Friday 21 August 2015

نشان وحشتناک

یوروپ میں جاپان کے ساتھی ممالک جرمنی اور اٹلی مسلسل شکست سے دوچار ہو رہے تھے ۔ 27 اپریل کو اتحادی افواج اٹلی کے شہر میلان میں داخل ہوئیں اور وہاں کے فاشسٹ حکمران بینتو میسولینی کو اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ سویزرلینڈ کی جانب راہِ فرار اختیار کر رہا تھا ۔ اُسے اٹلی کی تحریک مزاحمت اٹالین پارٹیزنز کی فورس نے گرفتار کیا اور اگلے روز اٹھائیس اپریل کو پھانسی دیکر اُس کی اور دیگر افراد کی لاشوں کو میلان شہر کے ایک بڑے چوراہے پر نشانِ عبرت بنانے کیلئے لٹکایا ۔ دوسری جانب اتحادی افواج جرمنی میں داخل ہوکر جنگِ برلن لڑ رہی تھیں ۔ ہٹلر کو میسولینی کے انجام کا علم ہوگیا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہو ۔ تاریخ کے اوراق کچھ یوں گواہی دیتے ہیں کہ 30 اپریل 1945 کو ہٹلر نے اپنی محبوبہ ایوا براون کے ساتھ شادی کرنے کے چند گھنٹوں بعد مشترکہ طور پر ایک بنکر میں خودکشی کرلی ۔ مرنے سے پہلے ہٹلر نے کارل ڈونٹز کو جرمنی کا صدر اور جوزف گویبلزکو جرمنی کا چانسلر مقرر کیا ۔ لیکن گویبلزنے یکم مئى کو خودکشی کرلی تھی ۔ دو مئى کو جنگِ برلن ختم ہوئى اور اگلے چند روز میں اٹلی ، ڈنمارک اور ہالینڈ میں موجود جرمن فوجوں نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ اب مختلف محاذوں پر جرمن فوج کے ہتھیار ڈالنے کی خبریں تواتر کے ساتھ آنے لگیں تھیں اور بالاخرآٹھ مئى کو اتحادیوں نے فتح حاصل کرنے کا اعلان کیا ۔ جرمنی اور اٹلی کی شکست کے بعد اب سہ فریقی اتحاد میں صرف جاپان رھ گیا تھا۔ چھبیس جولائى 1945 کو امریکی صدر ٹرومین اور دوسرے اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے پوسٹ ڈیم اعلامیہ جاری کیا ، جس میں جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے بعد پیش کیے جانے والے شرائط کا خاکہ دیا گیا تھا ۔ یہ دراصل جاپان کیلئے ایک الٹیمیٹم تھا ، بصورت دیگر جاپان پر ایک بڑا حملہ کردیا جائے گا ۔ دو دِن بعد جاپانی اخبارات میں یہ خبریں نمایاں تھیں کہ جاپان ایسے مطالبات کو مسترد کرتا ہے ۔ جاپانی وزیراعظم کانتارو سوزوکی نے سہ پہر کو ایک اخباری کانفرنس میں کہا کہ ہم پوسٹ ڈیم کانفرنس کے اعلامیے کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ شہنشاہ ہیروہیتو ، نے بھی اپنے موقِف میں کوئى تبدیلی نہیں کی اور اکتیس جولائى کو اپنے مشیر کوایچی کیدو کے ذریعے واضح کیا کہ ہر قیمت پر جاپان کا دفاع کیا جائے گا ۔ امریکہ دو ماہ قبل ایٹمی حملے کیلئے کیوتو، ہیروشیما، یوکو ہاما اور کوکورا پر ممکنہ ہدف کے طور پر غور کرچکا تھا ۔ فیصلہ یہ تھا کہ ہدف تین میل سے زیادہ قطر کا ہو ، موثر طور پر تباہی مچا سکے اور فوجی مقاصد کا یہ حملہ، اگست سے پہلے نہ کیا جائے ۔ دراصل اِن شہروں پر امریکی فضائیہ کی جانب سے رات کی بمباری ابھی تک نہیں کی گئى تھی کیونکہ اتحادی کمانڈ ، اِن شہروں کا پورا اندازہ لگا کر اس کیلئے مطلوبہ مقدار کے اسلحے کی تیاری کر رہا تھا ، کیونکہ ہیروشیما کے بارے میں باورکیا گیا تھا کہ یہاں جاپانی فوج کا بڑی مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود موجود ہے اور یہ بندرگاہی شہر ایک بڑا صنعتی علاقہ بھی ہے ۔ ساحل سمندر پر ہونے کی وجہ سے ہیروشیما کا ریڈار میں آنا آسان تھا، لہذا یہاں بڑے پیمانے پر بربادی و تباہی مچانے کا امکان موجود تھا۔ یہاں اتنے وسیع پیمانے پر حملے کا منصوبہ تھا کہ اُس کے بعد جاپان پوسٹ ڈیم اعلامیے کے مطابق غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے ۔ اِس حملے کا مقصد یہ بھی تھا کہ جاپان پر نفسیاتی غلبہ پایا جائے اور یہاں پر حملے میں استعمال ہونے والے اسلحے کی اہمیت کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کروایا جائے ۔ گو کہ ٹوکیو کا شاہی محل بھی ہدف بنایا جاسکتا تھا لیکن درد بھرے مناظر یہاں نہیں بلکہ ہیروشیما میں زیادہ بہتر طور پیدا کیے جاسکتے تھے ۔ جنگ عظیم دوئم کے اؤائل میں ہیروشیما میں آبادی 3 لاکھ 81 ہزار تھی لیکن چونکہ یہ فوجی سازوسامان کی پیداوار کا ایک اہم شہر تھا اسلئے جاپانی فوجی نے بڑے پیمانے پر عام شہریوں کا انخلاء کیا اور حملے کے وقت یہاں پر کُل آبادی کا تخمینہ 2 لاکھ 55 ہزار لگایا گیا ہے ۔ امریکہ نے مین ہٹن منصوبے کے تحت جس ایٹم بم پر تحقیق کی تھی اُس میں برطانیہ اور کنیڈا کا اشتراک بھی تھا ۔ اِس منصوبے کے تحت امریکہ، ایٹمی اسلحہ کا تجربہ سولہ جولائى 1945 کو نیو میکسیکو میں ٹرینٹی پرچکا تھا اور اب اِس کے عملی استعمال کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا تھا ۔ یہ 6 اگست کی صبح تھی ، اور ہیروشیما کے عوام چند لمحوں بعد آنے والے دردناک قیامت سے بے خبر اُٹھنے کی تیاری کر رہے تھے ۔ اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ اینکولہ گیے نامی وہ بی ۔ 29 طیارہ جو اُن کیلئے موت کا پیغام لیکر آرہا ہے وہ تینیان جزیرے کے ہوائى اڈے سے اپنی اُڑان بھر چکا ہے ۔ اِس طیارے کی حفاظت کیلئے دو مزید طیارے ہمراہ تھے جنہوں نے جاپانی فضائیہ کے کسی حملے سے بچاؤ کیلئے اقدامات کرنے تھے ۔ طیارہ اپنی مطلوبہ بلندی حاصل کرچکا تھا کیونکہ پائلٹ کرنل پاول تیبتس کیلئے حُکم تھا کہ شکار کے قریب پہنچنے سے پہلے کی بلندی اکتیس ہزار فٹ ہونی چاہیے ۔ سفر کے دوران نیوی کیپٹن ولیم پارسنز اور اُن کے معاون سیکنڈ لیفٹینٹ مورس جیپسن نے ایٹم بم میں مطلوبہ تبدیلیاں کیں اور آخر میں سیفٹی پِن نکال کر اُسے حملے کیلئے مکمل طورپر تیار کرلیا تھا ۔ ہیروشیما تک پہنچتے پہنچتے صبح ہوگئى تھی ۔ یہ پیر کی صبح تھی اور سورج نکل چکا تھا ۔ صبح آٹھ بجے کے قریب ہیروشیما کے ریڈار آپریٹر نے اطلاع دی کہ تین طیاروں پر مشتمل ایک چھوٹا قافلہ شہر کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ چونکہ امریکی فضائى بمباری میں طیاروں کے بڑے بڑے غول اُڑ کر حملہ آور ہوتے تھے اِسلئے چند جہازوں پر کوئى خاص توجہ نہیں دی گئى اور ایمرجنسی ختم کرنے کا سائرن بجایا گیا اور ویسے بھی بمباری رات کو ہوتی تھی اور اب رات کا اندھیرا چھٹ چکا تھا اِسلئے لوگوں نے بے خطر ہوکر معمول کے کام کاج شروع کردینے تھے ۔ لیکن طیارہ اینکولہ گیے اُن کیلئے موت کا فرشتہ بن کر چند لمحوں میں اُنہیں نیست و نابود کر دینے کیلئے تقریباً پہنچ چکا تھا ۔ طیارے پر لدا ہوا نو ہزار سات سو پونڈ وزنی یورینیم سے تیار کردہ لٹل بوائے نامی ایٹمی بم ہیروشیما کیا پوری دُنیا میں تہلکہ مچا دینے کیلئے تیار تھا اور پائلٹ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے پُر عزم تھا ۔ صبح کے 8 بجکر15 منٹ تھے کہ طیارے سے ایٹم بم ، زمین کے رُخ پر چھوڑ دیا گیا اور 43 سیکنڈ بعد انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا ۔ یہ اتنا بڑا دھماکہ تھا کہ فضا میں ساڑھے دو میل بلندی پر اینکولہ گیے بھی ہچکولے کھانے لگا ۔ شہر پر دھواں چھا گیا، کسی کو نہ تو کچھ دکھائى دے رہا تھا اور نہ ہی کچھ سمجھ آرہا تھا ۔ سب کچھ سخت تپیش سے پگھل چکا تھا ۔ نہ تو فضا میں پرندے بچ گئے اور نہ ہی زمین پر انسان و حیوان ۔ جہاں بم گرا وہاں ارد گرد ایک میل کے دائرے میں کوئى عمارت موجود نہ رہی ۔ آگ کے شعلوں کا ایک ایسا جھکڑ چلنے لگا جس نے شاید کسی کو زندہ نہ چھوڑنے کا تہیہ کیا ہوا تھا ۔ آگ نے شہر کا ساڑھے 4 میل تک کا علاقہ اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔ چونکہ سب کچھ ملیامیٹ ہوچکا تھا لہذا ریڈیو اور ٹیلی گرافک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے خود جاپان کے دوسرے علاقوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اُن کے ہم وطن کس حال میں ہیں ۔ نہ باپ رہا نہ بیٹا ، نہ ماں رہی نہ بیٹی ۔ اتنی تباہی مچی کہ کوئى آہ و بکا کرنے والا بھی نہیں تھا ۔ دھماکے اور آگ سے اُڑتی گرد و دھول کو ابھی بیٹھنے میں وقت لگے گا ، کیونکہ دھماکے سے اُٹھنے والے آگ اور دھوئیں کا مرغولہ 45000 فٹ بلندی تک پہنچا تھا اور اِس آگ کے گولے کا قطر 1200 میٹر تھا ۔ آرمی کنٹرول سٹیشن نے ہیروشیما کے بیس سے رابطے کی جدوجہد کی لیکن کوئى کامیابی حاصل نہ ہوئى ۔ فوجی قیادت کی سمجھ سے سب کچھ بالاتر تھا کہ نہ تو کوئى بڑا فضائى حملہ ہوا ہے اور نہ ہی ہیروشیما میں گولہ بارود کا اتنا بڑا ذخیرہ تھا جس سے بڑی تباہی کا امکان ہو ۔ جاپانی فضائیہ کے ایک سٹاف آفیسر کو حُکم دیا گیا کہ وہ طیارہ لیکر سروے کرے اور حقائق معلوم کرکے اطلاع دے ۔ ہیروشیما پر کیا گزری ہے یہ جاننے کیلئے طیارہ تقریباً 100 میل دور فاصلے سے اڑا تھا اور 3 گھنٹوں تک مسلسل پرواز کرتا رہا ، لیکن مخمصے کا شکار یہ طیارہ بغیر کچھ دیکھے واپس لوٹ گیا اور اپنے آقاؤں کو صرف یہ خبر دے سکا کہ وہاں سوائے بادلوں اور دھوئیں کے کچھ نظر نہ آتا ۔ ٹوکیو میں جاپان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ہیروشیما کا ریڈیو سٹیشن خاموش ہوچکا ہے ۔ اُنہوں نے ایک اور ٹیلیفون لائن استعمال کرتے ہوئے رابطہ بحال کرنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ اگرچہ ہیروشیما سے 10 میل دور کے ریلوئے سٹیشنوں سے یہاں تک کی رپورٹیں موصول ہوئیں کہ وہاں ایک بڑے دھماکے کی آواز سُنی گئى ہے تاہم تفصیلات معلوم نہیں تھیں ۔ اِسی طرح ریلوئے کے محمکے نے ریل روڈ ٹیلی گراف کے بند ہونے کی اطلاع دی ۔ وہاں کیا ہوا تھا اِس کا علم اُس وقت ہوا جب امریکی صدر ٹرومین کا تیار شُدہ پیغام ، واشنگٹن ڈی سی کے مقامی وقت کے مطابق 6 اگست دِن گیارہ بجے ریڈیو پر سنائى دینے لگا ۔ دُنیا کو 16 گھنٹے بعد علم ہوا کہ امریکہ ہیروشیما پر حملہ کرچکا ہے ۔ امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ نے جاپانی شہر ہیروشیما پر قطعی طور پر ایک نئے بم ”ایٹم بم“ سے حملہ کیا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق، پہلے دھماکے ، تپیش اور تابکاری سے 70,000 افراد موت کے منہ میں جاچکے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئى اور اگر کینسر اور لمبے عرصے تک بیماری کے بعد مرنے والوں کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد دو لاکھ تک پہنچی ۔ ایٹمی حملے کے آرکائیوز ریکارڈ کے مطابق، 60 فیصد افراد آگ کے شعلوں سے جھلس کر ہلاک ہوئے جبکہ 30 فیصد ملبہ گرنے اور 10 فیصد دیگر وجوہات سے موت کے منہ میں چلے گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ آگ کے شعلوں نے 16 مربع میل تک کا علاقہ اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔ بحرالکاہل کی جنگیں ، فلپائن کی جنگ ، اوکیناوا جنگ ، اتحادیوں کے بے رحمانہ فضائى بمباری اور ہیروشیما پر ایٹمی حملے سے جاپان کے جسم پر کئى گہرے زخم آچکے تھے ۔ ابھی جاپان سنبھل ہی نہیں پایا تھا کہ 9 اگست کو ناگاساکی پر دوسرا اٹیمی حملہ ہوجاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment