ذیابیطس اوروزن کم کرنے کی ادویات کا خودکشی سے کیا تعلق ہے؟
یوروپ کی ادویات کی منظوری دینے والی ایجنسی نے منگل کو کہاہے کہ اس نے خودکشی کے رجحانات کی دو رپورٹس کے بعد نوو نورڈِسک کی ذیابیطس کی دواں اوزیمپک اور سیکسینڈا کے بارے میں اپنی تحقیقات کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔ادویات کی اسی کلاس میں شامل دیگر دوائیں شامل کرنے کیلئے ایجنسی نے 3 جولائی کو اپنا جائزہ اس وقت شروع کیاتھا جب آئس لینڈ کے ہیلتھ ریگولیٹر زنے مریضوں میں خودکشی کے خیا لات اور نوو نورڈیسک کی ادویات کے استعمال کے بعد خود کو نقصان پہنچانے کے رجحانات کے مسائل کے بارے میں خبر دار کیا تھا۔وزن کم کرنے والی ادویات کے ایک اور گروپ سے جڑے خودکشی کے خیالات کے مسائل بھی سامنے آئے ہیں،جنہوں نے وزن کم کرنے والی منافع بخش دوائیں تیار کرنے کی ادویات کی صنعت کی کوششوں کو روک دیا ہے۔سانوفی کی وزن کم کرنے والی دوا ’اکومپلیا‘، جسے امریکہ میں کبھی بھی استعمال کیلئے منظور نہیں کیاگیا، خودکشی کے رجحانات سے وابستہ ہونے کے بعد 2008 میں یوروپ میں مارکیٹ سے واپس لے لی گئی تھی۔یوروپی میڈیسن ایجنسی نے منگل کو کہا کہ وہ ’جی ایل پی ون- ریسیپٹر ایگونسٹ‘ کے نام سے معروف ان ادویات کے بارے میں تحقیقات کرے گی، جو کھانے کے بعد پیٹ بھرنے کا احساس پیدا کرتی ہیں۔جی ایل پی-ون ادویات وہ ہیں جو ذیابیطس کے علاج اور فربہی کو ختم کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں۔ایجنسی کے مطابق یہ جائزہ نومبر میں مکمل ہونے کی امید ہے۔ان رپورٹوں کے بعد دوا ساز کمپنی’ایلی للی‘ کے شیئرز میں 3.1 کی گراوٹ آئی جس کی ذیابیطس کی دوا’ٹرولیسٹی‘بھی اسی گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔نوو نورڈِسک کی وزن کم کرنے والی دوا ’وی گو وی‘ بھی اس جائزے کا حصہ ہے، جس میں فعال جزو’سماگلوٹائیڈ‘شامل ہے۔دیگر جی ایل پی ون ادویات میں’سنوفی کی 'سولیکوا' اور ایسٹرا زینیکا کی 'بائی ڈورین' شامل ہیں جو ذیابیطس۔ٹو کے علاج کیلئے یوروپ میں منظور شدہ ہیں۔سنوفی نے کہا کہ اس کے’جی ایل پی- ون، ریسیپٹر ایگونسٹ‘ کے استعمال سے’خودکشی کے رجحانات‘ سے متعلق کوئی حفاظتی خدشات اس کے علم میں نہیں آئے تاہم کمپنی نے تحقیقات شروع کر دی ہیں اور وہ تمام متعلقہ معلومات یوروپی ہیلتھ ریگولیٹر کیساتھ شیئر کرے گی۔ ایلی للی اور ایسٹرا زینیکا نے فوری طور پر تبصرہ کیلئے ’رائٹرز‘ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔یوروپی ہیلتھ ریگولیٹر،تھائیرائیڈ کینسر کے ممکنہ خطرے کیلئے بھی جی ایل پی-ون ادویات کی بھی تحقیقات کررہا ہے۔
https://saagartimes.blogspot.com/2023/07/blog-post_13.html
No comments:
Post a Comment