Sunday 23 August 2020

قومیت و وطنیت کی معتدل تعبیر و تشریح

 قومیت و وطنیت کی معتدل  تعبیر و تشریح 

عبدالحمید نعمانی

ہندستان کے تمام باشندے، وطنی حیثیت سے ہندستانی ہیں، آئینی طور پر تمام باشندے برابر کے شہری ہیں، اپنے وطن سے محبت کرنے والا، ہر شہری، محب وطن اور راشٹر وادی ہے، اس میں اکثریت و اقلیت کے لحاظ سے کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے اور نہ ہی ایک کو دوسرے پر کوئی تفوق و برتری حاصل ہے۔ اس جذبے اور تصور وطنیت کو منہدم کرنے کا کام سنگھ اور ہندو مہا سبھا کے رہ نماﺅں نے کیا ہے، انھوں نے قومیت اور راشٹرواد کو وطن سے وابستہ کرنے کے بجائے اپنی مخصوص کمیونٹی پر منحصر و موقوف کردیا اور اسے ہندوتو کے نام سے مقبول بنانے کی زور و شور سے مہم چلائی، بھارت میں ہندو کمیونٹی کے علاوہ مسلم ،سکھ ، عیسائی، بودھ ، جینی، یہودی، پارسی اور ان سے باہر دیگر اقوام و قبائل بھی ہیں، یہ سب بھارت کے باشندے اور آئینی شہری ہیں، ان میں سے کسی کو بھی راشٹرواد اور قومیت و وطنیت کے دائرے سے خارج نہیں کیا جاسکتا ہے، 1925ء سے خصوصاً 2014ء کے بعد سے جس منفی راشٹرواد اور قومیت و وطنیت کے نام پر اکثریت پرستی کی پالیسی کے تحت، ایک مخصوص کمیونٹی کے افکار و روایات کو ہندستانیت اور بھارتیہ سنسکرتی کے نام پر دیگر باشندگان ملک پر لادنے کی مہم چلائی جارہی ہے اس کا آئین ہند اور بھارت کی عمومی روایات و اعمال میں کوئی جواز نہیں ہے، بھارت کی ایک خصوصیت، مختلف افکارو روایات کو لے کر آزادی ہے، والمیکی، رامائن کے اصل ابواب میں مندرجہ تفیصلات میں ہم پاتے ہیں کہ رام چندر کے عہد میں اپنے سے مختلف افکار و اعمال والے افراد کو ایک نظر یہ و عمل کا زبردستی پابند بنانے کی کوشش نہیں ہوتی تھی، جابالی رشی جو لامذ ہب تھے، نے جب رام چندر پر مذہبی و روحانی افکار و مراسم پر عامل ہونے پر سخت تنقید کی تو رام چندر نے ان سے اتفاق نہیں کیا ہے اور اپنے موقف کو پیش کرتے ہوئے جابالی رشی سے اختلاف تو کیا لیکن ان کو نہ تو تشدد کا نشانہ بنایا اور نہ ہی اپنے نظریہ و عمل کو اپنانے کے لیے کوئی زو زبردستی کی، یہ بہت ہی تشویش اور افسوسناک امر ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے جے شری رام کے نعرے کے ساتھ زور زبردستی اور قتل و تشدد کو انجام دیا جارہا ہے، اور اسے ہندوتو، بھارتیہ سنسکرتی اور ہندستانی راشٹرواد سے جوڑ کر دیکھا اور فخر محسوس کیا جارہا ہے، اور اقتداری طبقے اور پارٹی کی طرف سے عملی و اخلاقی حمایت کر کے صحیح ٹھہرانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں اس تشویشناک فرقہ وارانہ صورت حال کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہیں، وہ بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرنے کے باوجود مندر، مورتی کی سیاست کرکے، ہندوتو کا مقابلہ ہندوتو سے کرنے کی نادانی کررہی ہیں، چاہے کوئی سیاسی پارٹی ہو یا سرکار، ملک کے سیکولر آئین کے مدنظر اس کے لیے کسی ایک کمیونٹی کے مذہبی علائم و مظاہر سے خود کو جوڑنے کا آئینی طور سے کوئی جواز نہیں ہے۔ معروف مصنفہ اروندھتی رائے کا یہ تبصرہ و تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے.‘‘ اقلیتوں پر زیادتی سرکار کی پبلک پالیسی بن گئی ہے، ہم اس وقت ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جب نفرت انگیز نظریے کا غلبہ ہے، ہجوم کے ذریعے قانون کو ہاتھ میں لینے کو جائز قرار دیا جارہا ہے، میڈیا کے ذریعے حکومت اپنی پالیسی عوام پر مسلط کررہی ہے۔ ہندستان کی اکثریت پسندی میں یہاں جات پات کا نظام شامل ہے اور اس میں بھی اعلی برادریوں کے ایک اقلیتی طبقے نے ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے.“

یہ صورت حال بہت سنگین ہے، بھارتیہ سنسکرتی کے نام پر ایک چھوٹی اقلیت کے نظریے و روایات کو تمام باشندوں پر لادنے کی کوشش کھلی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے، بھارت کے نظام حکومت کی بنیاد ایسے سیکولر ازم پر ہے، جس میں حکومت کے لیے تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا اور انصاف پر مبنی غیر جانب داری کا رویہ اپنانے کی بات کہی گئی ہے، اس میں ساورکر اور گرو گولولکر کے اس تصور قومیت و وطنیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، جس سے بہت سے ہندستانی شہری باہر رہ جاتے ہیں حالاں کہ ملک کے دیگر باشندے خصوصاً مسلم اقلیت میں اپنے وطن ہندستان کے لیے حب الوطنی شدید جذبہ ہمیشہ سے پایا جاتا ہے ۔ امیر خسروؒ، علامہ غلام علی آزاد بلگرامیؒ اور ماضی قریب کے متحدہ قومیت کے حامی حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا محمد میاںؒ وغیرہم نے ہندستان کے فضائل پر موقرتحریروں میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے انھوں نے دکھایا ہے کہ مسلم اقلیت کا وطن سے تعلق و جذبہ دیگر تمام اقوام و قبائل سے مستحکم و مکمل ہے۔ مسلم سماج کی طرح حب الوطنی کا واضح اظہار کسی بھی دیگر سماج میں نہیں پایا جاتا ہے، اس میں حب الوطنی، دیس پریم، ایک فطری جذبے کے طور پررائج وجاری ہے، اسلام نے کسی بھی صحیح فطری جذبے کو مسترد نہیں کیا ہے، مسلم سماج اور اسلامی شریعت میں بندگی و پرستش کا رشتہ صرف خالق پروردگار تک محدود ہے، لیکن محبت کا دائرہ انتہائی وسیع ہے، وطن سے محبت بھی فطری جذبہ سے تعلق رکھتی ہے، معروف قول حب الوطن من الایمان میں بھی اس فطری جذبے کا اظہار کیا گیا ہے، آج کے تناظر میں بھی اس حب الوطنی کی خاصی اہمیت ہے، معروف ناقدر جال و روایات علامہ سخاویؒ  نے مذکورہ قول کے معنی کو صحیح قرار دیا ہے، اس کا انکار کوئی صحیح الفطرت آدمی نہیں کرسکتا ہے ۔ اس سلسلے میں دونوں طرف کے فرقہ وارانہ ذہن عناصر کی انتہاپسندی ،ملک و قوم کے مفاد کے خلاف اور بھارت کی روایت آزادی کے برعکس ہے، جہاں جب الوطنی کو نظر انداز کرکے اسے ناقابل توجہ قرار دینے کی کوشش غلط ہے، وہیں تصور قومیت ووطنیت کو پرستش کے ہم معنی قرار دے کر دیگر باشندوں پر لادنے یا اس کے پیش نظر نسلی و لسانی بنیاد پر ہندستانی باشندوں کے اہم ترین حصے کو باہر کرنے کا عمل سراسر نفرت انگیز، تنگ نظری اور سماج کی فرقہ وارانہ مذموم تقسیم، متحدہ ہندستان کے مقاصد سے کلی طور پر متصادم ہے، مسلم سماج کے لیے نہ تو حب الوطنی کوئی اجنبی جذبہ ہے نہ ہی اپنے ملک کو مادر وطن سمجھنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے دارالعلوم دیوبند نے حب الوطنی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے.‘‘ وطن سے محبت ایک فطری امر ہے، بہت سی احادیث سے وطن کی محبت پر رہ نمائی ملتی ہے، ہجرت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فریا تھا ، تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا اس کے پیش بخاری کے معروف شارح حافظ ابن حجر عسقلانی نے متعلقہ حدیث کے شرح کرتے ہوئے لکھا ہے.“

یہ حدیث وطن سے محبت کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے، (و فی الحدیث دلالة علی مشروعیة حب الوطن) رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کے لیے پوری زمین کو پاک اور سجدہ گاہ (مسجد) قراردیا ہے تو اس میں آدمی کا وطن بدرجہ اول شامل ہے، اسی طرح امام طبرانیؒ  نے المعجم الکبیر (حدیث 4569) میں ایک روایت نقل کی ہے، جس میں زمین کو ماں قرار دیا گیا ہے، و تحفظو امن الارض فانھا امکم یعنی زمین پر گناہ کرنے سے بچو کہ وہ ماں ہے، جب پوری زمین ماں ہے تو اپنا وطن اول درجے میں اس میں شامل ہوگا، گرچہ یہ روایت ضعیف ہے، لیکن فضائل کے سلسلے میں ضعیف روایات قابل قبول ہوتی ہیں، اور ذاتی قیاس اور رائے پر تو ترجیح رکھتی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر طرح کی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی سے احتراز کرتے ہوئے بھارت کے تمام باشندوں کو قومی یکجہتی سے جوڑا جائے اور حب الوطنی کے مثبت تصور متحدہ قومیت کو سامنے لاکر ملک کے، استحکام و ترقی کے لیے سب مل جل کر کام کریں، راشٹرواد کا اس کے سوا کوئی اور تعبیر و تشریح بھارت کے عمومی روایت کے منافی ہے. 

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_23.html


No comments:

Post a Comment