Saturday 14 March 2015

حضرت ﻟﻘﻤﺎﻥعلیہ السلام

حضرت ﻟﻘﻤﺎﻥعلیہ السلام ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :1 ﺑﺎﺭ ﻋﻘﻞ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ " ﺗﻮ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ "
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ :
ﻋﻘﻞ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮ؟؟
ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻼ
ﺳﺮ ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﻡ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﺗﻮ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ
ﺷﺮﻡ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﺗﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ؟؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ :
ﺯﯾﺮ ﭼﺸﻢ
ﺷﺮﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﻣﺤﺒﺖ
ﺁﺋﯽ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ
ﮐﮧ " ﺗﻮ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ
ﻣﺠﮭﮯ
ﻣﺤﺒﺖ
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﺗﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ؟؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ
ﺩﻝ
ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ 
ﭘﮭﺮ
ﺗﻘﺪﯾﺮ
ﺁﺋﯽ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺗﻮ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟؟
ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻼ
ﻣﺠﮭﮯ
ﺗﻘﺪﯾﺮ
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﺗﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﺮ
ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯﮐﮩﺎ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻋﻘﻞ ﮐﺎ ﻗﯿﺎﻡ ﮨﮯ۔
ﺗﻘﺪﯾﺮ 
ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ
ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻋﻘﻞ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﭩﺘﮯ ﮨﯽ
ﻋﺸﻖ
ﺁ ﮔﯿﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ
ﺗﻮ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ
ﺁﺷﻔﺘﮧ ﺳﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻼ
ﻣﯿﮟ ﻋﺸﻖ
ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﮐﺘﺎ ﮐﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ
ﺟﻨﺎﺏ ﮐﺎ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ؟
ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ
ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺷﺮﻡ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ
۔ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ
 ﺑﺠﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺷﺮﻡ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻃﻤﻊ ﺁﺋﯽ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔ ﺟﻨﺎﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ؟؟
ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻃﻤﻊ ﮨﻮﮞ۔ "
ﺁﭖ ﮐﺎ ﻗﯿﺎﻡ؟؟
ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ
ﺩﻝ ﻣﯿﮟ
ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻮﻣﺤﺒﺖ
ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﮨﻨﺲﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ :
ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ !! .....
حضرت لقمان علیہ السلام کا ذکر کلام اللہ شریف میں آیا ہے اور آپ کو بہت بڑے دانا کا خطاب کیا گیا ہے، حضرت ﻟﻘﻤﺎﻥعلیہ السلام کے متعلق مورخین کا خیال ہے کہ یا تو آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے تھے یا پھر خالہ زاد بھائی، آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے شاگرد رشید اور اپنی قوم میں کرسئ انصاف سنبھالتے تھے اور بہت علم و عقل کے مالک تھے، آپ کے نصیحت آموز کلمات عام لوگوں کو بھی ازبر ہیں، آپ کا اصل وطن تو ملک حبشہ تھا ، آپ نے اپنی تعلیم ملک شام میں مکم کی اور قاضی کے عہدہ تک پہنچے، نبوت میں کسی کو بھی یقین نہیں، بلکہ اختلاف ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو حکمت و دانائی پیش کرنے والا ہی کلام شریف میں بتلایا ہے، آپ کا مرقد مبارک فلسطین کے علاقہ رملہ میں ہے، وہیں انتقال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے۔
آپ کے
ارشادات ملاحظہ ہوں:
(۱)          جس نعمت میں ناشکری ہے وہ ہمیشہ نہیں رہ سکتی۔

(۲)         جس نعمت میں جذبۂ شکر گذاری ہے اس کو زوال نہیں۔

(۳)         کسی بھی محفل میں ہمارے نشست و برخاست اور گفتگوسے حاضرین کی عزت بڑھنا چاہئے، یہ نہ ہونا چاہئے کہ ہمارے کسی فعل سے کسی کا دل دُکھ جائے۔

(۴)         اصلاحِ نفس کی ہمہ وقت کوشش کرتے رہ تاکہ تمہارے اندر اچھی صفات پیدا ہوں۔

(۵)         جس بات کا تمہیں پورا علم نہ ہو اپنی زبان سے مت کہو۔

(۶)         جس بات کا تمہیں پورا علم ہو اس کو بتانے سے گریز  مت کرو۔

(۷)         جس قدر ممکن ہو لوگوں کے ہجوم سے بچو! اس طرح تمہارا دل سلامت رکہے گا اور نفس پاکیزہ رہے گا اور جسم کو آرام ملے گا۔

(۸)         جو بات تم اپنے دشمن سے چھپانا چاہتے ہو، اپنے دوست سے بھی مت کہو، ہوسکتا ہے کہ وہ بھی کسی روز تمہارا دشمن نہ ہوجائے۔

(۹)         جاہل دوستوں کی صحبت سے پرہیز کرو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کہیں تم ان جیسے نہ بن جاؤ۔

(۱۰)        جس طرح تم کسی کو اپنے حسن اخلاق سے دوست بناسکتے ہو اسی طرح بداخلاقی سے اپنے دوستوں کے مخالف بھی بن سکتے ہو۔

(۱۱)         ایک بات یاد رکھو کہ عقل ادب کے ساتھ ایسی ہے جیسے درخت کا پھل، اور عقل بے ادبی کے ساتھ ایسی ہے جیسے بے پھل کا درخت۔

(۱۲)        اچھی صحت سے بڑھ کر کوئی دولتمندی نہیں اور استغناء سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔

(۱۳)        اچھے دوست کو سرمایۂ نجات تصور کرو کہ سرمایہ کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ملتا۔

(۱۴)        جو کام بھی تم انجام دو صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے انجام دو، بندوں کا خوف اپنے دل میں لاؤ۔

(۱۵)        عالموں اور داناؤں کی صحبت کو غنیمت سمجھو، ان میں بیٹھنے سے تم اپنے دل میں علم کی بہار دیکھوگے اور تم دیکھوگے کہ تم پر علم و حکمت کی بارش ہوتی ہوگی۔

(۱۶)        اگر کسی کام کا ارادہ ہو کہ کسی کے سپرد کریں تو کسی سمجھ دار کا انتخاب کرو، اگر کسی سمجھ دار آدمی میسر نہ ہو تو اس کام کو خود انجام دو ورنہ چھوڑ دو۔

(۱۷)        جس محفل میں اللہ کا ذکر سنو وہاں بیٹھ کر سنو، ہوسکتا ہے کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔

(۱۸)        جس محفل میں برائیوں کی بات دیکھو وہاں سے تعلق نہ رکھو کہ کہیں تم بھی برائیوں میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔

(۱۹)        دنیا کے قلیل مال پر قناعت کرو۔

(۲۰)       اپنے مقدر میں لکھے رزق پر قانع رہو۔

(۲۱)        دوسروں کے رزق پر آنکھ مت رکھو۔

(۲۲)       اس علم سے بچو جس میں عمل نہ ہو۔

(۲۳)       اس عمل سے بچو جس میں علم نہ ہو۔

(۲۴)       اپنے ذہن کو بدگمانیوں سے پاک رکھو، ورنہ تم بھری دنیا میں کوئی بھی دوست اور غمخوار نہیں پاؤگے۔

(۲۵)       ایک بُرا فقرہ تم کو اس طرح تباہ و برباد کرسکتا ہے کہ جس طرح ایک چنگاری پورے جنگل کو جلادیتی ہے۔

(۲۶)       بد اعمال اور فتنہ انگیز عورتوں سے اللہ کی پناہ مانگو اور نیک عورتوں سے بھی بچو، کیونکہ جب تمہاری رغبت عورتوں کی طرف ہوی تو خیر کے بجائے شر تمہارا مقدر بن جائے گی۔

(۲۷)       کثیر الفہم اور سخنور بن جاؤ، مگر حالت خاموشی میں بے فکر نہ بن جاؤ۔

(۲۸)       کوئی ذکر اللہ کے ذکر کے بغیر اور کوئی فکر آخرت کی فکر کے بغیر مفید نہیں ہے۔

(۲۹)        خود نیک کام کرو اور دوسروں کو بھی کہو۔

(۳۰)       خود بُرے کاموں سے بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ۔

(۳۱)        کمینہ خصلت لوگوں کے مقابلہ میں خاموشی سے امداد طلب کرنا چاہئے۔

(۳۲)       دنیا کی مصیبتوں کو آسان تصور کرو اور موت کو یاد رکھو کہ موت بہت بڑی مصیبت ہے۔

(۳۳)       خوشامد لوگوں کی کسی ایسی تعریف پر فخر نہ کرو جو تم میں موجود نہیں ہے، کیونکہ جاہلوں کے کہنے سے ٹھیکری سونا تو نہیں بن جاتی۔

(۳۴)       لوگوں کے آرام کے لئے کوشش جاری رکھو، ان سے دور مت رہو اور اپنے آپ کو سخت محنت کا عادی بناؤ۔

(۳۵)       خاموش رہنے کی عادت اپناؤ، کیونکہ زبان کا بھی حساب لیا جائے گا۔

(۳۶)       کم کھاؤ اور زیادہ علم سیکھو۔

(۳۷)       عبادت میں دل کی حفاظت کرو اور محفل میں زبان کی۔

(۳۸)       غضب میں ہاتھوں کی حفاظت کرو اور دسترخوان پر اپنے پیٹ کی۔

(۳۹)       کسی چیز کے حصول کو نعمتِ آخرت کے حصول پر ترجیح مت دو۔

(۴۰)       کسی بے عقل کو عقلمندوں پر ترجیح مت دو اور جاہل کو اہل علم پر بھی ترجیح مت دو۔

(۴۱)        ہر شخص کا مقام اس کی دانشمندی اور ہنر مندی پر ہوتا ہے۔

(۴۲)       دین ایک نعمت ہے اور دین اور مال دو نعمتیں ہیں۔

(۴۳)       بدطینت لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرو۔

(۴۴)       عقلمندوں کی صحبت اختیار کرو۔

(۴۵)       بردباری، راستی، دیانت داری، بخشش اور فروتنی عاقلوں کی نشانیاں ہیں۔

(۴۶)       عقل مند اگر کلام کرتا ہے تو علم سے کرتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کرتا ہے تو حلم کی وجہ سے۔

(۴۷)       تمہارا عقل مند دوست تم میں اگر کوئی برائی دیکھے گا تو لوگوں کو نہیں بتائے گا۔

(۴۸)       اللہ کے نزدیک عقل سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔

(۴۹)       بے عقل آدمی دوسروں کو اچھے کاموں کی تلقین کرتا ہے اور خود برے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔

(۵۰)       بے عقل آدمی نیکوں کو برائیاں اور بُرے لوگوں کو نیکیوں کی تلقین کرتا ہے۔

(۵۱)        بے عقل آدمی اپنی کم عقلی پر بھی مغرور ہوتا ہے۔

(۵۲)       تیرا بے عقل دوست تجھے ہمیشہ کم عقلی ہی کے مشورے دے گا۔

No comments:

Post a Comment