس لئے اس سے جو اَولاد ہوئی وہ احتیاطاً ثابت النسب ہوگی۔

□ ویصح التوکیل بالنکاح۔ (الفتاویٰ التاتارخانیة ۳؍٦٩)

□ ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس۔ (الدر المختار مع الشامي ٤؍۷٦ زکریا)

□ وشرط حضور شاهدین حرین مکلفین سامعین قولهما معاً۔ (شامي ٤؍۸۷ زکریا)

□ قوله اتحاد المجلس: قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد۔ (شامي ٤؍۷٦ زکریا، بدائع الصنائع ۲؍٤٩٠ زکریا)

□ إلا أن یقال: إن انعقاد الفراش بنفس العقد إنما ہو بالنسبة إلی النسب؛ لأنه یحتاط في إثباته إحیاء للولد۔ (شامي ۵؍۱۹۷ زکریا)

□ ومنه أي من قسم الوطء بشبهة، قال في النهر: وأدخل في شرح السمرقندي منکوحة الغیر تحت الموطوءۃ بشبهة۔ حیث قال: أي بشبهة الملک أو العقد، بأن زفت إلیه غیر امرأته فوطئها أو تزوج منکوحة الغیر ولم یعلم بحالها وأنت خبیر بأن هذا یقتضي الاستغناء عن المنکوحة فاسدا، إذ لا شک أنها موطوءۃ بشبهة العقد أیضاً، بل هي أولی بذلک من منکوحة الغیر، إذ اشتراط الشهادۃ في النکاح مختلف فیه بین العلماء، بخلاف الفراغ عن نکاح الغیر، إذا علمت ذٰلک ظهر لک أن الشارح متابع لما في شرح السمرقندي لا مخالف له، ویمکن الجواب عن السمرقندي بأنه حمل المنکوحة نکاحاً فاسداً علی ما سقط منه شرط الصحة بقدر وجود المحلیة کالنکاح المؤقت أو بغیر شهود، أما منکوحة الغیر فهي غیر محل إذ لایمکن اجتماع ملکین في أن واحد علی شيء واحد، فالعقد لم یؤثر ملکا فاسداً، وإنما أثر في وجود الشبہۃ۔ (شامي ۵؍۱۹۸-۱۹۹ زکریا) 

□ شرط سماع کل من العاقدین لفظ الآخر … وشرط حضور شاهدین، أصیلا یشهدان علی العقد حرین … مکلفین سامعین قولهما معا۔ (المغرب ۱؍٤٥٩ کراچی)

□ ویتولی طرفي النکاح واحد بإیجاب یقوم مقام القبول في خمس صور: کأن کان … أصیلا من جانب و وکیلا من آخر (درمختار) وتحته في الشامیة: کقولہ مثلا: زوجت فلانة من نفسي، فإنه یتضمن الشطرین، فلا یحتاج إلی القبول بعدہ۔ - إلی قوله - کما لو وکلته امرأۃ أن یزوجها من نفسه، فقال: تزوجت مؤکلتي۔ (الدر المختار مع الشامي / باب الکفاء ۃ ٤؍۲۲٤ زکریا) 

□ ویجوز للواحد أن ینفرد بعقد النکاح عند الشهود علی اثنین إذا کان ولیا لهما، أو وکیلاً عنهما۔ (فتح القدیر ۳؍۲۹۹) 

واللہ اعلم بالصواب
........

فون اور انٹرنیٹ پر نکاح سے متعلق ایک جامع فتوی

سوال ]۵۴۱۳[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ آج کل کے زمانہ میں لوگ فون پر نکاح کرتے ہیں خصوصاً کالج کے طلبہ اسیطرح انٹرنیٹ پر بھی نکاح کا سلسلہ جاری ہونے لگا ہے، حضور والاسے مؤدبانہ گذارش ہے کہ اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں کہ فون یاانٹرنیٹ پر نکاح صحیح ہے یانہیں؟ اور اس کے جواز کی کوئی شکل نکل سکتی ہو تو تحریر فرمائیں۔
المستفتی: عبید اﷲ،بھاگلپوری
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلامی شریعت میں نکاح کے صحیح ہونے کے لئے بہت سی شرطیں ہیں، ان میں سے دو شرطیں نہایت بنیادی اور لازمی ہیں۔ ان دونوں شرطوں کے بغیر نکاح کا وجود نہیں ہوسکتا، اگر ان دونوں شرطوں میں سے ایک بھی شرط نہیں ہے، تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(۱) ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب النکاح، کراچي ۳/۱۴، زکریا۴/۷۶)
نکاح میں ایجاب و قبول کے صحیح ہونے کے لئے جانبین کی مجلس کا ایک ہونا لازمی شرط ہے؛ لہٰذا اگر مجلس نکاح میں جانبین میں سے ایک بنفس نفیس موجود ہے یااس کا وکیل موجودہے اوردوسری جانب سے نہ خود بنفس نفیس موجود ہے نہ اس کا وکیل موجود ہے؛ بلکہ دوسری جگہ سے ٹیلی فون پر ایجاب و قبول کرتا ہے، تو شرعی طور پر یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ اور اس سے میاں بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوگا او رنہ ہی ایک دوسرے کے لئے حلال ہوں گے۔
(۲) وشرط حضور شاہدین۔ (الدر المختار، کراچي ۳؍۲۱، زکریا۴؍۸۷)
مجلس نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا شرط ہے۔ اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں ہونا عاقدین کی باتوں کا ایک ساتھ سننا بھی شرط ہے۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ نکاح میں ایجاب و قبول کرنے والے دونوں بنفس نفیس یا ان دونوں کے وکیل اسی مجلس میں موجود ہوں؛ لہٰذا اگر میاں بیوی میں سے ایک بنفس نفیس یا اسکا وکیل اسی مجلس میں موجود ہے اور دونوں گواہوں نے ایک ساتھ اس کی بات براہ راست سنی ہے۔ اور دوسرا بنفس نفیس یا اس کا وکیل مجلس میں موجو نہیں ہے؛ بلکہ اس کی آواز ٹیلی فون سے سنی جارہی ہے، تو دونوں گواہوں کا اس ٹیلی فون میں سننے کا اعتبار نہیں ہے؛ بلکہ دوسری جانب سے بھی بنفس نفیس یا اس کے وکیل کا مجلس نکاح میں موجود ہوکر ایجاب و قبول کرنا اور دونوں گواہوں کا اس مجلس میں سننا شرط ہے؛ اس لئے یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ ان دونوں شرطوں کے علاوہ نکاح کے صحیح ہونے کے لئے اور بھی شرطیں ہیں؛ لیکن یہ دونوں شرطیں ایسی بنیادی شرطیں ہیں، جو نہایت اہمیت کی حامل ہیں اور ٹیلی فون میں ایجاب و قبول کی صورت میں یہ دونوں شرطیں پائی نہیں جاتیں؛ لہٰذا ٹیلی فون میں ایجاب و قبول شرعی طور پر معتبر نہیں ہوگا۔
دوسرے ملک یا دوسرے علاقہ میں رہ کر ٹیلیفون کو واسطہ بناکر نکاح کے درست ہونے کے لئے چند متبادل شکلیں ہیں، جن کو اختیار کر کے نکاح کیا جاسکتا ہے۔
(۱) لڑکے کی طرف سے ٹیلی فون میں جہاں لڑکی رہتی ہے وہاں کے کسی معتبر آدمی کو وکیل بنادے اور ٹیلی فون میں وکیل بنانا جائز اور درست ہے، پھر جہاں لڑکی ہے وہاں مجلس نکاح قائم ہوجائے اور جیساکہ ہمارے ملک میں لڑکی سے اجازت لے کر جہاں لڑکی ہے وہاں سے ہٹ کر مجلس قائم ہوتی ہے، اب بھی ایسی ہی مجلس قائم ہوجائے اور لڑکی کی طرف سے قاضی لڑکے کے وکیل سے گواہوں کی موجودگی میں لڑکے کی طرف سے مقرر کردہ وکیل کو مخاطب کر کے یوں کہے کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح اتنے مہر پر آپ کے موکل فلاں لڑکے کے ساتھ کردیا ہے، آپ نے اپنے موکل کی طرف سے اس کو قبول کرلیا؟ تو لڑکے کا وکیل اس طرح قبول کرے کہ میں نے فلاں لڑکی کو اپنے موکل کے نکاح میں قبول کرلیا، تو یہ نکاح درست ہوجائے گا۔
(۲) دوسری شکل یہ ہے کہ لڑکی والے لڑکی سے نکاح کی اجازت لے کر ٹیلی فون پر براہ راست لڑکے کو اطلاع کردیں کہ اتنے مہر پر فلانی لڑکی کا نکاح تمہارے ساتھ کرنیکی اجازت مل گئی ہے میں تم کو اجازت دیتا ہوں کہ اپنے یہاں نکاح کی مجلس قائم کرلو اور دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرلو۔ اب وہ لڑکا تین آدمیوں کو جمع کرکے ان میں سے دو کو گواہ بنائے، ایک کو لڑکی کی طرف سے وکیل بنادے، پھر اس طرح ایجاب و قبول ہوجائے کہ لڑکی کا وکیل یہ کہے کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح اتنے مہر پر آپ کے ساتھ کردیا ہے اور لڑکا یہ کہے کہ میں نے قبول کرلیا، تو اس طرح نکاح منعقد ہوجائے گا۔ اب وہ لڑکی اس کی بیوی بن گئی، اب اس کا نکاح کسی دوسری جگہ جائز نہیں ہوگا۔
(۳) لڑکی سے اجازت لے کر لڑکی کا وکیل جہاں لڑکا رہتا ہے وہاں کے کسی معتبر آدمی کو ٹیلی فون پر وکیل بنادے، پھر وہ وکیل نکاح کی مجلس قائم کرے، دو گواہوں کی موجودگی میں لڑکے کو مخاطب کرکے کہے کہ میں نے فلانی لڑکی جو فلاں جگہ رہتی ہے، اس کا نکاح اتنے مہر پر تمھارے ساتھ کردیا ہے، تو لڑکا کہے کہ میں نے اس کو اپنے نکاح میں قبول کرلیا، تو اب شرعی طوپر نکاح منعقد ہوگیا۔ وہ لڑکی اس لڑکے کی بیوی بن گئی، اب اس لڑکی کا نکاح کسی دوسری جگہ جائز نہیں ہوگا۔
یہ ٹیلی فون پر نکاح کے لئے متبادل شکلیں ہیں، جن کو اختیار کر کے دوسری جگہ کے لڑکے یا دوسری جگہ کی لڑکی کے ساتھ عقد نکاح عمل میں آسکتا ہے۔
انٹرنیٹ پر نکاح: انٹرنیٹ پر آدمی کی تصویر نظر آتی ہے، آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جس لڑکے یالڑکی کے ساتھ انٹر نیٹ پر نکاح کیاجارہا ہے وہ مجلس نکاح میں موجود ہیں،ادھر سے جب قاضی مجلس نکاح میں ایجاب کرتا ہے، تو لڑکا یا لڑکی کی تصویر انٹرنیٹ پر آواز کے ساتھ بولتی ہے اور قبول کرنے کے الفاظ استعمال کرتی ہے، اس سے
کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ نکاح کی ساری شرطیں یہاں موجود ہیں۔ یہ محض ایک دھوکہ ہے، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوگا؛ اس لئے کہ نکاح کے صحیح ہونے کے لئے ایجاب و قبول کرنے والے عاقدین کا بنفس نفیس یادونوں کے وکیل کا بنفس نفیس مجلس نکاح میں موجود ہونا شرط ہے اور انٹرنیٹ پر جو نظر آتا ہے وہ اصل آدمی نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ تصویر ہوتی ہے، اس کی مثال یوں سمجھو کہ انٹرنیٹ پر جو تصویر اور آواز آرہی ہے، وہ محفوظ رہ جائے اور جو اصل آدمی ہے اس کی موت واقع ہوجائے اور وہ قبر میں دفن بھی ہوجائے تب بھی انٹرنیٹ پر اس کی وہی تصویر اور وہی آواز باقی رہتی ہے؛ جبکہ اصل آدمی زندہ بھی نہیں ہے؛ اس لئے تصویر کا سامنے موجود ہونا شرعی طور پر اصل آدمی کے موجود ہونے کے قائم مقام نہیں ہوگا؛ لہٰذا انٹرنیٹ پر بھی جانبین سے ایجاب وقبول اسی طرح معتبر نہیں ہے، جس طرح ٹیلی فون پر معتبر نہیں ہوتا ہے، ہاں البتہ انٹرنیٹ پر نکاح کے صحیح ہونے کے لئے وہی متبادل شکلیں اختیار کی جاسکتی ہیں، جوٹیلی فون میں اختیار کرنی جائز ہیں کہ انٹرنیٹ پر لڑکے کی طرف سے وکیل بنادیا جائے، پھر وہ وکیل جہاں لڑکی ہے وہاں مجلس نکاح قائم کرے یا اس کے بر عکس لڑکی کی طرف سے انٹرنیٹ پر وکیل بنادیا جائے، پھر وہ وکیل جہاں لڑکا ہے وہاں مجلس نکاح قائم کرے، پھر مجلس نکاح میں ایجاب و قبول ہوجانے کے بعد ٹیلی فون یاانٹرنیٹ سے دوسرے کو اطلاع کردی جائے کہ تمہارے شرائط کے مطابق یہاں نکاح ہوچکا ہے، یہ سب شکلیں ایسی ہیں جیسے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی اجازت سے حضرت نجاشی نے حضرت ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نکاح آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ساتھ وکیل بن کر کردیاتھا۔
اسی طرح وکالت کے جواز کی دلیل یہ بھی ہے کہ شرعاً خط و کتابت کے ذریعہ وکیل بنانا جائز ہے اور دور نبوت، دور صحابہؓ اور ائمہ مجتہدین اور فقہاء کے دور میں خط و کتابت ہی ایک ذریعہ تھا، ٹیلی فون، فیکس، ٹیلی ویژن کے چینل، انٹرنیٹ وغیرہ جدید ذرائع مواصلات کا اس زمانہ میں تصور او روہم و گمان بھی نہ تھا، آج کے دور میں جب جانے پہچانے آدمی سے فون پر جو بات ہوجاتی ہے وہ رجسٹری خط اور دو آدمی کے ذریعہ لائے ہوئے خط سے بھی کہیں زیادہ معتبر اور قابل اعتماد ہوتی ہے۔
ہمارے ہندوستانی تاجروں کا یوروپ و امریکہ سے تجارتی کاروبار ہے، صرف ایک فون یا فیکس پر اعتمادکر کے کروڑوں کا مال روانہ کردیا جاتا ہے اور ادھر سے بھی ایک فون یا انٹرنیٹ پر اعتماد کرکے کروڑوں روپیہ روانہ کردیا جاتا ہے، مگر رجسٹری خط پر اتنا زیادہ اعتماد نہیں ہوتا؛ لہٰذا جانے پہچانے آدمی سے فون یا انٹرنیٹ پربات کرنا رجسٹری خط اور دو آدمی کے لائے ہوئے خط سے کم درجہ کا نہیں؛ اس لئے فون یا انٹرینیٹ پر وکیل بناکر مذکورہ تینوں طریقوں سے نکاح جائز اور درست ہے۔
فقہاء کی عبارات ملاحظہ فرمائیے:
(۱) وکذا ما یکتب الناس فیما بینہم یجب أن یکون حجۃ للعرف الخ (شامي، کتاب القاضي، باب کتاب القاضي إلی القاضي وغیرہ، زکریا ۸/۱۳۶، کراچي ۵/۴۳۶)
اور ایسے ہی جو تحریر لوگ اپنے مابین لکھتے ہیں وہ لازمی طور پر حجت شرعی ہے، لوگوں کے درمیان متعارف ہونے کی وجہ سے۔
(۲) أجاز أبو یوسف، ومحمد العمل بالخط في الشاہد، والقاضي الراوي آدمي إذا رأی خطہ-والفتویٰ علی قولہما إذا تیقن أنہ خطہ سواء کان في القضاء، أو الروایۃ، أوالشہادۃ -وقولہ و قلما یشتبہ الخط من کل وجہ فإذا تیقن جاز الاعتماد علیہ توسعۃً علی الناس۔ (شامي، کتاب القضاء، باب کتاب القاضي إلی القاضي وغیرہ، زکریا۸/۱۳۸، کراچي۵/۴۳۷، البحرالرائق زکریا ۷/۱۲۱، کوئٹہ ۷/۷۲)
حضرت اما ابویوسفؒ اور امام محمدؒ نے شاہد اور قاضی اور راوی کے متعلق خط پر عمل کرنا جائز قرار دیاہے، جب خط کو دیکھ لے، اورفتویٰ ان دونوں کے قول پر ہے، جب اس بات کا یقین ہوجائے کہ وہ خط اس کا ہے، چاہے یہ خط فیصلہ سے متعلق ہو یاروایت سے یا دستاویز پر شہادت سے متعلق ہو اور کلی طور پر دوسرے کے خط سے بہت کم مشابہ ہوتا ہے؛ لہٰذا جب یقین پیداہوجائے تو لوگوں کے اوپر آسانی کے واسطے اس پر اعتماد بھی جائز ہوسکتا ہے۔(۳) إذا وکلت المرأۃ رجلا أن یزوجہا، أو أجازت ماصنع فأوصیٰ الوکیل إلی رجل أن یزوجہا، ثم مات الوکیل کان للوصي أن یزوجہا۔ (ہندیۃ، زکریا۳/۶۱۰، جدید زکریا ۳/۵۱۷)
جب عورت کسی مرد کو اس بات کا وکیل بنادے کہ وہ مرداس عورت کا نکاح کسی سے کردے یا اس بات کی اجازت دیدے کہ وکالت میں جو چاہے عمل کرے تو وکیل نے کسی دوسرے آدمی کو اس عورت کے نکاح کی وصیت کی، پھر وکیل مرجائے تو وصی کے لئے جائز ہے کہ اس عورت کا نکاح کسی کے ساتھ کردے۔
فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۱۵؍ ربیع الاول۱۴ھ
(فتویٰ نمبر: رجسٹر خاص)
الجواب صحیح:

احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۱۵؍۳ ۳۶؍ ۱۴ھ

ناقل نورالحسن پرتاپ گڑھی
........
آن لائن اسکائپ پر نکاح و طلاق کا کیا حکم ہے؟ کیا بالغہ لڑکی اپنی مرضی سے آن لائن جب کہ ویڈیو کال چل رہی ہو اور گواہ لڑکے کی طرف ہوں۔

ایجاب وقبول کی مجلس چونکہ الگ الگ ہے اس لیے آن لائن اسکائپ پر نکاح درست نہ ہوگا، البتہ طلاق اگر کسی نے دیدی تو وہ واقع ہوجائے گی۔

واللہ تعالیٰ اعلم

http://darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/58458

No comments:

Post a Comment