Wednesday 24 June 2020

سالی سے نکاح یا زنا منکوحہ کی صحت نکاح میں مؤثر نہیں ۔۔۔ مزنیہ پہ وجوب استبراء کا مسئلہ؟

سالی سے نکاح یا زنا منکوحہ کی صحت نکاح میں مؤثر نہیں ۔۔۔ مزنیہ پہ وجوب استبراء کا مسئلہ؟
-------------------------------
--------------------------------
کیا فرماتے ہیں علما۶ کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص اپنی بیوی کے سگی بہن کو لیکر فرار ہوگیا اور نکاح کرلیا یا بغیر نکاح کیے رکھے ہوا ہے. کیا جمع بین الاختین حرام ہے معلوم کرنا ہے کون حلال ہے اورکون حرام ہے یا دونوں حرام ہے. مہربانی فرماکر تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں. 
الجواب وباللہ التوفق:
بیوی کے نکاح میں رہتے ہوئے اس کی بہن سے نکاح کرنا حلال نہیں ہے، بیوی کی وفات یا طلاق کے بعد بعدعدت شوہر سالی سے نکاح کرسکتا ہے۔ بیوی کی موجودگی میں سالی محرمات موقتہ میں سے ہے. اس سے نکاح کرلے تو وہ نکاح فاسد ہے، پہلا نکاح صحیح ودرست ہے. زنا کاری یا جنسی تعلقات اجنبیہ کی طرح سالی سے بھی گناہ کبیرہ اور موجب توبہ واستغفار ہے. اگر اس طرح کا ناجائز جنسی تعلق سالی سے قائم ہوگیا ہو تو فوری علیحدگی ضروری اور صدق دل سے توبہ واستغفار لازم ہے 
یہ گناہ کبیرہ ہے، اسلامی ملک ہو اور شرعی گواہوں سے یہ جرم ثابت ہوجائے تو حد زنا بھی اس پہ لگے گی لیکن اس ناجائز تعلق کی وجہ سے بیوی کا نکاح نہیں ٹوٹتا ہے: 
لايحرم الحرام الحلال (سنن ابن ماجه كتاب النكاح، باب لا يحرم الحرام الحلال (2015)
یعنی حرام کام کسی حلال کو حرام نہیں کرتا. ہاں اگر سالی سے بوجہ زنا ہمبستری کرچکا ہو تو اسے ایک ماہ واری آنے تک زانی کو اپنی بیوی سے صحبت کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے یا اگر وہ حاملہ من الزنا ہوگئی ہو تو وضع حمل تک شوہر کو بیوی سے صحبت کرنے کی  شرعاً گنجائش نہیں ہے. موطوءہ من الزنا پہ ایک حیض کے ذریعہ استبراء رحم کے حکم کے بارے میں مشائخ حنفیہ کے اقوال مختلف ہیں 
بعض مشائخ اسے مستحب، بعض استبراء کے منکر جبکہ دیگر بعض ایک حیض کے ذریعہ استبراء کو واجب قرار دیتے ہیں. باب فروج میں حرمت کی اصلیت کے پیش نظر بر بنائے احتیاط ایک حیض سے استبراء رحم کے وجوب کے قول کو اختیار کرنا بہتر معلوم ہوتا ہے، یعنی جب تک مزنیہ ایک حیض سے پاک نہ ہوجائے زانی کو اپنی منکوحہ بیوی کی صحبت سے رکے رہنا واجب وضروری ہے، ہمارے فقہاء و مشائخ نے عموماً فتوی کے لئے اسی قول کو اختیار کیا ہے:
وفي الدرایة: عن الکامل ولوزنیٰ باحدیٰ الأختین لایقرب الأخریٰ حتی تحیض الأخریٰ حیضةً (شامي، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، 34/3. کراچی)
لو زنی بأحد الاختین لایقرب الأخری حتی تحیض الأخری حیضة (مجمع الأنہر ٤٧٩/١ ط دار الکتب العلمیہ بیروت) 
إذا وطأ ذات محرم من إمرأته  ممن لایحرم علیه بزنا فإنه لایطأ إمرأته  حتی یستبرئ الموطوءۃ بحیضة (کذا فی النتف فی الفتاوی کتاب النکاح ١٨٩)
قال قتادۃ: لایحرمها ذٰلك علیه  غیر أنه لایغشی امرأته حتی تنقضي عدۃ التي زنی بها۔ (المصنف لابن أبي شیيبة :16348)
وفي الخلاصة: وطئ أخت امرأته  لاتحرم علیه امرأته، وتحته  في الشامي: قوله: ولا تحرم أي لا تثبت حرمة المصاهرۃ، فالمعنی: لاتحرم حرمة مؤبدۃ، وإلا فتحرم إلی انقضاء عدۃ الموطوءۃ لو بشبهة، قال في البحر: لو وطئ أخت امرأته بشبهة تحرم امرأته مالم تنقض عدۃ ذات الشبهة۔ (الدرالمختار مع الشامي / فصل في المحرمات 34/3 کراچی) 
شامی میں ہے:
في فتح القدیر حمل قول محمد "لا أحب" علی أنه  یجب لتعلیله باحتمال الشغل بماء المولی فإنه  یدل علی الوجوب وقال فإن المتقدمین کثیرا ما یطلقون "أکره ھذا" فی التحریم أو کراھة التحریم وأحب فی مقابله. (ردالمحتار ١٤٣/٤ النکاح)
فتاوی رحیمیہ جلد ۸ صفحہ ۱۹۲، یونیکوڈ، حاشیہ فتاوی عثمانی جلد ۲ صفحہ ٣٢٦، یونیکوڈ)
واللہ اعلم بالصواب







No comments:

Post a Comment