Monday 16 April 2018

چرس، گانجا، گرد، ہیروئن، تمباکو، سگریٹ وغیرہ کا کیا حکم ہے؟

سوال: چرس، گانجا، گرد، ہیروئن، تمباکو، سگریٹ وغیرہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: چرس، گانجا تو نشیلی چیزوں میں ہے، مگر تمباکو و سگریٹ میں نشہ نہیں ہوتا
اسی لئے عادی کو کچھ نہیں ہوتا، نئے آدمی کو چکر وغیرہ نشے کی وجہ سے نہیں اسکی تیزی کی وجہ سے ہوتا ہے، نشہ ہوتا تو عادی کو بھی ہوتا، اس لیے چرس کے عادی کو نشہ ہوتاہے، شراب کے عادی کو بھی ہوتا ہے،
نشہ والی چیز حرام ہے چاہے چرس ہو، گانجا ہو،
بلا نشہ کی تمباکو وغیرہ مکروہ ہے
واللہ سبحانہ اعلم
........

علاجا افیم کا استعمال ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السلام علیکم ورحمة الله
کیاشہدکیساتھ
افیم (افیون ) ملاکربطورعلاج کھایاجاسکتاہے ؟
محمد انور دائودی اعظمی ۔ایڈیٹر ماہنامہ روشنی اعظم گڑھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
معمولی مقدار کہ جس سے نشہ نہ آئے  دواء کے طور پر استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔نشہ آورمقدار (قدرمسکر ) کی اجازت نہیں ،کہ وہ ناجائز ہے۔

ويحل القليل النافع من البنج وسائر المخدرات للتداوي ونحوه؛ لأن حرمته ليست لعينه، وإنما لضرره .
مغني المحتاج: 187/ 4، حاشية ابن عابدين: 325/ 5، المبسوط: 9/ 24، فتح القدير: 184/ 4.
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
٢\٦\١٤٣٩هجري
.....
بد بو کی وجہ سے گل میں کراہت تنزیہی پیدا ہوگی ۔
یہ نشہ آور بھی نہیں ہے اور مفتر بھی نہیں ہے۔بس کچھ زیادہ مقدار میں لے لینے سے سر چکرا سکتا ہے۔
نشہ آور ہونا وجہ کراہت تحریمی ہے۔
شیرہ انگور جسے پکاکر دو تہائی خشک نہ کردیا گیا ہو کو حنفیہ "خمر " کہتے ہیں۔جس کی قلیل وکثیر ہر مقدار پینا حرام ہے
في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : عن جابر بن عبد اللّٰہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ ما أسکر کثیرہ فقلیلہ حرام ‘‘ ۔ (ص/۵۱۸ ، کتاب الأشربۃ ، باب ما جاء في السکر)
وفیہ أیضاً : عن أم سلمۃ قالت : ’’ نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل مسکر ومفتر ‘‘ ۔
(ص/۵۱۹ ، کتاب الأشربۃ ، باب ما جاء في السکر)
شیرہ انگور کے علاوہ کو حنفیہ حقیقت خمر نہیں سمجھتے ، اس کی قدر مسکر حرام ہے اس سے کم نہیں ۔

فی الدر المختار للحصكفي:
( والحلال منها ) أربعة أنواع :

الأول ( نبيذ التمر والزبيب إن طبخ أدنى طبخة ) يحل شربه [ ص: 453 ] ( وإن اشتد ) وهذا ( إذا شرب ) منه ( بلا لهو وطرب ) فلو شرب للهو فقليله وكثيره حرام ( وما لم يسكر ) فلو شرب ما يغلب على ظنه أنه مسكر فيحرم ، لأن السكر حرام في كل شراب .

( و ) الثاني ( الخليطان ) من الزبيب والتمر إذا طبخ أدنى طبخة ، وإن اشتد يحل بلا لهو .

( و ) الثالث ( نبيذ العسل والتين والبر والشعير والذرة ) يحل سواء ( طبخ أو لا ) بلا لهو وطرب .

( و ) الرابع ( المثلث ) العنبي وإن اشتد ، وهو ما طبخ من ماء العنب حتى يذهب ثلثاه ويبقى ثلثه [ ص: 454 ] إذا قصد به استمراء الطعام والتداوي والتقوي على طاعة الله تعالى ، ولو للهو لا يحل إجماعا حقائق .

وفی حاشية ابن عابدين:
( قوله إن طبخ أدنى طبخة ) وهو أن يطبخ إلى أن ينضج شرنبلالية عن الزيلعي . وقيد به لأن غير المطبوخ منهما حرام

( قوله بلا لهو وطرب )
قال في الدرر . وهذا التقييد غير مختص بهذه الأشربة بل إذا شرب الماء وغيره من المباحات بلهو وطرب على هيئة الفسقة حرام

( قوله فلو شرب ما يغلب على ظنه إلخ ) أي يحرم القدر المسكر منه ، وهو الذي يعلم يقينا أو بغالب الرأي أنه يسكره . فالحرام : هو القدح الأخير الذي يحصل السكر بشربه كما بسطه في النهاية وغيرها

( قوله إذا قصد ) متعلق بيحل مقدارالقيد الخاص بعدم السكر يقيد به أنواع الشراب الأربعة

نبيذ التمر أو الزبيب أو خليطهما مقيد أيضاً بقيد الطبخ أدنى طبخة

المثلث العنبي مقيد أيضاً بالطبخ حتى ذهاب الثلثين (حتى يصبح مثلثاً) وبأن يكون بقصد استمراء الطعام أو التداوي أو التقوي على الطاعة وبألا يزيد عن المقدار الذي يتحقق به هذا القصد۔

تمباکو اور گل وغیرہ کا استعمال مباح ہے۔یہ حقیقت خمر میں داخل نہیں ۔
جو چیز مباح الاستعمال ہو اس کی بیع وشراء بھی جائز ہوگی ۔لہذا تمباکو یا گل وگٹکھا وغیرہ کی بیع مباح ہے۔آمدن بھی حلال ہوگی ۔
(وصح بیع غیر الخمر) أي مفادہ صحۃ بیع الحشیشۃ والأفیون۔ (درمختار، کتاب الأشربۃ، کراچی ۶/ ۴۵۴، زکریا ۱۰/ ۳۵)
وفي الأشباہ في قاعدۃ الإباحۃ أو التوقف - إلی قولہ - فیفہم منہ حکم النبات الذي شاع في زماننا المسمی بالنتن، وفي الشامي: فیہ إشارۃ إلی عدم تسلیم إسکارہ وتفتیرہ وإضرارہ۔ (الدر المختار مع الشامي ۱۰؍۴۴ زکریا)
کفایت المفتی جلد 9 صفحہ 148 ۔)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
.....
بیڑی سگریٹ تمباکو وغیرہ کھانا؟

سوال(۶۴۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بیڑی سگریٹ تمباکو وغیرہ بہت سے علماء کرام بھی پیتے ہیں، اور تمباکو بھی کھاتے ہیں، بہت سے علماء کرام بھی پیتے ہیں، اور جائز بھی بتاتے ہیں، اگر بیڑی وغیرہ پینا جائز ہے توقرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تمباکو بیڑی سگریٹ وغیرہ میں نشہ تو نہیں ہے؛ البتہ اُس کی تیزی کی وجہ سے کبھی کبھی سر چکرانے لگتا ہے، اور چوںکہ یہ ایک بدبو دار اور دوسروں کے لئے اَذیت ناک چیز ہے، اِس لئے شوقیہ طور پر اِس کا استعمال مکروہ ہے، ہاں اگر کوئی شخص کسی بیماری سے علاج کے لئے اسے استعمال کرے تو شرعاً اِس کی گنجائش ہے؛ لیکن مسجد میں جانے پہلے منہ کو اچھی طرح صاف کرلینا ضروری ہے۔ (مستفاد: امداد الفتاویٰ ۴؍۱۱۶، فتاویٰ محمودیہ ۵؍۱۱۲-۱۲۲، فتاویٰ رحیمیہ ۲؍۲۴) 
الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان / الفصل التاسع عشر في التداوي ۶؍۱۱۶ المکتبۃ الغفاریۃ کوئٹہ، ۸؍۸۲ بیروت، وکذا في رد المحتار، کتاب الطہارۃ / مطلب في التداوي بالمحرم ۱؍۲۱۰ کراچی، ۱؍۳۶۰ زکریا، وکذا في خلاصۃ الفتاویٰ، کتاب الکراہیۃ / الفصل الخامس في الأکل ۴؍۳۶۲ رشیدیۃ)
ومن أکل ما یتأذیٰ بہ: أي برائحتہ کثوم وبصل، ویؤخذ منہ أنہ لو تأذی من رائحۃ الدخان المشہور لہ منعہا من شربہ۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب النکاح / قبیل باب الرضاع ۳؍۲۰۸ کراچی، ۴؍۳۸۸ زکریا)
ہٰذا تصریح بإباحۃ الثوم وہو مجمعٌ علیہ، لکن یکرہ لمن أراد حضور المسجد وحضور جمع في غیر المسجد … ویلحق بالثوم کل ما لَہ رائحۃٌ کریہۃٌ من البصل والکراث ونحوہما۔ (إنجاح الحاجۃ علی ہامش ابن ماجۃ، کتاب الأطعمۃ / باب أکل الثوم ۲۴۱، وکذا في شرح النووي علی صحیح مسلم، کتاب المساجد / باب نہی من أکل ثومًا أو بصلاً … عن حضور المسجد ۱؍۲۰۹) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۷؍۷؍۱۴۲۳ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ 
.....
حقہ ، بیڑی، سگریٹ وغیرہ پینا کیسا ہے:

----------------------------------------------
(سوال ۲۷۰ )مجالس الا برارکی تیسویں مجلس میں لکھا ہے کہ حقہ پینا ناجائز اور حرام ہے اور اس کے لئے عقلی ونقلی دلائل پیش کئے گئے ہیں ۔لیکن دور حاضر کا اہل علم طبقہ حقہ نوشی میں مبتلا ہے ۔ کیا اب کوئی صورت جواز کی نکل آئی ہے؟بالتفصیل جواب فرمایئے کہ عام بیماری ہے ۔ بینوا توجروا۔
(الجواب)جس حقہ میں ناپاک یا نشہ آور چیزیں نوش کی جاتی ہیں وہ بالا تفاق حرام ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ، لیکن جس حقہ ، بیڑی سگریٹ وغیرہ تمباکو نوشی کا رواج ہے اس کی حرمت متفق علیہ نہیں ہے۔ اکثر علماء فقہاء کی رائے جواز کی ہے ۔’’شامی‘‘ میں ہے ۔ فیفھم حکم التنباک وھو اباحۃ علی المختار والتوقف وفیہ اشارۃ الی عدم تسلیم اسکارہ وتفتیرہ واضرارہ (ج۵ ص ۴۰۷ کتاب الا شربۃ)
یعنی اصل اشیاء میں اباحت یا توقف ہے اس قانون کے مطابق تمباکو کا حکم سمجھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مختار قول کے مطابق اباحت ہے یا تو قف اور اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہ نشہ آور اور فتور پیدا کر نے والا اورضرر رساں نہیں ہے ۔(شامی)
مگر تمباکو نوشی سے منہ میں بدبو پیدا ہوتی ہے لہذا صحیح ضرورت کے بغیر حقہ نوشی وغیرہ کراہیت سے خالی نہیں ۔ تمباکو بنفسہ مباح ہے ۔ اس میں کراہیت بدبو کی بنا پر عارضی ہے کراہت تحریمی ہو یا تنزیہی ۔ بہر حال قابل ترک ہے ۔ اس کی عادت نہ ہونی چاہئے ۔ اس کی کثرت اسراف اور موجب گناہ ہے۔ جو لوگ ہر وقت کے عادی ہیں ان کا منہ ہمیشہ بدبو دار رہتا ہے جس سے آنحضرتﷺ کو بہت زیادہ نفرت تھی حدیث میں ہے :۔ عن ابی سعید الخدری ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مر علی زراعۃ بصل ھو واصحابہ فنزل ناس منھم فاکلوا منہ ولم یا کل اخرون فرحنا الیہ فدعا الذین لم یاکلوا البصل واخر الا خرون حتی یذھب ریحھا ۔ یعنی حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کرام پیار کے کھیت کے قریب سے گذرے ۔ بعض صحابہ وہاں ٹھہر گئے۔ ان میں سے بعض نے اس میں سے کھایا اور بعض نے نہیں کھایا پھر سب بارگاہ نبوی میں پہنچے تو آنحضرتﷺ نے پیاز نہ کھانے والوں کو قریب بلایا اور پیاز کھانے والوں کو بد بوزائل ہونے تک پیچھے بٹھایا ۔(صحیح مسلم ج۱ ص ۲۰۹باب نہی عن اکل سوم اوبصل الخ )شریعت میں منہ کی صفائی کے متعلق نہایت تاکید اور فضیلت وارد ہے ۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے۔السواک مطھرہ للفم ومرضاۃ للرب یعنی ۔ مسواک۔ منہ کی پاکی کا ذریعہ ہے اور رب ذوالجلال کی خوشنودی کا سبب۔(مشکوٰۃ شریف ص ۴۴ باب السواک)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے کہ آنحضرتﷺ جب باہر سے تشریف لاتے تو اولا مسواک کرتے تھے (مسلم شریف ج۱ ص ۱۲۸)
اکثر تمباکو نوش حضرات منہ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے ۔ جب دیکھے منہ میں بیڑی، سگریٹ ہوتی ہے ۔ مسجد کے دروازہ تک پیتے چلے جاتے ہیں بقیہ حصہ کو پھینک کر مسجد میں داخل ہوتے ہیں ، شاید کوئی مسواک کرتا ہوگا یا منجن استعمال کرتا ہوگا ۔ محض کلی پر اکتفا کر کے نماز شروع کر دیتے ہیں ۔ کہیں ایسوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی نوبت آجاتی ہے نماز پڑھنی دشوار ہوجاتی ہے آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کوئی اس بدبودار درخت (پیاز یا اس کی آل)کو کھائے وہ (منہ صاف کئے) بغیر (توکا نبائی جائے )ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کہ جس چیز سے آدمی کو تکلیف ہوتی ہے فرشتوں کو بھی اس سے تکلیف ہوتی ہے (مسلم شریف ج۱ ص ۲۰۹ ایضاً)
فقہاء کرام تحریر فرماتے ہیں کہ بدبو دار چیز کھانے، پینے کے بعد منہ صاف کئے بغیر مسجدو مدرسۂ عید گاہ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ اور مجلس تعلیم اور وعظ و تبلیغی اجتماعات میں شریک ہونا مکروہ ہے (نووی شرح مسلم ج۱ ص ۲۰۹ ایضاً) مسلمانوں کا کون سا وقت ذکر اﷲ اور ذکر رسول اﷲﷺسے خالی رہتا ہے ۔ قدم قدم پر بسم اﷲ الخ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ درود ودعا،سبحان اﷲ ،الحمد ﷲ، اﷲ اکبر، ماشاء اﷲ، لا حول ولا قوۃ الا باﷲ ، استغفر اﷲ انا اﷲ الخ مصافحہ کے وقت یغفر اﷲ، چھینک پر الحمد ﷲ یر حمکم اﷲ یہدیکم اﷲ وغیرہ وغیرہ ورد زبان رہتا ہے ، لہذا حتی الوسع منہ کی صفائی ضروری ہے ۔ خدائے پاک کے ہزارہا احسانات اور فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے رسول اﷲﷺ کے مقدس و مبارک نام لینے کی ہمیں اجازت دی ہے ۔
-------------------------------------------------

(۶)مفتی عزیز الرحمن صاحب کا دوسر افتویٰ:۔

(الجواب)تمباکو کھانا ، پینا ،سونگھنا مباح ہے مگر غیر اولیٰ جس کا حاصل یہ ہے کہ مکروہ تنزیہی ہے اور تجارت تمبا کو کی درست ہے ۔(فتاویٰ دارالعوم دیو بند ج۷۔۸ص۲۳۶)
---------------------------------------------

(۷) حضرت مفتی شفیع صاحب کا فتویٰ

البتہ اگر بلا ضرورت پیئے تو مکروہ تنزیہی ہے اور ضرورت میں کسی قسم کی کراہت نہیں ۔منہ صاف کرنا بدبو سے ہر حال میں ضروری ہے ۔(فتاویٰ درالعلوم دیو بند (ج۷۔۸ ص۲۹۲)

فتاوی رحیمہ  جلد 10  کا مضمون ہے
 

  

No comments:

Post a Comment