Thursday 27 August 2015

فقہ حنفی پر اعترضات کیوں؟

(دوسرا حصہ)
ایس اے ساگر
لامذہب بیمارگندی ذہنیت نے وہ گل کھلائے ہیں کہ اعتراضات اور ان کے جوابات کا سلسلہ دراز ہے...ملاحظہ فرمائیں:

اعتراض نمبر 1... جس عضو پر نجاست لگی ہو وہ تین بار چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے ( منہ ناپاک ہو تو بلا سے ) بہشتی زیور ص 18 عالمگیری جلد 1 ص 61 

اعتراض نمبر2 ۔ نجاست بھرا کپڑا اس قدر چاٹے کہ نجاست کا اثر جاتا رہا رہے تو پاک ہے .. عالمگیری جلد 1 ص 61 ہدایہ جلد 1 ص 219 
اعتراض نمبر 3۔۔۔چھری پر نجاست لگے تو چاٹنے سے پاک ہے 1... عالمگیری جلد 1 ص 61 ہدایہ جلد 1 ص 222
اعتراض نمبر 4 ۔۔۔۔جو انگلی یا پستان ناپاک ہوجائے تو چاٹنے سےپاک ہوجاتی ہے .. درمختار جلد 1 ص 150 
یہ تمام اعتراضات لامذہبوں کی کتاب حقیقت الفقہ ص 199 پر اور اسی طرح کی بکواسات سے ان لامذہب غیر مقلدوں کی دوسری کتابیں بھی بھری پڑی ہے یہاں ان سب کا جواب دیا جارہا ہے جو ان کی تمام کتابوں کیلئے کافی ہے 
ان چاروں اعتراضات کا اکھٹا جواب ملاحظہ فرمائیں ..
غیر مقلدین نے اپنی ناقص الفہمی کی بنا پر فتاوی عالمگیری کی عالمی حیثیت نہیں سمجھی ۔ یہ فتاوی بفضلہ تعالیٰ عالمی فتاوی ہے ۔ اس میں وہ تمام مسائل حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو عالم اسلام میں عموما یا خصوصا پیش آتے رہتے ہیں یا آ سکتے ہیں تاکہ مملکت اسلامیہ کے قاضی صاحبان ان سے اسفادہ کرکے ان سے نادر سے نادر واقعات و مقدمات کا حل دریافت کرسکیں ۔ دنیائے عالم میں جہاں عاقل بالغ آباد ہیں ، وہاں پاگل اور بچے بھی رہتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے بھی کئی مسئلے جنم لیتے رہتے ہیں ۔ مندرجہ بالا مسئلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ ہاتھ کی کسی انگلی پر اگر پیشاب یا شراب یا خون لگ جائے تو انگلی کو اس نجاست سے پاک صاف کرنے کیلئے پانی ہی استعمال کیا جاسکتا ہے مگر بچوں اور پاگلوں سے یہ امید نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ اس نجاست کو پانی سے ہی صاف کریں گے بلکہ یہان ممکن ہے کہ بجائے انگلی دھونے کے اسے چاٹ لیں ( العیاذ باللہ ) اور چاٹنے کے بعد وہی انگلی کسی شخص کے پانی میں ڈبو دیں اور وہ شخص اسلامی عدالت میں اس نوعیت کا مقدمہ دائر کردے کہ میں نے پچاس روپے کا مثلا پانی خرید کر مٹکے میں ڈالا تھا ، فلاں پاگل نے نجاست سے لبریز انگلی کو پہلے اچھی ثاٹا پھر انگلی میرے پانی میں ڈبو دی جس سے پانی پلید اور بیکار ہوگیا لہذا مجھے پاگل کے مال سے پانی کی قیمت دلائی جائے تو جس قاضی نے فتاوی عالمگیری کا مندرجہ بالا مسئلہ پڑھا ہے ، وہ یہ کہہ کر مقدمہ خارج کردیگا کہ جب مدعی خود تسلیم کرتا ہے کہ پاگل نے انگلی سے نجاست کو چاٹ کر زائل کردیا تھا ، پھر پانی میں ڈبویا تھا تو پاگل کی انگلی کے سبب پانی پلید نہ ہوا کیونکہ جب انگلی پر سے نجاست زائل کردی گئی تو نہ انگلی پلید رہی نہ پانی پلید ہوا ۔ فتاوی عالمگیری کی عبارت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ نجاست کو چاٹنا جائز ہے یا یہ کہ فہ حنفی میں انگلی پاک کرنے کا یہی طریقہ ہے یہ نجس فہمی صرف مخالفین کی دماغی نجاست کا نتیجہ ہے بلکہ فتاوی عالمگیری میں تو یہاں تک نفاست پسندی فرمائی گئی ہے کہ جو حلال جانور نجاست کھاتا ہو ، اسے نہ کھائیں بلکہ کئی دن تک باندھ رکھیں کہ نجاست نہ کھانے پائے پھر جب اس کا گوشت نجاست کے اثر سے پاک ہوجائے تو ذبح کرکے کھائیں ۔ اونٹ چالیس دن تک باندھا جائے ، بھینس بیس دن تک ، مرغی تین دن تک اور چڑیا ایک دن تک ( فتاوی عالمگیری ج5 ص 298 )
کیا نجاست چاٹنا جائز ہے ؟
نمبر 01 - دور برطانیہ سے پہلے بھی یہاں مسلمان آباد تھے مگر کافر غیر کتابی [ہندو ، سکھ ، مجوسی ، چمار ، چوڑا وغیرہ] کے ذبیحہ کو نجس اور مردار قرار دیتے تھے دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس نجاست اور مردار کو کھانا شروع کردیا اور فتوی دے دیا کھ یہ حلال ہے [عرف الجادی ص 10 و ص 239 و دلیل الطالب ص 413]
نمبر 02 - اسی طرح بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اتفاق رہا کہ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم الله نہ پڑھی جائے تو وہ جانور مردار اور نجس ہے - مگر اس نجاست خور فرقہ نے اس کے بھی جواز کا فتوی دے دیا [عرف الجادی]
نمبر 03 - بندوق سے جو جانور مرجائے وہ مردار اور نجس ہے مگر اس لامذہب فرقہ نے یہ نجاست بھی کھانا شروع کردی اور اس کو حلال کہہ دیا [بدور الاہلہ ص 335 ، فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 150 و ج 2 ص 132]
نمبر 04 - بجو کو اس ملک کے مسلمان حرام اور نجس سمجھتے تھے مگر اس لامذہب فرقہ نے فتوی دیا "بجو حلال ہے ، جو شخص بجو کا کھانا حلال نہ جانے وہ منافق دے دین ہے ، اس کی امامپ ہرگز جائز نہیں ، یہ قول صحیح اور موافق حدیث رسول الله صلی الله علیه وسلم ہے"
[فتاوی ستاریہ ج 2 ص 21 ص 277]
نمبر 05 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک کے مسلمان منی کو ناپاک اور نجس قرار دیتے تھے اس فرقہ نے اس کو پاک قرار دیا اور ایک قول میں اس کا کھانا بھی جائز قرار دیا [فقہ محمدیہ ج 1 ص 46] البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ منی کا کسٹرڈ بناتے ہیں یا قلفیاں جماتے ہیں
نمبر 06 - بارہ [1200] سو سال تک یہاں کے مسلمان حلال جانوروں کے پیشاب کو پینا جائز نہیں سمجھتے تھے اور اس کو نجس قرار دیتے تھے لیکن لامذہبوں نے اس نجاست کے پینے کو جائز قرار دیا ، لکھا کہ "لکھا کہ حلال جانوروں کا پیشاب و پاخانہ پاک ہے جس کپڑے پر لگا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے ، نیز بطور ادویات استعمال کرنا درست ہے" [فتاوی ستاریہ ج 1 ص 56 ، ج 1 ص 89]
نمبر 07 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک میں یہ مسئلہ تھا کہ تھوڑے پانی ، دودھ وغیرہ میں تھوڑی سی نجاست پڑجائے تو وہ نجس ہوجاتا ہے "پاک پانی میں نجاست پڑجاوے تو اس سے وضو ، غسل وغیرہ کچھ درست نہیں چاہے وہ نجاست تھوڑی ہو یا بہت" [بہشتی زیور ج 1 ص 57 ، ہدایہ ج 1 ص 18] لیکن دور برطانیہ میں اس فرقہ نے فتوی دیا کہ اگر پانی وغیرہ میں نجاست پڑجائے تو جب تک نجاست سے اس کا رنگ ، بو ، مزہ نہ بدلے وہ پاک ہے [عرف الجادی ، بدور الاہلہ]
مثلا ایک بالٹی دودھ میں ایک چمچہ پیشاب ڈال دیا جائے تو نہ اس کا رنگ پیشاب جیسا ہوتا ہے نہ بو نہ مزہ ہمارے مذہب میں وہ پھر بھی ناپاک ہے اس کا پینا حرام بلکہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو نماز ناجائز ، اس فرقہ کے نزدیک وہ دودھ پاک ، حلال طیب ہے ، یہ اس نجس کو پینا جائز سمجھتے ہیں
نمبر 08 - بارہ [1200] سو سال تک اس ملک کے مسلمان الخمر [شراب] کو پیشاب کی طرح سمجھتے تھے لیکن اس فرقہ غیر مقلدین نے فتوی دیا کہ "الخمر طاھر" [کنز الحقائق] شراب پاک ہے بلکہ بتایا کہ اگر شراب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو کھانا جائز ہے [نزل الابرار ج 1 ص 50] اور وجہ یہ بتائی کہ اگر پیشاب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو پیشاب بھی تو جل جائے گا
الغرض اس قسم کے اور کئی مسائل بھی تھے جن سے ملک میں نجاست خوری کی بنیاد ڈال دی ، جب احناف نے ثبوت مانگا کے اپنے اصول پر قرآن پاک کی صریح آیات یا احادیث صحیحہ صریحہ غیر معارضہ سے ان مسائل کا ثبوت پیش کرو تو بجائے احادیث پیش کرنے کے لگے فقہاء کو گالیاں دینے اور فقہ کے خلاف شور مچانا شروع کردیا کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے - نجاست عین کا چاٹنا تو کجا ، جس پانی وغیرہ میں نجاست تھوڑی سی پڑجائے کہ نجاست کا رنگ نہ بو نہ مزہ کچھ بھی ظاہر نہ ہو پھر بھی اس پانی کا پینا حرام ہے ، اس میں احناف کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ ایسے ناپاک پانی کا استعمال جس کے تینوں وصف یعنی مزہ اور بو اور رنگ نجاست کی وجہ سے بدل گئے ہوں کسی طرح درست نہیں نہ جانوروں کو پلانا درست ہے نہ مٹی وغیرہ میں ڈال کر گارا بنانا جائز ہے
[بہشتی گوہر ج 1 ص 5 بحوالہ درمختار ج 1 ص 207]
تو جب نجس پانی جانور کو پلانا ہمارے مذہب میں جائز نہیں تو انسان کو چاٹنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے
چناچہ بہشتی زیور میں صاف لکھا ہے کہ نجاست چاٹنا منع ہے [بہشتی زیور ج 2 ص 5] دراصل اختلاف بعض چیزوں کے پاک ناپاک ہونے میں ہے ، ان مسائل کی تفصیل یہ لوگ بیان نہیں کرتے اور غلط نتائج نکالتے ہیں
نمبر 01 - مثلآ بعض جاہل عورتوں کی عادت ہوتی ہے کپڑا سی رہی تھی انگلی میں سوئی لگ گئی اور تھوڑا سے خون نکل آیا وہ بجائے اس پر پانی ڈالنے کے اس کو دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیتی ہیں اب اس کا مسئلہ بتانا ہے تو فقہ یہ کہتی ہے کہ اس نے جو چاٹا یہ گناہ ہے اور پہلی دفعہ چاٹنے سے منہ بھی ناپاک ہوگیا مگر بار بار تھوکنے سے جب خون کا کوئی نشان باقی نہ رہا تو انگلی اور منہ پاک سمجھے جائیں گے ، اس مسئلے کے خلاف اگر وہ صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردیں تو البتہ ہم ان کی علمی قابلیت مان لیں گے یعنی فقہ کہتی ہے کہ چاٹنا منع ہے وہ حدیث سنائیں کہ چاٹنا جائز ہے؟ ، فقہ کہتی ہے کہ خون کا نشان نہ رہے تو جگہ پاک ہے وہ حدیث دکھائیں کہ خون کا نشان مٹ جانے کے بعد بھی جگہ ناپاک ہے؟ لیکن ان کا اپنا مسئلہ تو یہ ہے کہ خون پاک ہے ، انگلی کو لگا انگلی بھی پاک رہی ، منہ کو لگا منہ بھی پاک رہا یعنی غیر مقلد عورت اس خون کو پاک سمجھ کر چاٹے گی حنفی ناپاک سمجھ کر
نمبر 02 - ایک اہل سنت و الجماعت اور ایک غیر مقلد گنا چوستے جارہے تھے ، دونوں کے منہ سے خون نکل آیا حنفی گناچھوڑ کر تھوکنے لگا ، پانی وغیرہ پاس نہ تھا غیر مقلد نے پوچھا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا بھئی خون نکل آیا جس کی وجہ سے منہ ناپاک ہوگیا ہے- اس نے کہا ہمارے مذہب میں تو خون پاک ہے ، تھوکا دونوں نے مگر حنفی ناپاک سمجھ کر تھوکتا رہا غیر مقلد پاک سمجھ کر ، جب نشان مٹ گیا تو حنفی نے گنا چوسنا شروع کردیا کیونکہ چاٹنے اور تھوکنے سے منہ پاک ہوگیا تھا غیر مقلد سے کہا یہ مسئلہ غلط ہے تو اس کے خلاف حدیث سنادو؟
نمبر 03 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے دونوں کے پاس ایک ایک چھوٹی بالٹی پانی کی تھی ، آگے ایک شرابی ملا جس کے ہونٹوں کو شراب لگی ہوئی تھی یہ شراب حنفی کے نزدیک پیشاب کی طرح نجس تھی اور غیر مقلد کے نزدیک پاک تھی ، اب اختلاف یہ ہوا کہ وہ اگر مٹکے کو منہ لگا کر پانی پئے تو حنفی کے ہاں باقی پانی نجس ہے اور غیر مقلد کے نزدیک باقی بچا ہوا پانی پاک ہے ، اب وہ شرابی اگر شراب ہونٹوں سے چاٹ چاٹ کر تھوکنا شروع کردے تو حنفی مذہب میں یہ چاٹنا گناہ ہے اور غیر مقلد کے ہاں چاٹنا گناہ نہیں کیونکہ وہ پاک چیز چاٹ رہا ہے ، ہاں اگر چاٹنے سے شراب کا اثر زائل ہوجائے تو حنفی کے نزدیک اب اس کا منہ پاک ہوگیا ہے اور غیر مقلد کے نزدیک تو پہلے شراب آلودہ بھی پاک ہی تھا
نمبر 04 - ایک بلی نے چوہے کا شکار کیا اور اس کے منہ کو خون لگا ہوا ہے ، اب غیر مقلدوں کے مذہب میں چونکہ خون پاک ہے اس لئے اس کا خون آلودہ منہ بھی پاک ہے اس بلی نے غیر مقلد کے مٹکے میں منہ ڈال دیا تو اس کے نزدیک وہ پانی پاک ہے - مگر حنفی فقہ کی رو سے وہ پانی ناپاک ہے ، اب وہ بلی بیٹھی اپنا منہ چاٹ چاٹ کر صاف کرتی رہی جب خون کا اثر بالکل ختم ہوگیا تو اب اس کا جھوٹا نجس نہیں مکروہ ہوگا کیونکہ اس نے چاٹ کر اپنا منہ صاف کرلیا ہے
نمبر 05 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے اتفاق سے حنفی کو احتلام ہوگیا اور پانی کہیں ملتا نہیں - حنفی نے کہا یہ جو منی لگی ہوئی ہے یہ ناپاک ہے ، غیر مقلد نے کہا کہ یہ پاک ہے بلکہ ایک قول میں کھانا بھی جائز ہے ، حنفی نے کہا کہ پھر اگر تم چاٹ کر صاف کرلو تو تمہارا ناشتہ ہوجائے گا اور جب اس کا اثر ختم ہوجائے گا تو میرا جسم پاک ہوجائے گا
بہرحال حنفی فقہ میں نجاست کا چاٹنا ہرگز جائز نہیں ، ہاں بعض چیزیں ہمارے مذہب میں نجس ہیں جیسے شراب ، خون ، قے لیکن غیر مقلدوں کے ہاں پاک ہیں اس لئے ہمارے فقہاء نے یہ فرق بتایا کہ جب منہ آلودہ ہو تو نجس ہے اور اگر پانی نہیں ملا اور قے والے نے دو تین مرتبہ ہونٹ چاٹ کر تھوک دیا یا شراب والے نے دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیا یا جس کے دانتوں سے خون نکلا تھا اس نے چاٹ کر تھوک دیا تو چاٹنا تو منع تھا اس کا گناہ الگ رہا البتہ خون ، قے ، شراب کا اثر ختم ہونے سے منہ کی پاکی کا حکم ہوگا ، اس کے برعکس غیر مقلد کے ہاں جب خون ، قے یا شراب منہ کو لگی ہوئی تھی اس وقت بھی منہ پاک تھا جب چاٹا تو بھی پاک چیزوں کو چاٹا - "یہ دو مسائل ہیں جن کو غلط انداز میں بیان کرکے کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے جو بالکل جھوٹ ہے"...

No comments:

Post a Comment