Thursday 4 June 2020

آن لائن دعا ومراقبے؟

آن لائن دعا ومراقبے؟
-------------------------------
دعاء عبادتوں کا مغز ہے، اس میں شریک ہوکر آمین کہنا بھی عبادت اور باعث اجر و ثواب عمل ہے، دوران نماز امام کے سورہ فاتحہ کے اختتام پہ مقتدیوں کو آمین کہنے کا حکم ہے اور اس پہ مغفرت کی بشارت آئی ہے، فضل خدا سے بعید نہیں کہ خارج نماز دعاء پہ آمین کہنے سے بھی یہ فضیلت مل جائے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: (إِذَا أَمَّنَ الإِمَامُ، فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ المَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔ روى البخاري (780)، ومسلم (410)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح حدیث مروی ہے کہ یہود جیسی حاسد قوم مسلمانوں کے سلام اور آمین کہنے کے عمل پہ جتنا جلتی اور کُڑھتی ہے اتنا کسی اور چیز سے نہیں:
عَنْ عَائِشَةَ عن النَّبِيّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: (إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ حُسَّدٌ ، وَهُمْ لَا يَحْسُدُونَا عَلَى شَيْءٍ كَمَا يَحْسُدُونَا عَلَى السَّلَامِ ، وَعَلَى آمِينَ ... الصحيح لابن خزيمة" (691) 
آمین کہنے کا مطلب داعی کی دعاء کی تائید کرنا اور باری تعالی سے قبولیت کی درخواست کرنا یعنی 'اِسْتَجِبْ دعاءنا' کہنا ہے۔ کسی کی دعاء میں شرکت کے لئے ضروری ہے کہ دعا کرنے والا مجلس میں موجود وحاضر ہو، جب تو آمین کہکر اس کی دعاء میں شرکت ممکن ہوسکے گی؟ جسمانی طور پر حاضری ضروری ہے خواہ بالمشافہ ہو یا آج کے ترقی یافتہ دور میں لائیو پروگرام یا آن لائن دعا ہورہی ہو تو اس دعاء میں شریک ہوکر دعا پر آمین کہنا بھی جائز ہے آن لائن یا براہ راست پروگرام تامین دعاء کے باب میں اتحاد مجلس ہی کی ایک شکل ہے۔ (آن لائن نکاح کے ایجاب وقبول یا صحت اقتداء کے باب میں  میرے نزدیک یہ حکم نہیں ہے) ریکارڈ کردہ کیسیٹ یا پروگرام کی دعاؤں میں کوئی حقیقی داعی ہی نہیں ہوتا؛ تو پھر ایسی دعا میں شرکت کرنے اور آمین کہنے کی گنجائش بھی کیسے ہوگی؟
دعاء رب کے حضور راز ونیاز اور مناجات کا نام ہے اس میں حد درجہ اخفاء مطلوب ومحبوب ہے، دعاؤں میں 'سِر' ہی افضل وبہتر اور سنت ہے، کوئی خاص ضرورت وموقع محل تو مستثنی ہوسکتا ہے؛ لیکن مطلقاً عمومی طور پر اجتماعاً جہر، شور وغوغا، التزام، اصرار اور تداعی کے ساتھ دعاء کرنا ثابت نہیں ہے:
قال اللّٰہ تعالیٰ: {اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً} [الاعراف: ۵۵] یایہا الناس اربعوا علی أنفسکم إنکم لیس تدعون أصم ولا غائباً إنکم تدعونہ سمعاً قریباً وھو معکم۔ (صحیح مسلم 346/2) والسنة أن یخفی صوته بالدعاء، کذا في الجوهرۃ النیرۃ۔ (الفتاویٰ الہندیة:239/1، 138/3. زکریا)
اگر ریاء و نمود کا خوف نہ ہو، التزام واصرار و تداعی نہ ہو اور آواز شرکاء حلقہ تک ہی محدود (جہر مشوِّش و مفرط نہ ہو) تو متبع شریعت وسنت مجاز شیخ کامل یا عالم کی آن لائن دعاء میں شرکت کرنے کی شرعاً گنجائش ہے: 
يقولُ اللهُ عزَّ وجلَّ: أنا عند ظنِّ عبدي. وأنا معه حين يذكرُني. فإن ذكرني في نفسِه، ذكرتُه في نفسي. وإن ذكرني في ملإٍ، ذكرتُه في ملإٍ خيرٍ منه. وإن اقترب إليَّ شِبرًا ، تقرَّبتُ إليه ذراعًا. وإن اقترب إليَّ ذراعًا، اقتربت إليه باعًا. وإن أتاني يمشي ، أتيتُه هرْولةً.(أبو هريرة / صحيح مسلم: 2675) وأخرجه البخاري (7405)، ومسلم (2675) واللفظ له.
خاتمۃ المحققین علامہ شامی لکھتے ہیں: (ردالمحتار) (1/ 660)
"وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفاً وخلفاً على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها، إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ" ۔۔ إلخ 
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے حوالے سے بھی  اس کی مشروط اجازت نقل کی جاتی ہے:
الاجتماع على القراءة والذكر والدعاء حسن مستحب إذا لم يتخذ ذلك عادة راتبة كالاجتماعات المشروعة ولا اقترن به بدعة منكرة  وقال: أما إذا كان دائماً بعد كل صلاة فهو بدعة، لأنه لم ينقل ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم والصحابة والسلف الصالح. (الذكر الجماعي بين الاتباع والابتداع لمحمد بن عبد الرحمن الخميس - ص 43)
لہذا اجتماعی ذکر جہری اگر متبع سنت شیخ کامل کی نگرانی میں بغرض تعلیم سالکین، التزام واعتیاد واصرار کے بغیر کبھی کبھار ہوجائے، بشرطیکہ جہر معتدل غیرمشوش ہو تو اس کی اجازت ہے۔ جہاں تک آن لائن مراقبے کی بات ہے تو مراقبہ دراصل اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات وصفات کی طرف تدبر تام سے متوجہ ہوجانے اور اس کا تصور دل میں پابندی کے ساتھ جمانے کو کہتے ہیں، یعنی "أَلَمْ يَعْلَم بِأَنَّ اللَّهَ يَرَىٰ" کا خیال جماتے ہوئے خدا کے سامنے پیش ہوکر پوری زندگی کے اعمال کا حساب دینے کا استحضار کرنے کو مراقبہ کہتے ہیں۔ اپنے شیخ ومربی ومرشد سے اصلاح حال کے لئے مراقبے کے دیگر طرق بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ خیالات کو مجتمع کرنے کے لئے ابتداءاً مشائخ نے تصور شیخ والے مراقبے کی بھی گنجائش دی تھی؛ لیکن اس میں غلوآمیز جاہلانہ حرکتوں کی وجہ  سے بعد کے اکابر علماء نے اس پر بندش لگادی ہے. (فتاویٰ رشیدیہ ۲۱۸) 
آن لائن اجتماعی دعاء ہو یا شیخ کی نگرانی میں مراقبہ! اگر تداعی، ریاء کاری، تشہیر، اصرار والتزام اور شور وغوغا و طوفان 'ہاؤ ہو' کے ساتھ ہو تو اس کی گنجائش نہیں ہے، ان مفاسد ومنکرات سے امن وحفاظت کے ساتھ کبھی کبھار ہوجائے تو فی نفسہ مضائقہ نہیں. خوب اچھی طرح ذہن میں رکھنے کی چیز ہے کہ اجتماعی دعا کی مشروط اجازت بھی شیخ کامل کی نگرانی وموجودگی کے ساتھ ہی مقید ہے، ہمہ شما اور ہر نوع کے معمولی سالک کے لئے اس کی اجازت قطعی نہیں ہے۔
یہ تو فقہی لحاظ سے مسئلے کا حکم ہوا؛ مسئلے کے اعتبار سے گنجائش اپنی جگہ! لیکن ہر گنجائش والا کام کر گزرنا بھی کوئی ضروری نہیں ہوتا، شریعت اسلامیہ میں بیشمار ایسی مباح چیزیں موجود  ہیں جو کسی ناجائز، منکر ومفسدہ کا ذریعہ وسبب بننے کی وجہ سے ممنوع وناجائز قرار دے دی گئی ہیں، حضرت آدم وحوا علیہما السلام کے لئے شجر ممنوعہ کا پھل کھانا ہی تو منع تھا! لیکن روک ٹوک اور احتیاط کے طور پر اس کے قریب تک جانے سے منع کردیا گیا: وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (البقرہ: 35)۔
یہیں سے "سد ذرائع" جیسا اصول فقہ کا "ضمنی ماخذ" مستنبط ہوا، جو تقریبا  تمام ہی فقہاء کے یہاں "منجملہ" معتبر ہے۔ 'سد' کے معنی بندش اور روک ٹوک اور ذریعہ کے معنی کسی چیز تک پہنچانے والے سبب کے ہیں، شریعت میں "سد ذرائع" ان مباح راستوں اور ذرائع کو کہتے ہیں جو حرام یا مکروہ ومنکر فعل کا سبب اور موجب بنے، علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 
"قد يكون أصل العمل مشروعًا، لكنه يصير جاريًا مجرى البدعة من باب الذرائع" [الاعتصام للشاطبی ص 253]
'أنوار البروق' (3/ 45) میں ہے: 
"والمراد بها اصطلاحًا: "حَسْمُ مَادَّةِ وَسَائِلِ الْفَسَادِ دَفْعًا لَهَا، فَمَتَى كَانَ الْفِعْلُ السَّالِمُ عَنْ الْمَفْسَدَةِ وَسِيلَةً لِلْمَفْسَدَةِ منعنا من ذلك الفعل"
علامہ باجی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: [هي المسألة التي ظاهرها الإباحةُ ويتوصل بها إلى فعل المحظور] اهـ.إحكام الفصول" للباجي  (2/ 695-696، ط. دارالغرب)
امام ابن العربي "أحكام القرآن" (2/ 265، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: [وهو كل عقد جائز في الظاهر يؤول أو يمكن أن يتوصل به إلى محظور] اهـ.
یعنی مستقبل میں پیش آنے والے متوقع مفاسد ومنکرات پہ پیشگی روک ٹوک لگانا اصول شرع ہے، فقہاء نے بہت سارے مواقع میں بعض مباحات کو سدًّا للذرائع وحسما ً لمادۃ الفاسد تاکید کے ساتھ  روکا ہے. (امدادالفتاوی 72/4) 
علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے الاعتصام میں اس کے متعدد نظائر شمار کروائے ہیں، منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ جس درخت کے نیچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام حدیبیہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت رضوان لی تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں بدعقیدگی کے مظنہ اور باب فتنہ بند کرنے کے لئے اسے کٹوا دیا تھا، سوچئے درخت کی کیا غلطی تھی؟ لیکن وہ مفضی الی المفاسد ہوسکتا تھا؛ اس لئے اسے کاٹ  دیا گیا:
ومنه أن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - أمر بقطع الشجرة التي بويع تحتها النبي - صلى الله عليه وسلم - لأن الناس كانوا يذهبون إليها، فيصلون تحتها، فخاف عليهم الفتنة. [الاعتصام للشاطبی ص 253]
اسی طرح عین طلوع وغروب شمس کے وقت نماز سے روکنا اصل مقصود تھا لیکن سد ذریعہ کے طور پر عصر وفجر کے بعد ہی نماز سے روک دیا گیا تاکہ عین طلوع وغروب کے وقت نماز واقع نہ ہوجائے۔
بربنائے احتیاط پیشگی بندش وممانعت کے نظائر کے ذیل میں علامہ عینی  شارح بخاری نے اس حدیث کو بھی پیش کیا ہے: 
عن عقبة بن الحارث رضي الله عنه قال: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: أَرْضَعْتُكُمَا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ فُلَانَةَ بِنْتَ فُلَانٍ، فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ لِي: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا، وَهِيَ كَاذِبَةٌ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، فَأَتَيْتُهُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ، قُلْتُ: إِنَّهَا كَاذِبَةٌ، قَالَ: «كَيْفَ بِهَا وَقَدْ زَعَمَتْ أَنَّهَا قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا، دَعْهَا عَنْكَ» أخرجه البخاري. (عمدة القاري" (11/ 167، ط. دار إحياء التراث العربي)
علامہ عيني "عمدة القاري" (11/ 167، ط. دار إحياء التراث العربي) میں صاحب التلویح کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
 [قال صاحب "التلويح": ذهب جمهور العلماء إلى أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أفتاه بالتحرز من الشبهة، وأمره بمجانبة الريبة خوفًا من الإقدام على فرج يخاف أن يكون الإقدام عليه ذريعة إلى الحرام؛ لأنه قد قام دليل التحريم بقول المرأة، لكن لم يكن قاطعًا ولا قويًّا... لكنه أشار عليه بالأحوط، يدل عليه أنه لما أخبره أعرض عنه، فلو كان حرامًا لما أعرض عنه بل كان يجيبه بالتحريم، لكنه لما كرّر عليه مرة بعد أخرى أجابه بالورع] اهـ.
ان تمام بحثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے حلال وجائز ہے، مگر اس کو کسی ناجائز عمل کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، تو وہ بھی ممنوع وناجائز ہوجاتی ہے‘‘ ۔ آن لائن دعا ومراقبے کی یہ  نئی ایجاد بھلے ہی بعض شرطوں کے ساتھ گنجائش رکھتی ہو؛ لیکن آگے چل کر مفضی الی المفاسد والمنکرات ہونے میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے، آج آن لائن دعا کی راہ کھولیں گے کل آن لائن نماز بھی شروع ہوجائے گی العیاذ باللہ۔ اس لئے مذکورہ اصول کی روشنی میں "سدًّا للذرائع وحسما ً لمادۃ الفاسد" کے تحت اس طرح آن لائن دعا ومراقبے کی گنجائش نہیں ہے۔ دعاء رب کے حضور راز ونیاز اور مناجات کا نام ہے اس میں حد درجہ اخفا مطلوب ومحبوب ہے، تشہیر وتحریک سے دعاء کی جان ہی نکل جائے گی تو ایسی دعاء سے کیا ملے گا؟
لہذا عاجز کا خیال ناقص یہ ہے کہ یہ کوئی اچھی پیش رفت نہیں ہے، آگے چل کر اس کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں اس لئے اس نئی ایجاد کی تحسین وتائید کی بجائے  اس پہ شروع ہی میں بندش لگانے کی سخت ضرورت ہے. 
فقط واللہ اعلم بالصواب 
۱۳ شوال1441 ہجری

No comments:

Post a Comment