Friday 28 August 2020

مسلمان کیسے آتم نِر بَھر (خودمکتفی) ہوں؟

مسلمان کیسے آتم نِر بَھر (خودمکتفی) ہوں؟

5 اگست 2020ءکو رام مندر کی مستقل اور وسیع عمارت کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا، اور اس بات کا جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے کہ ایک سیکولر ملک کے سربراہ اعلیٰ وزیراعظم نریندر مودی نے اس کی بنیاد رکھی، اس خبر پر مجھے چند سال پہلے کا واقعہ یاد آیا، جب گجرات فساد میں شہید ہونے والی مسجدوں کی حکومت کی طرف سے تعمیر کی بات آئی، اس وقت وہ وہاں وزیراعلیٰ تھے، اور انھوں نے بحیثیت وزیراعلیٰ بیان دیاکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، وہ کسی خاص مذہب کی عبادت گاہ کیسے تعمیر کرسکتا ہے؛ لیکن 2000 کا یہ اصول 2020 میں یکسر تبدیل ہوگیا، حکومت نے خود مندر کی تعمیر کے لئے ایک ٹرسٹ بنایا اور اعلیٰ ترین سرکاری عہدہ داروں نے اس کی بنیاد رکھی۔

قرآن مجید نے بنی اسرائیل کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص کا قتل ہوگیا، لوگوں میں بڑی الجھن پیدا ہوئی، کچھ لوگ چاہتے تھے کہ قاتل کا جرم چھپادیا جائے، اور زبان سے مطالبہ کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قاتل کے بارے میں بتائیں، آخر اللہ تعالیٰ نے ایک خاص گائے کی نشاندہی فرمائی اور کہاگیا کہ اس کو ذبح کریں اور اس کا گوشت مقتول کے جسم سے لگائیں، تو مقتول قاتل کے بارے میں بتانے کی حد تک زندہ ہوجائے گا؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا، مقتول ایک لمحہ کے لئے زندہ ہوا، قاتل کا نا م بتایا، اور ہمیشہ کے لئے موت کی آغوش میں چلا گیا، بابری مسجد کی صورت حال یہی ہے، اس کا قتل تو اسی وقت ہوگیا تھا،جب مسجد کے اندر مورتیاں رکھی گئیں؛ لیکن وہ یکے بعد دیگرے اپنے قتل میں شامل تمام چہروں سے پردہ ہٹاتی جارہی ہے، ان پنڈت نما غنڈوں سے جنھوں نے رات کی تاریکی میں مورتیا ں لاکر رکھ دی تھیں، ان پولیس والوں سے جنھوں نے مجرموں کا ہاتھ تھامنے کی بجائے ان کے کالے کرتوت سے آنکھیں موند لیں، ان حکومتوں سے جنھوں نے وعدے کئے اورانہیں وعدہ خلافی میں کو ئی عار نہ ہوئی، وہ کلیان سنگھ کی حکومت ہو یا نرسمہا راو اور نریندر مودی کی، ان عدالتوں سے جنھوں نے فیصلے کئے؛ لیکن انصاف فراہم نہیں کیا، غرض کہ یہ ایسی مقتول عمارت ہے جس نے حکومتوں کی بد یا نتی، پولیس کی بے عملی، اپنے آپ کو مذہبی نمائندہ کہنے والی شخصیتوں کے اندر چھپی ہوئی غنڈہ گردی، اور عدالتوں کا رویہ، اِن ساری حقیقتوں کو دوپہر کی دھوپ کی طرح عیاں کردیا ہے۔

جو کچھ ہوتا آیا تھااس لحاظ سے15 گست کی تقریب عین توقع کے مطابق تھی؛ لیکن جب دل پر چوٹ لگتی ہے، تو چاہے پہلے سے اس کا یقین رہا ہو، زخم تازہ ہو جاتا ہے؛ اس لئے اس واقعہ نے بجاطور پر مسلمانوں کو افسردہ بھی کیا اور ان کے حوصلوں کو بھی چوٹ پہنچائی، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان مایوسی اور حوصلہ شکستگی کے احساس سے باہر آئیں، انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام کی زندگی دیکھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پڑھیں، مسلمانوں کی فتح مندی اور پھر گاہے شکست سے دوچار ہونے کی طویل تاریخ کو ملاحظہ کریں اور یاد رکھیں کہ زندہ قوموں پر اس طرح کے حالا ت آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے، مردہ پر کوئی وار نہیں کیا جاتا؛ لیکن جو سپا ہی زندہ ہو،اسی پر حملے کئے جاتے ہیں، اس لئے نفرت و عداوت اور ظلم و ناانصافی کے تیر مسلمانوں کی زندگی کی علامت ہیں، اور بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ مسلمان تو شکست کھا سکتا ہے؛ مگر اسلام شکست نہیں کھا سکتا، اسلام کی قوت ناقابل تسخیر ہے، اس کی روشنی ایسی نہیں جسے بجھایا جاسکے،اس کی کشش زمین کی قوت کشش سے بھی بڑھ کر ہے، جو اجسام کو ہی نہیں دلوں کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے؛ اس لئے ہمیں بالکل مایوس نہیں ہونا چاہئے، اور اس ملک کے حالا ت کو سامنے رکھتے ہو ئے دین پر استقامت اور ملی وجو د کے تحفظ کے لئے منصوبہ بنانا چاہئے۔

جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر ایرانیوں کا طریقہ جنگ اختیا ر کیا تھا، اسی طرح اگر مسلمان اس ملک میں آر ایس ایس کی منصوبہ سازی اور طریقہ تنظیم سے فائدہ اٹھائیں تویہ ایک بہتر صورت ہوگی، منصوبہ جو بھی ہو، اس کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ ہم اپنے مسائل آپ حل کریں گے، ہمیں حکومتوں سے یہ امید نہیں رکھنی چا ہئے کہ وہ مسلمانوں کی تعلیم، صحت اور روزگا ر کے لئے کوئی خصوصی نظم کریں گی،یا انہیں دلتوں کی طرح ریزرویشن ملے گا، کوشش کرنے اور مواقع سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن نقشہ کا ر کچھ اس طرح بنایا جائے کہ مسلمان اپنی صلاحیت، افرادی وسائل اور مالی وسائل کے ذریعہ خود مکتفی ہوکر اپنا تحفظ کریں گے اور ترقی کے دور میں آگے بڑھیں گے، موجودہ سرکار کی زبان میں وہ اپنے آپ کو 'آتم نِربَھر' (خود مکتفی) بنائیں۔

اسلام کا تحفظ:

اس منصوبہ میں کم سے کم مسلمانوں کے7 اہداف ہونے چاہئے: سب سے پہلا ہدف مسلمانوں کو دین پرثابت قدم رکھنے کا ہے،اس سلسلے میں چند امور کی طرف اولین توجہ کی ضرورت ہے:

1۔ اسلام کے پانچ ارکا ن ہیں: کلمئہ شہادت، نماز، روزہ، زکٰوة اور حج؛ اگر غور کیا جائے تو ان میں سے سب سے کم بات کلمئہ شہادت یعنی ایمان پر کی جاتی ہے، رمضان المبارک کے پورے مہینہ میں روزہ، تراویح، زکٰوةاور انفاق پر بات کی جاتی ہے، ماہ ذوالحجہ میں حج اور قربانی کے موضوع پر بیانات ہوتے ہیں، نماز چونکہ سال بھر ادا کیا جانے والا فریضہ ہے؛ اس لئے موقع بموقع نماز کی اہمیت پر خطابات ہوتے رہتے ہیں، رجب میں واقعہ معراج کے ضمن میں خاص کر نماز پر تقریریں کی جاتی ہیں؛ لیکن اس احساس کے تحت کہ ہم سب خود مسلمان ہیں، کلمہ گو ہیں اور مسلمان والدین کی اولاد ہیں، ایمانیا ت پر بہت کم گفتگو کی جاتی ہے، اس وقت ہندوستان میں تعلیم کا بھگوا کرن کرنے، دھرم پریورتن کی دعوت دینے، میڈیا اور نصابی کتابوں کے ذریعہ دیومالائی کہانیاں اور ہندو تصورات پر مبنی نغموں کو رواج دینے، اور ہندو ثقافت کو آرٹ کے نام پر مسلط کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے، اس پس منظر میں بہت ضروری ہے کہ علماءاور خطباء ایمانیات کو اپنا موضوع بنائیں، توحید، رسالت، آخرت کی تفصیل سے وضاحت کی جائے اورکفر و شرک کی تردید اور بت پرستی کی نامعقولیت پر گفتگو کی جائے، خواہ وہ جمعہ و عیدین کے بیانات ہوں یا مدارس کے سالانہ جلسے اور اصلاح معاشرہ یا سیرت کے پروگرام، ہر جگہ ایمانیات پر بیانات کاحصہ رکھنا چاہئے؛ البتہ اس کو امت میں اختلاف کا ذریعہ نہ بنایا جائے؛ بلکہ دین کے تحفظ کی مہم کے طور پر خطاب کیا جائے؛ کیوں کہ یہ جلسے ہمارے لئے مسلم عوام تک پہنچنے کا سب سے موثر ذریعہ ہیں۔

2۔ مکاتب کا نظام بڑی اہمیت کا حامل ہے، جو بچے سرکاری یا پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، ان کو دین سے جوڑے رکھنے کے لئے اس سے زیادہ مو¿ثر کوئی نظام نہیں، اور مسلم سماج کو اس سلسلے میں بڑی سہولت ہے؛ کیونکہ قریب قریب ہر مسلمان محلہ میں مسجد موجود ہے اور مسجد میں امام و موذن مقرر ہیں، مسجد ہمارے لئے درسگاہ ہے، اور یہی امام و موذن اس درسگاہ کے معلم ہیں، نہ اس کے لئے الگ سے انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے اور نہ ملازمین کی، بہت ہی کم اخراجات کے ذریعے مکاتب کا نظام چل رہا ہے اور چل سکتا ہے، آر ایس ایس والوں نے شاید مسلمانوں کے نظام مکاتب کو دیکھتے ہوئے ایک خاص صورت ’ایک استاد ایک اسکول‘ کی نکالی ہے، جس میں وہ مذہبی تعلیم پر بھی پوری توجہ دیتے ہیں، مسلمانوں کے یہاں تو یہ نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی سے قائم ہے، بس ضرورت ہے توجہ اورتنظیم کی۔

3۔ مسلمانوں کے زیرانتظام ماشآءاللہ اسکولوں کی بڑی تعداد اس وقت پورے ملک میں موجود ہے، بظاہر شہروں میں75 فیصد مسلمان طلبہ و طالبات پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، اور چونکہ وہ کارپوریٹ اسکولوں کی فیس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؛ اس لئے ان میں زیادہ تر طلبہ و طالبات مسلم اسکولوں سے رجوع کرتے ہیں، اب ایک ضرورت تو یہ ہے کہ مسلمان انتظامیہ ان اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنائے؛ لیکن ساتھ ساتھ مسلمانوں کی نئی نسل کے دین وایمان کی حفاظت کے نقطہ نظر سے اپنے اسکولوں میں ضروری بنیادی دینی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دے، اور اس کو ایک ملی فریضہ تصور کرتے ہوئے انجام دیا جائے، عجیب بات ہے کہ جدید تعلیم یافتہ بھائیوں کی طرف سے دینی مدارس میں عصری مضامین داخل کرنے کی بات تو خوب کی جاتی ہے، اور اس پر بہت زور دیا جاتا ہے؛ لیکن عصری درسگاہوں میں دینی تعلیم پر توجہ نہیں دلائی جاتی؛ حالانکہ اس کی ضرورت زیادہ ہے، دینی مدارس میں طلباءکی تعداد پہلے سے کم ہے، اور جو کچھ ہے اس میں بھی دن بدن کمی ہوتی جارہی ہے؛ اس لئے مسلمانوں کے زیرانتظام عصری درسگاہوں میں ضروری دینی تعلیم پر ہماری اولین توجہ ہونی چاہئے۔

4۔ آج کل عصری تعلیم گاہوں میں’مختصر سرٹیفیکٹ کورس‘کا رواج بڑھتا جارہا ہے، جس میں طلبہ بہت دلچسپی لیتے ہیں، اور اب اس میں ایک نئی صورت آن لائن تعلیم کی بھی پیدا ہوگئی ہے، دینی مدارس اپنے نظام تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے، ہائی اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبائ کے لئے دینی تعلیم کا مختصر سرٹیفکیٹ کورس رکھ سکتے ہیں، جو چالیس سے پچاس گھنٹوں پر مشتمل ہو، جیسے: معلوماتِ قرآنی کورس، معلوماتِ حدیث کورس، شرعی مسائل کورس، سیرتِ نبوی کورس وغیرہ، خواہ یہ اردو میں ہو یا مقام کی مناسبت سے انگریزی یا مقامی زبان میں ہو، اس کا با ضابطہ امتحان ہو، اور اس پر انہیں ایک سند بھی دے دی جائے، یہ بہترین ذریعہ ہوگا عصری تعلیمی اداروں کو مدارس سے فیض یاب کرنے کا، ایسے کورس آن لائن بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن اتوار کے روز کلاس ہو۔

5۔ زیبائش و آرائش کا جذبہ انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے، اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں اس کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فیشن کے نام پر نامعقول سے نا معقول لباس کو لوگ قبول کر لیتے ہیں، اب یہی دیکھئے کہ کسی زمانے میں کپڑوں کا پھٹا ہونا یا پیوند لگا ہو نا فقر و غربت کی علامت تھی؛ لیکن آج کل یہ فیشن کا حصہ ہے، اور نوجوان شوق سے پھٹے ہوئے پینٹ پہنتے ہیں، اب سنگھ پریوار والے ہندو ثقافت کو فروغ دینے کے لئے یونیفارم اور عام ملبوسات میں بھی ہندوانہ رنگ کو فروغ دے رہے ہیں، زعفرانی کپڑے، پیشانی پر سرخ تلک، ہاتھ مین دھاگے یا کڑے وغیرہ کو رواج دیا جا رہا ہے، ان حالات میں ضرورت ہے'اسلامی فیشن' کو فروغ دینے کی؛ یعنی ایسے لباس ڈیزائن کئے جائیں جو خوبصورت بھی لگتے ہوں اور لباس کے سلسلے میں شریعت کی بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ بھی ہوں۔ پڑوسی ملک میں جنرل ضیاءالحق شہیدرحمة اللہ علیہ نے اپنے زمانے میں تمام آفسوں کے لئے پٹھانی سوٹ (قمیص شلوار) کو جاری کیا، اس کا بہتر اثر مرتب ہوا اور وہاں کے بلند پایہ علماءنے بھی اس کی تحسین کی، اس کی وجہ سے مسلمان نوجوان اسلامی ثقافت سے مربوط رہیں گے اور ان میں اپنی شناخت اور پہچان کا احساس پیدا ہوگا۔

تعلیمی ترقی:

دوسرا اہم مسئلہ عصری تعلیم میں مسلمانوں کی ترقی کا ہے، یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ جس امت کو سب سے پہلے پڑھنے کی تعلیم دی گئی، وہ وطن عزیز میں تعلیم کے میدان میں سب سے آخری صف میں کھڑی ہے، اس پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ایک طرف مسلمانوں میں شعور بیداری کی ضرورت ہے، اور بحمداللہ کسی حد تک پچھلے پچیس سال میں تعلیمی رجحان بڑھا ہے، آج آٹو اور رکشہ چلانے والا مسلمان بھی اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف کچھ نہ کچھ توجہ کررہا ہے، اور اسی لئے مسلم آبادیوں میں بھی کثرت سے اسکول قائم ہورہے ہیں، دوسری ضرورت ہے زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کرنے کی، ابھی مسلمان محلوں میں جو اسکول قائم کئے جارہے ہیں، وہ زیادہ تر تجارتی نوعیت کے ہیں، انتظامیہ طلبہ سے زیادہ سے زیادہ فیس وصول کرنے کی سعی کرتی ہے، اور اساتذہ کو کم سے کم تنخواہ دیتی ہے، تنخواہ ہی کے لحاظ سے اساتذہ کا معیار بھی ہوتا ہے؛ بہرحال پھر بھی یہ ادراے امت کا بڑا سرمایہ ہیں اور ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا؛ لیکن کچھ ایسے تعلیمی ادارے بھی ہونے چاہئیں، جو 'نہ نفع اور نہ نقصان' کے اصول پر کام کریں، اس طرح وہ طلبہ و طالبات جن میں ذہانت اور صلاحیت ہے؛ لیکن ان کے سرپرست مہنگی فیس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، وہ بھی تعلیم حاصل کرسکیں گے، اور جب اسکول کی پوری آمدنی اسکول ہی پر خرچ ہوگی تو زیادہ تنخواہیں دے کر اچھے ٹیچر رکھے جا سکیں گے، اس کے لئے ملی اور خیراتی اداروں کی ضرورت ہے، مسلم تنظیمیں، جماعتیں، دینی مدارس، مسجدیں، خیراتی ادارے اپنے زیرانتظام اگر ہائی اسکول قائم کریں اور اور انفراسٹرکچر کی بجائے اصل مقصد پر زیادہ سے زیادہ پیسہ خرچ کریں، تو انشآءاللہ اس سے بڑا فائدہ ہو سکتا ہے اور مسلم معاشرہ میں ایک تعلیمی انقلاب آ سکتا ہے۔

موجودہ صورت حال کے پس منظر میں ایک اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے مشترک طور پر طلبہ کے لئے نصابی نقطہ نظر سے بعض مضامین پر کتابیں مرتب کریں، ان میں تاریخ اور اخلاقیات کا موضوع خصوصی اہمیت کا حامل ہے، نئی تعلیمی پالیسی کے تحت تاریخ میں سے مسلم دور کو مکمل طور پر حذف کردیا گیا ہے، اور اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد بھی شامل ہے، اور بہت سی سچائیوں کو مسخ کردیا گیا ہے، جیسے آریوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ باہر سے نہیں آئے تھے، طبقاتی تقسیم کے بارے میں دعوی، کہ یہ تقسیم پیدائشی طور پر نہیں تھی؛ بلکہ لوگوں کے عمل اور کردار کے لحاظ سے تھی وغیرہ۔ ان تمام حقائق کو سچائی اور غیرجانبداری کے ساتھ ذکر کیا جائے۔

اسی طرح جدید تعلیمی پالیسی کے تحت اخلاقیات کی تعلیم میں ہندو مذہب کے سوا کسی اور مذہب کا ذکر نہیں ہوگا، اس کی وجہ سے معصوم بچوں کا جو ذہن بنے گا، وہ ظاہر ہے؛ اس لئے مختلف مرحلوں کے بچوں کے لئے ان کی سطح کے لحاظ سے اخلاقی تعلیم کا ایک ایسا نصاب ہونا چاہئے، جس میں انبیاءکرام علیہم الصلوہ والسلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین رحمہم اللہ کے اخلاقی واقعات اور تعلیمات ہوں، اردو زبان میں مولانا محمد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کی کتاب’دینی تعلیم کا رسالہ‘، جناب محمد افضل صاحب کی’اخلاقی کہانیاں‘ اور ’سچی کہانیاں‘، وغیرہ اس نقطہ نظر سے اہم کتابیں ہیں، اور ان سے استفادہ کرتے ہوئے موجودہ زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے ایسی مزید کتابیں مرتب کی جاسکتی ہیں، کم سے کم مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکول اس کو اپنے نصاب میں شامل کرلیں، یہ بہت ضروری ہے؛ تاکہ مسلمان بچے مشرکانہ افکار کا شکار نہ ہوں، اوران کے اندر اپنے دین اور اپنی تاریخ کے بارے میں احساس کمتری پیدا نہ ہو۔

اپنی حفاظت آپ:

اس منصوبے کا تیسرا اہم ایجنڈا ملت اسلامیہ کا تحفظ ہونا چاہئے، تحفظ میں جسمانی تحفظ بھی شامل ہے، اور ملی وقار کا تحفظ بھی شامل ہے، اس سلسلے میں چند باتیں اہم ہیں:

1۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے جسمانی تحفظ کے لئے تیار کرنا، اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس کی تربیت دینا، جیسے: مارشل آرٹ اور لاٹھی چلانے کا طریقہ وغیرہ، یہ حفظان صحت کے نقظہ نظر سے بھی ضروری ہے، اور ماب لنچنگ کے واقعات جس طرح بڑھتے جارہے ہیں، اس نے اس کی ضرورت کو اور بڑھا دیا ہے۔

2۔ مسلمان نوجوانوں کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے پر متوجہ کرنا، اس میں اعلی مہارت کے حصول کے لئے ان کا تعاون کرنا اور عدالتوں میں ماہر مسلمان وکلاءکو پہنچانا، یہ قانونی تحفظ کے لئے بے حد ضروری ہے، اب تو صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ بعض دفعہ وکلاءمسلمانوں کا کیس لینے کو آمادہ نہیں ہوتے، ان حالات میں بے حد ضروری ہے کہ ہمارے پاس اچھے وکیل ہوں،اور اچھے وکیل ہی جج کی کرسی پر پہنچتے ہیں، افسوس کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں مسلمان ججز کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے، ادھر مسلمانوں میں جدید تعلیم کا رجحان بڑھا ہے، مگر ان کی ساری توجہ میڈیکل اور انجینئرنگ پر ہے، یہ کافی نہیں ہے۔

3۔ ملی تحفظ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انتظامیہ میں اعلی عہدوں پر مسلمان موجود ہوں، گزشتہ کچھ عرصے سے بعض مسلمان اداروں نے اس کے لئے تیاری کرانے کا کام شروع کر رکھا ہے، اور اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس سال بھی 44 مسلم طلبہ نے اس امتحان میں کامیابی حاصل کی؛ لیکن اس پر ابھی مزید اور کافی کوششوں کی ضرورت ہے؛ اگر مختلف مسلم تنظیمیں اور جماعتیں سالانہ دو تین طلباءپرمحنت کروائیں اور انہیں کامیابی کی منزل تک پہنچائیں؛ یہاں تک کہ سالانہ تقریبا سو مسلمان اس میں کامیابی حاصل کرسکیں، تو حکومت کی مشینری میں مسلمانوں کی قابل لحاظ نمائندگی ہوسکے گی، اور حکومت کے فیصلوں میں بھی اور ان فیصلوں کے نفاذ میں بھی مسلمانوں کو انصاف حاصل ہوسکے گا، سیاسی نمائندگی بڑھانے کے لئے جتنی محنت کی جاتی ہے، اِس میدان میں اس سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔

5۔ آزادی کے بعد جتنے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں، ان میں پولیس کا جانبدارانہ بلکہ ظالمانہ رول بالکل واضح ہے، خود حکومت کے متعین کئے ہوئے بہت سے تحقیقاتی کمیشنوں نے اس کو واضح کیا ہے، اس پس منظر میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ پولیس کے محکمہ میں مسلمان زیادہ سے زیادہ داخل ہونے کی کوشش کریں، یہ حقیقت ہے کہ محکمہ پولیس میں مسلمانوں کا تناسب نہایت کم ہے، ہو سکتا ہے اس میں کچھ دخل تعصب کا بھی ہو؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پولیس کی ملازمت کی طرف رخ ہی نہیں کرتی، یا اسے حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے؛ حالانکہ اس شعبے میں چونکہ بنیادی طور پر صرف جسمانی موزونیت مطلوب ہوتی ہے، اس لئے ملازمت کے مواقع زیادہ ہیں، اس کے لئے ضرورت ہے ایک تو شعور بیداری کی، دوسرے: پولیس ٹیسٹ میں شرکت کے لئے ٹریننگ کی، اور یہ کام سول سروس امتحان کی تیاری کی طرح زیادہ خرچ طلب بھی نہیں ہے؛ اس لئے اگر مسلم ادارے اس جانب توجہ دیں تو مسلمانوں کی ایک مناسب تعداد اس شعبے میں داخل ہو سکتی ہے اور یہ چیز ان شاءاللہ پولیس ظلم کو روکنے میں ممدومعاون ہوگی۔

5۔ حفاظت کا ایک پہلو قومی اور ملی وقار کا تحفظ ہے، اس وقت قوموں کو بے وقار کرنے اور کسی گروہ کے وقار کو بے جا طریقہ پر بڑھانے اور اس کے حق میں مبالغہ آمیز جھوٹ اور پروپیگنڈے کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہے خواہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، نیشنل چینلز ہو یا یوٹیوب چینلز، ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا! اس لئے مسلمانوں کو اس شعبہ کی طرف توجہ کرنے کی اشدترین ضرورت ہے؛ اگر چہ وہ اس سلسلے میں بہت پیچھے ہوچکے ہیں؛ لیکن اگر صبح کا بھولا شام میں واپس آجائے تب بھی یہ ایک کامیابی ہے، اس کے لئے دورخی کوشش ہونی چاہئے: 

ایک: افراد سازی کی، کہ انگریزی اور مقامی زبانوں میں لکھنے والے جرنلسٹ اور بولنے والے ماہرین تیار کئے جائیں، 

دوسرے: اگر اخبارات کا نکالنا اور نیشنل سطح کا چینل شروع کرنا مشکل ہو، جیسا کہ تجربہ ہے، تو کم سے کم سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے چینل بنائے جائیں جو مسلمانوں کی آواز بنیں، مسلمانوں کی اچھی تصویر پیش کریں اور ان کے بہتر کاموں کو نمایاں کریں، یہ بھی اپنے تحفظ کا ایک حصہ ہے، اور اس سے بے توجہی نے مسلمانوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچایا ہے۔

نفرت کا ازالہ:

ملک کے موجودہ حالات میں بہت ہی اہم کام نفرت کی اس آگ کو بجھانا ہے، جو سنگھ پریوار نے لگائی ہے اور میڈیا نے پٹرول ڈال کر اس کو آتش فشاں بنا دیا ہے، تعلیم، دعوت اور معاشی ترقی، جو بھی کام ہو، اس کے لئے معتدل ماحول اور نفرت سے پاک سماج ضروری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی حکمت عملی میں سب سے مقدم رکھا، آپ نے ماحول کو پرامن رکھنے کے لئے مکی زندگی میں یک طرفہ طور پر صبر سے کام لیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ”تنگ آمد بہ جنگ آمد“ کے مصداق اگر کہیں جوابی اقدام کرنا چاہتے، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیتے، مدینہ تشریف لانے کے بعد آپ نے وہاں کے تمام قبائل کو جوڑ کر معاہدہ کروایا؛ تاکہ امن وامان قائم رہے، آپ شروع سے چاہتے تھے کہ اہل مکہ سے صلح ہو جائے، مکی زندگی میں آپ نے اہل مکہ کے سامنے یہ بات بھی رکھی تھی کہ وہ دعوت اسلام کے کام میں رکاوٹ نہ بنیں، اگر آپ کو کامیابی حاصل ہوگئی تو خاندانی رشتے کی بنا پر تمام اہل مکہ کے لئے عزت کی بات ہوگی اور اگر کامیابی نہیں ہو پائی تو آپ کا مقصد حاصل ہوگیا؛ لیکن اس کو بھی اہل مکہ نے قبول نہیں کیا۔

بالآخر اہل مکہ نے دوبار اپنی طاقت لگا کر حملہ کیا اور بدر و احد کے غزوات پیش آئے، تیسری بار ان تمام طاقتوں کو اپنے ساتھ ملا کر حملہ آور ہوئے، جن کی تائید وہ حاصل کرسکتے تھے، اور غزوہ احزاب کا واقعہ پیش آیا؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان کی یہ مہم بھی ناکام و نامراد ہوکر رہ گئی؛ چونکہ اہل مکہ نے اپنی صلاحیت کا پورا تجربہ کرلیا تھا، اور اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بزور طاقت مسلمانوں کو زیر نہیں کر سکیں گے، تو اب وہ وقت آگیا جو بقائے باہم کے اصول پر صلح کے لئے سب سے موزوں وقت تھا؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، جس کی پیشکش آپ ہی نے فرمائی اور آپ نے اہل مکہ ہی کی شرطوں پر صلح کو قبول کرلیا۔

اسی طرح مدینہ منورہ میں بار بار یہودیوں کی طرف سے زیادتی کے واقعات پیش آتے رہے، وہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے، کبھی اشعار کا سہارا لے کر مسلمانوں کی برائی بیان کرتے،کبھی مسلمان خواتین کی نسبت سے بدتمیزی کی باتیں کہتے، اہل مکہ کے لئے جاسوسی کرتے اور ان کو جنگ پر اکساتے، یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بھی بنایا؛ لیکن آپ نے ہمیشہ صبر اور درگزر سے کام لیا، جب تک پانی سر سے اونچا نہ ہو گیا، درگزر ہی سے کام لیتے رہے؛ تاکہ مسلمانوں کو پرامن ماحول میں اسلام کی دعوت اور مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا موقع ملے، غرض کہ ہر طرح کے اصلاحی اور ترقیاتی کاموں کے لئے پرامن ماحول اور محبت کی فضا ضروری ہے۔

ہندوستان میں اس وقت نفرت کا ماحول قصدا پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، برسراقتدار پارٹی نفرت انگیز منصوبہ بناتی ہے، میڈیا اس منصوبہ کو تقویت پہنچاتا ہے اور اسے گھر گھر پہنچانے کا کام کرتا ہے، حکومت اس نفرت انگیز مہم سے آنکھ بند رکھتی ہے، اپنی انتظامی مشینری کو قصداً معطل کردیتی ہے اور قانون سازی کے ذریعے نفرت انگیز ایجنڈے کو قانون کا حصہ بنا دیتی ہے، اس نفرت کو دور کرنا موجودہ حالات میں سب سے بڑا کام ہے۔

1۔ اس کے لئے غیرمسلم بھائیوں کے ساتھ سماجی تعلقات کو استوار کرنا نہایت ضروری ہے، الیکشن کے وقت اتحاد کی دعوت اور غیرمسلموں کے ساتھ یگانگت ایک حد تک خود غرضی کو ظاہر کرتی ہے، اور اس کو سیاسی فائدے کا عمل تصورکیا جاتا ہے؛ لیکن سیاست سے ہٹ کر سماجی زندگی میں برادرانِ وطن سے تعلقات کی استواری بہت اہم ہے، جیسے قدرتی آفات میں گاو¿ں اور محلہ کے غیرمسلم بھائیوں کی مدد، غیرسودی قرض اداروں کا قیام اور اس میں ان کو بھی شامل کرنا، رمضان المبارک، عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع سے ان کو اپنے یہاں بلانا، مشترک سماجی مسائل کو مل جل کر حل کرنا، صفائی ستھرائی مہم چلانا، وبائی امراض کے لئے طبی کیمپ، ایک ساتھ کھانے پینے کی دعوت وغیرہ، اگر غیرمسلم تنظیمیں، جماعتیں اور ادارے اپنے اپنے حلقے میں اس کام کو انجام دیں، تو انشآءاللہ ضرور نفرت کم ہوگی اور اگر عمل میں تسلسل ہوتو نفرت ختم ہوگی۔

2۔ غیرمسلموں میں بڑا حصہ دلت بھائیوں کا ہے، برہمنوں نے اگرچہ اس بات کے لئے کہ وہ اجتماعی شکل اختیار نہ کرلیں، ان کو بی سی، ایس ٹی اور او بی سی میں تقسیم کردیا ہے، اور بعض جگہ تو دلت اور مہا دلت کی اصطلاح قائم کردی ہے؛ لیکن حقیقت میں سماجی اعتبار سے ان سب کے حالات یکساں ہیں، اس طبقہ سے خاص طور پر تعلقات کو بہتر بنانے، ان کے سماجی اور سیاسی قائد ین کو ساتھ لے کر چلنے اور ان کے ساتھ مساویانہ برتاو کرنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ یہ آبادی کا تقریباّ 80 فیصد ہیں، اور تھوڑی محنت اور حسن سلوک کے ذریعہ ان کو قریب کیا جاسکتا ہے، جیساکہ مختلف ریاستوں میں عیسائیوں نے کیا ہے۔

کیا بہتر ہوکہ ہر قصبہ، گاوں، محلہ میں مسلمان آگے بڑھ کر دلت مسلم انجمن قائم کریں، جو رفاہی کام بھی انجام دیں اور مشترک برائیوں جیسے: جہیز کی رسم، نشہ، گندگی وغیرہ کو ختم کرنے کے لئے مل جل کر کام کریں؛ گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبل ازنبوت زندگی کی اصطلاح میں ایک ’حلف الفضول‘ قائم ہوجائے، جو تمام کمزوروں کی نمائندہ ہو۔

3۔ مسلم غیرمسلم نفرت کا سب سے بڑا سبب میڈیا کے لوگ ہیں، جنہوں نے اپنا ضمیر بیچ دیا ہے، اس کا مقابلہ بھی اسی راستے سے کرنا ہوگا، اس سلسلہ میں سہل الحصول ذریعہ سوشل میڈیا ہے، نفرت بھی اسی ذریعہ سے پھیلائی جاتی ہے، اور نفرت کا علاج بھی اسی ذریعہ سے ممکن ہے، ویسے تو مسلمان بھی مختلف مقاصد کے لئے سوشل میڈیا کا کافی استعمال کرتے ہیں؛ لیکن ضرورت ہے اس میں منصوبہ بندی کی، اور وہ اس طرح کہ:

الف: جو غلط باتیں پھیلائی جاتی ہیں، ہندی اور مقامی زبانوں میں دلیل کے ساتھ غیرجذباتی ہوکر ان کا جواب دیا جائے۔

ب: نفرت انگیز مواد پر کثرت سے کمنٹ کیا جائے، اور کمنٹ اس کی تردید پر مشتمل ہو، نیز اسی میڈیا کے ذریعہ جو جواب دیا جائے، کمنٹ میں اس کا حوالہ بھی ہو کہ آپ اس کی سچائی جاننے کے لئے فلاں پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔

ج: غیرمسلم حضرات کے ساتھ جو حسن سلوک کیا جائے، اس پر ان کے تاثرات کی بھی ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے اور اسے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے خوب پھیلایا جائے۔

د: دلتوں، بدھسٹوں، جینیوں وغیرہ کے ساتھ مسلم دور سے پہلے جو مظالم کئے جاتے رہے ہیں، ان کو تاریخی شہادتوں کے ساتھ پیش کیا جائے؛ تاکہ تصویر کا دوسرا رخ لوگوں کے سامنے آئے۔

ہ: موجودہ دور میں دلتوں کے ساتھ تحقیر و تذلیل کا جو رویہ اختیار کیا جاتا ہے، ان واقعات کو پیش کیا جائے۔

و: انسانی بنیادوں پر محبت اور بہتر سلوک کی جو تعلیم اسلام میں دی گئی ہے، اس کو پیش کیا جائے۔

ز: مسلم دور حکومت میں ملک کو جو ترقی حاصل ہوئی اور تمام قوموں کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا گیا، ان کو سامنے لایا جائے۔

ح: غیرمسلم بھائیوں اور بالخصوص دلتوں سے رابطہ کے وسائل جیسے: واٹس ایپ نمبر حاصل کئے جائیں اور ان تک اپنی بات پہنچائی جائے۔

ط: یوٹیوب چینل پر ڈبیٹ رکھی جائے، جس میں فرقہ پرستوں کے عمل کو ایجنڈا بنایا جائے، جیسے :بودھوں اورجینیوں کی وہ عبادت گاہیں جو آج مندروں کی شکل میں ہیں، شودر اور ہندو مذہبی کتابیں، منوسمرتی نیز ہندو مذہبی کتابوں کے بعض غیراخلاقی مضامین، وغیرہ، اس میں ہندو مقدس شخصیتوں کے احترام کا پورا لحاظ رکھا جائے اور اپنی بات کو نقلِ واقعہ تک محدود رکھا جائے، نیز یہ ڈیبیٹ بہوجن سماج کے لوگوں اور کمیونسٹ برادرانِ وطن کے ذریعہ ہو، غرض کہ ایک منصوبہ کے ساتھ سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے۔

4۔ ہندی اور مقامی زبانوں میں 15 /16 صفحات کے ایسے پمپفلیٹس شائع کئے جائیں، جن میں برہمنوں کی طبقاتی تقسیم، عورتوں کے بارے میں منوسمرتی کی تعلیمات، مذہبی کتابوں میں مذکور غیراخلاقی واقعات وغیرہ کا ذکر ہو، اور یہ غیرمسلم مصنفین کے ہوں، اسی طرح بابا صاحب امبیڈکر، جیوتی باپھلے وغیرہ نے برہمنی افکار اور نظام پر جو تبصرے کئے ہیں، انہیں مرتب کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے، نیز اسلام کی انسانیت نواز تعلیم اور مساوات انسانی کے تصور پر بھی موثر لٹریچر تیار کیا جائے، اور اسے برادرانِ وطن تک ان کی زبان میں زیادہ سے زیادہ پہنچایا جائے۔

معاشی ترقی:

کسی بھی قوم کے لئے معیشت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی ہے، اسلام نے حالانکہ آخرت کو مقصد زندگی بنانے کا حکم دیا ہے اور دنیا پر دین کو ترجیح دینے کا سبق پڑھایا ہے؛ لیکن کسب معاش کی بھی ترغیب دی ہے، اس بات کو بہتر قرار دیا ہے کہ مسلمان کے پاس دینے والا ہاتھ ہو نہ کہ لینے والا، حلال روزی کو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ انسان بہت سے فرائض دولت کے بغیر ادا نہیں کرسکتا اور جو قوم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا تی ہے، وہ عزت و سربلندی کا مقام حاصل نہیں کر پاتی ہے۔

ہندوستان کی صورتحال یہ ہے کہ انگریزوں ہی کے دور سے یہاں خاص طور پر مسلمانوں کی معیشت کو نشانہ بنایا گیا، ملازمتوں سے ان کو الگ کیا گیا، آزادی کے بعد جن شہروں میں کوئی کاروبار مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا، جیسے: علیگڑھ، بنارس، بھاگلپور، مرادآباد وغیرہ، وہاں خوں ریز فسادات کروائے گئے، سخت معاشی پسماندگی کے باوجود مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم رکھا گیا، ملازمتوں میں ان کا گراف اتنا گرچکا ہے کہ وہ بالکل آخری صف میں ہیں؛ اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان معیشت کے ایسے وسائل اختیار کریں، جو کم اخراجات پر مبنی ہوں، جن کے لئے سرکاری وسائل کی ضرورت نہ ہو اور جن کو اپنے اختیار سے چلایا جاسکتا ہو، اس کے لئے ان امور پر توجہ کی ضرورت ہے:

1۔ چھوٹی صنعتوں کا قیام، ان میں اخراجات بھی کم آتے ہیں، قانونی مسائل بھی زیادہ نہیں پیدا ہوتے، جن شہروں میں مسلمانوں نے چھوٹی صنعتوں کو اپنا ذریعہ معاش بنایا ہے، وہاں مسلمانوں کی مالی حالات نسبتا بہتر ہے، جیسے: بنارس اور مﺅ میں ساری کا کاروبار، علی گڑھ میں تالے، بھاگلپور میں ریشم کے کپڑے، وغیرہ۔

2۔ تجارت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجارت میں برکت رکھی گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تجارت کی ہے، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور اکثر مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا تھا، آج بھی جن علاقوں میں مسلمانوں نے تجارت کی طرف توجہ دی ہے، جیسے: بمبئی، کلکتہ، گجرات اور جنوبی ہند کے بعض علاقے، وہاں وہ معاشی طور پر بہتر حالت میں ہیں، جب معیشت بہتر ہوگی تو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے مواقع بھی حاصل ہوں گے اور یہ بھی ان کے لئے معاشی ترقی کا ذریعہ بنے گا۔

3۔ معاش کے دو قدیم ترین ذرائع ہیں: زراعت اور مویشی پالن، پہلے یہ کام معمولی سطح پر کیا جاتا تھا؛ لیکن اب زراعت اور مویشی پالن کی ایک پوری سائنس وجود میں آچکی ہے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے کم جگہ میں زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ جہاں پانی کم ہو وہاںاسی لحاظ سے ایسی چیز وں کی زراعت کی جاسکتی ہے جس میں زیادہ پانی کی ضرورت نہیں پڑتی، مویشی پالن کے ایسے طریقے آگئے ہیں کہ کم مدت میں جانور کا وزن بڑھ جاتا ہے، مسلمانوں کو ان ذرائع کے اختیار کرنے کی ترغیب دینی چاہئے، اس طرح کم وسائل کے ذریعے وہ زیادہ آمدنی حاصل کرسکتے ہیں، اس کی بہترین مثال پنجاب ہے، جہاں معیشت کا بنیادی ذریعہ زراعت ہے، پھر بھی وہ معاشی ترقی کے اعتبار سے ملک کی ریاست نمبر ایک سمجھی جاتی ہے، مسلمان کاشتکار عام طور پر شعور سے تہی دامن ہیں اور وہ حالات کو دیکھے بغیر روایتی کاشت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

4۔ روزگار کا ایک کم خرچ اور مفید ذریعہ ہنر ہے، ہنرمندوں کی ضرورت قدم قدم پر پیش آتی ہے، الیکٹریشن ہو یا پلمبر، یا کسی اور فن کا ماہر، ہر جگہ اس کی طلب ہے، خلیجی ممالک میں ہنرمندوں کی بہت زیادہ کھپت ہے، بعض شعبے ایسے ہیں جن سے خواتین بھی استفادہ کر سکتی ہیں، جیسے: نرسنگ، میڈیکل لیب، گارمنٹ کی تیاری، وغیرہ، میں جب بنگلہ دیش گیا تو دیکھاکہ گارمنٹ فیکٹری کے باہر عورتوں کی لمبی قطاریں کھڑی ہیں، یہ سب وہاں کام کرنے والیاں ہیں اور انہیں معقول معاوضہ ملتا ہے، اسی کے نتیجے میں بنگلہ دیش اس وقت سارک ممالک میں معاشی ترقی کے اعتبار سے اول نمبر پر ہے، بعض ہنر ایسے بھی ہیں کہ جو لوگ زیادہ جسمانی محنت نہیں کرسکتے اور کسی قدر تعلیم یافتہ بھی ہیں، وہ ان سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، حکومت اسکیل ڈیولپمنٹ کے نام سے ہنرمندوں کی تیاری پر بہت توجہ دے رہی ہے اور اس کی بہت حوصلہ افزائی کرتی ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

5۔ سرکاری اسکیمیں، غریبوں بے روزگاروں اور اقلیتوں کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی بعض خصوصی اسکیمیں ہیں، اگر آپ اقلیتی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست کسی ذریعہ سے حاصل کریں تو آپ دیکھیں گے کہ سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کا حصہ اس میں بہت ہی کم ہے،ان ا سکیموں سے فائدہ اٹھانا ہمارا حق ہے؛ کیونکہ مسلمان بھی اس ملک کو ٹیکس ادا کرتے ہیں، جب کوئی مصیبت آتی ہے تو ہنگامی تعاون کرتے ہیں، ابھی کووِڈ کے موقع سے جن لوگوں نے بڑا ڈونیشن دیا، ان میں کئی مسلمان ہیں اور جس نے سب سے بڑا ڈونیشن دیا، وہ بھی ایک مسلمان ہی تھا، تو مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ ایسی اسکیموں سے فائدہ اٹھائیں اور ان میں سے بیشتر اسکیمیں ایسی ہے جن کو علماءنے شرعی نقطہ نظر سے بھی جائز قرار دیا ہے۔

ان اسکیموں سے محروم رہنے کے دو بنیادی اسباب ہیں: پہلا سبب افسروں کا تعصب ہے؛ لیکن اگر ہمت نہ ہاری جائے، مقررہ ضوابط کی پیروی کی جائے تو دو چار بار دوڑنے اور دو چار سرکاری آفسوں کی خاک چھاننے کے بعد کامیابی حاصل ہو جاتی ہے؛ اس لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور اپنا حق حاصل کرنا چاہئے، اس کا دوسرا اور بڑا سبب مسلمانوں کی بے خبری ہے، عام طور پر مسلمان ان اسکیموں سے باخبر نہیں ہوتے، اگر سرسری طور پر کچھ معلوم بھی ہو تو طریقہ کار کی تفصیل سے ناواقف ہوتے ہیں؛ اس لئے اکثر اپنی لاعلمی کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں، ضرورت ہے کہ مسلم آبادیوں میں’گائیڈنس سینٹر‘ قائم کئے جائیں، اس سے بہت سے فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں، جیسے: سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانا، پرائیویٹ کمپنیوں میں اور سرکاری محکموں میں ملازمت کے مواقع سے واقفیت، ہنر کی تعلیم کے مراکز وغیرہ، یہ ہمہ مقصدی سینٹر ہوسکتا ہے، اور اگر مسجدوں کو اس کا مرکز بنایا جائے مثلا ہفتہ یا مہینے میں ایک دن مسجد میں کوئی واقف کار شخص چند گھنٹوں کے لئے اپنا وقت دے دے تو مسجد سے مسلمانوں کا رشتہ مضبوط ہوگا اورکتنے ہی مسلمانوں کو باعزت روزگار مل سکے گا ہے۔

زبان:

کسی بھی قوم کے لئے اپنی زبان کی بڑی اہمیت ہے، ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے؛ اس لئے زبان کے مسئلہ پر یہاں جھگڑے بھی شروع سے ہوتے رہے ہیں، اردو زبان کا تعلق اگرچہ مذہب سے نہیں ہے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں پچاسی سے نوے فیصد مسلمانوں کے لئے اردو ہی رابطے کی زبان ہے، دینی مدارس میں یہی ذریعہ تعلیم ہے، مسجدوں میں زیادہ تر بیانات اسی زبان میں کئے جاتے ہیں، یہی زبان جلسوں کی رونق ہے، اردو اخبارات ہی مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی کرتے ہیں، اور سب سے اہم بات یہ کہ اسلامی لٹریچر کے اعتبار سے عربی کے بعد یہ سب سے دولت مند زبان ہے۔

افسوس کہ اردو نے جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا اور اردو شعر و ادب سے دنیا بھر میں ہندوستان کا تعارف ہوا؛ لیکن آزادی کے بعد ہی سے اس زبان کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور موجودہ تعلیمی پالیسی نے اس متعصبانہ کوشش کو آخری درجہ پر پہنچا دیا ہے، اگر حکومت کی یہ سازش کامیاب ہوگئی تو ہماری نئی نسل کا رشتہ اپنے ماضی سے اور عوام کا رشتہ علمائ سے کٹ کر رہ جائے گا۔

اس پس منظر میں ہمیں ایک طرف قانونی طور پر اردو کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور دوسری طرف اپنے طور پر بھی اپنی زبان کی حفاظت کا سروسامان کرنا چاہئے، اس کی بہترین مثال یہودی ہیں،جنھوں نے ہزاروں سال اقتدارسے محروم رہنے کے باوجود اپنی زبان ”عبرانی“ کو محفوظ رکھا اور جب اسرائیل قائم ہوا تویہ اسرائیل کی سرکاری زبان بن گئی۔

اس سلسلے میں درج ذیل امور پر توجہ دینی چاہئے:

1- مسلمان اپنی گھریلو زبان کے طور پر اردو ہی کا استعمال کریں؛ تاکہ نئی نسل کم سے کم بولی کی حد تک اردو زبان سے ضرور واقف رہے۔

2- آپسی خط و کتابت میں اردو کا استعمال کریں۔

3- اپنی دکانوں اور آفسوں وغیرہ کے سائن بورڈ میں اردو کو شامل کریں۔

4- اپنے گھروں میں اردو اخبارات و رسائل جاری کریں اور انہیں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔

5- ہر بچہ کو مکتب میں یا گھر میں اردو بولنا اور لکھنا ضرور سکھائیں۔

6- مسلمان اپنے زیرانتظام تعلیمی اداروں میں – چاہے اس کا میڈیم انگلش ہو – بطور ایک زبان کے اردو پڑھائیں۔

7- اردو کتابیں خریدیں، اپنے گھروں میں لاکر رکھیں اور اردو کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔

8- اردو زبان میں تقریر، تحریر، بیت بازی، حمد، نعت اور غزل کے مقابلے رکھوائیں اور اس پر انعام دیں۔

اگر ہم یہ اور اس طرح کی تدبیروں پر عمل کریں تو ہم خود اپنی کوششوں سے اپنی زبان کو زندہ رکھ سکتے ہیں اور اپنی نسلوں کا رشتہ اسلامی لٹریچر کی وسیع دنیا کے ساتھ استوار کرسکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ ہندی اور مقامی زبانوں میں منتخب اسلامی لٹریچر کو تیزی سے منتقل کیا جائے، فارسی زبان کوئی اسلامی زبان نہیں ہے، یہ آتش پرستوں کی زبان تھی؛ لیکن جب مسلمان اس خطہ میں پہنچے تو انہوں نے اِس زبان پر اتنی محنت کی کہ یہ مسلمانوں کی زبان بن گئی، یہاں تک کہ آج مسلمان شعراءاور مصنفین کے بغیر فارسی زبان و ادب کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اس پر توجہ کی بہت شدید ضرورت ہے؛ تاکہ ہمارے جو بچے اردو نہیں پڑھ سکتے، وہ دین سے نا واقف نہ رہیں، اور اس لئے بھی کہ ہم تمام قوموں کی مشترک زبان ہی کے ذریعہ برادران وطن تک پہنچ سکتے ہیں اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔

سیاسی قوت میں اضافہ:

اس سے کوئی سمجھدار آدمی انکار نہیں کر سکتا کہ سیاسی قوت کی بڑی اہمیت ہے اور زندگی کے تمام شعبوں پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مسلمانوں کو آزادی کے بعد ہی سے منصوبہ بند طریقے پر سیاست کے میدان میں بے وزن کرنے کی کوشش کی گئی، متناسب ووٹنگ کا نظام ختم کر دیا گیا، اگر متناسب ووٹنگ کا نظام باقی ہوتا تو کسی شہری کا ووٹ ضائع نہیں ہوتا؛ بلکہ جو پارٹی جتنے ووٹ حاصل کرتی، اس کے لحاظ سے اس کو نمائندے نامزد کرنے کا حق ہوتا، اس صورت میں ملک میں بکھرے ہوئے مسلمان بھی اپنے ووٹ کو موثر بناسکتے تھے، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اکثریت کے مقابلے میں اقلیت کا ووٹ ضائع ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ جس حلقے میں مسلمانوں کے زیادہ ووٹ ہوتے ہیں، ان کو محفوظ قرار دے دیا جاتا ہے؛ لہذا ایک تو اس سلسلے میں قانونی کوشش کرنی چاہئے اور مسلم علاقوں کومحفوظ قرار دینے کے معاملہ کوعدالت میں چیلنج کرنا چاہئے، دوسرے: ایسی پارٹیوں کو تقویت پہنچانی چاہئے جو مسلمانوں کے لئے نسبتا مفید ہوں۔

اس سلسلے میں درج ذیل باتیں قابل توجہ ہیں:

1- جہاں کوئی مسلم پارٹی کا امیدوار کھڑا ہو اور پچاس فیصد سے زیادہ اس کے جیتنے کی توقع ہو، وہاں اس کو جتانے کی کوشش کرنی چاہئے؛ کیونکہ وہ کھل کر مسلم مسائل پر بات کر سکتا ہے، اس پر پارٹی کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، اس کے برخلاف بعض جماعتیں جو اپنے آپ کو سیکولر قرار دیتی ہیں، وہ بھی اپنے مسلم نمائندے کو کھل کر اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دیتیں؛کیونکہ ان کو انتہا پسند فرقہ پرستوں کے ووٹ کی فکر دامن گیر رہتی ہے؛ اس لئے مسلم پارٹی کو ترجیح دینی چاہئے۔

2- جہاں مسلم پارٹی تو نہ ہو؛ لیکن کسی ایسی پارٹی کا مسلمان امیدوار ہو، جو کم سے کم اپنے آپ کو زبان سے سیکولر کہتی ہو اور اس امیدوار کے جیتنے کی پچاس فیصد سے زیادہ توقع ہو، تو اس کے حق میں ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے؛ کیونکہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایوان قانون میں بھی اور اپنی پارٹی میں بھی مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی کرسکے گا۔

3- جہاں مسلم پارٹی ہو یا مسلمان امیدوار ہو؛ لیکن اس کے جیتنے کی کم امید ہو، وہاں ان کو ووٹ دینا اپنے ووٹ کو ضائع کرنا ہے؛ اس لئے وہاں اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہئے، جو سیکولرمنشور رکھتی ہو، بہت سی دفعہ لوگ سوچتے ہیں کہ فلاں پارٹی سیکولرزم کا نعرہ لگاتی تھی؛ لیکن اسی کے عہداقتدار میں مسلمانوں کو ڈھیر سارا نقصان بھی پہنچا، یہ حقیقت واقعہ ہے؛ لیکن جب تمام پارٹیاں فرقہ واریت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہوں تو اس وقت ہمیں بڑے نقصان اور چھوٹے نقصان کا موازنہ کرنا ہوگا اور بڑے نقصان سے بچنے کے لئے کم تر درجے کے نقصان کو گوارا کرنا ہوگا،فقہاءکے یہاں یہ ایک مستقل اصول ہے، مثلا اس وقت جو پارٹی اقتدار میں ہے، اس نے مسلمانوں کو پہنچنے والے ماضی کے نقصانات کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں سنگین ا ضا فہ یہ کیا ہے کہ دستوری طور پر مسلمانوں کی شہریت، مذہبی تشخص اور حق تعلیم کو جو تحفظ حاصل ہے، اسے ہی ختم کر رہی ہے، یعنی کوشش ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کی بنیادیں ہی اکھیڑ دی جائیں، یہ یقینا اس نقصان سے بڑھا ہوا ہے، جو ہم نے پچھلی حکومتوں سے اٹھایا ہے، یہاں تک کہ گزشتہ روایات سے ہٹتے ہوئے وزارتوں میں کسی مسلمان کی نمائندگی بھی قبول نہیں کی جاتی،حکمر انوں کا حال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے وفد سے ملاقات بھی نہیں کرنا چاہتے، ان حالات میں ان لوگوں کو کمزور سے کمزورتر کردینا جنہوں نے اپنے اصول اور منشور میں سیکولرزم کو شامل کر رکھا ہے، بے حد نقصان دہ ہوگا۔

4- علاقائی پارٹیوں کی بھی اہمیت ہے، اب ملک کی اکثر ریاستوں میں ایسی پارٹیاں موجود ہیں؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریاستی سطح کی پارٹیوں کا کوئی نظریہ اور موقف نہیں ہوتا، وہ اپنا قبلہ بدلتی رہتی ہیں اور وہ مرکزی حکومت کے بننے اور گرنے میں بنیادی رول ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں، ملک بھر کے لئے قانون مرکزی ایوانِ قانون میں بنتا ہے اور وہاں اقتدار میں نیشنل پارٹیاں ہوتی ہیں؛ اس لئے نیشنل پارٹیوں سے مسلمانوں کو بے تعلق نہ ہونا چاہئے اور اس میں شامل رہ کر پریشر گروپ کے طور پر کام کرنا چاہئے، اس کی اہمیت کا اندازہ بی جے پی کے نعرے سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کانگریس ±مکت بھارت، کمیونسٹ ±مکت بھارت کا نعرہ لگا رہی ہے؛ لیکن ریاستی پارٹیوں کے بارے میں اس طرح کے نعرہ لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی؛ کیونکہ یہ ان کے عزائم کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔

5- سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان خاموش طریقہ پر اپنے ووٹ کو متحد کریں اور ایسے امیدوار کو کامیاب بنائیں، جو فرقہ پرست امیدوار کو شکست دے سکتا ہو؛ورنہ فرقہ پرست ووٹوں کا اتحاد ہوجائے گا اور مسلمانوں کے ووٹ ضائع ہوجائیں گے۔

6- یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی جلسوں میں جذباتی اور جارحانہ تقریروں سے بچا جائے، اس سے وقتی طور پر مسلمانوں کے جذبات کی تسکین ضرور ہوتی ہے اور نعرے بھی خوب لگتے ہیں، مگر فائدہ سے زیادہ نقصان ہوتا ہے اور مسلم مخالف ووٹ متحد ہو جاتا ہے، اسوہ نبوی ہمارے سامنے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو کس قدر تکلیفیں دی گئیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبات میں ہمیشہ دین کی، انسانیت کی اور انصاف کی باتیں کیں اور کبھی اعدا ئ اسلام کے مظالم کو موضوعِ سخن نہیں بنایا۔

7- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غیرمسلم قبائل سے معاہدہ کیا ہے، ہجرت کے بعد مدینہ میں بسنے والے تمام قبائل کو جوڑ کر وہ تاریخی معاہدہ کروایا، جو ”میثاق مدینہ“کہلاتا ہے، اس میں یہ سبق ہے کہ ہمیں برادرانِ وطن میں سے ان لوگوں کو ساتھ لینا چاہئے جو ہماری ہی طرح مظلوم ہیں، یعنی :دلت، اگر ہر علاقے میں مسلمان دلتوں کے ساتھ مل کر اپنی پالیسی طے کریں اور شرائط کی بنیاد پر ان کے ساتھ اتحاد کریں تو ملک میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے اور ناانصافی کا سدباب ہو سکتا ہے۔

غرض کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنا جن لوگوں کی ذمہ داری ہے، وہ خود نفرت کے بیج بورہے ہیں اور اقلیتوں کو خوف زدہ کیا جارہا ہے، ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمانوں کو دین پر ثابت قدم رکھا جائے، انہیں تعلیم میں آگے بڑھایا جائے، وہ ’آپ اپنی حفاظت‘کے لائق بن سکیں، نفرت کے ماحول کو اپنے اخلاق کے ذریعہ تبدیل کیا جائے، معاشی ترقی کے لئے ان وسائل پر توجہ دی جائے، جن کا حکومت کی مدد پر انحصار نہیں ہے، اردو زبان سے نئی نسل کو آشنا کیا جائے اور اس کو زیادہ سے زیادہ رواج دیا جائے، مقامی زبان میں اسلامی لٹریچر کو منتقل کیا جائے ،اور سیاست کے میدان میں باریک بینی کے ساتھ حکمت عملی اختیار کی جائے، اور ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ برادران وطن کے درمیان اسلام کااور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا سچا تعارف کروایا جائے، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کو پہنچایا جائے، نیز حالات کچھ بھی ہوں، اپنے آپ کو کم ہمتی سے بچاکر رکھا جائے؛ کیونکہ بے حوصلہ قوم کی مثال اس درخت کی ہوتی ہے جو اندر سے سوکھ جائے، اس کو ہوا کا ایک جھونکا بھی اکھاڑ پھینکتا ہے۔

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی :: ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ :: پیش کش: ایس اے ساگر #Sa_Sagar

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_71.html



No comments:

Post a Comment