Sunday, 2 July 2023

والد ماجد مولانا مستقیم احسن اعظمی نور اللہ مرقدہ

والد ماجد مولانا مستقیم احسن اعظمی نور اللہ مرقدہ
 جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے تعزیتی جلسہ کے پس منظر میں
(بقلم: محمد عارف عمری، ممبئی)
(فون: 8087175185)
یہ ایک اٹل حقیقت ہے جس کو کبھی جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے کہ ہر ذی نفس کو ایک نہ ایک دن اس عالم فانی کو الوداع کہنا ہے، کیا امیر، کیا غریب، کیا بادشاہ، کیا رعایا، کیا حکیم وطبیب، کیا صحت مند وجفاکش، کوئی ایسا نہیں ہے جس کو پنجہ موت سے رستگاری ہو، حد یہ ہے کہ اس روئے زمین پر خیر کے علم بردار، حکمت ودانائ کی روشنی پھیلانے والے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اجمعین بھی ابدی زندگی کے حامل نہ ہو سکے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صاف صاف لفظوں میں یہ اعلان فرما دیا ہےکل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذی الجلال والاکرا م بجز باری تعالیٰ کی ذات عالیہ کے اس کائنات میں کوئی باقی نہیں رہنے والا ہے، سب کو فنا کے گھاٹ اترنا ہے،لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ فنائیت ابدی ہے، بلکہ ہم مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق یہ ایک مخصوص مدت (عالم برزخ) تک کے لئے جدائی ہے، اس کے بعد آخرت کی لا محدود زندگی میں سارے اولین وآخرین اکٹھے کئے جائیں گے اور اس کے بعد رنگ ونسل، حسب ونسب، مال ودولت، علم وفضل، جاہ وحشمت کی بنیاد پر نہیں بلکہ رحمت خداوندی اور عذاب الہی کے سایہ میں صرف دو ٹھکانے ابد الآباد کے لئے ہوں گے،
آخرت کی کٹھن منزل کا راستہ اسی عالم فانی سے جاتا ہے اور یہیں کی مختصر اور محدود زندگی کے اعمال وہاں کا سرمایہ حیات ہوں گےوالد مرحوم مولانا مستقیم احسن اعظمی نے بچپن سے لیکر بڑھاپے تک ایک اصولی اور مرتب زندگی بسر کی، بچپن میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، دو بڑے بھائیوں نے باپ کی جگہ پر شفقت کا معاملہ کیا تو زندگی کا بیشتر حصہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ایسے خوشگوار تعلقات کے ساتھ گزارا کہ یہ یقین کرنا مشکل ہوتا تھا کہ ان بھائیوں نے والد کی غیر موجودگی میں تقریباً نصف صدی ایک ساتھ کیسے بسر کئے، جبکہ آج والد کی آنکھ بند ہوتے ہی تمام کنبہ بکھر جاتا ہے،مولانا مستقیم احسن اعظمی مرحوم کے بڑے بھائیوں نے ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں پوری طرح مدد کی، اور جب وہ اس قابل ہوگئے کہ اپنے بھائیوں کا ہاتھ بٹاسکیں تو ایک بھائی نے اچانک وفات پائی، دوسرے بڑے بھائی کی نگرانی اور سرپرستی میں انھوں نے اپنے ایک وسیع کنبہ کی کفالت اور اس کی ترقی کی راہیں تلاش کیں،
گھریلو زندگی کے علاوہ علمی، ادبی، سماجی اور رفاہی میدانوں میں مولانا مستقیم احسن اعظمی رح نے ممبئی شہر میں نمایاں نقوش چھوڑے ہیں1972 - 73 میں ہمارے ملک کا عظیم تصنیفی ادارہ دار المصنفین اعظم گڑھ ،شدید مالی بحران کا شکار ہوا، جس کی تلافی کے لئے مولانا شاہ معین الدین ندوی اور سید صباح الدین عبد الرحمن رحمھما اللہ نے ممبئی کا سفر کیا، اس وقت ممبئی کے اہم افراد کے ساتھ مولانا مستقیم احسن اعظمی بھی اس ادارے کے لائف ممبر بنے، دوبارہ 2011 میں اس ادارے کی یہی کیفیت ہوئ اور اس وقت کے ناظم پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے ممبئی کا سفر کیا تو اس موقع پر اپنے دو بیٹوں (محمد عارف اور محمد طارق) کو ادارے کا لائف ممبر بنوایا،
ممبئی شہر کی علمی و ادبی مجلسوں میں پابندی سے شرکت کرتے، ممبئ یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں والد صاحب رح نے "مولانا آزاد کا انانیتی ادب" کے عنوان سے ایک اچھوتا مقالہ پڑھا جس کو علمی دنیا میں بہت سراہا گیا، اسی طرح علامہ شبلی نعمانی پر ممبئی یونیورسٹی اور باشندگان اعظم گڑھ کے اشتراک سے پروفیسر عبد الستار دلوی صاحب نے 1992 میں صابو صدیق الما لطیفی ہال میں جو عظیم الشان سیمنار منعقد کرایا، اس میں تحریک ندوہ کے عنوان سے ایک فکر انگیز تحریر پیش کی، اسی کی دہائی سے پہلے عام طور پر حجاج پانی کے جہاز سے ممبئی کے راستے سفر کیا کرتے تھے، حج کے زمانے میں تاریخی مسافرخانہ صابو صدیق تنگ پڑجاتا تھا، چنانچہ مختلف صوبوں کے افراد نے اپنی محنت اور لگن سے صوبائی بیت الحجاج تعمیر کرائے، اسی دور کی یادگار کرناٹکا بیت الحجاج اور ٹمل ناڈو بیت الحجاج ہے، یوپی کے مخیر حضرات نے بھی اس کا ایک وسیع منصوبہ بنایا، جس میں صور پھونکنے کے لئے والد مرحوم نے دو موقعوں پر تحریری خطبے پیش کئے جن میں عزم وولولہ اور ادب انشاء کی آمیزش کے ساتھ صوبہ یوپی کی خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے، اسی تحریک کے نتیجے میں "یوپی حج اینڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن" کا وجود عمل میں آیا، جس کا دفتر ناگپاڑہ پر ہے،
والد صاحب رح با ذوق ادیب اور شعری مجموعات پر گہری نظر رکھتے تھے،میرے زمانہ طالب علمی میں کسی نے ان سے میری شکایت کردی کہ صرف کھیلتا رہتا ہے، اس کو آپ مدرسہ سے نکال لیں تو بہتر ہے، اتفاق سے دوسرے روز صبح سویرے مجھکو ٹرین پکڑنی تھی، رات کو گھر میں داخل ہوئے تو غصہ سے آنکھیں سرخ تھیں، مجھ سے کہا کہ تم کو مدرسہ نہیں جانا ہے، میں کچھ کسمسایا، اس وقت میں عربی اول یا دوم میں پڑھتا تھا، تو برجستہ ایک عربی شعر پڑھا اور یہ کہا کہ اگر تم اس کا ترجمہ اور مطلب بتادو تو تم مدرسہ جا سکتے ہووہ یہ شعر یوں تھا
یا لیل طل ویا نوم ز ل
 ویا صبح قف لاتطلع
ہم تمام گھر کے بچے بچپن میں والد صاحب رح سے بہت ڈرتے تھے کیونکہ تربیت کے معاملے میں وہ بہت سخت گیر تھے، خوف کے مارے برا حال تھا، پھر بھی میں نے اس شعر کا درست ترجمہ کردیا، تو کہنے لگے کہ یہ کس کا شعر ہوسکتا ہے، میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ کسی عابد وزاہد کا تاکہ شب دراز ہو اور زیادہ سے زیادہ عبادت کا موقع ملے، والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا، لیکن وہ اپنی شرط ہار چکے تھے، تو غصہ سے کہنے لگے کہ کیا یہ کسی چور کا نہیں ہوسکتا تاکہ رات لمبی ہو اور اس کو چوری کا موقع زیادہ سے زیادہ ملے، میں نے خاموشی سے تائید میں عافیت سمجھی، اور صبح سویرے کاشی ایکسپریس کے زریعہ ممبئی سے اعظم گڑھ کے لئے روانہ ہو گیا ،
والد صاحب ؒ کے ساتھ میں نے بچپن میں دو سفر کئے ہیں، جن کی یادیں حافظے میں محفوظ ہیں، ان دونوں سفر میں ان کے حلقہ احباب کی خاصی تعداد تھی جن میں میر کارواں حاجی شمش الدین اعظمی رح ہوا کرتے تھے، 1974 دار العلوم ندوۃ العلماء کے پچاسی سالہ جشن تعلیمی کے موقع پر ممبئی سے جانے والے قافلے کا سب سے چھوٹا فرد میں تھا، اس زمانے میں براہ راست لکھنؤ کے لئے ٹرین نہیں چلتی تھی یا ٹکٹ دستیاب نہیں ہوا، ہم لوگ دو بوگی میں شرکاء اجلاس تھے، یہ دونوں بوگیاں اٹارسی اسٹیشن پر اس ٹرین سے علیحدہ کر دی گئیں، پھر حاجی محمد علی مرحوم کی درخواست پر ایک کار کرایہ پر لیکر ضلع فتح پور کے ان کے گاؤں کھامگاؤں پہونچے، وہاں دو ایک روز قیام رہا، پھر لکھنؤ پہونچے، پروگرام میں شرکت کی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ ہیم وتی نندن بہوگنا نے عرب اور مخصوص مہمانوں کو لکھنؤ کے ہوٹل گلمرگ میں عشائیہ پر مدعو کیا، والد صاحب کے ہمراہ میں بھی اس میں شریک ہوا، اس موقع کا ایک واقعہ نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس سے والد صاحب رح کے طریقہ تربیت کا اندازہ ہوگا، اس وقت ہلکی ہلکی ٹھنڈک پڑ رہی تھی، ابو المآثر مولانا حبیب الرحمن الاعظمی رح کا قیام بھی اسی ہوٹل گلمرگ میں تھا، والد صاحب نے اپنی گرم چادر حضرت کے کندھے پر ڈال دی، اتفاق سے اسی روز کچھ دیر بعد حضرت کو بذریعہ بس نکلنا تھا، چنانچہ ان کو بس اسٹینڈ تک والد صاحب لائے اور بس میں بٹھا کر مجھ سے دھیرے سے کہا کہ جب بس اسٹارٹ ہوجائے تو حضرت سے کہنا کہ یہ چادر آپ ساتھ لیتے جائیں، والد صاحب بس سے اتر گئے، میں کھڑا رہا اور اپنا سبق یاد کرتا رہا، حضرت مولانا نے ارشاد فرمایا کہ اب تم بھی جاؤ، تو میں نے اپنا سبق ان کے سامنے دہرایا، تو کہنے لگے کہ ارے تم نے خوب یاد دلایا، اس کو لو اور جلدی سے چادر کندھے سے اتار کر مجھے دی، والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجھ سے کہنے لگے کہ حضرت اس چادر کو اپنے ساتھ لے جاتے، یہ میرے لئے زیادہ پسندیدہ بات تھی، لیکن میں ان کے مزاج سے واقف ہوں، وہ مئو پہونچ کر جب تک چادر کسی زریعہ سے بھجوا نہ لیتے، ان کو چین نہ آتا، اس لئے میں نے یاددہانی کرائ،
دوسرا سفر بذریعہ فرینٹئر میل (گولڈن ٹمپل) والد صاحب رح کے قافلہ احباب کے ساتھ دہلی، دیوبند اور سہارنپور کا ماہ رمضان المبارک میں ہوا تھا، دہلی میں ہمارا دو تین دن قیام تبلیغی جماعت کے مرکز بستی نظام الدین میں رہا، حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رح کی نوازشیں اس قافلے پر خصوصی نوعیت کی تھیں، مولانا محمد عمر پالنپوری رح کا مغرب یا عشاء کی نماز کے بعد شاندار خطاب ہوتا تھا، اس سفر میں میں اس قدر صغیر السن تھا کہ بزرگوں کے مقام و مرتبہ سے بے خبر تھا، ایک روز میں نے والد صاحب رحمہ اللہ سے کہا کہ وہ مولانا صاحب (مولانا عمر پالنپوری) اچھی تقریر کرتے ہیں اور یہ مولانا صاحب (حضرت جی) ایسا لگتا ہے کہ کتاب پڑھ رہے ہیں، والد صاحب نے فورا میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر فہمائش کی،
اس کے بعد مسجد عبد النبی جمعیۃ علماء ہند کے دفتر میں قیام رہا، اس زمانے میں وہاں مولانا سید احمد ہاشمی اور مولانا سعید سلطانپوری اقامت گزیں تھے، پھر دیوبند کے لئے روانگی ہوئ، حضرت مولانا سید اسعد مدنی رح کا مکان نیا نیا بنا تھا، ان کے مہمان ہوئے، حضرت کا دسترخوان پر مہمانوں کے ساتھ روٹی کا ٹوکرا لیکر بیٹھنے اور لوگوں کی طرف روٹیاں پھینکنے کا منظر ابھی بھی نگاہوں میں گھوم رہا ہے، پھر سہارنپور مظاہر علوم پہونچے ،مولانا عبد الجبار صاحب معروفی سے ملاقات ہوئی، اس زمانے میں حضرت مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ سہارنپور میں ہی مقیم تھے اور روزانہ عصر کی نماز کے بعد مسجد میں ان کی طرف سے بآواز بلند بیعت عام کے الفاظ کہے جاتے تھے جس کو تمام حاضرین دوہراتے تھے،
والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا حلقہ احباب کافی وسیع تھا، مباکپورکی طالب علمی کے زمانے سے جمیل ٹیلر مرحوم اور ان کے بھائی ممتاز مرحوم سے جو تعلقات قائم ہوئے تو عمر بھر برقرار رہے، مولانا عبدالباری صاحب (ناظم جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور) اور قصبہ کے دیگر لوگوں سے ایسا رشتہ استوار ہوا کہ ہر موقع پر ان کی شرکت لازمی سمجھی جاتی تھی، میرے نکاح کے موقع پر ولیمہ کی تقریب میں 1981 میں مولانا عبد الباری رح اور مولانا عبد الستار رح شیخوپور تشریف لائے اور گھر کے کسی ذمہ دار فرد کی طرح تقریب کی سرپرستی فرمائ، مدرسۃ الاصلاح کے احباب کا حلقہ الگ تھا، 1980 میں دار العلوم دیوبند کے قضیہ نا مرضیہ کے بعد دار العلوم دیوبند کے فضلاء کا دفتر ہمارا آفس بن گیا، 1993 کے ممبئ حادثے کے بعد علماء کونسل قائم ہوئی تو اس میں پیش پیش رہے، اس ملی پلیٹ فارم کے پہلے جنرل سیکرٹری مولانا اسرار صاحب کی وفات کے بعد کچھ عرصہ تک والد صاحب بھی جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے، پھر اپنی دیگر مصروفیات کے باعث مستعفی ہوگئے،
چونکہ والد صاحب کا کاروبار دری اور اس کے بعد کپڑے کی بنائ سے متعلق تھا، اس بنا پر " بامبے ویورس کو آپریٹیو سوسائٹی" کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے، بعض دوستوں کے اصرار پر "بامبے مرکنٹائل کو آپریٹیو بینک" کے الیکشن میں حصہ لیکر اس کے بھی دو ٹرم ڈائریکٹر رہے، اس اثنا میں بہت سے لوگوں کو سروس پر لگایا، لیکن خود اپنا اور اپنی اولاد کا دامن بچائے رکھا،
والد صاحب رح کے شب وروز خدمت خلق کی نذر ہوتے تھے، جب تک ہم لوگ چھوٹے تھے، ان کی کاروباری مصروفیات زیادہ رہا کرتی تھیں اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ سماجی کاموں کے لئے وقت نکالا کرتے تھے، لیکن جب ہم لوگ بڑے ہوگئے اور ان کی معاونت کے قابل ہو گئے، تو ان کا پورا وقت ملی کاموں میں صرف ہوتا تھا، ایک دو ٹرم مہاراشٹر اسٹیٹ حج کمیٹی کے ممبر نامزد کئے گئے، حج کمیٹی کے نمائندے کی حیثیت سے سعودی عرب حاجیوں کی رہائش گاہوں کے جائزے کے لئے بھیجے گئے،کمزور طبقہ کے لوگوں بالخصوص مسلمانوں کے لئے حکومت ہند نے مولانا آزاد مالیاتی کارپوریشن بنایا، تاکہ غریب اور متوسط طبقہ اس سے قرض لیکر اپنا کاروبار کرسکے، اس کارپوریشن کے بھی ڈائریکٹر بنائے گئے، اور ہر جگہ ان کی کوشش ضرورت مندوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہونچانے کی ہوا کرتی تھی
ممبئی شہر میں والد صاحب کے گوناگوں تعلقات میں تین خاندان ایسے تھے، جن کے ہر فرد سے ان کو تعلق خاطر تھا، اور وہ حضرات بھی والد صاحب رح کو بیحد عزیز رکھتے تھے،1-حکیم مختار اصلاحی مرحوم اور ان کے دونوں فرزند حکیم فیاض عالم مرحوم اور حکیم محمد طارق صاحب2-حاجی شمش الدین اعظمی رح کا پورا کنبہ3-حاجی تجمل حسین صدیقی مرحوم اور ان کی اولادیں بالخصوص کمال الدین صدیقی اور صلاح الدین صدیقی سے گہرے مراسم تھے
ممبئی میں چالیس سال پہلے مشاعروں کا خاص ماحول تھا، حکیم مختار اصلاحی رح اپنے وطن صبرحد ضلع جونپور کے جامعہ فاروقیہ کی طرف سے ممبئی میں شاندار مشاعرے کرواتے تھے، والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑی پابندی سے مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے، بہت سے مشاعروں کی صدارت بھی فرماتے تھے، تقریباً دس بارہ سال پیشتر میرا روڈ میں والد صاحب رح کی صدارت میں شاندار نعتیہ مشاعرہ ہوا تھا، جس میں بیکل اتساہی، اجمل سلطان پوری اور حبیب ہاشمی جیسے اساطین شعراء نے بنفس نفیس حاضر ہوکر اپنا کلام سنایا تھا،
والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ بھی رہا ہے کہ ممبئی میں رہتے ہوئے گھر، خاندان، اعزہ واقارب، دوست واحباب کے ساتھ وطن شیخوپور میں قائم مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور کی تعمیری ترقی اور اس کے تعارف کے لئے ہمیشہ فکر مند رہا کرتے تھے، اسی طرح دار العلوم دیوبند میں اعظمی منزل کی تعمیر کا جب مرحلہ آیا تو حاجی شمش الدین اعظمی رح کی سربراہی میں اس میں بھی حصہ لیا،
حاجی شمش الدین اعظمی کی تحریک وتحریض پر والد صاحب رحمہ اللہ جمعیۃ علماء سے وابستہ ہوئے، خاص طور پر 1970 کے بھیونڈی فساد کے موقع پر جمعیۃ علماء کے پلیٹ فارم سے نمایاں خدمت انجام دی، وہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی رح کے بڑے شیدائی تھے، ان کی جفاکشی اور ملی درد مندی کے دل سے قائل تھے، مالیگاؤں میں ایک مرتبہ فساد ہوا تو وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے مولانا اسعد مدنی کے ہمراہ والد صاحب اور مولانا محمد اسلم بمہوری تشریف لے گئے تھے، والد صاحب بتاتے تھے کہ مولانا لاش گھر میں گھس گئے، ایک ایک لاش کو الٹ پلٹ کر زخموں کے نشان دیکھتے تھے، تقریباً 35 سال تک والد صاحب رح نے جمعیۃ علماء کے ایک بے لوث کارکن کی حیثیت سے خدمت انجام دی، اس طویل عرصے میں نہ کسی عہدے پر فائز ہوئے اور نہ ہی اس کی آرزو کی، حضرت مولانا سید اسعد مدنی رح کے انتقال کے بعد جمعیۃ علماء کا قافلہ دو مخالف سمتوں میں بٹ گیا اور دونوں فریق ایسی تنگ گلی میں داخل ہو گئے جہاں بجز آگے بڑھنے کے پیچھے مڑنے کا راستہ نہیں بچا، اس موقع پر حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ کے قافلہ کی مہاراشٹر میں سربراہی والد صاحب رح نے بڑی جاں کاہی سے کی، نئے اور نو آموز لوگوں کو جمعیۃ علماء سے جوڑا اور ان کی ہر ہر قدم پر دلجوئی کی، ان حضرات نے بھی والد صاحب رح کے احترام میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، چنانچہ جب تک بدن میں طاقت رہی، روزانہ پابندی سے جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے دفتر میں گھنٹے دو گھنٹے کے لئے تشریف لے جاتے ، متعلقہ امور پر نظر رکھتے اور جمعیۃ علماء کی کارکردگی کو بڑھانے کی کوشش کرتے،
پانچ چھ سال پہلے والد صاحب رح کو صبح کے وقت اچانک برین اسٹروک ہوا، فوری طور پر صابو صدیق اسپتال میں داخل کئے گئے، بظاہر تو شفا یاب ہوگئے، لیکن اس کے سبب سے دماغ پر غیر معمولی اثر پڑا، کمر میں بھی تکلیف رہنے لگی، اس کا آپریشن کرایا، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، دل کا بھی عارضہ پیدا ہو گیا، ڈاکٹر نذیر جوالے صاحب نے بائ پاس سرجری تشخیص کی ، کچھ دنوں اس سے انکار کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ اب زندگی کے ایام پورے ہوچکے ہیں، جب تک سانس چل رہی ہے، دوا پر کام چلائیں گے، پھر آپریشن کے لئے تیار ہوگئے، 80 سال کی عمر میں بائ پاس سرجری کے لئے آمادہ ہوجانا تمام لوگوں کے لئے باعث حیرت تھا، الحمد للہ کامیاب بائ پاس سرجری ہوئ، لیکن پیری وصد عیب کے مصداق رہ رہ کر کچھ تکلیف ہوتی رہی اور چلنا پھرنا دوبھر ہوگیا، آخر کے تقریباً ایک ڈیڑھ سال صاحب فراش ہوگئے، بڑی محنت سے کمرے کے اندر تھوڑی دیر ٹہلائے جاتے، لیکن اس کی بھی ہمت کم ہوتی گئی، والد صاحب کے اندر ہمت بہت تھی، وہ موت سے بالکل خائف نہیں تھے، تقریباً تین ماہ قبل ایک روز مجھ سے کہنے لگے کہ اب صرف موت کی آرزو ہے، میں نے کہا کہ ایسا کیوں کہتے ہیں، تو کہنے لگے کہ یہ کوئی زندگی ہے کہ آدمی اپنے سے چل پھر نہ سکے، میں نے کہا کہ ہم لوگ کس دن کے لئے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو کوئی ایسا عارضہ نہیں ہے جس کی مسلسل تکلیف ہو، بقیہ خدمت کے لئے تو آپ کی تمام اولاد موجود ہے، اس پر خاموش ہوگئے،
آخری ایام میں دوست، احباب، جمعیۃ، جماعت ،آل اولاد سب سے یکسر بے نیاز ہوکر صرف یہ مطالبہ کرتے تھے کہ شیخوپور (وطن اصلی) چلنا ہے، اپنے سدھانے پلاسٹک کی کچھ تھیلیاں جمع کر رکھی تھیں، اور اس کو سامان سفر سمجھتے تھے، اپنے تینوں بھائیوں (جو سب کے سب ان سے پہلے مرحوم ہوچکے) کا ذکر خیر کرتے، بقیہ کسی کو کبھی پہچان لیتے اور کبھی نہیں پہچانتے، والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد یعنی ہمارے دادا کا وطن اصلی علاؤالدین پٹی تھا، جہاں سے وہ اپنی والدہ کے ساتھ والد کے انتقال کے بعد نکاح ثانی کی وجہ سے شیخوپور منتقل ہوگئے تھے، لیکن ان کا نکاح علاؤالدین پٹی اپنے خاندان میں ہوا تھا، اس لحاظ سے والد صاحب رح کا نانہال بھی علاؤالدین پٹی تھا، بیماری کی اس شدت میں جبکہ کسی کو پہچان رہے ہیں اور کسی کو نہیں، ہمارے ایک عزیز علاؤالدین پٹی کے ملنے کے لئے آئے تو ان کا نام لیکر استقبال کیا، ہم لوگوں نے دریافت کیا کہ کون ہیں، تو نام اور گاؤں کی وضاحت کرکے کہا کہ میرا وہاں بہت وقت گزرا ہے،
میں کہیں دو ایک روز کے لئے سفر پر جاتا تو گھنٹہ گھڑی گنا کرتے تھے، لیکن جب ان کو سفر حج کی اطلاع دی تو مسرت آمیز لہجہ میں "مبارک ہو" کہا،دن بہ دن والد صاحب کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی، اور حج کے سفر کی تاریخ قریب آرہی تھی، جس دن نکلنا تھا، میں نے مصافحہ کیا اور درخواست کی کہ معانقہ کرنا چاہتا ہوں، ہمت کرکے کسی طرح بیٹھ گئے ان کے گلے سے لگ گیا اور دل نے یہ صدا دی کہ اس عالم فانی کی یہ آخری ملاقات معلوم ہوتی ہے، آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے، فوری طور پر ضبط کیا تاکہ میرے بچے اس کو محسوس نہ کریں، میری اہلیہ نے دعا کی فرمائش کی تو اس کے سر پر چھو کرکے پھونک ماری اور مسکرا کر ہم کو رخصت کیا،
مکہ مکرمہ پہونچ کر تین چار روز گزرے تھے کہ بچوں نے والد صاحب رحمہ اللہ کی تشویشناک حالت کی اطلاع دی، چھوٹے بھائی محمد طارق نے بھی
حالت کی نزاکت سے باخبر کیا، مشورہ ہوا کہ کسی اسپتال میں ایڈمٹ کر دیا جائے، حالانکہ بچے دن رات خدمت میں مشغول تھے،
بالآخر 20 جون 2023 کی صبح کو چھوٹے بھائی محمد طارق نے رندھی ہوئ آواز میں یہ اطلاع دی کہ والد صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہےانا للہ وانا الیہ راجعو ن
ہم تینوں بھائیوں نے باہم مشورہ کرکے یہ طے کیا کہ ناریل واڑی قبرستان میں والدہ مرحومہ کے آس پاس تدفین کی جائے، اور جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے جنرل سیکرٹری مولانا حلیم اللہ صاحب قاسمی سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی جائے، بار الہا! تو اپنے اس کمزور بندے پر اپنا فضل وکرم فرما، سیئات سے درگذر فرما اور حسنات کو شرف قبولیت عطا فرما، تیرے اس بندے نے تیرے بندوں کی خدمت گزاری عبادت سمجھ کر کی ہے، تو اس کے ان اعمال حسنہ کو نجات کا زریعہ بنا، تیرے اس کمزور بندے نے دو سال تک بے بسی، کمزوری اور لاچاری کی زندگی گزاری ہے، تو اس کو کفارہ سیئات بنا، اور ہم اولادوں سے حق خدمت ادا نہیں ہوا، تو اس جرم کو معاف فرما، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین


No comments:

Post a Comment