Wednesday 22 April 2015

علی میاں ندوی رحمۃ الله علیہ


حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی
رحمتہ اﷲ علیہ
ایک
فردنہیں
ادارہ تھے....

دنیا میں ایسے لوگ بہت کم آتے ہیں جو آفتاب ہدایت بن کر طلوع ہوں، انسانیت کے ہرفرد کو اسکی صلاحیت اور ضرورت کے اعتبار سے روشنی اور حرارت عطا کریں اور جب وہ اپنی مختصر زندگی پوری کرکے غروب ہونے لگیں تو پورے ایک عالم کو نئی زندگی عطا کرکے جائیں۔مفکرو مؤرخ اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی قدس اﷲ سرہ انہی مایہ ناز شخصیات میں سے ایک تھے۔ آپ ۶محرم ۳۳۳۱ھ میں پیدا ہوئے۔آپ ؒ کے والدمحترم مولانا حکیم عبدالحیؒ آپکی چھوٹی عمر میں انتقال فرماگئے۔آپ کے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی اور آپکی والدہ ماجدہ نے آپکی خاص انداز میں تربیت کی، بالخصوص زمانہ تعلیم کے دوران آپ کی والدہ نے آپ کو جو ترغیبی خطوط لکھے ہیں وہ بلا کی تاثیر رکھتے ہیں ۔بلاشبہ حضرت مولانا کی ذات کو عبقری شخصیت بنانے میں ان خطوط اور والدہ کی تربیت کا بے حداثر ہے خط کے درمیان میں جب وہ اپنے اس ہونہار ولاڈلے بیٹے کو” علی! ‘کہہ کر مخاطب ہوتیں تو اگلا جملہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہوتا۔

آپ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا بے انتہا شوق تھا۔ بچپن میں اپنے ذوق مطالعہ کا حال لکھتے ہوئے حضرت مولانا ؒ اپنی خود نوشت سوانح” کاروان زندگی“ میں تحریر فرماتے ہیں: ’کتب بینی کا یہ ذوق، ذوق سے بڑھ کر لت، اور بیماری کی حد تک پہنچ گیا تھا کہ کوئی چھپی ہوئی چیز سامنے آجائے تو اس کو پڑھے بغیر چھوڑ نہیں سکتے تھے، جو پیسے ملتے ان کا ایک ہی محبوب مصرف تھا کہ ان سے کوئی کتاب خریدی جائے، اس سلسلے میں میری ایک دلچسپ کہانی یہ ہے کہ میرے پاس کچھ پیسے آگئے، میں اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کتاب کتب فروشوں کے یہاں ملتی ہے اور ہرچیز کی دوکان الگ ہوتی ہے، میں کسی دوا فروش کی دوکان پر پہنچا غالباً سالومن کمپنی تھی ،میں نے پیسے بڑھائے کہ کتاب دیجئے۔ دوکان دار نے سمجھا کہ شریف گھرانے کا بھولا بھالا بچہ ہے، کیمسٹ کی دوکان پر کتاب تو کیا ملتی اردو میں دواؤں کی فہرست مجھے بڑھادی اور پیسے بھی واپس کردئیے، میں پھولے نہ سماتا ،کہ کتاب بھی مل گئی اور پیسے بھی واپس آگئے خوش خوش گھر پہنچا اور اسے اپنے چھوٹے سے کتب خانہ میں سجایا“۔(ص۸۵)

مولانا ابوالحسن علی ندویؒ المعروف مولانا علی میاں کو اﷲ رب العزت نے عرب وعجم اور پورے عالم اسلام میں یکساں قبولیت سے سرفراز فرمایا تھا۔ پورے عالم اسلام میں متعدد دینی اور علمی ادارے آپ کی سرپرستی اور رہنمائی میں چل رہے تھے۔ آپ متعدد اداروں کے مجلس شوریٰ کے صاحب الرائے رکن تھے۔ اسلام کی نشاہ ثانیہ کے لیے آپ نے دنیا کے طول وعرض میں، عرب وعجم میں متعدد اسفار کیے۔ اﷲ رب العزت نے آپ کو اعلیٰ درجے کا فہم، اسلام اور مسلمانوں کا درد رکھنے والا دل، نپی تلی، جانچی، پرکھی وزن دار اور اذ ہان وقلوب کو اپیل کرنے والی رائے، طاقتور قلم، پر تاثیر زبان جیسی خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ کی صلاحیتوں، کوششوں، کاوشوں، قربانیوں او رخدمات کے اعتراف کے طور پر آپ کو شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی بیک وقت مختلف اور متنوع خصوصیات کے مالک تھے۔ وہ ایک ممتاز عالم دین ومحقق تھے۔

آپ دارالعلوم ندوة العلمائ(لکھنو) کے فضلامیں سے تھے۔ندوہ کو ان کے زمانے میں غیرمعمولی ترقی حاصل ہوئی۔۔ بیسوی صدی میں اٹھنے والی تقریباً تمام بڑی بڑی اسلامی تحریکوں سے ان کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق تھا۔ وہ ہر حلقے اور ہر گروہ میں یکساں طور پر عزت واعتماد کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔مولانا موصوف نے ایک طرف دارالعلوم ندوة العلماءجیسے ادارہ کے ذریعہ مسلمانوں کو علم دین سے بہرہ ور کرنے کی کوشش کی اوردوسرے بے شمارعلمی تحقیقی اداروں کے ذریعہ، لوگوں کے لیے عصری معرفت کا سامان کیا۔ ایک طرف انہوں نے اپنی موثر تقریروں کے ذریعہ مسلمانوں میں عملی جوش کو ابھارا اور دوسری طرف انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ انہیں گہرے علمی شعور سے آشنا کیا۔ایک طرف انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ مسلمانوں کے ملی تحفظ کا انتظام کیا تو دوسری طرف ”پیام انسانیت“ کی تحریک کے ذریعہ انہیں داعی کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ ایک طرف انہوں نے رابطہ العالم الاسلامی کے اہم رکن کی حیثیت سے عالمی مسلم اتحاد کی کوشش کی اور دوسری طرف رابطہ ادب اسلامی کے صدر کی حیثیت سے، مسلمانوں کے اندر علم وادب کے حصول کا شوق ابھارا۔ ایک طرف انہوں نے مدارس دینیہ کے قیام کے ذریعہ قدیم علوم کو زندہ کیا اور دوسری طرف آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامک سینٹر کے صدر کی حیثیت سے، مسلمانوں کے اندر جدید علوم کے ماہر پیدا کرنے کی کوشش کی۔

متعدد موضوعات اور تاریخ اسلام پر آپ کے پرزور قلم سے نکلنے والی تحریریں علمی کتب خانوں (لائبریریوں) کا ایک عظیم بیش بہا گرانقدر سرمایہ اور اثاثہ ہیں۔ وہ کتب خانہ (لائبریری) ہمیشہ نامکمل رہے گا ،جس میں مولانا علی میاں کی تحریر شدہ کتابوں کا ذخیرہ نہ ہو ۔متعدد کتابیں عربی زبان میں تحریر فرمائیں جن کے بعد میں اردو او رانگریزی زبانوں میں تراجم ہوئے۔ بے شمار کتابیں اردو زبان میں تحریر فرمائیں جن کے انگریزی اور عربی زبانوں میں تراجم کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس ضرورت کو پورا کیا گیا۔

مولانا نے اپنی علمی تقریروں سے بھی ہمیشہ سامعین کے دلوں کو گرمایا۔ موضوع کا احاطہ کرنے میں بھی مولانا ٰیدطولیٰ رکھتے تھے۔ مجمع کی مناسبت سے بات کرنا مولانا کا ایک خصوصی وصف تھا۔ مولانا کو جہاں عوامی دلوں میں بلاکسی رکاوٹ کے رسوخ تھا ،وہاں وہ حکمرانوں کے دلوں میں بھی دھڑکنے کی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔ ہر جگہ مولانا نے بلاخوف لومة لائمین حکمت سے بھرپور انداز میں حق کا پیغام پہنچانے کا حق ادا فرمایا۔ تمام اہل علم اس بات کے معترف اور شاہد ہیں کہ مولانا پر جو بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں مولانا نے ان کوکماحقہ پوری زندگی بھرپور انداز میں نبھایا۔

مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کی ذات بہت سی اعلیٰ قدروں کا نمونہ تھی۔ مولانا موصوف ساری زندگی اہل دنیا سے بے نیاز رہے۔ مگر اہل دنیا نے خود اپنی ساری متاع ان کے سامنے پیش کردی۔سخاوت اور استغنا بھی خوب تھا، بین الاقوامی طورپر آپ کوبا رہا ایوارڈز اور انعامی رقومات ملتی رہیں ،آپ ان رقومات کو دینی مدارس اوردیگر فلاحی اور سماجی امور میں خرچ کرتے رہے ۔ مولانا موصوف کی ذات اس حقیقت کی ایک عملی مثال تھی کہ مال، عہدہ، عزت سب انسانوں کے تابع ہیں، نہ کہ انسان ان چیزوں کے۔ انسان اگر اپنی انسانی اقدار کو بلند کرلے تو بقیہ تمام چیزیں اپنے آپ اس کوحاصل ہوجائیں گی،کیوں کہ یہ سب انسان کے لیے ہی پیداکی گئی ہیں ۔

مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن بلکہ ایک عالم(دنیا) تھے ، ان کے اندر بیک وقت مختلف اورمتنوع خصوصیات موجود تھیں۔ مولانا سید مناظراحسن گیلانی ؒ نے کہا تھا کہ یورپ میں جو کام ا یک اکیڈمی مل کرکرتی ہے، وہ ہمارے یہاں ”ایک آدمی“ کرتا ہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی اس قول کا ایک زندہ نمونہ تھے۔ وہ ایک فرد تھے، مگر انہوں نے کئی اداروں کے برابر کام کیا۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک فرد اپنی قوم میں تمام لوگوں کے لیے مرجع کی حیثیت حاصل کرلیتا ہے، ایسا شخص کسی قوم کے لیے بے حد قیمتی ہوتااور اپنی اس حیثیت کی بنا پر، وہ پوری قوم کے لیے نقطہ اتحاداور اپنی قوم اور دوسری قوموں کے درمیان عملاً رابطہ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔مولانا سیدابوالحسن علی ندوی ؒ کومسلمانان ہندبلکہ مسلمانان عالم میں یہی مقام ومرتبہ حاصل تھا۔ مولاناسید ابوالحسن علی ندوی کا کارنامہ حیات تقریباً پوری صدی پر پھیلا ہوا ہے۔

حضرت مولانا ؒ کو اپنے اکابر سے بلا تفریق والہانہ عقیدت تھی ۔ ندوہ میں طلبہ سے ایک پُر سوز خطاب میں فرمایا کہ آپ حضرات کو علمی اور فکری محاذوں پر کام کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ میں تقویٰ ضرور ہو اس کے لیے میری نظر میں سب سے بہتر شخصیت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ قدس اﷲ سرہ‘ کی ہے، آ پ ان کے ملفوظات ومواعظ کا مطالعہ کریں ،کیونکہ اﷲ تعالی نے ان سے اس موضوع پر خاص طور سے بڑا کام لیا ہے ۔ ایک مرتبہ آپؒ ختم نبوت کے ایک اجلاس میں دارالعلوم دیوبند تشریف لائے۔ اور”ماکان محمّد ابااحدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین“پر عجیب انداز میں فصیح وبلیغ تقریر فرمائی اور فرمایا کہ مجھے دارالعلوم میں اپنا طالب علمی کا زمانہ یاد آتا ہے کہ جب شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ دارالحدیث میں اپنی مخصوص آواز میں دل کی ایک عجیب کیفیت کے ساتھ قال اﷲ وقال الرسولﷺ کی صدا بلند کر تے تھے۔

اس عظیم شخصیت کا ۱۳/دسمبر ۹۹۹۱ءکو انتقال ہوگیا۔ ان کی شخصیت گویا سوسالہ دور کا احاطہ کیے ہوئی تھی۔ تاریخ میں وہ اس دور کی علامت کے طور پر دیکھے جائیں گے۔ ان کو بلاشبہ صدی کی شخصیت (Man of the Century)کہا جاسکتا ہے۔ اﷲ رب العزت مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے ،کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے ،تمام سئیات کو حسنات سے مبدل فرمائے۔ قبر کو تاحد نگاہ کشادہ فرماکر جنت کا باغ بنائے،جنت میں فی مقعد صدق عندملیک مقتدر کا مصداق بنائے اورہمیں ان کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے
( امین یارب العلمین بجاہ سیدالانبیاءوالمرسلین
واصحابہ اجمعین)

No comments:

Post a Comment