Thursday 27 August 2020

غیرنبی اصحاب رسول یا اہل بیت میں سے کسی کے لئے علیہ السلام لکھ

غیرنبی اصحاب رسول یا اہل بیت میں سے کسی کے لئے علیہ السلام لکھنا
-------------------------------
--------------------------------
سوال: کیا علی، فاطمہ یا حسین رضی اللہ عنہم کے ساتھ علیہ السلام لگانا درست ہے؟ براہ کرم علماء اس پر روشنی ڈالیں تو بہت مہربانی ہوگی۔ ایک شخص نے حوالہ کے طور پہ بخاری کی یہ حدیث پیش کی ہے جس میں غیرنبی حضرت حسین اور فاطمہ کے لئے علیہ السلام لکھا گیا ہے. مفتی شکیل منصور القاسمی صاحب سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے:
صحیح بخاری- کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان
باب: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3748 - حدیث نمبر: 3748 - حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أُتِيَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلَام فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ فَجَعَلَ يَنْكُتُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ فِي حُسْنِهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ كَانَ أَشْبَهَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مَخْضُوبًا بِالْوَسْمَةِ.
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ: أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهِمَا السَّلَام شَكَتْ مَا تَلْقَى فِي يَدِهَا مِنَ الرَّحَى ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا فَلَمْ تَجِدْهُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ، فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ قَالَ: فَجَاءَنَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا فَذَهَبْتُ أَقُومُ، فَقَالَ: مَكَانَكِ، فَجَلَسَ بَيْنَنَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِي، فَقَالَ: أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى مَاهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ؟ إِذَا أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا أَوْ أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا، فَكَبِّرَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَهَذَا خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ، وعَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: التَّسْبِيحُ أَرْبَعٌ وَثَلَاثُونَ 
 فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی وجہ سے کہ ان کے مبارک ہاتھ کو صدمہ پہنچتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خادم مانگنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے ہم اس وقت تک اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے میں کھڑا ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ بتا دوں جو تمہارے لیے خادم سے بھی بہتر ہو۔ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو تو تینتیس (33) مرتبہ «الله اكبر» کہو، تینتیس (33) مرتبہ «سبحان الله» کہو اور تینتیس (33) مرتبہ «الحمد الله» کہو، یہ تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے اور شعبہ سے روایت ہے ان سے خالد نے، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا کہ سبحان اللہ چونتیس (34) مرتبہ کہو۔ Sahih Bukhari #6318
الجواب وباللہ التوفیق: 
غیرنبی کے لئے منفرداً علیہ السلام“ یا صلی اللہ علیہ“ کہنے کا مسئلہ صحابہ، تابعین وعلماء مجتہدین کے درمیان اختلافی رہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس، طاووس، عمر بن عبدالعزيز، امام ابوحنيفة، مالک، سفيان بن عيينة، سفيان ثوري اور علماء شوافع میں امام جوینی وغیرہ کے یہاں مکروہ ہے. پھر بعض مکروہ تحریمی یعنی ناجائز، جبکہ دیگر بعض کراہت تنزیہی کے قائل ہیں. حضرت حسن بصري، خصيف، مجاهد، مقاتل بن سليمان ومقاتل بن حيان، إمام أحمد، إسحاق بن راهويه، أبوثور اور محمد بن جرير الطبري وغیرہ کے یہاں اہل بیت رسول واصحاب رسول کے لئے علیہ السلام کہنا جائز ہے بشرطیکہ یہ کسی گمراہ فرقے کا شعار نہ بن گیا ہو۔ امام ابن قیم جوزیہ نے جلاء الأفهام في فضل الصلاة على محمد خير الأنام صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ص (465- 482) میں اس مسئلے پہ  سب سے زیادہ شرح وبسط کے ساتھ کلام کرتے ہوئے مانعین ومجیزین کے دسیوں دلائل نقل کئے ہیں. ہمارے علماء کراہت تحریمی کے قائل بھی اسی لئے ہیں کہ یہ روافض کا شعار ہے جیساکہ ملا علی قاری نے تصریح فرمائی ہے؛ کیونکہ روافض حضرت ابوبکر صدیق یا حضرت عمر و عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم  کے لئے نہیں؛ بلکہ صرف چوتھے خلیفہ حضرت علی، فاطمہ اور اولاد رسول کے لئے ہی 'علیہ السلام' لکھتے ہیں 
ظاہر ہے یہ صریح تفضیل وتفریق اصحاب رسول ہے جوکہ ممنوع ہے. 
اگر کبھی کبھار اصحاب رسول یا اہل بیت میں سے کسی کے لئے علیہ السلام لکھدیا جائے تو حنابلہ اور دیگر محدثین اس کی گنجائش دیتے ہیں. اسی لئے بعض محدثین یا نسّاخ حدیث اہل بیت رسول کے ساتھ یہ صیغہ لکھتے آئے ہیں. 
آپ نے جن احادیث میں حضرت علی، فاطمہ یا ان کی اولاد کے لئے علیہ السلام لکھے جانے کا حوالہ دیا ہے. وہ اسی قول و نظریے کی بنیاد پر نسّاخ حدیث نے تحریر فرمائے ہیں متن حدیث کا وہ جزو نہیں ہے. مشہور محقق ومحدث، بلوغ المرام للحافظ کے شارح، صاحب سبل السلام امیر صنعانی اپنی مذکورہ شرح میں اسی وجہ سے جابجا اہل بیت رسول کے لئے علیہ السلام لکھتے نظر آئے ہیں. فریقین کے دلائل کے لئے درج ذیل مصادر کی مراجعت فرمائیں:
جلاء الأفهام" ص (465- 482)، "تفسير ابن كثير"لقوله تعالى: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا) الأحزاب/56 )، الأذكار للنووي ص 274 ) الفقہ الاکبر ص 167, الفتاوى الكبرى لابن تيمية (2/173)، الموسوعة الفقهية (27/239)، فتاوی الشيخ ابن عثيمين رحمه الله)
واللہ اعلم بالصواب

No comments:

Post a Comment