Monday 20 April 2015

اردو کے ادبی سرمایے کو دیگر بڑی زبانوں میں کرنا ہوگا منتقل

قطر کاعالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ 2015ملنے کے بعد مشرف عالم ذوقی سے ایک مختصر گفتگو

—راجیو پرکاش ساحر
ساحر :اہل لکھنو کی طرف سے مبارکباد
ذوقی: شکریہ
ساحر:ہمیں خوشی ہے کہ آپ کے ادبی سفرمیں اب لکھنو کانام بھی شامل ہوگیا ہے۔ میں اس بات کا گواہ رہا ہوں کہ لکھنو کے6ماہ کے قیام کے دوران آپ نے اسی شہر میںرہ کر اپنا معروف ناول نالہ ¿ شب گیر تحریر کیا۔
ذوقی:لکھنو سے میری روحانی وابستگی ہے۔ یہ میرے خوابوں کا شہر ہے۔ دلی کی بھاگتی دوڑتی مشینی زندگی سے الگ میں نئے ناول ’یک ماندگی کا وقفہ‘ کیلئے بہت جلد اس شہر میں دوبارہ آنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ یہ ناول بھی لکھنو ¿ میں ہی مکمل کروں گا۔
ساحر:فروغ اردو ادب ایوارڈ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس ایوارڈ سے قرة العین حیدر، احمد ندیم قاسمی اور ہندو پاک کے تمام بڑے ادیبوں کا نام وابستہ ہے۔ آپ کیسا محسوس کررہے ہیں۔؟
ذوقی:مجھے خوشی ہے کہ میرے نام پر غور کیا گیا۔ میں خصوصی طور پر پروفیسر گوپی چند نارنگ کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ادب کی مجموعی خدمات کے طور پر میرے نام کا انتخاب کیا۔ میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاﺅں۔ انعام کی خبر آنے پر میں نے اپنے کمرے میں اندھیرا کردیا۔ میری اہلیہ نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔ کس کا فون تھا؟ کوئی بری خبر تھی۔ میں نے کہا، ایسا محسوس کررہا ہوں جیسے اپنے قاری سے دور ہوگیا ہوں۔ میری اہلیہ نے کہا کہ اب آپ قاری سے زیادہ قریب ہوجائیں گے۔ پھرمجھے اطمینان ہوا۔
ساحر:کیا موجودہ ادب سے آپ مطمئن ہیں؟
ذوقی:سو فی صد۔ ان دنوں برا بھی لکھاجارہا ہے ۔ لیکن بہت اچھا بھی لکھا جارہا ہے۔ ہندو پاک میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ مضامین، غزلیں، نظمیں، کہانیاں اور ناول۔ ہر جگہ ہم کامیاب ہیں۔ مضامین میں مضبوط دلیلیں آگئی ہیں۔ ناول اور افسانے کی سطح پر ہم نئے موضوعات سے قریب ہیں۔ شاعری بھی بہتر ہورہی ہے۔ آپ آج کے ادب کا موازنہ کلاسیکی ادب سے نہ کریں۔ وہ ہمارا خزانہ ہے۔ اس کا اعتراف بھی ضروری ہے ۔ مگر یہ نہ بھولیں کہ وقت تبدیل ہوتا ہے۔ اور اس تبدیل ہوتے وقت کی آہٹ ادب میں بھی سنائی دیتی ہے۔ اس لئے شعری لہجہ بھی بدلا ہے اور افسانوی لہجہ بھی۔ ایک بات اور کہنا چاہوں گا۔ اردو کو صرف ہندوستان تک محدود نہ کیجئے۔ اردو کی گونج صرف برصغیر نہیں پوری دنیا میں ہے۔ پاکستان میں بہت عمدہ ادب لکھا جارہا ہے۔ میں تو اکثر پاکستانی رسائل پڑھ کر حیران رہ جاتا ہوں۔ ہمارے یہاں بھی رحمن عباس، خالد جاوید، صدیق عالم ایک سے بڑھ کر ایک تخلیق کار ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نقاد انصاف کرنا سیکھے۔ خیموں سے باہر نکلے اور مطالعہ کیلئے اپنی کسوٹی نہ بنائے۔ کیونکہ ممکن ہے، اس کی فکر کا پیمانہ محدود ہو۔ اس لئے نقاد کو اپنے بنائے گئے پیمانے سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ لکھنومیں دیکھئے، انیس اشفاق نے کیا عمدہ ناول لکھا۔ میں نے اعتراض کیا تھا، لیکن صاحب، اعتراض وہیں کیا جاتا ہے، جہاں بڑی بات ہوتی ہے۔ عبدالصمد نے شکست کی آواز میں رومانیت سے باہر ایک بڑے مسئلہ کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ رحمن عباس نے بہت اچھے ناول اردو کو دیئے ہیں۔ شائستہ فاخری کے دونوں ناول بہت عمدہ ہیں۔ ہم سائنس اور تکنالوجی کی جس دنیا میں ہیں، اس دنیا کے اپنے تقاضے اپنی اڑان ہےں، اور ہم بہرحال اس اڑان کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ 
ساحر:کیا آپ کی ذمہ داری اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی؟
ذوقی:ادیب کو ذمہ دار ہونا ہی چاہئے۔ ادب ایک بڑی ذمہ داری کا نام ہے۔ ادب محض شوق نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اردو ادب کے بڑے سرمایہ کو انگریزی اور دوسری بڑی زبانوں میں منتقل کیا جائے۔ یہ کام انفرادی طور پر کچھ ادیب کرتے ہیں۔ لیکن اب اردو اداروں کو یہ ذمہ داری لینی ہوگی۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ دیگر زبان میں بھی اردو کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔
ساحر:شکریہ آپ کا۔
ذوقی:آپ کا بھی شکریہ۔
E-mail. rajeevprakashsahir@gmail.com

No comments:

Post a Comment