Sunday 29 March 2015

تین طلاقوں کے وقوع کی دلیل

(حصہ نہم)9
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
حدیث نمبر7:
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمُنَادِى حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ : أَنَّ بَطَّالاً كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَطَلَّقَ امْرَأَتَهُ أَلْفًا فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ : إِنَّمَا كُنْتُ أَلْعَبُ فَعَلاَهُ عُمَرُ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ بِالدِّرَّةِ وَقَالَ : إِنْ كَانَ لَيَكْفِيكَ ثَلاَثٌ.
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج7 ص334 باب ما جاء فی امضاء ا لطلاق الثلاث)
ترجمہ: حضرت زید بن وہب کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک مسخرہ مزاج آدمی رہتا تھا، اس نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق  دے دی۔ اس کا معاملہ جب  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو اس نے کہا کہ میں نے تو  محض دل لگی اور خوش طبعی کے طور پر یہ طلاقیں دی ہیں (یعنی ان سے میرا قصد اور ارادہ نہ تھا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درہ سے اس کی مرمت کی اور فرمایا: تجھے تین ہی کافی ہیں۔
اور مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
فَعَلاَ عُمَرُ رَأْسَهُ بِالدُّرَّةِ ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص12 باب فی الرجل يطلق امراتہ مئة او الفا فی قول واحد)
کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درہ سے اس کی مرمت کی اور ان میاں بیوی کو جدا کر دیا۔
 
تحقیق السند:
السنن الکبریٰ کی روایت کی سند کے راویوں کی توثیق یہ ہے:
(1) ابو عبد اللہ الحافظ
آپ امام ابوعبداللہ  محمد بن عبد اللہ الحاکم النیسابوری ہیں۔ مشہور ثقہ امام ہیں ، صحیحین  پر لکھی گئی مشہور کتاب ”المستدرک“ آپ ہی کی لکھی ہوئی ہے۔ آپ کے بارے میں ائمہ نے یہ توثیقی جملے فرمائے ہیں:
علامہ ذہبی نے آپ کو ”الحافظ الكبير إمام المحدثين“ کہا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج3 ص162)
اور دوسرے مقام پر ”الامام الحافظ، الناقد العلامة، شيخ المحدثين“ فرمایا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء: ج17 ص162 ص163)
امام ابن العماد  العکری فرماتے ہیں کہ آپ ”ثقہ“ اور ”حجت“ ہیں۔ (شذرات الذھب:ج3ص175)
(2) ابوالعباس محمدبن یعقوب
آپ ابوالعباس محمدبن یعقوب بن یوسف الاصم ہیں۔ آپ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ،امام ذہبی آپ کی تعدیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:الاِمَامُ، المُحَدِّثُ، مُسْنِدُ العَصْرِ۔ کہ آپ امام ہیں، محدث ہیں اور  مسند العصر ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء:ج15 ص452)
امام ابوالولید فرماتے ہیں: آپ مشہورثقہ ہیں۔ (تاریخ دمشق : ج56 ص293)
(3) محمد بن عبید اللہ المنادی
آپ صحیح البخاری کے راوی ہیں اور ”صدوق“ ہیں۔ (تقریب التہذیب: رقم الترجمہ6113، خلاصة تذهيب تهذيب الكمال للخزرجی: ص350)
امام ابن حبان نے ”ثقات“ میں شمار کیا ہے۔ (کتاب الثقات لابن حبان: ج9 ص132)
محدث محمد بن عبدوس نے آپ کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے۔ (خلاصة تذهيب تهذيب الكمال للخزرجی: ص350)
علامہ عبد الحئی بن احمد عكری نے آپ کو ”محدث“ قرار دیا۔ (شذرات الذہب: ج2 ص162)
(4) وھب بن جریر
آپ ابو العباس وهب بن جرير بن حازم بن زيد بن عبدالله بن شجاع الازدی ہیں۔ صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ ”ثقہ “ اور ”حافظ“ ہیں۔ (تقریب التہذیب: ج11 ص141)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ایک دوسری کنیت ”ابو عبد اللہ“ بھی لکھی ہے۔ (تقریب التہذیب:  رقم الترجمۃ 7472)
(5) شعبہ بن الحجاج
آپ ابو  بِسطام شعبۃ بن الحجاج بن الورد الازدی العتکی ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء: ج6 ص116)
آپ صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے مرکزی راوی ہیں۔ (تقریب التہذیب:  رقم الترجمۃ2790)
سفیان ثوری آپ کو فنِ حدیث میں ”امیر المؤمنین “ کہتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج1 ص144)
آپ ثقہ، مامون، فن میں پختہ کار، محدث اور حجت تھے۔(الطبقات الکبریٰ: ج7 ص207)
ابو حفص عمر بن شاہین کہتے ہیں: امام شعبہ حدیث کے حافظ، جید عالم اور دین اسلام کے ان ائمہ و علماء میں سے تھے جو حدیث  کی نقد و پرکھ میں ممتاز شمار ہوتے تھے۔
(تاریخ اسماء الثقات: ص9)
(6) سلمہ بن کُھَیْل
ابو یحیی سلمہ بن کُھَیْل۔ آپ صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ ثقہ، ثبت، مامون اور متقن راوی ہیں۔ (تہذیب التہذیب: ج1 ص137)
(7) زید بن وھب
ابو سلیمان زيد بن وهب الجہنی۔  آپ صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔ (تقریب التہذیب:  رقم الترجمۃ2159)
راویوں کی توثیق سے ثابت ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔
امام ابن ابی شیبہ نے بھی اس  حدیث کو اپنی کتاب ”المصنف“ میں روایت کیا ہے۔”المصنف“ کی  اس روایت کو عصر حاضر کے شیخ عبد السلام بن محسن آل عيسى نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
(دیکھیے: دراسة نقدية في المرويات الواردة في شخصية عمر بن الخطاب وسياسته الإدارية رضي الله عنه: ج2 ص981)

استدلال:
اس صحیح السند روایت سے ثابت ہوا کہ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک کلمہ اور ایک مجلس میں دی گئی طلاقوں کا اعتبار کرتے تھے، اگر  ہزار طلاق دینے کا شرعاً دستور ہوتا تو ہزار ہی کو نافذ فرما دیتے، مگر چونکہ تین طلاقوں سے زائد کا شریعت میں ثبوت نہیں اس لیے ایک ہزار میں سے تین کے وقوع کا انہوں نے حکم فرمایا اور باقی کو لغو قرار دے دیا اور دفعۃً تین طلاقوں کے ناپسندیدہ ہونے اور اس شخص کی بے جا دل لگی پر درہ سے اس کی قدرے مرمت بھی کی تاکہ آئندہ کے لیے وہ ایسی نازیبا حرکت کا ارتکاب نہ کرے اور اس کو دیکھ کر دوسروں کو بھی عبرت ہو۔
تو یہ روایت تین طلاقوں کے وقوع کی واضح دلیل ہے۔

(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment