📿جمعہ
کے دن درود پاک کی کثرت:
(بقلم: حضرت الشیخ متکلم اسلام
مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللّٰہ)
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ؛ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ، تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ، إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ، حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا»
قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟
قَالَ: «وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ»
📚سنن ابن ماجہ ص119
باب ماجاء فی ذکر وفاتہ ودفنہ
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پاک بھیجا کرو. اس لئے کہ ملائکہ اس دن حاضر ہوتے ہیں اور جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ درود اسی وقت مجھ پر پیش کیا جاتا ہے اور جب تک وہ درود پڑھتا رہے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ میں نے عرض کیا: آپ کی وفات کے بعد بھی؟ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ہاں وفات کے بعد بھی۔ اللہ رب العزت نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے بے شک اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے۔
فائدہ: 1: اس حدیث پاک سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ بات سمجھتے تھے کہ صلاۃ وسلام آپ علیہ السلام روح مع الجسد پر پیش ہوتا ہے اس لیے قبل الوفات درودپاک کے پیش ہونے پر کوئی اشکال نہیں ہوا۔ بلکہ بعد از وفات عرض صلوٰۃ وسلام پر اشکال ہوا کہ دفن ہوجانے کے بعد انسانی جسم ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور اسے زمین کھالیتی ہے، آپ علیہ السلام کے جسداطہر کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آئے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ وسلام کیسے پیش ہوگا؟ اس اشکال کو صحابی نے پیش کیا ”وبعد الموت؟“ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا جی ہاں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اجسادمبارکہ مٹی پر حرام ہیں۔
اور یہ شبہ دو وجہ سے پیش آسکتا ہے:
1: صلوٰۃ وسلام روح مع الجسد پر پیش ہوگا کیونکہ نبوت نہ اکیلی روح کا نام ہے اور نہ اکیلے جسم کا بلکہ روح مع الجسد کا نام ہے۔
2: وفات کے بعد عام امتی اور نبی کے جسم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
حضور پاک علیہ السلام نے پہلی بات پر سکوت فرمایا اور تصدیق کردی کہ آپ کا پڑھا جانے والا صلوٰۃ وسلام روح مع الجسد پر پیش ہوتا ہے اور دوسری بات کی صراحتا تردید کرتے ہوئے فرمایا:
"إِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ"
اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نظریہ یہ ہوتا کہ صلوٰۃ وسلام صرف روح مقدس پر پیش ہوتا ہے تو ان کو یہ شبہ ہی پیدا نہ ہوتا اور وہ وبعدالموت کا سوال ہی نہ کرتے اور اگر روح مع الجسد پر صلوٰۃ وسلام کا پیش ہونے والا نظریہ غلط ہوتا تو حضور پاک اس کی تردید فرمادیتے کہ تم
”إِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ، إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ، حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا“
کا مطلب غلط سمجھے ہو صلوٰۃ وسلام تو صرف روح پر پیش ہوتا ہے حضور پاک نے ان کے اس نظریہ کی تردید نہیں فرمائی بلکہ فرمایا انبیاء کے جسم بھی محفوظ ہوتے ہیں اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اپنے رب کی طرف سے رزق بھی دیا جاتا ہے۔
2: اس سے یہ معلوم ہوا کہ صلوٰۃ وسلام کا پیش ہونا اس جسد عنصری پر ہوتا ہے جسدمثالی پر نہیں ہوتاکیونکہ اگر جسدمثالی پر پیش ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ اشکال ہی پیدا نہ ہوتا۔ اس لئے کہ جسدمثالی کو زمین کھاتی ہی نہیں ہے۔
(📚صلوٰۃ وسلام صفحہ نمبر 31-32) ( #ایس_اے_ساگر )
No comments:
Post a Comment