Tuesday 25 August 2015

اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت!

مشرق وسطی میں امن کے دشمن صرف یہودی ھیں؛ جی ہاں بڑا اچھا نعرہ ہے اپنی تمام کوتاہیوں، خامیوں، غلطیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹہرا دینا۔ ویسے بھی ہم خیر امت ھیں لہذا ھم غلط کام کر بھی کیسے سکتے ھیں البتہ اگر کہیں کچھ چوک ھوئی تو اس کے ذمہ دار یا تو شیطان غیر مرئی یعنی ابلیس اور اس کے چیلے ہوتے ھیں یا پھر شیطان مرئی یعنی اسرائیل اور اس کے کارندے۔ ما شاء اللہ بہت خوب۰۰۰
اس سادگی پہ کون نہ مر جا ئے اے خدا
ھمارے دامن پہ خون کا ایک دھبہ بہی نہیں ھے
نہ ھم نے مانعین زکوہ کا قتل کیا نہ ھم نے خلیفہ ثالث کا قتل کیا نہ ھم نے جمل وصفین کے نام پر ھونے والی جنگوں میں پچاسوں ھزار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا قتل کیا نہ ھم نے میدان کربلا میں نواسہ رسول اور اس کے کنبہ کو قتل کیا نہ ھم نے حجاج یوسف بن کر کعبہ ڈھایا  اور جلیل القدر صحابی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کرکے خانہ کعبہ کی دیواروں سے لٹکایا نہ ھم مدینہ منورہ کو ھر طرح کے جرائم ( بالخصوص قتل وغارت گری اور زنا بالجبر) کے لئے تین دن تک مباح کیا نہ ھم نے سفاک بن قتل وغارت گری کے بازا گرم کئے اور چن چن کر امویوں کا خاتمہ کیا۔ ہاں عباسی خلافت میں موالیوں کا عمل دخل اور پھر ان کے سفاکی کے قصے چھوٹے ھیں نیز خلفاء عباسیہ کا یکے بعد دیگرے بہیمانہ قتل، خلافت عثمانیہ میں خلیفہ کا اپنے بھائیوں کو قتل کرادینے کا دستور، مغلیہ سلطنت کے سفاکانہ جرائم، اورنگزیب کا اپنے بھائیوں کا وحشتناک قتل اور خلجی خاندان کی وحشیانہ تباہی، احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ درانی کو دلی کا تباہ کرنا اور محمود غزنوی کی لوٹ مار نیز ھندوستان کی آٹھ سو سالہ مسلم حکومت کو انگریزوں کے حوالے کردینا، مشرق وسطی کے مسلم ممالک نجد وحجاز مصر وشام اردن یمن سوڈان وغیرہ کو انگیزوں کی جھولی میں ڈال دینا، مسلم رہی سہی خلافت خلافت عثمانیہ کو قومیت عربیہ کے نام پر توڑ دینا، شریف مکہ بن کر انگریزوں کے آلہ کار کی حیثیت سے کام کرنا، توحید کے نام پر نجد وحجاز ميں عثمانی خلافت کے زیر اثر ھزاروں لوگوں کا قتل، ایران وعراق کی جنگ میں لاکھوں انسانوں کا قتل، جنگ خلیج اور سقوط بغداد کے بعد سے عراق میں دسیوں لاکھ انسانوں کا قتل، رییع عربی ( بلکہ خریف یا سموم عربی) کے بعد سے سوریہ یمن لیبیا مصر اور تیونس میں لاکھوں بے قصور انسانوں کا قتل، افغانستان اور پاکستان میں لاکھوں بے گناھوں کا قتل یہاں تک مساجد ومدارس میں بم دھماکے، سعودیہ کی مقدس سرزمیں کی مقدس مساجد میں عین حالت نماز میں بم دھماکے، آی اس آی اس کے نام سے گھناونا اور ناپاک کھیلا جانے والا خونی کھیل غرضیکہ اس کے علاوہ ھماری سیاہ تاریخ کے تمام کالے کارناموں میں یہوددیوں کا ہاتھ تھا اور آج جو کچھ ھمارے یہاں سیاہ سفید ھو رہا ہے سب میں اسرائیل کا ھی ھاتھ ھے۔ ھم تو مجبور محض ھیں ھم کر بھی کیا سکتے ھیں۔
ناحق ھم مجبوروں پر تہمت ھے یہ خونخواری کی
سب کچھ اسرائیل کرے ھے ھم کو عبث بدنام کیا
ھمارے خلاف سازشیں ھوئیں
بڑی عجیب بات ھے کہ ھم ھمیشہ اپنی سادہ لوحی کا ثبوت دیتے ھوئے اپنی تبریر کا راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ھیں اور اس میں سب سے آسان اور سیدھا راستہ یہ کہ کر اپنا دامن جھاڑ لینا ھوتا ھیکہ ھمارے خلاف شازشیں ھوئیں۔
بھلا اس میں کون سی جدت ومنطقیت یا عظیم دریافت پنہاں ھے۔ یہاں تو ہر ایک دوسرے کے خلاف شازس کرتا ھے۔ روز اوّل ھی سے دنیا میں معرکہ تنافس وسباق جاری ھے اور سبقت لے جانے والا فاتح بننے کیلئے مثبت ومنفی دونوں راستے اپناتا ھے۔
مثبت تو یہ ھیکہ اپنی تمام تر داخلی وخارجی کمزوریوں کو دور کرکے اپنے کو مضبوط ومستحکم اور ہر طرح سے طاقتور اور اس دنیا کیلئے نہ صرف صالح بلکہ اپنے کو اصلح وانفع (اسلئے کہ البقاء للانفع کا فلسفہ اس دنیا کا فطری قانون ھے) بنانے کی کوشش کرتا ھے۔ اس فلسفہ کو ایک بہت چھوٹی سی مثال سے سمجھا جا سکتا ھے مثلاً مواصلاتی دنیا میں آج کی نیو جنریشن ڈش ایل ای ڈی ٹی وی اسمارٹ موبائلس لیپ ٹاپس ٹیبلٹس وغیرہ نے اولڈ جنریشن کا خاتمہ کردیا اب انھی آلات کے وہ تمام اولڈ جنریشن ڈوائس جو کبھی دوکان ومکان کی زینت ھوا کرتے تھےاب کوڑے دان کے نذر کئے جارھے ھیں۔ کسی زمانہ میں موبائل کا مطلب نوکیا اور صرف نوکیا تھا لیکن آج ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے مائیکروسافٹ کے ہاتھوں پوری کمپنی بکنے پر مجبور ھوگئ۔ اس کے علاوہ بیشمار مثالیں ھیں اس لئے کہ یہی اس دنیاوی زندگی کا فلسفہ ھے۔
مثبت کے ساتھ منفی وسائل بھی ھر متنافس ایک دوسرے کے خلاف اختیار کرتا ھے جس کو ھم شازش کا نام دے سکتےھیں اس لئے کہ ھر ایک فریق اپنے حریف کو زیر کرنے اسے کمتر دکھانے اور اس کو کمزور کرنے کیلئے تمام جائز وناجائز وسائل اپناتا ھے جو عین فطری ھے۔ کبھی وہ حریف کو غافل سمجھ کر اسے برباد کرنے کی کوشش کریگا اور کبھی اس کو ان تمام وسائل سے محروم کرنے اور اس تک اس کی رسائی کا راستہ کاٹنے اور اس پر قدغن لگانے کی کوشش کریگا- اس کے تمام نمونے روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں ملتے ھیں۔ نیز ایٹمی توانائی پر چند دبنگوں کی اجارہ داری اور دوسروں کو پوری شدت سے اس ٹکنالوجی وتوانائ سے محروم رکھنے کی کوشش بھی اس کی ایک دوسری مثال ھے۔
اب یہ بات واضح ھوگئ کہ اپنے حریفوں کے خلاف شازش ایک فطری عمل ھے لہذا اس کا شکوہ کوئ سادہ لوح اور کم عقل انسان ھی  چیلنجز کا مقابلہ نہ کرنے اور اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کیلئے کرے گا جب کہ زندہ اور شاطر قومیں تو شازشوں کا مقابلہ کرتے ھوئے نہ صرف اپنا وجود ثابت کرتی ھیں بلکہ زمام قیادت وجہانبانی بھی سنبھالتی ھیں۔
جاپان ایٹمی راکھ کے ڈھیر سے نکلتا ھے، جرمنی ٹوٹ پھوٹ اور احساس شکست خوردگی کو بالائے طاق رکھتے ھوئے دیوار برلن گراگر آپسی تقسیم کو ختم کرتے اور وحدت باھمی کا ثبوت دیتے ھوے صنعتی انقلاب اور عالمی قیادت کے میدان میں اپنی جگہ بناتا ھے، فرانس اپنے فرسودہ نظام میں انقلاب لاکر پوری دنیا کی سوچ اور زاویہ فکر بدل دیتا ھے، امریکہ عدل وانصاف اور مساوات کا نیا نظام بناکر اپنی ھولناک خانہ جنگی اور باھمی خونریزی سے اوپر اٹھ کر علم وتحقیق کے نت نئے تجربات واکتشافات اور سائنس وٹکنالوجی اور دنیا کی تعمیر وترقی میں لگ کر علمی قیادت سنبھالتا ھے۔ اور ھم ھیں کہ اپنے خلاف شازش کا رونا رو رھے ھیں۔ اور چاہتے ھیں سونے کی طشتری میں تھال سجاکر کوئی ھمارے سامنے لے آے اور پھر کوئ لقمہ بناکر منہ میں ڈال دے۔ جس کی عکاسی یہ شعر پوری طرح کرتا ھے۔
دع المكارم لا ترحل لبغيتها
واقعد فإنك انت الطاعم الكاسي
کیا ھماری قوم میں ایسے عیاش وتن آساں حکمرانوں اور جاگیر داروں کی لمبی فہرست نہیں جن کو جوتا پہناتےتک کیلئے حرم سرا میں کنیزیں رھتی تھیں اور انگریزوں کے حملہ میں اس لئے نہیں بھاگ سکے کہ کوئ انھیں جوتا پہنانے والا نہیں تھا۔ شاید آج کے لوگوں کو دنیا کا یہ آٹھواں عجوبہ لگے مگر یہ ھماری روشن وتابناک تاریخ کا انتہائ شرمناک باب ھے۔ پھر بھی آج ھم اس عظیم بحث وتحقیق اور انوکھی کھوج پر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہے ھیں کہ آج ھم نے اپنے زوال کا سبب معلوم کر لیا اور وہ یہ کہ ھمارے خلاف شازشیں ھوئیں۔
حماقت کے آگے جہاں اور بھی ھیں
سفاھت کے آگے مکاں اور بھی ھیں
اگر پا لیا اپنا سر نحوست
عیاں گر ھوا تجھ پہ راز مذلت
قناعت نہ کر صرف شازش کو پاکر
کہ ذلت کے تیرے نشاں اور بھی ھیں
ھم میں اور ترقی یافتہ قوموں میں فرق یہ ھیکہ ھم اپنے ماضی کی تمجید کرتے ھیں اپنی غلطیوں کو تسامح کہتے ھیں اپنی بدکاریوں کو چھپاتے ھیں اپنی گندیوں کی بدبو پر عود وصندل کا لیپ لگاتے اور مشق وعنبر وعطر گلاب کا چھڑکاؤ کرتے ھیں۔ اپنی تاریخی غلطیوں کو غلط سمجھتے ھوے بھی منافقانہ موقف اپناتے ھوئے چھوٹی تاویلیں کرتے ھیں، ضد و ہٹ دھرمی اور اپنے خلاف سچائ کو نہ ماننا ھمارا شیوہ ھے، بزرگوں کی اندھی تقلید اور آبا واجداد نیز شیخ پرستی ھمارا مذھب ھے۔اور (ھم چوں من دیگرے نیست ) ھمارا نعرہ ھے۔ھم اپنی جھوٹی اور خود گھڑھی ہوئ بزرگوں کی فرسودہ حکایات پر سر دھنتے اور رقص کرتے ھیں، اور ایک ایسی مسمرائز موھوم وخیالی حسین دنیا میں جیتے ھیں جس کا حقیقت سے کوئ واسطہ نہیں۔ بقول علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ علیہ ھمارا حال یہ ھیکہ:
نہیں رہنے کو یاں گھر تک مگر چرچے یہ رہتے ھیں
کہ ابتک قصر حمراء قبلہ گاہ رہ نورداں ھے
ھیں خود ان پڑھ مگر اس زعم میں اترائے پھرتے ھیں
کہ دنیا میں ھمیں سے زندہ ابتک نام یوناں ھے
مزے لیتے ھیں ھنس ھنس کر کسی سے جب یہ سنتے ھیں
کہ دنیا دولت عباس کی ابتک ثنا خواں ھے
جب کہ انہوں نےاپنی مذھبی و فکری سیاسی و تاریخی غرضیکہ ماضی میں ھونے یا کی جانے والی تمام غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا ھے اور اس سے سبق سیکھا ھے، اور اپنے کو حالات اور زمانہ کے اعتبار ھم آھنگ کیا ھے۔ اپنےکو بدلا ھے اس لئے کہ تغیر و انقلاب اور تشکیل آئین نو ھی کا دوسرا نام زندگی ھے جبکہ جمود اور طرز کہن قوموں کی موت ھے۔
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمالِ صِدق و مروّت  ہے  زندگی  ان  کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
انھوں نے اپنے خلاف کبھی کسی شازش کی شکایت کئے بغیر سمندر کی لہروں کو چیرا آفتاب کی شعاؤں کو گرفتار کیا چاند پر کمندیں ڈالیں اور تسخیر جہاں و تسخیر کائنات کے عمل میں ایسے تن دھی اور انہماک سے لگے کہ پوری دنیا اور تمام انسانیت کو نئ جہت دیتے ھوے اس کا رخ موڑ دیا اور آج بھی زبان حال سے دنیا کو یہ پیغام دیرھے ھیں کہ:
یہ کائنات ابھی ناتمام ھے شاید
کہ آرھی ھے دمادم صدائے کن فیکون

پورپ وامریکہ نے نہ صرف اپنے آپ کو کلیسا کی گرفت سے آزاد کیا بلکہ ان تمام توھمات اور مفروضات اور کلیسائ مراسم سے بھی آزادی حاصل کی جو ان کی ترقی کی راہ میں روڑے بن رہے تھے لیکن آج بھی ھماری قوم میں انفس وآفاق میں تصرف اور تسخیر کائنات کا عمل پیروں وفقیروں اور دمادم مست قلندر والے جوگیوں نیز بوریا نشین درویشوں کا ھی عمل ھے۔ ھواؤں پر ان کی حکومت ھوتی ھے اور بادلوں پر انھیں کا راج ھوتا ھے اور اسی طرح وہ کائنات میں پورا تصرف کرتے ھیں۔
( از افادات : شاہ ولی اللہ دھلوی ومجدد الف ثانی)
ھمارے قائدین اور رول ماڈل مسلم پادری اور خانقاھوں کے مسٹنڈے پیر پگاڑا ھیں یا بھوکے ننگے قلاش جاھل مگر فل مذھبی میک اپ اور کاسٹیوم سے سجا دھجا فریبی بہروپیہ خطیب شعلہ بار۔ چونکہ  قوم آخر کار انھیں کو پونجتی ھے اور انھی کی سنتی جبکہ:
آن کس کہ خود گم است کرا رہبری کند۔
مذھبی قیادت کا حال ایں چہ بو العجبی است سے کم نہیں۔ بقول علامہ اقبال مرحوم:
زمن بر صوفی وملا سلامے
کہ پیغام خدا دادند مارا
ولے تاویل شاں در حیرت انداز
خدا وجبرئیل ومصطفی را
باتوں میں بات نکلتی چلی گئ اور بات کچھ لمبی ھوگئ بہرحال میں نے اس قوم کا مزاج یہی سمجھا ھے چونکہ میں خود بھی اس کا ایک فرد ھوں۔ ھو سکتا ھیکہ میرا تجزیہ حقیقت پر مبنی ناھو اور یہ صرف میری ذھنی کوفت اور دماغی اپچ کا نتیجہ ھو لیکن میں نے جس آیئنہ میں دیکھا ھے وھی آئنہ دکھانے کی کوشش کی ھے۔ یہ اور بات ھیکہ:
گو کہ چہرے پہ لئے بیٹھے ھیں لاکھوں دھبے
آیئنہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے۔
آخری بات یہ ھیکہ ھمیں اپنے شازش والے خول سے نکل کر اس مبدأ پر ایمان رکھنا ھوگا کہ دو دو چار کی طرح اس دنیا میں ترقی کے راستے، اس کے پیمانے اور اس کے وسائل سب کیلئے ایک ھی ھیں۔ ریاضی اور فزکس کے فارمولے قوموں کے اعتبار سے نہیں بدلتے۔ اگر آپ کو سفر کرنا ھے اور منزل مقصود تک پہنچنا ھے تو ( انھیں راستوں پہ چل کر اگر چل سکو تو آو) کے مصداق وھی ٹرین اور وہی بوئنگ، جٹ یا ایربس میں سوار ھونا پڑیگا جس میں دوسرے سوار ھیں آپ کی سواری کیلئے ھواؤں کے دوش پر ( غدوها شهر ورواحها شهر ) بن کر نہ کوئی تخت سلیمان اترے گا اور ناھی آپ کا گھر تعمیر کرنے کیلئے ھیکل سلیمانی کے معمار جنات آئيں گے لہذا آپ کو اپنی سحر انگیز طلسم ھوشربا افسانوی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آنا ھوگا اور سب کچھ خود آپ ھی کو کرنا پڑےگا اس لئے کہ ( تلك أمة قد خلت لها ما كسبت ولكم ما كسبتم ) یہاں صرف اور صرف کسب ھی کسب اور محنت ھی کا کام ھے ( جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ھے) جو محنت کرے گا وہ پائیگا اور جو سستی وکاھلی اور غفلت میں رھے گا وہ محروم رہ جائیگا۔ اور شاید یہی حقیقی اسلامی فلسفہ بھی کہ ( ليس للإنسان الا ما سعى وأما سعيه سوف يرى / ان الله لا يضيع عمل عامل منكم من ذكر وأنثى / قل اعملوا فسيرى الله عملكم/ ان الله لا يضيع اجر من أحسن عملا) سے ھمیں یہی سبق ملتا ھے۔
اسلام نے ھمیں ھر جگہ طاقتور بننے کا حکم دیا ھے اور اس پر ابھارا ھے ( واعدوا لهم ما استطعتم من قوة / المؤمن القوى خير من المؤمن الضعيف ) اور صرف معمولی طاقت ھی نہیں بلکہ ایسی عظیم طاقت جس سے ھر زمانہ میں دوسری قومیں ان سے تھرائیں( ترھبون به عدوكم وعدو الله) اور عالمی قیادت اور نظام جہانبانی انھیں کے ھاتھوں میں ھو۔ یعنی اقتصادی عسک
ری سیاسی تعلیمی غرضیکہ ھر طرح کی قوت حاصل کرنا اور اس میں تفوق وبرتری اور شان امتیاز پیدا کرنا ھمارا فرض منصبی ھے۔ اور چونکہ تعلیم تمام ترین ترقی اور طاقت کے حصول کی شاہ کلید ھے اس لئے اسلام نے حصول علم پر سب سے زیادہ زور دیاھے۔
مگر شاید ھم اپنی ذمہ داریوں سے غافل ھوکر اپنا فرض منصبی بھلا چکے ھیں اور ھم نے اپنے قافلہ وجود کو غلط راستے پر ڈال دیا ھے جس کو ھمیں بدلنے کی ضرورت ھے۔ لھذا اس درمندانہ پیغام کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ھوں کہ:
غلط روی سے منازل کا بعد بڑھتا ھے
مسافرو ! روش کارواں بدل ڈالو
جگا جگا کے تمھیں تھک چکے ھیں ھنگامے
نشاط لذت خواب گراں بدل ڈالو
سفینہ جاکے کنارے پہ لگ تو سکتا ھے
ہوا کی رخ پہ چلو بادباں بدل ڈالو
دنیا کی تمام قوموں میں اچھے اور  برے لوگ ہمیشہ سے پائے جاتے رہے ہیں. اور تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہے. جو مثالیں اوپر دی گئی ہیں وہ ہماری سنہری تاریخ میں کچرے کے ڈھیر یا ڈسٹ بن سے زیادہ  حیثیت نہیں رکھتیں. جی ہاں!  یہ لوگ بھی ہماری ہی تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہیں. اس اعتراف کے ساتھ یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ ہمارے خلاف سازشیں ہوئی ہیں اور ہوتی رہینگی.        بے شک ! ہمارے اندر غداران- قوم کی کمی نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہم انتشار اور بےراہ روی کا شکار ہیں. لیڈران بہت ہیں اور قیادت کے لائق ایک بھی نہیں.

اگر لیڈر نہیں تو اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپنے قوم کی نکیل کسی بھی ایرے غیرے کے ہاتھ تھما دی جائے. تاریخ سے ہمیں  صرف عبرت اور سبق لینا ہوگا اور مستقبل کی تعمیر کے لئے لائحۂ عمل تیار کرنا ہوگا. ترقی یافتہ قوموں کے تجربات سے ایک عاقبت اندیش مرد- مومن کی طرح، فائدہ اٹھانا ہوگا اور انسانیت کے لئے مفید تر بننا ہوگا. اپنی حیثیت خود بنانی پڑے گی اور اس کے بعد پھر کوئی وجہ نہیں کہ تاریخ آپ کو بھلا سکے. یہی سنة الله هے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں.

ترسم نہ رسی بکعبہ ائے اعربی!
ایں رہ کہ می روی بترکستان است
سارے اختلافی مسائل اور بھیڑ کا چھتہ
مولانا بلاشبہ آپ انتہائ محترم اور معزز ندوی فاضل ھیں اور آپ کی رائے یا تبصرہ ھمارے لئے مشعل راہ ھی نہیں بلکہ
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
سے کسی طرح کم نہیں۔
میری باتوں کو بھیڑ کا چھتہ کہیں یا بیت عنکبوت یا کچھ بھی کہ سکتے ھیں ۔ میں کھلے دل سے آپ کی دست بوسی وپا بوسی کرتے جوئے اسے قبول گرتا ھوں، تاھم کیا میں جان سکتا ھوں کہ:

البقاء للأصلح والأنفع پر کس کا اختلاف ھے؟
دنیا میں سب کیلئے وسائل ترقی ایک ھی ھیں اس میں کس کا اختلاف ھے؟
امریکہ اور ھندوستان دونوں جگہ سائنسی فارمولے ایک ھیں اس میں کس کا اختلاف ھے۔ کیا بخار کیلئے پیراسٹامول اگر یہاں پیناڈول کے نام دستیاب ھے اور انڈیا دوسرے نام سے تو اس کی تاتیر بدل جائیگی؟
آج مسلم قوم جھل وتخلف، انتشار وبد امنی ، ذلت ورسوائ اور پس ماندگی کے دور سے گذر رھی ھے اس میں کس کا اختلاف ھے؟
کیا مسلم قوم کے رول موڈیل اور ان کے قائد اکثر ایسے مداری علماء وسجادگان نہیں کہ جن کو عالم کہنا بھی علماء ربانین کی توہین ھے (گوکہ بہت سارے نیک اور خدا ترس علما بھی ھیں لیکن عوام پر ان کی گرفت نہیں) اس میں کس کا اختلاف ھے؟
کیا ھمارے یہاں پیروں فقیروں کا عمل دخل تسخیر کائنات میں نہیں۔ اس میں کس کا اختلاف ھے؟ طرفہ تماشہ تو یہ ھیکہ دیوبندی وبریلوی اپنے شدید باھمی اختلاف کے باوجود کرامات اولیا کے معاملہ میں ایک ھی صف میں نظر آتے ھیں۔
کیا اسلام نے عمل پر نہیں ابھارا اور پیش کردہ آیات میں آپ کو کون سا اختلاف نظر آتا ھے؟
کیا آج سارے مسلم دانشوران اور ارباب حل وعقد اس بات پر متفق نہیں کہ امت مسلمہ آج اپنے مقصد اور شاہراہ سے ھٹ گئ ھے؟
علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے شعری تجزیہ میں کس کو اختلاف نظر آتا ھے؟
ھاں سچ یہ ھیکہ:
ومن يك ذَا فم مر مريض
يجد مرا به الماء الزلال
يا بقول سعدی رحمۃ اللہ علیہ:
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب را چہ گناہ

No comments:

Post a Comment