Wednesday 26 August 2020

تعلیق طلاق کے بعد رجوع ممکن نہیں

 تعلیق طلاق کے بعد رجوع ممکن نہیں 

----------------------------------

بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی

----------------------------------

السلام علیکم و رحمہ اللہ و برکاتہ

سوال ۔۔۔ زید اور اس کی اہلیہ کے درمیان بعض معاملات کو لے کر کئی سال سے بات چیت اور آمد ورفت بند ہے ۔۔ زید کی اہلیہ زید کے گھر میں رہتی ہے لیکن زید اپنے گھر میں نہیں رہتا اور نہ ہی کبھی آتا جاتا ہے۔ اور بہن بہنوئی کے گھر میں رہنا سہنا اور کھانا پینا کرتا ہے ۔۔ دو روز قبل زید کے لڑکے نے بعض پنچان کی معرفت اپنے باپ سے باہر کے روم کی (جو پہلے دوکان کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔) کنجی مانگی تاکہ وہ دوکان کھول سکے۔ لیکن زید نے انکار کردیا اورکہا کہ کسی بھی صورت میں وہ روم اس کے حوالے نہیں کرے گا ۔۔ جس پر اس کے لڑکے نے اس روم کا تالا توڑ دیا اور کمرے کی صاف صفائی کرنے لگا ۔۔ زید کو کسی نے اس بات کی اطلاع دیدی جس پر زید کو غصہ آیا اور وہ اپنے مکان پر آیا ۔۔ وہاں اس نے اپنی بیوی اور دوسرے بچوں کو پایا اسے یہ لگا کہ تالا اس کی بیوی کی شہ پر توڑا گیا ہے۔۔اس نے سامنے کھڑی اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تم نے گھر کی چوکھٹ پار کی تو تمہیں تینوں طلاق ۔۔۔ ایسی صورت میں اگر زید غصہ ٹھنڈا ہونے پر اپنی بیوی کو اجازت دے دے کہ تم گھر جا سکتی ہو اور شوہر  کی اجازت سے بیوی چوکھٹ پار کر جاتی ہے تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟؟ زید نے جو شرط لگائی ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟؟؟ 

زاہد امان قاسمی گڈا جھارکھنڈ 

٣ محرم الحرام ١٤٤٢

الجواب وباللہ التوفیق:

طلاق کو اگر کسی شرط کے ساتھ مشروط ومعلق کردیا جائے تو وہ شرط پاتے ہی طلاق واقع ہوجاتی ہے. طلاق کو کسی شرط پہ معلق ومشروط کردینے کے بعد شوہر اس تعلیق سے رجوع نہیں کرسکتا. شوہر نے چوکھٹ پار کرنے پر طلاق ثلاثہ کو معلق کیا تھا. لہذا یہ تعلیق بالشرط کی شکل ہوئی، شرط پاتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی، اس میں رجوع نہیں ہوسکتا:

وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق". (ہند یہ ج 1، ص 420، رشیدیہ) :: وتنحل الیمین اذا وجد الشرط مرۃً(الدر المختار علی ہامش ردالمحتار باب التعلیق۔ 352/3) 

بدائع الصنائع میں تعلیق طلاق کے ایک مسئلہ کے ذیل میں تعلیق میں عدم رجوع کی تصریح اس طرح آئی ہے:

والرجوع لا یصح والإثبات صحیح فبقیت فیتعلق طلاقها بالشرط۔ (بدائع الصنائع، کراچی 34/3)

یمین فور کے لئے دلالت حال یا شوہر کی 'نیت فور' کا پایا جانا ضروری ہے. بغیر دلالت حال یا نیت فور کے مطلق یمین طلاق کو یمین فور پہ محمول نہیں کیا جاسکتا. یہاں سوال میں ایسی کوئی دلالت حال نہیں ہے کہ بیوی فوری جانا چاہتی ہو جس پہ شوہر نے طیش میں آکر تعلیق طلاق کردی ہو. اگر اس طرح کی کوئی دلالت حالیہ ہو تو یمین یمین فور ہوگی اور تعلیق صرف اسی وقت تک محدود ہوکر رہ جائے گی۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے؛ اس لیے یہ یمین مطلقہ ہے فوریہ نہیں. یمین مطلقہ میں بلا دلالت و قرینہ تعلیق کو فور پہ محمول کرنا اور تھوڑی دیر بعد تعلیق کو غیرمؤثر قرار دینا درست نہیں ہے.  

(وشرطه للحنث في) قوله (إن خرجت مثلا) فأنت طالق أو إن ضربت عبدك فعبدي حر (لمريد الخروج) والضرب (فعلہ فورا) لأن قصده المنع عن ذلك الفعل عرفا ومدار الأيمان عليه وهذه تسمى يمين الفور تفرد أبو حنيفة رحمه الله بإظهارها ولم يخالفه أحد۔ :: وفی الرد تحته: مطلب في يمين الفور (قوله فورا) سئل السغدي بماذا يقدر الفور ؟ قال بساعة، واستدل بما ذكر في الجامع الصغير: أرادت أن تخرج فقال الزوج إن خرجت فعادت وجلست وخرجت بعد ساعة لا يحنث۔الخ۔ (الدرالمختار761/3)

هذا ما أراه  واللہ اعلم بالصواب

شکیل منصور القاسمی

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_90.html



No comments:

Post a Comment