Friday 28 August 2015

صحافت پر ایک نظر

صحافت عربی زبان و ادب کا لفظ ہے، جس کا معنی کتاب یا رسالے کے آتے ہیں۔ اردو زبان میں “صحافت” بول کر “اخبار نویسی” مراد لیتے ہیں؛ جب کہ “صحافی” کو “اخبار نویس” کہا جاتا ہے۔ “من شاہ جہانم” میںExploring Journalism  کے حوالے سے صحافت کی تعریف یوں تحریر ہے: “صحافت جدید ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی معلومات، رائے عامّہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے”۔ (من شاہ جہانم، ص:38)

صحافت کی اہمیت:

آج کے اس برق رفتار عہد میں، صحافت کی اہمیت و افادیت سے کسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ صحافت انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن اورمظلوم و مجبور عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔ آج کے اس دور میں، جہاں بیشتر ممالک میں جمہوری حکومتیں ہیں، وہاں صحافت کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے؛ کیوں کہ کسی بھی جمہوری حکومت میں عوام کی تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود اور نظم و ضبط کے نفاذ کے لیے تین ادارے ہوتے ہیں: “مقنّنہ”، “انتظامیہ” اور” عدلیہ”۔ ان تینوں اداروں کی سلامتی کے لیے صحافت کا وجود ضروری اور لازمی ہے۔ صحافت کے بغیر ان مذکورہ اداروں کا جمہوریت پسند ہونا متزلزل اور مشکوک  ہوجاتا ہے۔ صحافت کی قوت دراصل عوام کی قوت ہوتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوامی ادارے اس کے احترام پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی بات حکومت وقت سے منوانی ہو، اسی طرح کسی جماعت، تحریک یا حکومت کی پالیسی کو کام یابی یا ناکامی میں بدلنا ہو؛ تو اس حوالے سے بھی صحافت ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے، جیسا کہ  ہم اس کا مشاہدہ صبح و شام کرتے ہیں۔
موضوع کے اعتبار سے صحافت کی قسمیں:

موضوعی طور پر صحافت کی تین قسمیں ہیں، جسے ہم ذیل میں “صحافت کیا ہے؟” کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:

عوامی صحافت:

اس زمرے میں ایسے اخبار و رسائل آتے ہیں جو کم پڑھے لکھے یا عام قاری کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ ایسے قاری کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود حالات و حاضرہ سے واقف ہونا چاہتے ہیں اور علاقائی خبروں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اپنے مسائل کو اخبار کے ذریعے پوری دنیا کو واقف کروانا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان اخباروں میں مقامی اور علاقائی خبروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ تصاویر کی کثرت ہوتی ہے، سرخیاں بڑی بڑی ہوتی ہیں، خبریں ڈرامائی لیکن سادہ انداز میں لکھی جاتی ہیں۔ زبان و بیان سادہ اور سلیس ہوتی ہے۔ قارئین کے ذہنی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے عام نوعیت کے فیچر شامل کئے جاتے ہیں اور ذوق کی تسکین کے لئے فکاہیے شامل اشاعت کئے جاتے ہیں۔ ان اخباروں کی اشاعت وسیع ہوتی ہے۔ آبادی کا بڑا حلقہ ان اخباروں سے متاثر رہتا ہے۔ اشتہارات کی بھی بھرمار ہوتی ہے۔ ادارتی صحافت پر قومی اور بین الاقوامی موضوعات کے بجائے مقامی مسائل جیسے راشن کی سپلائی، کیروسین کی قلت، برقی کٹوتی جیسے عام موضوعات پر اداریے لکھے جاتے ہیں۔

معیاری صحافت:

ایسے اخبار و رسالے جو علمی اعتبار سے اونچے طبقے میں پڑھے جاتے ہیں وہ ادبی رسالے، ماہنامے، سہ ماہی یا ششماہی یا سالانہ مجلے معیاری صحافت یا ادبی صحافت کے زمرے میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔ ان کی اشاعت کم ہوتی ہے مگر دانشور طبقہ میں پڑھے جاتے ہیں؛ اس لئے اثر زیادہ رہتا ہے۔ ان اخبارات و رسائل کی قیمت خرید بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اتنے اشتہار ضرور مل جاتے ہیں کہ کاروبار خوشگوارانداز میں چلتا ہے۔

زرد صحافت:
ایسے اخبار و رسالے جن میں اکثر جنس و جرائم کی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔ زنا بالجبر، اغواء، ڈکیتی، محبت، جنس، جرائم غرض ہر خبر میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہر واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان اخباروں و رسالوں کی اشاعت بھی وسیع ہوتی ہیں اور قارئین کے سستے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔

ذرائع ابلاغ و ترسیل کے حوالے سے صحافت کی دو قسمیں ہیں:

“مطبوعہ صحافت” جسے ہم عام طور پر پرنٹ میڈیا (Print Media) سے جانتے ہیں۔ مطبوعہ صحافت سے مراد چھپنےاور طبع ہونے والے اخبار و رسائل ہیں، جیسے روزنامہ، سہ روزہ، ہفت روزہ اخبارات؛ اسی طرح پندرہ روزہ، ماہ نامہ، سہ ماہی، شش ماہی اور سال نامہ رسائل و جرائد اور مجلّات و ڈائجسٹس بھی مراد ہوتے ہیں؛ کیوں کہ یہ سب بھی چھپائی اور طباعت کے مراحل سے گزرتے ہیں۔

“برقیاتی صحافت” یا “کہربائی صحافت” جسے ہم عام طور پر الیکٹرانک میڈیا (Electronic Media) سے جانتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا سے مراد ہر وہ ذرائع ابلاغ و ترسیل ہیں جو الیکٹرانکس اور الیکٹرومیکینیکل قوت کے استعمال سے چلتے ہیں۔ اس میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے اخبارات و رسائل: سبھی شامل ہیں۔

آج جس طرح سائنسی ایجادات اور انفارمیشن ٹکنالوجی (Information Technology) دن بہ دن تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی جانب محو سفر ہے کہ اس نے پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کردیا ہے۔ ان ایجادات کی وجہ سے آج “برقیاتی صحافت” کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا ہے؛ لہذا اس دائرے میں عوامی رابطے کی ویب سائٹس، جیسے: فیس بک، ٹویٹر، گوگل پلس وغیرہ سب شامل ہیں۔ اگر یہ رفتار یوں ہی برقرار رہی؛ تو “برقیاتی صحافت” کے میدان میں، مستقبل قریب میں بہت کچھ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

صحافی کا ضابطۂ  اخلاق:

ایک صحافی کا ضابطۂ اخلاق کیا ہونا چاہیے؟ ایک صحافی کے لیے رہنما اصول کیا ہیں؟ ایک صحافی کو کن قوانین و ضوابط کا پابند ہونا چاہیے؟ ذیل کی سطروں میں ہم ان پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ اس حوالے سے “من شاہ جہانم” ص:56 پر لکھا ہے:

اپنا کام مشنری جذبہ کے ساتھ کرے۔
دیانت داری کے ساتھ سچی اور صحیح معلومات دے۔
خبروں اور دوسرے مواد میں اپنی پسند اور نا پسند کے مطابق رنگ آمیزی نہ کرے۔
کسی خاص نقطۂ نظر کی تشہیر کے لیے اطلاعات کو مسخ نہ کرے۔
سنسنی خیزی کے لیے واقعات کی صحت کو مجروح نہ کرے۔
قارئین کو گمراہ نہ کرے۔
آزادی کے ساتھ کام کرے، خوف اور طمع کو قریب نہ بھٹکنے دے۔
وسیع تر قومی و ملکی مفادات کو ملحوظ رکھے۔
صحافت کے مسلمہ فرائض کی ادائیگی کو مقصود نظر سمجھے۔
اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے؛ تو اس کو چھپانے یا اس پر اصرار کے بجائے اس کا اعتراف کرے اور اس کا ازالہ کرے۔
صحافت کے اغراض و مقاصد:

صحافت کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ صحافت کے ذریعے ایک صحافی قوم و ملت اور وطن کےلیے کیا کرسکتا ہے؟ سماج و عوام کی خدمت کے حوالے کیا کچھ پیش کرسکتا ہے؟ ان سوالوں اور اس طرح کے دوسرے سوالوں کا جوابات ذیل کی سطروں میں قلم بند کیا جارہا ہے:

حالات و اقعات کی تازہ صورت حال سے عوام کوغیر جانب دارانہ، صداقت، امانت اور شجاعت کے ساتھ مطلع کرنا۔
رائے عامہ کو ہموار کرنا۔
عوام میں غور و فکر کی صلاحیت پیدا کرنا۔
خبر کو مسخ کرکے پیش کرنے سے کلی اجتناب کرنا۔
رائے عامہ کی تشکیل کرنا۔
عوام کے احساسات کی نمائندگی کرنا۔
عوام کو ان کی اچھائی و برائی سے مطلع کرنا۔
عوام میں سیاسی و سماجی شعور پیدا کرنا۔
عوام کو عمدہ تفریح فراہم کرنا، جس میں برائی، بے حیائی اور بد اخلاقی کا کوئی عنصر نہ ہو۔ (تلخیص، از: صحافت کیا ہے؟)
مغربی میڈیا، مسلم اور اسلام:

ان مذکورہ بالا صحافی کے ضابطۂ اخلاق اور صحافت کے اغراض و مقاصد کو ذہن میں رکھیے اور سوچیے کہ آج کا “مغربی میڈیا” کس حد تک ان ضابطۂ اخلاق کی پابندی کرتاہے، کہاں تک صحافت کے اغراض و مقاصد کی پاسداری کرتا ہے اور کس حد تک خبر کی حرمت کا خیال رکھتا ہے؟! پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کا نشانہ اور ہدف صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب کی شکل میں پیش کرنا۔ اب اسلام کی بدنامی چاہے کسی بھی طرح سے ممکن ہو، وہ کریں گے۔ اس کے لیے وہ اسلام مخالف قوتوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ذرا بھی موقع ہاتھ لگ گیا؛ تو اسلام کی صورت کلی طور پر مسخ کرکے پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں۔ آزادی کے نام پر پیغمبر اسلام –علیہ الصلاۃ و السلام – کی صاف و شفاف شخصیت کو ایک دہشت کے معلم اور ظالم و جابر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی دل آزاری ان کا محبوب مشغلہ ہے۔

مسلم صحافي اور قوم و ملت کی خدمت:

ایک وقت تھا کہ بڑے بڑے اور نمایاں مسلم قائدین صحافت سے منسلک تھے۔ ان کا صحافت سے منسلک ہونا تجارت کے لیے نہیں تھا؛ بل کہ ایک مشن اور قوم و ملت و وطن کی خدمت کے لیے تھا۔ وہ حضرات صحافت کو مشن اور خدمت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سر سید احمد خان کے اخبار “سائنٹفک سوسائٹی” اور رسالہ “تہذیب الاخلاق”، مولانا ظفر علی خان کا اخبار “زمیندار”، مولانا حسرت علی موہانی کا رسالہ “اردوئے معلّی”، مولانا محمد علی جوہر کا اخبار “کامریڈ” اور “ہمدرد”، مولانا ابوالکلام آزاد کے “الہلال” اور “البلاغ” اور حامد الانصاری غازی کا اخبار “مدینہ” نے وہ کام کیا کہ ہندستان کی تاریخ میں اسے بھلایا نہیں جاسکتا۔

ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، مولانا محمد علی جوہر کا نظریۂ صحافت یوں نقل کرتے ہیں: “صحافت سے میری غرض صحافت نہیں ہے۔ ملک و ملت کی خدمت ہے اور اگر ایک مختصر مضمون سے صحیح طور پر ملک و ملت کی رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں وہ بھی لکھ سکتا ہوں اور لکھوں گا۔ اگر انیس نہیں اڑتیس کالموں کے مضمون سے صحیح رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں اتنا طویل مضمون لکھ سکتا ہوں اور ضرور بالضرور لکھوں گا۔ غرض ملک و ملت کی خدمت ہے جس طرح بہترین طریقے پر ملک و ملت کی خدمت ہوسکے گی انشاء اللہ کی جائے گی۔”

آج کا مسلم سماج اور صحافت:

آج المیہ یہ ہے کہ مسلمان صحافت کے میدان میں صفر  (Zero) ہیں۔ مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی معقول “میڈیا ہاؤس ” (Media House) نہیں ہے۔ یہ المیہ صرف کسی ایک مخصوص خطے، علاقے یا ملک تک ہی منحصر نہیں؛ بل کہ پورے عالم اسلام کی یہی صورت حال ہے۔ ہاں، چند ایک اخبار یا ٹی وی چینل ہیں، جسے ہم آٹے میں نمک کے برابر بھی تسلیم نہیں کرسکتے۔

اسی طرح مسلمانوں کے پاس قابل اور باشعور صحافیوں کی ایک ایسی ٹیم بھی نہیں ہے، جن کی آواز مغرب سے مشرق اور شمال سے جنوب تک مؤثر انداز میں سنی جائے۔ جو صاحب اس میدان میں ہیں، ان میں سے اکثر کے لیے یہ صحافت کوئی مشن اور خدمت نہیں؛ بل کہ روزی روٹی کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر کوئی صحافی اپنے سماج اور قوم و ملت کے مفاد میں کوئی مسئلہ اٹھانا بھی چاہے، تو ان کو میڈیا ہاؤس کی پالیسی خاموش کردیتی ہے۔ جو مسلمان اپنا میڈیا ہاؤس چلاتے ہیں، ان میں بھی اکثر اپنے ذاتی مفاد میں، ایسا کچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں، جس سے سماج کا فائدہ تو ہوجائے؛ لیکن مستقبل میں ان کا نقصان ہو۔ مگر ان مذکورہ بالا حقیقتوں کے باوجود، کچھ ایسے غیور اور خدمت کے جذبہ سے سرشار صحافی اور اخبار و رسائل ہیں، جو سماج کے مسائل اور قوم وملت کی خدمت کو سب پر مقدم رکھتے ہیں؛ لیکن سیکڑوں کے بیچ میں ایسے ایک آدھ مخلص کی آواز ہمیشہ دب کر رہ جاتی ہے۔

ہماری ذمے داری:

میرے خیال میں مسلمانوں کے قابل، باشعور اور اہل ثروت طبقہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ میدان صحافت میں خدمت کی غرض سے آئیں، اپنا میڈیا ہاؤس چلائیں اور مکر و فریب، دروغ گوئی و کذب بیانی اور گندگی و بے حیائی کی دبیز چادر میں دبی ہوئی موجودہ صحافت کو اسلامی اسلوب میں پیش کرنے کا فریضہ انجام دیں۔ ان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا کو یہ محسوس کرائیں کہ اسلام کیا ہے؟ اسلام کی حقیقت کیا ہے؟ کیا اسلام کی وہی حقیقت جو مغربی میڈیا سے، یہودیوں کی چھنّی سے چھن کر دنیا کے سامنے آرہی ہے  یا پھر کچھ اور؟ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو تاریخ اسلامی ہمیں معاف نہیں کرے گی اور ہم عند اللہ بھی ماخوذ ہوں گے۔

اسی طرح میرا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمانوں کے قابل، باشعور اور اہل ثروت طبقہ کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ میدان صحافت میں آکر اپنی قوم و ملت اور سماج کے پیش آمدہ مسائل کو مضبوطی، دیانت داری، ذمےداری، قربانی اور صداقت کے ساتھ اٹھائیں اور ان کے حل کی پوری کوشش کریں۔ اگر بروقت ہم اپنے مقصد میں کام یاب نہیں بھی ہوں، پھر بھی ہمیں امید کے ساتھ لگا رہنا چاہیے؛ کیوں کہ یہ تو مسلم ہے کہ The pen is mightier than the sword, یعنی قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ مرحوم اکبر الہ آبادی  نے کیا خوب کہا ہے:

کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو   ٭   جب توپ مقابل ہوتو اخبار نکالو

خورشید عالم داؤد قاسمی

(مضمون نگار دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں۔ ان سے qasmikhursheed@yahoo.co.in    پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

No comments:

Post a Comment