Tuesday 24 March 2015

جنوبی ہند میںدین اسلام 1400سال سے موجود

ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ
سید عبدالعظیم مدنپلی، ضلع چتور کی کتابوں کا ِ اجرکے دوران مقررین کا خطاب
حال ہی میں ریاست آندھراپردیش، ضلع چتور، شہر مدنپلی میں آستانئہ حضرت قادر شاہ اولیارحمة اللہ علیہ میں ۱یک آل انڈیا غیر طرحی نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ عرس کی تقاریب کے موقع پر نعتیہ مشاعروں کا اہتمام سید عبدالعظیم ہی نے شروع کیا تھا۔ اس حسین موقع پر ملک بھر سے شعرائِ کرام اور آندھرا پردیش کے ادبا بھی تشریف فرماتھے۔ جلسہ کی صدارت پروفیسر مظفر شہ میری صدر شعبہ اردو، حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی حیدرآبادنے کی جبکہ مہمانِ خصوصی امتیاز احمد، کمیشنر برائے اطلاعات، حکومت آندھراپردیش رہے۔ خانقاہ کے صدر مکاندار سید ہاشم کی نگرانی میں یہ تقاریب بخوبی عمل میں آئے۔اس موقع پر سید عبدالعظیم کی دو تصانیف، ضلع چتور کی اسلامی تاریخ ، جس کی تحقیق اور ترتیب احمد نثار نے کی ہے اور اسرارِ عظیم جو عظیم کی سوانح اور مجموعہ کلام ہے، کا اجراءعمل میں آیا۔رسمِ اجراءضلع چتور کی اسلامی تاریخ، بدست امتیاز احمد، کمشنر برائے اطلاعات، حکومت آندھرا پردیش، اسرارعظیم، بدست پروفیسر مظفر شہ میری، صدر شعبہ اردو، حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد، عمل میں آئی۔
اس موقع پر کتابوں کے مصنف سید عبدالعظیم نے کہا کہ آپ کی ان تصانیف اور تالیفات کا اصل مقصد، قدیم ورثہ کی تاریخ کو یاد دلانا اور دہرانا، اور جدید نسل کو اس ورثہ سے آشنا اور ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس کیساتھ ہی یہ احساس اجاگر کرنا کہ ادبی ثقافتی ورثہ کو آگے تک لے جانے کی ذمہ داری جدید نسل کی ہے۔ جدید نسل سوگئی تو سارا ورثہ ختم ہوجائے گا۔اسے تاریخ کی کتاب ہی نہیں بلکہ تاریخی کتاب بھی تصورکرنا ضروری ہے، کیوں کہ ضلع چتور کی اسلامی تاریخ پر لکھی گئی یہ پہلی کتاب ہے۔ ضلع چتور کا علاقہ محض3 یا 4 سو سال کی اسلامی تاریخ نہیں رکھتا، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے دور سے اس علاقہ میں مسلمانوں کی آمدو رفت ہے۔ 627 عیسوی ، کیرلا میں حضرت مالک بن دینارؓ جبکہ اسی دوران شہر چینئی کے کووالم میں حضرت تمیم انصاری رضی اللہ عنہ کے دینی خدمات کی تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ دین اسلام جنوبی ہندوستان میں 1400سال سے موجود ہے۔ اسی بات پر روشنی ڈالنے کی کوشش اس کتاب میں کی گئی ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ آئندہ اس کتاب کی ترتیب بڑے پیمانے پر ہونے والی ہے ۔ عوام سے یہ بھی درخواست کی گئی کہ اگر ان کے پاس ضلع چتور کی تاریخ کے حوالہ سے کوئی مواد، اطلاعات، یا نوادر کتابیں یا تصاویر موجود ہوں تو ضرور انہیں فراہم کریں تاکہ آئندہ طباعت میں ان تمام چیزوں کا اندراج ہوسکے۔
 امتیاز احمد ، کمیشنر برائے اطلاعات، حکومت آندھرا پردیش نے کہاتاریخ تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ضلع چتور کی اسلامی تاریخ رقم کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ جدید نسل اس تاریخ کو محفوظ کریں اور آئندہ نسلوں تک پہنچائیں تاکہ انہیں بھی پتہ چلے کہ ان کے آباءو اجداد، حسب و نسب کے سلسلے کیا ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ تاریخ کے پنوں کو محفوظ کریں بلکہ یہ بھی سیکھیں کہ نایاب ورثہ کو پھر سے مروج کیسے کیا جائے۔ سید عبدالعظیم نے وہ کام کیا ہے جس کاکسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ موصوف نے اس تصنیف سے افکار کو جلا بخشی ہے۔
 پروفیسر مظفر شہ میری، صدر شعبہ اردو، حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی، حیدرآبادنے آپ نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاوقت کی تیز آندھیاں، مسلمانوں اور اردو کی تاریخ کے اوراق کو اُڑالے جانے کا موسم ہے۔ جتنا ہوسکے اتنی حفاظت، اپنی تاریخ اور تمدن کی کرنی چاہئے۔ وہی قوم ترقی یافتہ کہلاتی ہے جو کتابیں پڑھتی ہے، لکھتی ہے اور لکھنے والوں کی حوصلہ افضائی کرتی ہے۔ سید عبدالعظیم کا یہ کارنامئہ عظیم، ضلع چتور کے اردو احباب اور مسلمانوں کے لئے ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔ اس تحفہ کی تحریم کیجئے اور اس کی اور توسیع کرنے میں اپنا تعاون کیجئے۔ تاکہ اردو ادب کا سرمایہ رائگاں نہ جانے پائے۔
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، شعبہ فارسی و اردو، آل انڈیا ریڈیو، نئی دہلی نے کہااردو ادیبوں کا یہی سرمایہ ہے کہ وہ سماجیات کے کسی بھی عنوان پہ بخوبی لکھ سکتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ ہے سماج پر ان کی گہری نظر۔ محترم سید عبدالعظیم کی عقابی نظر اس تاریخ نامہ کی اصل بنیاد ہے۔ مورخین خواہ وہ ابن بطوطہ سے لے کر ابوالفضل تک کیوں نہ ہوں، ان کی یہی عقابی نظر آج کے دور کے لئے قطب نما و مشعل راہ ہے۔ سید عبدالعظیم کی اس تصنیف و تالیف کو میں عظیم نامہ یا عظیم کارنامہ کہنے سے گریز نہیں کروں گا۔
منظوم تاثرات:

ضلع چتور کی ہے یہ تاریخ 

سید عبدالعظیم کا اعجاز 
کارنامے ہیں ان کے ورد زباں 

اپنی خدمات سے ہیں وہ ممتاز 
منہمک ہیں فروغ اردو میں 

روح پرور ہے ان کا یہ انداز 
اپنی تاریخ سے ہے ان کو لگاﺅ 

ان کا یہ کام اس کا ہے غماز 
ہیں وہ شعر و ادب کے گرویدہ 

ان کی مقبولیت کا ہے یہ راز 
اپنے اسلاف سے ہے عشق انہیں 

ان کی یہ کاوشیں ہیں مایئہ ناز 

نسلِ آئندہ کے لئے برقی 
درِ دانش وہ کر رہے ہیں باز
 ڈاکٹر مولانا محی الدین، میرینا ملٹی میڈیا اینڈ ٹیکنولوجیز، مدنپلی نے کہامحترم المقام سید عبدالعظیم تاریخ کے قدردانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے تاریخ کی اہمیت کو بخوبی پہچانا اور اپنی جدو جہد سے تاریخ کے ضروری دساویزات اور واقعات کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کیا۔موصوف نے تاریخ کے مختلف زاویوں پر روشنی ڈالی ہے۔ خصوصاً مسلم حکمران اور مذہبی شخصیات کی زندگی کا احاطہ کیا ہے۔ سید عبدالعظیم نے ضلع چتور کے مسلمانوں کی تاریخ کو یکجا کرنے کی گراں قدر خدمات انجام دی ہے، یہ اپنی مثال آپ ہیں۔ میں اس ناقابلِ فراموش کاوش کو تہہ دل سے مبارک بادپیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اردو طبقہ اس سے فیض حاصل کرے۔ نایب شرافت علی خان، اتالیق اردو، مدنپلی نے کہااردو ادب میں کافی کتابیں لکھی گئیں۔ یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالے لکھے گئے، کئی اصنافِ سخن پر کام ہوا، شعری مجموعے عام ہیں،شخصیات پر بھی کافی کتابیں لکھی گئیں۔ مطالعہ، تنقیدی مطالعہ، پس منظر، تحقیق، تبصرے، یہ تمام ادبی کارروائیاں چلے آرہے ہیں۔ لیکن ایک مختلف اور منفرد نوعیت کی کتاب آپ کے سامنے ہے، جو تاریخ پر مبنی ہے۔ وہ بھی ایسے دور میں منظرِ عام پر آئی ہے جب کہ عوام اپنی ہی تاریخ سے بے بحرہ اور بے حس ہوگئے ہوں۔ یہ قدم نہایت ہی عمدہ اور قابلِ تعریفِ تحسین کا مستحق ہے۔موصوف کا اسلوبِ بیاں نہایت ہی سلیس، آسان اور دکنی تہذیب و تمدن پر مبنی ہے جو عوام الناس کا مطلوب اسلوب ہے۔ جبکہ معیار کے نام پر زبان کو دقیق و مکلف بنا دیا گیا تھا، نتیجتاً کتابیں بنتی گئیں مگر بالائے طاق کی نذر ہوگئیں۔ جنہیں عوام کم اور دیمک زیادہ مستفیدہورہے ہیں۔ سید عبدالعظیم نے اردو حلقہ کا نبض ٹھیک پہچانا اور آسان اردو کا استعمال کیا، جو ہر خاص و عام کے لئے ضروری بھی ہے اور سود مند بھی۔ حضرتِ والا سے ادباً خواستگار ہوں کہ موصوف اپنی تخلیقات کو جاری و ساری رکھیں تاکہ آنے والی نسل موصوف کے اصنافِ سخن سے مزید استفادہ حاصل کر سکے۔ موصوف کا یہ شعر حال و ماضی کا ترجمان ہے، ملاحظہ ہوں؛
ہر صبح حادثے ہیں تو ہر شام مسئلے صدیا گذر گئی ہیں زمانہ سفر میں ہے
دورانِ گردشِ ایام میں تاریخ بھی کافی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ بھی ایسی تاریخ جس کا علم ہر طبقہ کے لئے ضروری ہے۔ ورنہ ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ خود سے سوال کریں اور جواب دینے کے لئے کچھ نہ ہو۔ موصوف نے تاریخ کے ان اوراق پر روشنی ڈالی ہے جس میں ہمیں اپنا عکس نظر آتا ہے۔
سید وارث احمد، اتالیق اردو، مدنپلی، مصنف و مترجم اردو درسی کتب، یس سی ای آر ٹی، حکومت آندھرا پردیش نے کہااردو زبان کا مطلب صرف شعر و شاعری نہیں، دیگر علوم بھی اس میں شامل ہیں۔ اردو ادب میں تاریخ بھی ایک اہم شعبہ ہے جس میں کئی ماہرین نے تصانیف و تالیفات رقم کیں اور مرتب بھی، اور زبانِ اردو کے گنجینے کو مالا مال ہی نہیں بلکہ سرفراز بھی کیا، جو کہ اردو زبان کا سرمایہ ہی نہیں بلکہ ادبی اور ثقافتی ورثہ بھی ہے۔کسی علاقہ کے عالم اور مدبر، اس علاقہ کی تاریخ کو اگر مرتب کرتے ہیں تو وہ تصنیف اس علاقہ کے عوام کا ورثہ بن جاتیں ۔ ورثہ اور ثقافت یہ دونوں ایسے گنجینے ہیں، جن تک رسائی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسا کارنامہ گویا کہ ماضی میں گذرے وقت کی چادر لپیٹ کر اوراق میں رقم کرنا ہے۔ تاریخ لکھنے یا مرتب کرنے کے آداب کو نبھانا بھی ایک مایہ ناز کمال ہے۔ ان تمام اوصاف کو اپنے اندر سمونے والا ہی تاریخ مرتب کرسکتا ہے۔ ساتھ ساتھ اپنے اسلاف سے بے لوث محبت رکھنا بھی اس ترتیب کو جائے کمال تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتاہے۔ ان تمام اوصاف، اصناف، آدابِ تریتبِ تاریخ کے مدنظر سید عبدالعظیم نے ضلع چتور کی اسلامی تاریخ کو مرتب کیا ہے۔ یہ تصنیف اُن تمام حُسنِ نظر والوں کے لئے گوہرِ نایاب ہے، جو تاریخ کے جوہر کو جانتے اور پہنچانتے ہیں، اور اپنے اسلاف کے ہنر کو مانتے ہیں۔ضلع چتور کی اسلامی تاریخ لکھنے کی یہ پہلی کوشش ہے۔ اور امید کرتا ہوں کہ اس تالیف کو مزید توسیع کیا جائے گا۔ اور آئندہ طباعت میں مزید تفصیلات مہ تصاویر یہ تالیف دوبارہ منظر عام پر آئے گی۔ ضلع چتور کے تمام اردو احباب سے امید کرتا ہوں کہ ایسی تالیفات کا بھرپور خیر مقدم کرتے ہوئے مورخین حضرات کی حوصلہ افضائی کی جائے۔

حیدرآباد٭ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی خصوصی رپورٹ

No comments:

Post a Comment