Tuesday 25 August 2015

فقہ حنفی پر اعتراضات کیوں؟

ایس اے ساگر
لامذہب بیمارگندی ذہنیت کے حامل عناصر کے اعتراضات اور ان کے جوابات کا سلسلہ امت کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے. ﷲ تعالی نے صراط مستقیم پر چلنے کیلئے ہر زمانہ میں مخلص اہل علم کا انتظام کیا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بعض اوقات اپنی فہم کے ناقص ہونے کی وجہ سے اعتراضات پیدا ہوتے رہے ہیں ۔ اس میں کتاب یا صاحب کتاب کا قصور نہیں ہوتا جب تک کسی فن میں مہارت نہ ہو۔ اس وقت تک اس فن کی غلطی نکالنا اپنی کوتاہ فہمی پر شہادت دینا ہے، پھر جو کسی فن سے دشمنی رکھنے والا ہو اس کی نکالی ہوئی غلطی ذہنی بغض کی عکاس ہوتی ہے ۔ عربی کا اىک شاعر کہتا ہے

عین الرضا عن کل عیب کلیلة

ولکن عین السخط تبدی السماویا

”یعنی رضا مندی کی نظر ہر عیب کے ادراک سے کمزور ہوتی ہے،لیکن ناراضگی کی نظر تمام برائیوں کو ظاہر کر دیتی ہے“

لیکن يہاں معاملہ اس سے بھی بڑھ کر دہے کہ فقہ دشمنی کی وجہ سے نظرخوبیوں کو بھی عیب بنا رہی ہے۔ سوامی دیانند نے قران پاک پر159 اعتراضات کئے تھے۔ مولوی ثناءاﷲ امرتسری فرماتے ہیں:.... ” اس بات کا اظہار کچھ ضروری نہیں کہ سوامی جی کے سوالات عموما غلطی فہمی پر مبنی ہیں اسلئے کہ حق کو قبول کرنے سے ہمیشہ غلط فہمی ہی مانع ہوا کرتی ہے “ (حق پر کاش ص2) نیز فرماتے ہیں کہ :.... ” ہم نے اس جواب میں کسی سماجی مصنف کو مخاطب نہیں کیا، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جس قدر اسلام سے دوری ہوئی ہے وہ صرف سوامی دیانند کی غلطی فہمی سے ہوئی ہے“ (حق پرکاش، ص 3) تو جس طرح قرآن دشمنی اور غلط فہمی نے قرآن پر اعتراضات کی راہ کھول دی ہے اگر فقہ دشمنی فقہ پر اعتراضات کر دے تو کوئی عجیب بات نہیں۔

مسئلہ نمبر1

لاعند وطی بھیمة ۔ یعنی جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے سے نہ غسل لازم آتاہے اور نہ وضو ٹوٹتا ہے جب تک انزال نہ ہو(تحفہ حنفیہ ،ج 1ص425) اس مسئلہ کے ثبوت کےلئے داود ارشد صاحب نے درمختار ص166ج1، بحراالرائق ص59ج1، مظاہر حق ص150ج1، اور حلبی کبیر ص42 کا حوالہ دے کر اس کا حنفیہ کے ہاں متفق علیہ اور مفتیٰ بہ ہونا ظاہر کیا ہے ۔(تحفہ حنفیہ ص426)اور پھر اس کو حیا سوز کہاہے۔(تحفہ حنفیہ ص425) نیز لکھا ہے کہ کیا خوب ہے کہ چار پائے سے بدفعلی کی کس مہذب انداز میں رخصت دی جا رہی ہے۔(تحفہ حنفیہ ص426)

نوٹ:.... دواد ارشد صاحب نے ىہ اور اس کے بعد والے نو مسئلے ذکر کر کے صرف فقہ حنفی سے اظہار بغض نہیں کیا بلکہ مولانا محمد اسماعیل صاحب محمودی حفظہ اﷲ کے اس وعوی کو سچا کر دیا ہے کہ نام نہاد اہل حدیث مدینہ میں لکھی جانے والے کتاب بلکہ باشارہ نبوی لکھی جانے والے تصنیف پر اعتراض کرکے مدینہ بلکہ صاحب مدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت و شرف کے منکر ہوئے ہیں،کیونکہ ان مسائل کے آخر میں فرماتے ہیں....” ثابت ہوا کہ ىہ مدینہ میں بیٹھ کر کوک شاستر لکھی گئی ہے۔ اسلام کی خدمت نہیں کی گئی بلکہ اسلامی تعلیم کو مسخ کرنے کی سعی لا حاصل کی گئی ہے“ (تحفہ حنفیہ ص427ج1)باقی داود ارشد نے جو چند مسائل میں اہل مدینہ سے حنفیوں کا اختلاف نقل کیا ہے وہ بے سود ہے کیونکہ کوئی حنفی فقہ مالکیہ کو کوک شاستر یا اسلامی تعلیم کو مسخ کرنا نہیں کہتا بلکہ ہمارے ہاں تو ان کو اىک یقینی اور دوسرے اجر کا احتمال ہے تو ہمارا ان سے اجتہادی اختلاف ہے ۔غیر مقلدین کا عنادی اختلاف ہے کیونکہ وہ اجتہاد کو کار ابلیس اور تقلید کو شرک کہتے ہیں۔

وضاحت مسئلہ:

مذکورہ بالا مسئلہ غیر مقلدین کا حیا سوز کہنا ىہ اىک بے محل بات ہے کیونکہ نہ ہی صاحب در مختار نے اس کو حیا دار ہونے کا دعوی کیاہے کہ اور نہ کسی اور حنفی نے بلکہ صاحب درمختار نے تو اس کو گناہ کبیرہ قرار دے کر اس کا ارتکاب کرنے والے پر تعزیر کی سزا مقرر کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:.... بل یعزر وتذبح ثم تحرق ویکرہ الانتفاع بھاحیا ومیتا مجتبی وفی النھر الظاہر انہ یطالب ندبا لقولھم تضمن بالقیمة(درمختار ج4ص26) یعنی جانور سے بدکاری کرنے والے پر تعزیر لگا ئی جائے گی۔(نیز ىہ بھی فرماتے ہیں) کہ تعزیر کبھی قتل کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔(ص62 ج4) اور جانور کو ذبح کر کے جلا دیا جائے۔علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کی حکمت ىہ ہے کہ اس جانور کو دىکھ کر لوگ اس برائی کا زبانوں سے تذکرہ بھی نہ کریں۔(شامی ص26ج4)اور اس جانور کے ساتھ زندگی اور موت کی حالت میں نفع حاصل کرنا مکروہ ہے ۔ اور شامی ؒ نے لکھا ہے کہ اگر غیر کے جانور سے ىہ فعل کرے تو مستحب ہے کہ مالک کو اس جانور کی قیمت ادا کرے، پھر اس جانور کو ذبح کر کے جلا دے۔ معلوم ہوا کہ فقہ حنفی تو آدمی اورجانور کیا اس فعل کے ذکر کو بھی برداشت نہیں کرتی۔

نوٹ:....داود صاحب نے برالرائق کا بھی اس مسئلہ میں حوالہ دیا ہے، حالانکہ بحرالرائق میں لکھا ہے کہ طبیعت سلیمہ اس فعل سے نفرت کرتی ہے اور اس برائی پر ابھار نے والی انتہائی بداخلاقی یا مغلوب الشہوت ہونا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ اس فعل کے ارتکاب کرنے والے کو تعزیر اسی دلىل سے لگائی جائے گی جس کو ہم نے (مسئلہ لواطع میں) بیان کر دیا ہے۔ اور جو ىہ بات ذکر کی جاتی ہے کہ جانور کو ذبح کر کے جلا دیا جائے ىہ اس فعل کے تذکرہ کو ختم کرنے کےلئے ہے اور ىہ واجب نہیں۔فقہا نے کہا ہے کہ اگر ماکول اللحم جانور نہ ہوتو اس کو ذبح کر کے جلا دیا جائے اور اگر ماکول اللحم ہو تو اس کو ذبح کر دیا جائے اور امام حکم اس وقت ہے جب جانور بدفعلی کرنے والے کا ہو اور اگر اس کے غیر کا ہوتو قاضی خان میں ہے کہ اس کے مالک کو اختیار ہے کہ ىہ جانور اس برائی کرنےوالے کو قیمتاً دىد ے اور تبیین الحقائق میں ہے کہ اس کے مالک سے مطالبہ کیا جائے گا کہ ىہ جانور قیمت لے کر اس شخص کو دىدے، پھر اس کو ذبح کر دیا جائے۔ فقہا نے اسی طرح ذکر کیا ہے اورایسا حکم سماع سے ہی تعلق رکھتا ہے، اس لئے اس کو سماع پر محمول کیا جائے گا۔ (بحر الرائق ص18ج5) اگر داود صاحب فقہ کی پوری عبارت نقل کر دىتے تو نہ ان کو ىہ کہنے کی گنجائش رہتی کہ فقہ میں حیا سوز مسائل ہیں اور نہ ىہ کہنے کی گنجائش تھی کہ فقہ میں چوپائے سے بدفعلی کی اجازت دی جا رہی ہے۔

مسئلہ نمبر 2

نقص وضو وغسل

باقی وضو یا غسل کے ٹوٹنے کا بے حیائی سے تعلق نہیں۔ دىکھئے پیشاب، پاخانہ، نیند وغیرہ نواقص وضو بے حیائی کے کام نہیں لىکن ان سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر کوئی شخص وضو کر کے ماں باپ کی نافرمانی کرے یا لوگوں کو فحش گالیاں نکالے،مجمع میں ننگا ہو کرنا چنا شروع کر دے، اپنے اساتذہ اور اولیاء اﷲ کی توہین کرے تو ىہ سب بے حیائی اوربرائی کے کام ہیں لیکن ان سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ غیر مقلدین میں سے کیسی نے ان کو ناقص نہیں لکھا اور نہ قران وسنت سے ان کا ناقص ہونا ثابت کر سکتے ہیں تو اس کا مفہوم یہی ہو گا کہ غیر مقلدین نے ان برائیوں کا دروازہ کھول رکھا ہے یا ان کے مسائل حیا سوز ہیں۔اسی طرح وجوب غسل کا تعلق غسل کو توڑنے والی چیزوں کے ساتھ ہے۔ حیا وعدم حیاءکے ساتھ اس کا تعلق نہیں۔مثلاً بیوی سے ہمبستری ،حیض، نفاس ےہ کوئی گناہ اور بے حیائی کی چیز نہیں ہیں اور ان سے غسل واجب ہو جاتا ہے مگر کسی کو ناحق قتل کرنا، چوری کرنا، ڈاکہ ڈالنا، شراب پینا، سودلینا، سود ینا اور رشوت لینا یقینا گناہ کبیرہ ہیں،مگر ان سے غسل واجب ہونا کسی کا قول نہیں تو کوئی آدمی ىہ شور مچائے کہ دىکھو ان گناہوں کا ىہ دروازہ کھولنا ہے، ىہ غلط بات ہے۔

مسلک غیر مقلدین

غیرمقلدین کا ىہ عام نعرہ ہوتا ہے کہ اہل حدیث کے دو اصول” اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول“ ابویحییٰ خان نوشہروی بھی فرماتے ہیں ۔

اصل دیں آمد کلام اﷲ معظم داشتن

پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن

”یعنی اصل دین کلام اﷲ کو معظم رکھنا،پھر حدیث مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو جان پر مسلم رکھنا ہے “

(نقوش ابوالوفاءص34)

نیز مولوی صادق صاحب سیالکوٹی فرماتے ہیں:.... ”مسئلہ اور فتوی صرف وہی قابل عمل ہے جو قران وحدیث کے ساتھ مدلل ہو“ (صلوة الرسول ص46) بلکہ خود داود ارشد صاحب فرماتے ہیں:.... ” ىہ بات یا رکھىے کہ ہمارے نزدىک احکام شرعیہ میں قران وحدیث ہی کافی ہے“ (تحفہ حنفیہ ص168) اپنے اس مسلمہ اصول کے مطابق کوئی غیر مقلد قران پاک یا حدیث مرفوع سے یہ ثابت کر دے کہ ”وطی بہیمہ بلا انزال“ سے وضو یا غسل واجب ہوجاتا ہے اور اس کے معارض بھی کوئی حدیث نہ ہو توتم مان جائیں گے کہ ىہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے مگر ایسی کوئی روایت غیر مقلدین پیش نہیں کر سکتے جس میں جانور کی صراحت ہو۔ اىک غیر مقلد کہنے لگا کہ بخاری اور مسلم کے حوالہ سے محمد جونا گڑھی نے لکھا ہے کہ حدیث میں وان لم ینزل آیا ہے ۔ میں نے کہا کہ بخاری کی طرف اس روایت کی نسبت غلط ہے۔ مسلم میں ىہ روایت موجود ہے مگر اس میں اور بخاری میں غسل نہ واجب ہونے کی روایات بھی ہیں اور امام بخاری کا مسلک بھی عدم وجوب غسل ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں والغسل احوط یعنی غسل احتیاطی چیز ہے نہ کہ وجوبی۔(بخاری ص43) علامہ وحید الرمان فرماتے ہیں ىہاں اىک اور مذہب ہے جس کی طرف صحابہ کرام کا اىک گروہ گیا ہے اور اس کو ہمارے بعض اصحاب نے پسند کیا ہے‘جیسے امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ وہ ىہ ہے کہ غسل صرف دخول سے واجب نہیں ہوتا جب تک کہ انزال نہ ہو۔ انما الماءمن الماءکی حدیث پر عمل کرتے ہوئے۔(نزل الابرار ص23ج2)

نوٹ:

و ان لم والی روایت عورت سے ہمبستری کے متعلق ہے‘جانور کا وہاں کوئی ذکر نہیں‘ جانور کوعورت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے اور قیاس تو بہر حال غیر مقلدین کے ہاں کار ابلیس ہے ا سلئے اس قیاس سے شیطان کا تمغہ ملنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ وحید الزمان غیر مقلد لکھتاہے اور اسی طرح (غسل واجب نہیں ہوتا)جبکہ جانور کی فرج میں یا آدمی یا جانور کی دبر میں ادخال کرے۔(نزل الابرار من فقہ النبی المختار ص23ج1)

فائدہ:

داﺅدارشد نے بحر الرائق کی اس عبارت میں تسلیم بھی کر لیا ہے کہ حنفی مسئلہ کی بنیاد حدیث پر ہے۔ چنانچہ داود ارشد نقل کرتے ہیں۔ فقال علماءنا ان الموجب للغسل ہو انزال المنی کما افادہ الحدیث الاول۔ یعنی ہمارے علماءفرماتے ہیں کہ غسل اس وقت فرض ہوتا ہے جب منی خارج ہو(بدوں انزال کے غسل واجب نہیں ہوتا)جیسا کہ پہلی حدیث کا مفاد ہے۔(بحرالرائق ص 59ج 1‘تحفہ حنیفہ ص425) جب ىہ مسئلہ حدیث سے ثابت ہے تو مذکورہ بالا سارا اعتراض حدیث پر ہوگا جو منکرین حدیث کاشیوہ ہے نہ کہ اہل حدیث کا۔

مسئلہ نمبر2

مدینہ سے اظہار نفرت کےلئے دوسرا مسئلہ داود ارشد نے در مختار سے ہے نقل کیا ہے۔ وافاد کلامہ طہارة جلد کلب وفیل وھو المعتمد۔ یعنی صاحب تنویر کے کلام کا مفاد یہ ہے کہ ہاتھی اور کتے کا کھال پاک ہے‘اس کی شرح میں ابن عابدین فرماتے ہیں کہ اس وجہ سے کہ کتانجس العین نہیں‘ تصحیح کے لحاظ سے یہی اصح ہے۔(درالمختار ص204 ج1) اس پر تبصرہ کرتے ہوئے داود ارشد لکھتے ہیں مطلع صاف ہے کہ اگر جھنگوی صاحب کتے کی کھال کی جیکٹ بنوائیں یا ٹوپی ڈول یا جائے نماز یا دستر خوان یا اپنی کتب پر جلدیں بندھوائیں سب جا ئز ہے بلکہ اگر اس کھال کا مصلیٰ بھی بنا لیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔( تحفہ حنفیہ ص426)

جواب:

اس حوالہ سے صرف مدینہ کی تصنیف سے اظہار بغض کیا ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث ذکر نہیں کی جبکہ شامی نے اسی حاشیہ میں بیہقی کے حوالے سے ہاتھی کے بارے میں ىہ حدیث ذکر کی تھی کہ انہ صلی اﷲ علیہ وسلم کان یمتشط بمشط من عاج کہ نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ہاتھی کے دانت سے بنی ہوئی گنگھی سے بالوں میں کنگھی کرتے تھے اور علامہ جوہری وغیرہ نے عاج کی تفسیر ہاتھی کی ہڈی کے ساتھ کی ہے۔ مسلم شریف میں حضرت عبداﷲ بن عیاش سے روایت ہے :.... قال سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول اذ ا دبع الاھاب فقد طہر۔ (مسلم ص159)

فائدہ:

اس روایت میں مطلق چمڑے کے دباغت سے پاک ہونے کا ذکر ہے۔ امام صاحب رحمتہ اﷲ علیہ نے خنزیر کے چمڑے کو فانہ رجس کی وجہ سے نجس العین ہونے کی بنا پر انسان کے چمڑے کو احترام کی وجہ سے مستثنیٰ کیا۔امام نووی رحمتہ اﷲ علیہ اس مسئلہ کو اجتہادی قرار دے کر سات مذاہب نقل کرکے فرماتے ہیں کہ ان مذاہب والوں سے ہر گروہ نے احادیث وغیرہ سے استدال کیا ہے۔معلوم ہوا امام مسلم رحمتہ اﷲ علیہ متوفی 672 کے زمانہ تک اس مسئلہ کو حدیث کے مخالف نہیں کہا جاتا تھا بلکہ مبنی برحدیث قراد دیا جاتا تھا۔ آج کل غیر مقلدین نے اس پر اعتراضات شروع کےے ہیں جبکہ پرانے غیر مقلدین نے بھی اس کو نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی فقہ قرار دیا تھا ۔ علام وحید الزمان غیر مقلد فرماتے ہیں جس چمڑے کو بھی دباغت دی جائے وہ پاک ہو جاتا ہے۔ہمارے بعض اصحاب نے خنزیر اور آدمی کے چمڑے کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اور صحیح عدم استثناءہے۔(نزل الابرار ص29) نیز فرماتے ہیں کہ مچھلی کا خون پاک ہے،اسی طرح کتا اور اس کالعاب ہمارے محققین اصحاب کے نزدیک۔(نرل الابرار ص30) نیز فرماتے ہیں کہ اس چمڑے کا جائے نماز اور ڈول بنا لیا جائے گا اور اگر وہ پانی میں گر گیا اور پانی میں تغیر پیدا نہ ہو تو پانی ناپاک نہیں اگرچہ کتے کا منہ پانی کو پہنچ جائے۔ اسی طرح کپڑا کتے کی چھینٹوں سے ناپاک نہی ہوگا اور نہ ہی اس کے کاٹنے سے ناپاک ہوگا اور نہ ہی جوڑ ناپاک ہوگا،اگرچہ اس کو اس کا لعاب بھی لگ جائے اور اس کو اٹھا کر نماز پڑھنے والے کی نماز فاسد نہ ہوگی۔(نرل الابرار ص30ج1)

نوٹ:

جب ىہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی فقہ ہے تو مولانا جھنگوی پر کسے ہوئے تمام الفاظ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچیں گے۔

فائدہ:

بعض غیرمقلدین ابو داود شریف کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے درندوں کی چمڑی کو پہنے اور ان پر سوار ہونے سے روکا ہے ۔(ابو داود ص570ج2)

جواب:

یہ حدیث اپنے ظاہر کے اعتبار سے بالاتفاق متروک ہے کیونکہ صحاح ستہ کہ روای امام زہری ؒتمام مرداروں کی چمڑیوں سے بغیر دباغت کے بھی نفع حاصل کرنے کو جائز قرار دىتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ دباغت کے بعد خنزیر کے علاوہ باقی تمام درندوں کی چمڑیوں کو پاک قرار دىتے ہیں.
جاری...

No comments:

Post a Comment