Tuesday 7 April 2015

اردو کو کیسے نصیب ہو فروغ

ماہرین کے نزدیک علم لسانیات سے یہ نکات اب خاصے جانے پہچانے ہوگئے ہیں کہ زبان کی دوشکلیں ہوتی ہیں:

بول چال کی زبان اور تحریری زبان۔ اصل زبان بول چال کی زبان ہے اور تحریری زبان اساساً بول چال کی زبان ہی کی نمائندگی کرتی ہے۔ کسی زبان کو پوری طرح جاننے کا مطلب ہے کہ آپ اس کی ان دونوں شکلوں کو جانتے اور انہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ اس لئے کسی زبان کو پوری طرح جاننے کے لئے اس کی تمام مہارتیں حاصل کرنا ضروری ہیں۔ زبان کی بنیادی مہارتیں چار ہیں:

(۱) سن کر سمجھنا             (۲) بولنا    (۳)پڑھنا                (۴) لکھنا

   جہاں تک مادری زبان کا تعلق ہے پہلی دو مہارتیں یعنی سن کر سمجھنا اور بولنا سیکھنا سب کیلئے یکساں طور پر آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ دونوں مہارتیں بچوں کو کم و بیش چار سال کی عمر تک اپنے ماحول میں خودبخود آجاتی ہیں۔ البتہ باقی دو مہارتوں یعنی پڑھنے اور لکھنے کو کوشش کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ اردو زبان کے تعلق سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اردو چونکہ ہماری مادری زبان ہے اس لئے ہم سب لوگ تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ اسے جانتے ہیں اور بلاتکلف بولتے اور سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ بھی اردو جاننے والوں میں ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری بہت بڑی تعداد اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی۔ اس میں غیرتعلیم یافتہ اور تعلیم یافتہ دونوں شامل ہیں اور اس وجہ سے ہم لوگ اردو کو اپنے بہت سے روز مرہ کے کاموں میں استعمال نہیں کرسکتے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اردو کا رسم الخط اس کا اپنا منفرد رسم الخط ہے اور دنیا کے حسین ترین رسم الخطوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک طویل تاریخی عمل سے وجود میں آیا ہے۔ ہم اسے صدیوں سے اسی شکل میں برتتے اور قبول کرتے آئے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں۔ ہمارا رسم الخط ہمارے تلفظ، ہماری شائستگی اور ہمارے لسانی، ادبی، علمی اور ثقافتی سرمائے کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ اس ضمن میں کسی بھی نہج سے بعض دوسری زبانوں کا ذکر تاریخی دلچسپی کا موضوع تو ہوسکتا ہے لیکن باربار ان کا ذکر عملی اعتبار سے نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ غلط فہمیوں کا سبب بنتا رہا ہے۔ جس طرح اردو کا ماخذ اس کے اپنے علاقے کے عوام ہیں اسی طرح اردو کا رسم الخط بھی اپنے علاقے کی تاریخ کے بطن سے فطری انداز میں صورت پذیر ہوا ہے اور رفع و ارتقا کے عمل سے گزرا ہے۔ اسے کسی مذہبی تعصب، سیاسی یا قانونی جبر، کسی سیاسی بحران کے دباؤ یا مصنوعی لغت سازی کے توسط سے پہلے سے موجود اور مستعمل ایک معیاری عوامی زبان کے متوازی زبان بنانے کی تحریک کے پس منظر میں نافذ نہیں کیاگیا تھا۔ لہٰذا اس صورت میں جب ہم اپنی مادری زبان اوراس کے رسم الخط سے دست بردار ہوتے ہیں تو اپنی لسانی اصل سے انحراف کرتے ہیں اور اپنے لسانی تشخص کو مسخ کرتے ہیں اور اپنے وسیع الاساس ہندوستانی قومی تشخص اوراس کی نمائندہ زبان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اردو کے حروف سارے کے سارے اس کے اپنے ہیں، ناگزیر ہیں اور ایک طویل تاریخی عمل کے مرہونِ منت ہیں۔ ہمارے حساب سے ان کی تعداد ۵۲ ہے اور ان کے ساتھ ۱۴ اعراب و علامات ہیں۔ دونوں کی مجموعی تعداد ۶۶ ہے۔ یہ سب کے سب ہمارے رسم الخط کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا اردو کو صحت کے ساتھ لکھنے پڑھنے کے لئے ان سب کا سیکھنا بنیادی ضرورت ہے۔ اردو زبان کی ابتدائی درسی کتابوں میں ان سب کے ایک ساتھ سکھانے کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔ اردو کی ابتدائی درسی کتابوں کے جائزے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس معاملے میں ہم سے بڑی غفلتیں ہوئی ہیں جن کے نتائج نہایت خراب نکلے ہیں۔ ابتدائی درسی کتابوں میں حروف اور اعراب وعلامات کی معیار سازی اور یکسانیت ایک اہم ضرورت ہے اور اردو رسم الخط کی صحیح تدریس اور خود اس کے وجود کے تحفظ کی شرطِ اوّل ہے۔ اردو میں مستعمل اصوات کی تعداد زیادہ سے ۷۳ ہوسکتی ہے اور اگر اع، ت ط، س ث ص، ہ ح، زذض ظ میں سے ہر گروپ کو ایک ایک آواز تصور کریں جیسا کے عمومی اردو بول چال میں دراصل ہے تو پھر اردو میں کام آنے والی اصوات کی تعداد ۶۵ ہے۔ بہرحال ۷۳ یا ۶۵مستعمل اصوات کا انحصار بولنے والوں کے اسلوب پر منحصر ہے۔ اردو میں کام آنے والی اصوات جتنی بھی ہیں اردو کے حروف اور اعراب و علامات ان تمام اصوات کو بخوبی بناہ لیتے ہیں۔ اردو اس اعتبار سے ایک غیر معمولی ہندوستانی زبان ہے کہ اس میں مستعمل اصوات کی تعداد فرداً فرداً سنسکرت، عربی، فارسی، انگریزی اور اپنے علاوہ دوسری تمام ہندوستانی زبانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اور اصوات کی اسی افراط کی وجہ سے ہی اردو والے دنیا کی کسی بھی زبان کو نسبتاً جلد سیکھ لیتے ہیں اوراس زبان کا ان کا تلفظ اہل زبان جیسا ہوجاتاہے۔

بعض  کے نزدیک
اردوزبان خاص قوم کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی گنگاجمنی تہذیب کی علامت رہی ہے۔اس کی بقاء اورزندگی کاایک رازیہ بھی ہے کہ یہ تحریکِ آزادی ہندکی زبان رہی ہے اوراس تحریک کے روح رواں بشمول مہاتماگاندھی اورپنڈت جواہرلعل نہرو کی زبان یہی تھی۔اس زمانہ میں اردوکارواج کس قدرتھااس کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ ملک کے پہلے وزیراعظم،پنڈت نہروکی شادی کے کارڈ، اردواورفارسی زبان میں شائع ہوئے تھے اورایک موقعہ پرپنڈت نہرونے تو چیلنج قبول کرتے ہوئے کہاتھا’’میری ماں کی زبان اردوہے‘‘۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ اردو، بلاتفریقِ مذہب ،ملک کی زبان رہی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ آزادی کے وقت کے سیاسی حالات،تقسیم پاکستان اورپاکستان میں اردوکو قومی زبان کادرجہ ملنے نے ،اردوکوہندوستان کی قومی زبان ہونے کے لئے اس کے حق میں سازگارماحول کو ناموافق بنادیااوراردوملک کی قومی زبان نہیں قراردی جاسکی۔لیکن اتناتوطے ہے کہ یہ آج بھی ملک کی ایک خاص تہذیبی شناخت اورقومی ورثہ کہلانے کی مستحق ہے۔لیکن ستم یہ ہواکہ آزادی کے بعدزبانوں کوفرقہ ورانہ خطوط پرتقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اوریہ باورکرانے کی سعی ہوئی کہ اردو، کسی خاص فرقہ کی زبان ہے۔وہ ذہنیت ،جوہرچیزکوفرقہ وارانہ نظریہ سے دیکھنے کی عادی ہے ،اس نے اردوبولنے والوں کی بڑی تعدادوالی قوم کے ساتھ ساتھ اس زبان کوبھی مشق ستم بنایا،اقلیتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی نشیب وفرازدیکھتی رہی اورتنگ نظری وتعصب کاشکارہوتی رہی۔

No comments:

Post a Comment