Saturday 21 March 2015

یادوں کے دریچے سے

ادبیاتِ شورش کاشمیری رحمہ اللہ ******
یادوں کہ دریچے سے >>>>>>>>>>

مولانا الیاس صاحب دهلوی رحمہ اللہ (بانی تبلیغی جماعت) نے جو اہل اللہ میں سے تهے، ایک دفعہ آپ کہ سیاسی اشغال پر کہا تها، " حسین احمد تمہاری سیاست میری سمجھ میں نہیں آتی هے، سمجھ میں آتی تو میں تمہارے ساتھ شب و روز چکر کاٹتا،،،،، لیکن تمہاری مخالفت بهی نہیں کرتا کیونکہ مجهے تمہارے دینی مرتبہ کا علم هے، اور تمہاری مخالفت کر کے میں جہنم کی آگ نہیں خریدنا چاهتا"
کہتے هیں مولانا محمود الحسن شیخ الہند رحمہ اللہ کی بوقلموں خوبیاں قدرت نے ان کے چار شاگردوں کو بانٹ دی تهیں،
حدیث کا علم علامہ انور شاه کاشمیری رحمہ اللہ کے حصے میں آیا،
قرآن کا علم شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کو ملا،
سیاسیات کے فہم میں مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ اور ایثار و عمل میں مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ ان کے جانشین تهے """
مولانا مدنی رحمہ اللہ واقعی ان لوگوں میں سے هیں، جن سے فقر و استغناء کا بوریہ قائم هے یا جن سے شہنشائی کی جبینوں پر خراش آتی هے، مسلم لیگ نے ہندوستانی سیاسیات میں جن لوگوں کو اپنے قہر و غضب کا شکار بنایا ان میں مولانا مدنی رحمہ اللہ سرفہرست تهے،
ایک مرتبہ حضرتِ شیخ عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ نے ایک گفتگو میں کہا؛
مسلمانوں نے حضرتِ مدنی اور ابو الکلام رحمہ اللہ سے سب و شتم کا جو برتاؤ کیا هے، مجهے اندیشہ هے کہیں حسین احمد کا تقوٰی اور ابو الکلام کا صبر انہیں لے نہ ڈوبے-"""
اور انسان ان سانحات سے ایک گہری سوچ میں ڈوب جاتا هے کہ جن ہستیوں کو مسلمانوں نے ان کی موت کے بعد دین کے معاملے میں مستند تسلیم کیا، ان کی زندگی میں انہیں بری طرح خوار کیا، بلکہ انہیں رسوائی کا تماشا بنانے میں بهی کوئی کسر اٹها نہ رکهی،
مسلم لیگ کے زمانہء عروج میں جمعیتہ العلماء کے وجود کا نوے فیصد حصہ مولانا مدنی هی کے ذاتی حلقہ بگوشوں کا مرہونِ منت تها، ان کا نام تحریک پاکستان کی طرح ہندوستان کے ہر قریے میں موجود تها
مولانا مدنی رحمہ اللہ نے انگریز دشمنی کا جذبہ ورثہ میں پایا تها،
ان کا وجود 1857 کے علماء کی بغاوت کا مظہر تها، ان کا احترام محض ان کہ دینی وجود کی وجہ سے تها، لوگ انہیں مالٹا کے اسیر کی حیثیت سے جانتے تهے، اور انہیں معلوم تها کہ اس شخص نے سالہا سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضے مبارک کی جالی کے پاس بیٹھ کر حدیث کا سبق پڑهایا هے،
سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کا بیان هے کہ ایک دفعہ دیوبند میں میٹھی نیند سو رها تها کہ فجر کی اذان هو گئی، میں بدستور سویا رها، اتنے میں کسی نے میرے پاوں دابنے شروع کیئے، ہاتھوں کی ملائمت سے غنودگی تیز هوتی گئی، تهوڑی دیر بعد پلٹ کر دیکها تو مولانا مدنی رحمہ اللہ میرے پاوں دبا رهے تهے، میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹها "
حضرت آپ گنہگار کر رهے هیں !!!
حضرت نے فرمایا؛ شاه جی نماز کا وقت هو چکا تها، میں نے محسوس کیا آپ کو جگا لوں، لیکن پهر خیال آیا، آپ تهکے هوئے هیں، یہی مناسب سمجها کہ پاوں دابوں، تهکاوٹ دور هوگی، آنکھ کهلے گی تو ممکن هے نماز قضا نہ هو،
یہ تهے حسین احمد مدنی رحمہ اللہ ہندوستان میں اسلاف کی آخری صدا !!!
( گلہائے رنگا رنگ صفحہ 248)

No comments:

Post a Comment