Saturday 21 March 2015

کیا ہوا تھا ملیانہ میں



پی اے سی کے نوجوانوں کا بری ہونا تشویشناک
ہاشم پورہ معاملہ میںعدالت کے فیصلہ پرجمعیة علماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمودمدنی کا اظہارخیال
جمعیة علماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمودمدنی نے ہاشم پورہ معاملہ سے متعلق تیس ہزاری کورٹ کے فیصلے پر فکر مندی کا اظہا رکرتے ہوئے کہاکہ مظلوموں اور کمزوروں کیلئے انصاف فراہمی کا راستہ دشوار اورقاتلوں اور ظالموں کو واقعی سزاملنے میں ملک کے نظام میں کئی خامیاں ہیں ، اور اس سلسلے میں بہت سارے بنیادی سوالات نظر انداز کردیئے جاتے ہیں ، ہاشم پورہ کے نوجوانوں کے قتل کے سلسلہ میں جو19پی اے سی کے نوجوان ملز م بنائے گئے تھے؟ ان کو بری کئے جانے سے کئی طرح کے سوالات پیداہوگئے ہیں۔پہلا سوال تو یہی ہے کہ اگر نامزد ملزمین قتل کے ذمہ دار نہیں ہیں تو پھر ان42نوجوانوں کا قاتل کون ہے ؟ مولانا مدنی نے کہاکہ پی اے سی کے نوجوانوں کو بچانے کیلئے شروع ہی سے ضروری کارروائی کرنے میں ریاستی سرکار انمنے اور ٹال مٹو ل سے کام لے رہی تھی، مئی1987 میں یہ بھیانک قتل کا واقعہ پیش آیا تھا، جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور ایمنسٹی انٹر نیشنل کے علاوہ دیگر انسانی حقوق کے اداروں نے بھی واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے تشویش کا اظہا رکیا تھا۔یہ بات سوچنے والی ہے کہ ملزموں کے خلاف چارج شیٹ فائل کرنے میں10سال کیوں لگ گئے ، سی بی ، سی آئی ڈی کی جانچ میں جب نامزد افراد کو قصور وار پایا گیا تو انہیں بچانے کا جتن کس لیے کیا گیا ؟19 ملزموں کے خلاف ۳۲ وارنٹ جاری کئے گئے ،13 سال بعد16ملزموں نے خود سپردگی کی، عدالت نے ان کی ضمانت مسترد کردی تھی، لیکن ضلع جج کی عدالت نے اس بنیاد پر ملزمان کو ضمانت دید ی کہ وہ پی اے سی میں ہیں، وہ فرار نہیں ہوسکتے ، حالاں کہ ہونا یہ چاہئے کہ قصور وار سمجھے جانے والے پی اے سی کے نوجوانوں کو معطل کرکے کیس چلایا جاتا ،جمعیة علماءبرابر یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ فساد وغیرہ کے معاملات میں ضلع افسرا ن کو جواب دہ قراردیا جائے اور ذمہ دار سمجھے جانے والے افراد کو معطل کرکے مقدمہ چلایا جائے ، لیکن بہت سی وجوہات سے ایسا نہیں کیا جارہاہے، مولانا مدنی نے کہاکہ ان کے علاوہ اور بھی کئی طرح کی ریاستی سرکار کی طرف سے مقدمے کے سلسلے میں مجرمانہ کوتاہیاں کی جاتی رہی ہیں ، جن کی وجہ سے انصاف کی راہ میں رکاوٹیں پیداہوئیں، نومبر ۳۱۰۲ءمیں دہلی ہائی کورٹ نے یوپی حکومت سے جواب مانگا تھا، لیکن اس نے جواب نہیں دیا ، ہاشم پورہ کے نوجوانوں کے قاتل کوئی نامعلوم اور مجہول قسم کے لوگ نہیں تھے بلکہ پی اے سی کے نوجوان تھے جن کو تعینات کرنے سے متعلق باقاعدہ رکارڈ اور ڈائر ی ہوتی ہے ایسے افراد کو حکومت اور انتظامیہ شناخت کرکے سزادلانے کا کام کیوں نہیں کرسکتی ہے ، انھوں نے کہاکہ انصاف فراہمی کاراستہ یقینا مشکل ہے ، لیکن تیس ہزاری کورٹ کا فیصلہ آخری نہیں ہے ،مایوس نہیںہوناچاہئے ، ابھی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہے ،مولانا مدنی نے اس امید کا اظہار کیا کہ مظلوموں کو انشاءاللہ انصاف ملے گا۔انھوں نے کہاکہ ملک میں جو پولس سسٹم اور عدالتی نظام ہے اس کے تحت یاتو انصاف ملنے میں اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ انصاف کا کوئی زیادہ معنی نہیں رہ جاتاہے ، یا پیسہ اور طاقت والے مختلف حربے استعمال کرکے جرم کے باوجود بچ جاتے ہیں ، خاص طور سے اقلیتوں ، کمزوروں اور دلتوں وغیرہ کو لے کر انصاف کی فراہمی کار استہ بہت مشکل ہے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں بہار کے بتھانی ٹولہ اور شنکر بیگھا کے قتل عام کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اقلیتوں ،کمزوروں کیلئے انصاف پانا کس قدر مشکل ہے ، تاہم امید اور حوصلہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے ،مایوس ہوکر انصاف کے حصول کیلئے لڑائی نہ کرنے سے مجرموں او ر قاتلوں کو مزید حوصلہ ملے گا۔کمزوروں ،مظلوموں کیلئے امید اور حوصلہ بڑی طاقت اور ہتھیار ہیں۔ 

1983 کے میرٹھ فساد کے دوران ملیانہ پرامن رہا۔ یہاں ہندو مسلمان ہمیشہ سے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ لیکن 1987 میں ملیانہ کو کسی کی نظر لگ گئی۔ اُس دن عجیب سا ماحول تھا۔ افواہ کا بازار گرم تھا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہاں گرفتاریاں ہوں گی۔ شک سچ ثابت ہوگیا جب پولس نے گیارہ بجے کے قریب پورے گاؤں کو گھیر لیا۔ تلاشی کے نام پر لوگوں کو گھر سے باہر نکالنا شروع کیا۔ پی اے سی کے لوگ گولیاں چلانے لگے۔ سر پر گولی، گلے میں گولی، سینے پر گولی۔ جسے بھی گولی لگی وہاں لگی جہاں لگنے سے بچنا ناممکن ہے۔ تین گھنٹے تک گولیاں چلتی رہیں۔ سب سے پہلے ستار ولد محمد علی کے گھر کو لوٹا گیا۔  اس کنبہ کے تقریباً 11لوگ مارے گئے۔ ان لاشوں کو کنویں میں ڈال کر اس پر نمک ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد فساد کی آگ پورے گائوں میں پھیل گئی۔ یہاں پولس نے گائوں میں دہشت پھیلانے کے لیے ایک گھر کو جلایا۔ مکان کے ساتھ ساتھ اس کنبہ کے چھ لوگ جل کر راکھ ہو گئے۔ اس گھر میں چار بچے تھے۔ جب لاشیں نکالی گئیں تو سب سے چھوٹا بچہ ماں کی گود میں ملا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملیانہ گائوں کے تقریباً 125 مکانوں میں آگ لگا دی گئی جس میں تقریباً73لوگوں کی موت ہوئی جبکہ سرکاری اعداد و شمار انہیں کم ہی بتاتے ہیں۔ فسادیوں میں آس پاس کے لوگوں کے علاوہ باہر کے بھی کئی لوگ تھے۔
واقعہ کے فوراً بعد جب محمد یعقوب نے تھانہ میں یہ سوچ کر ایف آئی آر درج کرائی کہ کم سے کم فسادیوں کو قانون سے سزا مل جائے اور جن پولس والوں نے بے گناہوں کی جانیں لی ہیں انہیں سزا مل جائے، لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس فساد سے زیادہ گہرا زخم انصاف دلانے والی جدوجہد سے ملنے والا ہے۔ محمد یعقوب نے بتایا کہ ہم نے 93لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کی تھی، 75 گواہ ہیں۔ بیس سال گزر گئے۔ بیس سال تک یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کیس کا کیا ہوااور ہماری ایف آئی آر کہاں گئی۔ ان پی اے سی کے جوانوں پر کیا کارروائی ہوئی۔ اتنے لوگ مارے گئے لیکن کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان متاثرہ کنبوں کو انصاف دلایا جائے یا نہیں۔ بیس سال کے بعد ہمیں کورٹ سے سمن آیا کہ آپ کے کیس کی سماعت ہونے والی ہے۔ ہم پھر عدالت پہنچے، اپنا وکیل کیا، جو کچھ کر سکے، وہ کیا۔ پہلے ہی دن استغاثہ کے وکیل نے کہا کہ اس میں ایف آئی آر نہیں ہے۔ جب تک ایف آئی آر کی مصدقہ کاپی نہیں ہوگی تب تک مقدمہ نہیں چلے گا، تو اس کے بعد جج نے پوچھ گچھ کی اور معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ایف آئی آر کس نے غائب کی، کہاں سے کھو گئی ۔ پھر ہم تھانے گئے اور پوچھا کہ 23مئی 1987کو ہم نے ایک ایف آئی آردرج کرائی تھی اس کی کاپی چاہیے۔ تھانیدار نے کہا کہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم صرف پانچ سال کا ہی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ہم تمام کاغذات عدالت میں جمع کرا کے سائن کروا لیتے ہیں۔اب تو ہمارے پاس نہ ریکارڈ ہے اور نہ ہی ہم کچھ بتا سکتے ہیں۔ ہم نے ہر جگہ خط لکھا لیکن اب تک ایف آئی آر کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔اس کے بعد جج نے کہا کہ جو گواہ ہیں انہیں پیش کرو، تو ہم نے وکیل صاحب کو پیش کیا۔ ان کی گواہی چلی۔ وہ فاسٹ ٹریک کورٹ تھا۔ ہر ہفتہ تاریخیں لگتی تھیں، تو ایک سال تک ایک ہی آدمی کی گواہی ہوئی۔ پھر ایک سال بعد دوسری گواہی پیش کی۔ ایسے تو 75سال لگ جائیں گے۔ پچیس سال ویسے بھی ہو گئے ہیں۔ آنے والے 75سالوں میں نہ تو کوئی مجرم رہے گا اور نہ کوئی گواہ بچے گا۔

ہاشم پورہ اجتماعی قتل عام کا چشم دید
22 مئی 1987 کا منحوس دن۔ بے حد گرمی تھی۔ بہت سالوں بعد میرٹھ میں ایسی گرمی پڑی تھی۔ شہر میں فساد ہورہا تھا اور کرفیو بھی لگا تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں ہی تھے۔ کسی کو شاید اس بات کی بھنک نہیں تھی کہ اگلے کچھ گھنٹوں میں ہاشم پورہ تاریخ کے سب سے سیاہ باب کا حصہ بننے جارہا ہے۔ تقریباً دو بجے ملٹری اور پی اے سی تلاشی کے بہانے محلے میں داخل ہوئی۔ لوگ الوداع کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہر گھر میں پی اے سی پہنچی اور جتنے بھی مرد تھے انہیں گھر سے باہر آنے کو کہا گیا۔
’چوتھی دنیا‘ کو اس واقعہ کے چشم دید عثمان نے بتایا کہ گھر سے باہر نکالنے کے بعد بَلّی گلی میں لا کر بٹھایا۔ وہاں کافی لوگ  بیٹھے ہوئے تھے اور پولس والے نے سب کو کہا کہ چلو، ہاتھ اوپر کرو، تو ہاتھ کو اٹھا کر ہمیں سڑک پر لا کر بٹھا دیا۔ جب ہم سڑک پر آئے تو پتہ چلا کہ پورے محلے کو ہی گرفتار کرلیا ہے۔ بوڑھے اور بچے الگ بیٹھے ہوئے تھے اور جوانوں کی ٹولیاں الگ بنا رکھی تھیں۔ ملٹری، پی اے سی اور پولس سب لوگ موجود تھے۔ میں بچوں میں پہنچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ بوڑھے اور بچے کو چھوڑ دیںگے۔ جب جوانوں کو بھر کر بھیج دیا تو بوڑھے اور بچوں کا نمبر آیا تو مجھے اس میں سے الگ کرلیا گیا۔ مطلب جو تگڑا نظر آیا اسے ایک طرف نکال لیا۔ جب ہم کھڑے ہوئے تو وہاں سیکڑوں لوگ کھڑے تھے۔ میرے آگے جو چار پانچ کھڑے تھے ان کو میں جانتا تھا۔ وہ محلے کے ہی تھے۔ ایک حاجی مستقیم، ایک آر ٹی دفتر کے یاسین، ایک سلیم اور قدیر چائے والا۔ یہ میرے آگے کھڑے ہوئے تھے۔ تقریباً آٹھ ساڑھے آٹھ بجے رات کا وقت ہوگیا تھا۔ ہمیں الگ کر کے ایک طرف کھڑا کیا اور پی اے سی کا ٹرک منگوایا اور ہم سے کہا کہ اس میں چڑھو۔ تالا کھولا اور اس میں ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح بھر لیا۔ بھرنے کے بعد ہم اس میں پچاس پچپن سے کم نہیں تھے، پورا ٹرک بھرا ہوا تھا۔ پی اے سی والے رائفل لے کر پیچھے کھڑے ہوگئے اور ہمیں نیچے بٹھا دیا۔ ہم پر ڈنڈا بجایا کہ مڑ کر مت دیکھو، آگے دیکھو۔ ٹرک چلتا رہا، کافی دیر تک چلتا رہا۔ ہمیں پتہ نہیں کہ ٹرک کدھر کو چل رہا ہے۔ یہ بھی پتہ نہیں کہ کہاں جا رہا ہے۔ کافی دیر بعد ٹرک رک گیا۔ ٹرک مرادنگر کے گنگ نہر پر جا کر رکا۔ وہاں بڑا سا پیڑ دکھائی دیا، وہ آم کا پیڑ تھا۔ پاس میں کھجور کے پیڑ تھے۔ پی اے سی والے اتر گئے۔ کسی نے کہا کہ ٹرک کی لائٹ بند کر دو۔ پھر ایک آدمی کو اتار ا اور گولی مار دی۔ ہم سب کی سمجھ میں آ گیا کہ اب سب کو ماریںگے، کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ تب پھر انہوں نے ایک اور کو نیچے اتارا۔ اسے بھی گولی مار دی۔ مرنا تو اب بھی تھا اور مرنا تو جب بھی تھا۔ لوگوں کو یہ سوجھا کہ مر تو رہے ہی ہیں ٹرک سے باہر کود جائیں، جیسے ہی کھڑے ہوئے تو انہوں نے ٹرک کے اندر گولی چلا دی۔ رائفل کی گولی۔ دڑادڑ۔۔۔دڑادڑ۔ گولیوں کی بارش ہوگئی۔ اس میں، میں بچ گیا۔ میرے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو گولی لگ گئی تھی۔ تب ایک پی اے سی کا جوان چڑھا اور اس نے ہاتھ پکڑ کے کھینچا اور نیچے اتارا۔ میں نے بھاگنے کی کوشش کی تو دولوگ آکے کھڑے ہوئے، مجھے پکڑ لیا۔ میں نے کہا کہ مجھے مت مارو، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ وہ نہیں باز آئے۔ وہ آ ہی رہا تھا مارنے کے لیے کہ میں نے ایک ہاتھ چھڑا کر رائفل کا منہ پکڑ لیا۔ اس طرف سے پکڑ رکھا تھا، جہاں سے گولی نکلتی ہے۔ انہوں نے میرا ہاتھ موڑ کر پیچھے کو دبا دیا اور گولی چلا دی۔ گولی میرے پیٹ کو پار کر گئی۔ میں یہ کہہ کر گر پڑا ہائے اللہ میں مر گیا۔ میں نیچے گر پڑا تو اس نے کہا اسے پانی میں پھینک دو۔ دو آدمیوں نے میرے ہاتھ پکڑے اور ایک نے ٹانگ۔ ہنڈولو سے کر کے مجھے پانی میں پھینک ہی رہے تھے کہ دوسری گولی میری ٹانگ میں لگ گئی۔ پانی میں گرنے سے پہلے ہی پانی نے مجھے اٹھا دیا۔ میں نے تیرنے کی کوشش کی لیکن مجھ سے تیرا نہیں گیا۔ میں پانی میں آگے کی جانب بڑھنے لگا اور کنارے لگ گیا۔ گھاس پکڑ کے لٹکا رہا۔ پی اے سی والے پانی میں گولیاں مار رہے تھے۔ آوازیں آ رہی تھیں۔ گرنے کی بھی اور گولیوں کی بھی۔ پھر جب میں نے دیکھا کہ اتنی دیر ہو گئی اب کسی چیز کی آواز نہیں  ہے، نہ گولی کی نہ پانی میں گرنے کی تو وہ چلے گئے تھے۔ میں نے پانی سے نکلنے کی کوشش کی۔ دو ہاتھ اور ایک ٹانگ کام کر رہے تھے۔ میں نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ نکل کر اوپر آگیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ دو لڑکے اور پڑے ہوئے ہیںگولی لگے ہوئے، وہ کراہ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد دو لڑکے اور آئے، اسی ٹرک کے تھے۔ ایک ذوالفقار ناصر اور ایک نعیم تھا۔ ہمارے ہی محلے کے تھے۔ ان میں سے ایک کے پیٹ سے گولی نکلی تھی اور ایک صاف بچا ہوا تھا۔ ہم سے چلا نہیں جارہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہے کہ تینوں کو تو ہم ایک ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ گاؤں سے لوگوں کو لے کر آتے ہیں پھر اٹھا کر لے جائیںگے۔ وہ گ
ہاشم پورہ اجتماعی قتل عام کا چشم دید
22 مئی 1987 کا منحوس دن۔ بے حد گرمی تھی۔ بہت سالوں بعد میرٹھ میں ایسی گرمی پڑی تھی۔ شہر میں فساد ہورہا تھا اور کرفیو بھی لگا تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں ہی تھے۔ کسی کو شاید اس بات کی بھنک نہیں تھی کہ اگلے کچھ گھنٹوں میں ہاشم پورہ تاریخ کے سب سے سیاہ باب کا حصہ بننے جارہا ہے۔ تقریباً دو بجے ملٹری اور پی اے سی تلاشی کے بہانے محلے میں داخل ہوئی۔ لوگ الوداع کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہر گھر میں پی اے سی پہنچی اور جتنے بھی مرد تھے انہیں گھر سے باہر آنے کو کہا گیا۔
’’چوتھی دنیا‘‘ کو اس واقعہ کے چشم دید عثمان نے بتایا کہ گھر سے باہر نکالنے کے بعد بَلّی گلی میں لا کر بٹھایا۔ وہاں کافی لوگ  بیٹھے ہوئے تھے اور پولس والے نے سب کو کہا کہ چلو، ہاتھ اوپر کرو، تو ہاتھ کو اٹھا کر ہمیں سڑک پر لا کر بٹھا دیا۔ جب ہم سڑک پر آئے تو پتہ چلا کہ پورے محلے کو ہی گرفتار کرلیا ہے۔ بوڑھے اور بچے الگ بیٹھے ہوئے تھے اور جوانوں کی ٹولیاں الگ بنا رکھی تھیں۔ ملٹری، پی اے سی اور پولس سب لوگ موجود تھے۔ میں بچوں میں پہنچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ بوڑھے اور بچے کو چھوڑ دیںگے۔ جب جوانوں کو بھر کر بھیج دیا تو بوڑھے اور بچوں کا نمبر آیا تو مجھے اس میں سے الگ کرلیا گیا۔ مطلب جو تگڑا نظر آیا اسے ایک طرف نکال لیا۔ جب ہم کھڑے ہوئے تو وہاں سیکڑوں لوگ کھڑے تھے۔ میرے آگے جو چار پانچ کھڑے تھے ان کو میں جانتا تھا۔ وہ محلے کے ہی تھے۔ ایک حاجی مستقیم، ایک آر ٹی دفتر کے یاسین، ایک سلیم اور قدیر چائے والا۔ یہ میرے آگے کھڑے ہوئے تھے۔ تقریباً آٹھ ساڑھے آٹھ بجے رات کا وقت ہوگیا تھا۔ ہمیں الگ کر کے ایک طرف کھڑا کیا اور پی اے سی کا ٹرک منگوایا اور ہم سے کہا کہ اس میں چڑھو۔ تالا کھولا اور اس میں ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح بھر لیا۔ بھرنے کے بعد ہم اس میں پچاس پچپن سے کم نہیں تھے، پورا ٹرک بھرا ہوا تھا۔ پی اے سی والے رائفل لے کر پیچھے کھڑے ہوگئے اور ہمیں نیچے بٹھا دیا۔ ہم پر ڈنڈا بجایا کہ مڑ کر مت دیکھو، آگے دیکھو۔ ٹرک چلتا رہا، کافی دیر تک چلتا رہا۔ ہمیں پتہ نہیں کہ ٹرک کدھر کو چل رہا ہے۔ یہ بھی پتہ نہیں کہ کہاں جا رہا ہے۔ کافی دیر بعد ٹرک رک گیا۔ ٹرک مرادنگر کے گنگ نہر پر جا کر رکا۔ وہاں بڑا سا پیڑ دکھائی دیا، وہ آم کا پیڑ تھا۔ پاس میں کھجور کے پیڑ تھے۔ پی اے سی والے اتر گئے۔ کسی نے کہا کہ ٹرک کی لائٹ بند کر دو۔ پھر ایک آدمی کو اتار ا اور گولی مار دی۔ ہم سب کی سمجھ میں آ گیا کہ اب سب کو ماریںگے، کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ تب پھر انہوں نے ایک اور کو نیچے اتارا۔ اسے بھی گولی مار دی۔ مرنا تو اب بھی تھا اور مرنا تو جب بھی تھا۔ لوگوں کو یہ سوجھا کہ مر تو رہے ہی ہیں ٹرک سے باہر کود جائیں، جیسے ہی کھڑے ہوئے تو انہوں نے ٹرک کے اندر گولی چلا دی۔ رائفل کی گولی۔ دڑادڑ۔۔۔دڑادڑ۔ گولیوں کی بارش ہوگئی۔ اس میں، میں بچ گیا۔ میرے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو گولی لگ گئی تھی۔ تب ایک پی اے سی کا جوان چڑھا اور اس نے ہاتھ پکڑ کے کھینچا اور نیچے اتارا۔ میں نے بھاگنے کی کوشش کی تو دولوگ آکے کھڑے ہوئے، مجھے پکڑ لیا۔ میں نے کہا کہ مجھے مت مارو، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ وہ نہیں باز آئے۔ وہ آ ہی رہا تھا مارنے کے لیے کہ میں نے ایک ہاتھ چھڑا کر رائفل کا منہ پکڑ لیا۔ اس طرف سے پکڑ رکھا تھا، جہاں سے گولی نکلتی ہے۔ انہوں نے میرا ہاتھ موڑ کر پیچھے کو دبا دیا اور گولی چلا دی۔ گولی میرے پیٹ کو پار کر گئی۔ میں یہ کہہ کر گر پڑا ہائے اللہ میں مر گیا۔ میں نیچے گر پڑا تو اس نے کہا اسے پانی میں پھینک دو۔ دو آدمیوں نے میرے ہاتھ پکڑے اور ایک نے ٹانگ۔ ہنڈولو سے کر کے مجھے پانی میں پھینک ہی رہے تھے کہ دوسری گولی میری ٹانگ میں لگ گئی۔ پانی میں گرنے سے پہلے ہی پانی نے مجھے اٹھا دیا۔ میں نے تیرنے کی کوشش کی لیکن مجھ سے تیرا نہیں گیا۔ میں پانی میں آگے کی جانب بڑھنے لگا اور کنارے لگ گیا۔ گھاس پکڑ کے لٹکا رہا۔ پی اے سی والے پانی میں گولیاں مار رہے تھے۔ آوازیں آ رہی تھیں۔ گرنے کی بھی اور گولیوں کی بھی۔ پھر جب میں نے دیکھا کہ اتنی دیر ہو گئی اب کسی چیز کی آواز نہیں  ہے، نہ گولی کی نہ پانی میں گرنے کی تو وہ چلے گئے تھے۔ میں نے پانی سے نکلنے کی کوشش کی۔ دو ہاتھ اور ایک ٹانگ کام کر رہے تھے۔ میں نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ نکل کر اوپر آگیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ دو لڑکے اور پڑے ہوئے ہیںگولی لگے ہوئے، وہ کراہ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد دو لڑکے اور آئے، اسی ٹرک کے تھے۔ ایک ذوالفقار ناصر اور ایک نعیم تھا۔ ہمارے ہی محلے کے تھے۔ ان میں سے ایک کے پیٹ سے گولی نکلی تھی اور ایک صاف بچا ہوا تھا۔ ہم سے چلا نہیں جارہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہے کہ تینوں کو تو ہم ایک ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ گاؤں سے لوگوں کو لے کر آتے ہیں پھر اٹھا کر لے جائیں گے۔ وہ گ

No comments:

Post a Comment