Wednesday 15 April 2015

غیر مقلدین کا شرعی حکم

غیر مقلدین کا شرعی حکم​
(حضرت مولانا مفتی محمد سعید صاحب قاسمی پالن پوری مدظلہ العالی، استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند)​

(آخری کاپی میں پانچ صفحات بچ گئے تھے۔میرا ایک مضمون ماہ اکتوبر ۲۰۰۱ء کے’’ترجمان دیوبند‘‘میں مذکورہ عنوان سے چھپا تھا۔
وہ مضمون کتاب کے آخری ساتویں مسئلہ سے مناسبت رکھتا ہے،اس لئے یہاں اس کا ضروری حصہ درج کیا جاتا ہے۔)
غیر مقلدین اور مودودی حضرات کا شرعی حکم کیا ہے؟اور اس کی دلیل کیا ہے؟کچھ حضرات کو اس میں خلجان ہے وہ مذکورہ دونوں فرقوں کو اہل السنّۃ والجماعۃ میں شمار کرتے ہیں اس لئے ذیل میں اس کا حوالہ اور وضاحت عرض کی جاتی ہے۔
یہ دونوں فرقے اگر چہ اسلامی فرقے ہیں یعنی مسلمان ہیں مگر فرقۂ ناجیہ اہل السنۃ والجماعۃ میں داخل نہیں ہیں کیونکہ اہل سنت سے ان کا اختلاف اصولی ہے صرف فروعی نہیں ہے۔دلائل درج ذیل ہیں:
پہلی دلیل:علامہ احمدبن محمد طحطاوی رحمہ اللہ(متوفی ۱۲۳۱ھ)جو مشہور حنفی فقیہ ہیں جو علامہ شامی کے استاذ ہیں اور جن کا الدر المختار کا حاشیہ چار جلدوں میں مطبوعہ اور مفتی بہ کتابوں میں ہے۔وہ الدر المختار کے حاشیہ میں کتاب الذبائح میں جہاں ذابح کے مسلمان ہونے کی شرط کا بیان آیا ہے تحریر فرماتے ہیں:
فعلیکم معاشر المؤمنین باتباع الفرقۃ الناجےۃ المسماۃ باہل السنۃ والجماعۃ فان نصرۃ اللہ وحفظہ وتوفیقہ فی موافقتہم وخذلانہ وسخطہ ومقتہ فی مخالفتہم وہذہ الطائفۃ الناجےۃ قد اجتمعت الیوم فی مذاہب اربعۃ وہم الحنفیون، والمالکیون، والشافعیون، الحنبلیون رحمہم اللہ ومن کان خارجا عن ہذہ الأربعۃ فی ہذاالزمان فہومن أہل البدعۃ والنار(ج۴ص ۱۵۳)
ترجمہ:۔ پس اے جماعت مومنین! تم پر لازم ہے فرقۂ ناجیہ کی پیروی کرنا جو اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتا ہے کیونکہ اللہ کی مدداور اس کی حفاظت اور اس کی توفیق ان کی ہم نوائی میں ہے اور اللہ کی رسوائی اور اس کی ناراضگی اور اس کا شدید غصہ ان کی مخالفت میں ہے اور یہ جماعت ناجیہ اس زمانہ میں مذاہب اربعہ میں اکٹھاہوگئی ہے اور وہ مذاہب اربعہ:۔ احناف، مالکیہ، شوافع اور جنابلہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی فرمائیں۔ اور جو شخص اس زمانہ میں ان چارمذاہب سے باہر ہے پس وہ گمراہ لوگوں میں سے اور دوزخیوں میں سے ہے(بدعت کا لفظ اصول حدیث اور اصول اسلام کی کتابوں میں گمراہ فرقے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے)
مودودی جماعت تو مذاہب اربعہ میں سے کسی کی پابندی کے قائل ہی نہیں، اور غیر مقلدین ایک مستقل مکتب فکر کی پیروی کرتے ہیں۔ پس یہ دونوں جماعتیں مذاہب اربعہ سے خارج ہیں اوران کا حکم اوپر کی عبارت سے واضح ہے۔
دوسری دلیل:۔ شیخ الطائفہ، فقیہ النفس حضرت اقدس مولانا رشید احمد قدس سرّہ کا ایک مشہور رسالہ’’سبیل الرشاد‘‘ نامی ہے، جو مطبوعہ اور عام طور پر دستیاب ہے اور تالیفات رشیدیہ میں بھی شامل ہے اس میں پہلے سات استفسار ات کے جوابات ہیں پھر غیر مقلدین کی چند باتوں کے جواب ہیں، ان کا قول پنجم اور اس کا جواب درج ذیل ہے؟
قول پنجم:۔ غیر مقلدین کہتے ہیں کہ فرقہ ناجیہ اہل حدیث ہیں اور وہی اہل سنت وجماعت ہیں لہٰذا جو جو مسئلہ فقہ کا خلاف حدیث کے ہو اس کو ترک کرنا واجب ہے اور چار مصلیٰ جو مکہ معظمہ میں بنائے ہیں وہ سب بدعت ہیں پس اپنا لقب محمدی اور موحد رکھنا چاہئے نہ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی۔ فقط
جواب: ان سب جوابوں سے جو لکھے گئے ہیں سب عام وخاص کو معلوم ہوچکا ہے کہ جملہ فقہاء، مجتہدین اور تمام ان کے مقلدین، عامل بقرآن وحدیث ہیں، کسی نے کوئی روایت حدیث کی، محل اختلاف میں مرجح فرمائی اور اس پر عمل کیا، کسی نے دوسری روایت پر عمل کیا ،مگر سب عامل بقرآن و حدیث ہیں اور سب خلافِ قرآن و حدیث کو مردود فرماتے ہیں،اور جملہ محدثین وفقہاء عامل کتاب اللہ تعالیٰ و سنت رسول اللہ ﷺ کے ہیں اور وہ سب فرقۂ ناجیہ و سنت و جماعت سے ہے کہ حدیث صحیح میں وارد ہو گیا ہے بیان فرقۂ ناجیہ میں کہ جب پوچھا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہ وہ کون ہیں؟فرمایا آپ نے ماأنا علیہ وأصحابی(الحدیث)پس صحابہ کا طریق اور ان کا اتباع راہِ نجات ہے اور وہی فرقۂ ناجیہ۔لہٰذا جملہ مجتہدین اور ان کے اتباع اور جملہ محدثین فرقۂ ناجیہ اہل سنت والجماعت ہو گئے بحکم حدیث صحیح۔
البتہ جو جُہّال،محدثین مقبولین کو اپنی تقلید(کذافی الا صل)کے جوش تعصب میں طعن وتشنیع کرتے ہیں یا وہ جو عامل بحدیث بزعم خود ہو کر فقہاء ومجتہدین راسخین پر سبّ وشتم کرتے ہیں اور فقہ کے مسائل مستنبط عن النصوص کو بنظر حقارت دیکھ کر زشت وزبوں جانتے ہیں وہ لوگ خارج ازفرقۂ ناجیہ اہل سنت اور متبع ہوائے نفسانی اور داخل گروہِ اہل ہواء کے ہیں۔فقط(تالیفات رشیدیہ ص۵۱۶)
حضرت گنگوہی قدس سرہ کی مذکورہ عبارت کے آخری جملے صاف اور صریح ہیں کہ یہ بے لگام غیر مقلدین سواداعظم اہل السنتہ والجماعۃ سے خارج ہیں۔
تیسری دلیل: فتوی جامع الشواہد میں دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر المدرسین حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی،حضرت اقدس مولانا گنگوہی،شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی اور حضرت مفتی عزیز الرحمٰن صاحب عثمانی وغیرہ کے دستخطوں اور مہروں سے غیر مقلدین کے بارے میں درج ذیل فتویٰ مذکور ہے:
’’عقائد اس جماعت کے جب کہ خلاف جمہور اہل سنت ہیں تو بدعتی(گمراہ فرقہ)ہونا ان ظاہری اور مثل تجسیم اور تحلیل چار سے زیادہ ازواج کے اور تجویز تقیہ اور برا کہنا سلف صالحین کا فسق یا کفر ہے تو اب نماز اور نکاح اور ذبیحہ میں ان کے احتیاط لازم ہے جیسے روافض اور خوارج کے ساتھ احتیاط چاہئے‘‘
حررہ محمد یعقوب النانوتوی عفی عنہ، رشید احمد گنگوہی عفی عنہ، ابو الخیرات سید احمد عفی عنہ، محمود دیوبندی عفی عنہ۔
چوتھی دلیل:حکیم الامت حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کی ایک کتاب’’مأۃدروس‘‘مکتبہ دارالعلوم کراچی سے شائع ہوئی ہے اس کتاب کا سبق نمبر ۹۵درج ذیل ہے:
الدرس الخامس والتسعو ن فی المذاھب المنتحلۃ الی الاسلام فی زماننا.أھل الحق منھم أھل السنۃ والجماعۃ،المنحصرون باجماع من یُعتدٌ بھم فی الحنفیۃوالشافعیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ.
وأھل الأ ھواء منھم غیر المقلدین الذین یدعون اتباع الحدیث وأنی لھم ذلک!وَجَھَلَۃُ الصوفیۃ وأشیاعھم من المبتدعین،وان کان بعضھم فی زی العلم،والروافضُ والنیچریۃُ الذین یضاھون المعتز لۃ،فایاک وایاھم فتدنس بھو اھم.
مذکورہ عبارت کا ترجمہ’’مأۃ دروس‘‘میں یہ کیا گیا ہے:
سبق نمبر ۹۵ ہمارے زمانہ کے ان مذاہب کے بارے میں جواسلام کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں:
اہل حق ان میں سے اہل سنت والجماعت ہیں جو منحصر ہیں باجماع ان حضرات کے جن کا اعتبار کیا جاتا ہے حنفیہ،شافعیہ،مالکیہ اور حنابلہ میں اور اہل اہواء ان میں سے غیر مقلدین ہیں جو کہ اتباع حدیث کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ انہیں اس دعویٰ کا حق حاصل نہیں اور جاہل صوفی اور مبتدعین میں سے ان کے پیرو ہیں اگرچہ بعض ان میں سے علماء کی سی صورت میں ہیں اور روافض نیچری جوکہ معتزلہ کے مشابہ ہیں،لہٰذا اے مخاطب!تو ان سے بچ ورنہ یان کی خواہش نفسانی سے پلید ہوجائے گا۔
تشریح: انتحال کے معنی ہیں غلط طور پر منسوب ہونا۔اس سبق میں ان باطل فرقوں کا بیان ہے جواپنا اسلام کی طرف انتساب کرتے ہیں یعنی خود کو اہل حق بتلاتے ہیں اس سبق کے شروع میں اہل حق کا بیان تمہید کے طور پر آیا ہے،مقصود در حقیقت چار گمراہ فرقوں کا بیان ہے۔
قولہ باجماع من یُعتد بہ:کا مطلب یہ ہے کہ انعقاد اجماع میں جن کے اتفاق واختلاف کا اعتبار کیا جاتا ہے۔اور وہ اہل حق ہیں،باطل فرقوں کے نہ اختلاف کا اعتبار ہے نہ اتفاق کا۔جیسے مزامیر(ساز،گا نے بجا نے کے آلات)کی حرمت پراجماع ہے،ابن حزم ظاہری نے اختلاف کیا ہے،وہ جواز کے قاہل ہیں،ان کے اس اخلاف کا اعتبار نہیں کیا گیا۔تحفتہ العرب والعجم میں ابن حزم کے قول کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ:’’ابن حزم کے قول کا اعتبار نہیں کیونکہ وہ اہل السنتہ والجماعتہ میں سے نہیں،بلکہ اہل ظواہر میں سے ہے‘‘شرعی فیصلے ص۹۴)
اہل ہوا:یعنی خواہشات کی پیروی کرنے والے،اور اہل بدعت یعنی گمراہ جماعتیں چار ہیں اول غیر مقلدین،دوم بدعتی(رضا خانی)سوم شیعہ(رافضی)اور چہارم نیچری،جس کے بانی سرسید شمار کئے جاتے ہیںیہ معتزلہ کی طرح عقل کی پرستار ہیں پھر چاروں فرقوں سے بچے رہنے کی ہدایت ہے اگر ان میں سے کسی بھی فرقہ کے ساتھ میل جول رکھا جائے گا تو ان کی خواہش نفسانی سے آدمی پلید ہوجائے گا یعنی گمراہ ہوکر رہ جائے گا۔
پانچویں دلیل:امداد الفتاویٰ جلد چہارم عنوان مسائل شتی ص۴۹۳پر غیر مقلدین کے سلسلہ میں ایک سوال وجواب ہے جو بعینہٖ درج ذیل ہے:
سوال نمبر ۵۴۸:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین ان مسائل میں کہ آیافی زماننا غیر مقلدین(جو اپنے تئیں اہل حدیث کہتے ہیں اور تقلید شخصی کو ناجائز)بہ ہےئت کذائیہ داخل اہل سنت دالجماعت ہیںیا مثل فرق ضالّہ روافض وخوارج وغیر ہا کے ہیں ان کے ساتھ مجالست ومخالطت ومناکحت عامی مقلدین کو جائز ہے یا نہیں اور ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا درست ہے یا نہیں؟
سوال دوئم:دوسرے ان کے پیچھے نماز پڑھنایا ان کا عامی مقلدین کی جماعت میں شامل ہونا درست ہے یا نہیں؟
الجواب عن السؤال الأول والثانی:مسائل فرعیہ میں کتاب وسنت واجماع وقیاسِ مجتہدین سے تمسک کرکے اختلاف کرنے سے خارج ازاہل سنت ہوجاتا ہے اور مبتدع کی اقتداء مکروہ تحریمی ہے۔اس قاعدے سے سب فرقوں کا حکم معلوم ہوگیا۔
چھٹی دلیل:امداد الفتاویٰ کی اسی جلد میں سوال نمبر ۵۸۲غیر مقلدین کے ساتھ معاملہ کے بارے میں ہے،جواب کا ضروری حصہ درج ذیل ہے:
’’ہمارا نزاع غیر مقلدین سے فقط بوجہ اختلافِ فروع و جزئیات نہیں ہے اگر یہ وجہ ہوتی تو حنفیہ اور شافعیہ کی کبھی نہ بنتی،لڑائی دنگہ رہا کرتا،حالانکہ ہمیشہ صلح واتحاد رہا،بلکہ نزاع ان لوگوں سے اصول میں ہوگیا ہے کیونکہ سلف صالح کو خصوصا امام اعظم علیہ الرحمہ کو طعن وتشنیع کے ساتھ ذ کر کرتے ہیں اور چار نکاح سے زائد جائزرکھتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دربارۂ تراویح بدعتی بتلاتے ہیں اور مقلدوں کو مشرک سمجھ کر مقابلہ میں اپنا لقب موحدر کھتے ہیں اور تقلید ائمہ کو مثل رسم جاہلانِ عرب کے کہتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَاءَ نَا معاذ اللہ!استغفراللہ خدا تعالیٰ کو عرش پر بیٹھا ہوا مانتے ہیں( رسالہ الا حتواء علی مسئلۃ الاستواء تصنیف نواب صدیق حسن خاں امیر بھوپال،مطبوعہ گلشن اودھ لکھنؤ میں لکھا ہے کہ:خدا عرش پر بیٹھا ہے اور عرش اس کا مکان ہے اور دونوں قدم اپنے کرسی پر رکھے ہیں اور کرسی اس کے قدم رکھنے کی جگہ ہے)۔(بحوالہ شرعی فیصلے ص۴۵۰)
فقہ کی کتابوں کو اسبابِ گمراہی سمجھتے ہیں اور فقہاء کو مخالف بتلاتے ہیں اور ہمیشہ جو یائے فساد وفتنہ انگیزی رہتے ہیں۔
علی ہذا القیاس بہت سے عقائد باطلہ رکھتے ہیں کہ تفصیل وتشریح اس کی طویل ہے اور محتاج بیان نہیں،بہت سے بندگانِ خدا پر ظاہر ہے خاص کر جو صاحب ان کی تصنیفات کو ملا حظہ فرماویں ان پر یہ امراظہر من الشمّس ہو جائے گا۔پھر اس پر عادت تقیہ کی ہے موقعہ پر چھپ جاتے ہیں اکثر باتوں سے مکر جاتے ہیں اور منکر ہو جاتے ہیں۔پس بوجوہِ مذکورہ ان سے احتیاط سب امور دینی و دنیاوی میں بہتر معلوم ہوتی ہے(امدادالفتاویٰ ص۵۶۲ج ۴)
ساتویں دلیل:دارالعلوم دیوبند کے اجلاسِ صد سالہ کے موقعہ پر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے درجۂ علیا اور وسطیٰ الف کے اساتذہ کو مشورہ کے لئے طلب فرمایا میں اس زمانہ میں وسطی الف کامدرس تھا چنانچہ میں بھی مشورہ میں شریک ہوا،مجلس میں زیر بحث موضوع یہ تھا کہ اجلاس صدسالہ میں دعوت کن لوگوں کودی جائے،مجلس میں بالاتفاق یہ بات طے پائی کہ صرف اہل سنت والجماعت کو دعوت دی جائے دیگر گمراہ فرقوں کو دعوت نہ دی جائے،چنانچہ سب سے پہلے غیر مقلدین کا تذکرہ آیا اور تمام اساتذۂ دارالعلوم دیوبند نے بالاتفاق طے کیا کہ غیر مقلدین اہل السنۃ والجماعۃ میں شامل نہیں ہیں،پس ان کو دعوت نہ دی جائے چنانچہ اجلاس صدسالہ میں کسی غیر مقلد عالم کو دعوت شرکت نہیں دی گئی۔
پھر مودودی جماعت کا تذکرہ آیا تو علیا کے ایک استاذ نے فرمایا کہ ان کو دعوت دینی چاہئے کیونکہ وہ اہل السنۃ والجماعۃ میں شامل ہیں۔دوسرے استاذ نے معارضہ کیا اور کہا کہ وہ بھی اہل سنت والجماعت میں شامل نہیں ہیں پس ان کو بھی دعوت نہ دینی چاہئے۔ان دونوں اساتذہ میں تقریباًپون گھنٹہ اس موضوع پر بحث ہوئی اور حضرت حکیم الاسلام قدس سرہٗ اور پوری مجلس اس بحث کو بغور سنتی رہی،آخر میں حضرت حکیم الاسلام قدس سرہٗ نے فرمایا’’میں نے آپ حضرات کی گفتگو سنی میری رائے یہ ہے کہ ان کو دعوت نہ دی جائے‘‘
چنانچہ طے ہوگیا کہ کسی مودودی عالم کو بھی اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہ دی جائے گی،بلکہ بک اسٹال کے لئے جماعت اسلامی کو جگہ الاٹ کی جا چکی تھی وہ الاٹمنٹ بھی اہتمام کے حکم سے ختم کر دیا گیا،یہ بیس سال پہلے کے علیا اور وسطیٰ الف کے تمام اساتذہ کا حکیم الاسلام قدس سرہ کی صدارت میں اجماعی فیصلہ تھا کہ یہ دونوں جماعتیں اہل السنۃ والجماعۃ میں شامل نہیں ہیں۔
آٹھویں دلیل : غیر مقلدین خود کو اہل حدیث کہتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’حدیث‘‘ اور’’سنت‘‘ ایک ہیں یا اُن میں کچھ فرق ہے؟اگر ان دونوں میں تساوی کی نسبت ہے اور دونوں ایک چیز ہیں تو بیشک اہل حدیث،اہل السنۃ میں شامل ہیں،اور اگر ان دونو ں باتوں میں فرق ہے تو نام نہاد اہل حدیث کے اہل السنۃمیں شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔تفصیل درج ذیل ہے:
سنت کے معنی ہیں:اسلامی طریقہ(الطریقۃ المسلوکۃ فی الدین)اور حدیث:آنحضرتﷺ کے ارشادات،افعال،تائیدات اور اوصاف واحوال کا نام ہے اور حدیث اور سنت میں عام خاص من وجہ کی نسبت ہے۔سنت صرف وہ احادیث ہیں جو معمول بہا ہیں،آنحضرت ﷺ کے ساتھ مخصوص یا مؤوّل یا منسوخ نہیں ہیں جیسے صوم وصال کی روایت اور حدیث الماء من الماء سنت نہیں ہیں۔
اسی طرح خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے رائج کردہ دینی طریقے بھی سنت ہیں،مگر عرفِ عام میں ان پر حدیث کا اطلاق نہیں کیا جاتا جیسے جمعہ کی اذانِ اول اور باجماعت ۲۰ رکعت تراویح سنت ہیں۔
پس وہ احادیث جو معمول بہا ہیں مادّۂ اجتماع ہیں یعنی وہ حدیث بھی ہیں اور سنت بھی اور حدیث الماءُ من المائپہلا مادّۂ افتراق ہے یعنی حدیث ہے مگر سنت نہیں، کیونکہ وہ منسوخ ہے۔اور جمعہ کی اذانِ اوّل دوسرا مادّۂ افتراق ہے یعنی وہ صرف سنت ہے۔
اور احادیث میں‘‘سنت‘‘کو مضبوط پکڑ نے کی تاکید آئی ہے اور کتاب وسنت کے ساتھ تمسک کے ساتھ ہدایت کے وابستہ ہونے کی اطلاع دی گئی ہے۔ارشاد ہیمن تمسک بسنتی عند فساد أمتی فلہ أجر ماءۃ شھید(مشکوٰۃ حدیث نمبر۱۷۶)اور ارشاد ہے:ترکتُ فیکم أمرین لن تضلّوا ماتمسکتُم بھما:کتاب اللّہ وسنّۃ رسولہ(مشکوٰۃ حدیث نمبر۱۸۶)اور ارشاد ہے:العلم ثلا ثۃ: آیۃ محکمۃ،اوسنۃ قائمۃاو فریضۃ عادلۃ، وما سویٰ ذلک فھو فضل (مشکوۃ شریف حدیث نمبر ۲۳۹)
اور احادیث کو محفوظ کرنے اور روایت کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے ارشاد ہے: نضّر اللہ امرأً سمع مقالتی(الحدیث)
پس سواد اعظم اہل سنت و الجماعۃ ہیں اہل حدیث نہیں ہیں ۔ اور نام نہاد اہل حدیث اہل السنۃ والجماعۃ نہیں ہیں۔ اہل السنۃ و الجماعۃ وہ لوگ ہیں جو نص (قرآن و حدیث) اور اجماع امت کی پیروی کرنے والے ہیں ۔
اور شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے عقد الجید میں غیر مقلدین کی شناخت ہی یہ بتلائی ہے کہ وہ اجماع ، قیاس اور آثار صحابہ کا انکار کرتے ہیں، پھر اہل السنۃ والجماعۃ میں کیسے شامل ہو سکتے ہیں؟ اور القول الجمیل (ص ۱۳۴ مترجم) میں شاہ صاحب نے وصیت کی ہے : ولا الظاھریۃ من المحدثین یعنی غیر مقلدین جو خود کو ’’اہل حدیث‘‘ کہتے ہیں ان کی صحبت میں نہ بیٹھے واللہ یھدی السبیل!

No comments:

Post a Comment