Thursday 4 June 2020

مسجد میں حاضر شخص اذان کا جواب کیسے اور کیا دے؟

مسجد میں حاضر شخص اذان کا جواب کیسے اور کیا دے؟
-------------------------------
--------------------------------
حضرت مفتی صاحب اگر کوئی شخص مسجد میں موجود ہے اور اس دوران اذان شروع ہوگئی اور مؤذن نے حی علی الصلوٰۃ کہا تو اب اس کا کیا جواب دے گا وہ مسجد میں موجود شخص؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اذان کا جوابِ قولی جمہور ائمہ کے یہاں مندوب ومستحب ہے. ہمارے بعض مشائخ کے ہاں عملی جواب دینا واجب ہے. قولی جواب مسنون ہے. اجابت اذان کی کیفیت کے بارے میں ائمہ مجتہدین کے ہاں اقوال مختلف ہیں. شوافع وموالک کے یہاں جیسا مؤذن کہے ویسا ہی سامع بھی کہے: 
لقول النبي ﷺ: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثلما يقول [أخرجه البخاري في كتاب الأذان، باب ما يقول إذا سمع المنادي برقم 611، ومسلم في كتاب الصلاة، باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه برقم 384 واللفظ له]
احناف وحنابلہ کے یہاں اذان کا زبان سے جواب دینا مستحب ہے، اور اجابت قولی کا یہ استحبابی حکم سب کے لئے عام ہے، خواہ پاک ہو ناپاک، بالغ یا نابالغ، مسجد سے باہر ہو یا مسجد میں موجود! جو کوئی بھی اذان سنے اس کے لئے جواب دینا مستحب ہے؛ کیونکہ جوابِ اذان ذکر محض ہے۔ ہاں اگر مسجد سے باہر ہو تو اذان سن کر مسجد آنے کی تیاری کرنا واجب ہے. اور اگر مسجد میں پہلے سے حاضر باش ہے تو اس کے لئے اجابت قولی متعین ہے، وہ صرف زبان سے ہی جواب دے گا۔ ہمارے یہاں اذان سننے والا مؤذن ہی کی طرح کلمات کہے گا؛ صرف حَیعَلَتَین (یعنی حیّ علی الصلاۃ اور حیّ علی الفلاح) کے جواب میں حَوقَلَتَین (یعنی لاحولَ و لا قوّۃَ اِلّا باللہ) کہے گا۔
مسلم شریف کی صحیح حدیث (رواه مسلم (385) میں اس طریقہ اجابت کی ہدایت دی گئی ہے: 
عن عُمرَ بنِ الخطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْه قال: قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: (إذا قال المؤذِّن: الله أكبر الله أكبر، فقال أحدُكم: الله أكبر الله أكبر، ثم قال: أشهد أنْ لا إلهَ إلَّا الله، قال: أشهد أن لا إلهَ إلَّا الله، ثم قال: أشهد أنَّ محمدًا رسولُ الله، قال: أشهد أنَّ محمدًا رسولُ الله، ثم قال: حيَّ على الصَّلاة، قال: لا حولَ ولا قُوَّةَ إلَّا بالله، ثم قال: حيَّ على الفلاح، قال: لا حولَ ولا قوَّةَ إلَّا بالله، ثم قال: الله أكبر الله أكبر، قال: الله أكبر الله أكبر، ثم قال: لا إله إلَّا الله، قال: لا إله إلَّا الله، مِن قلبِه، دخل الجَنَّةَ)
بنایہ میں قاضی خان کے حوالے سے مذکور ہے: 
یستحب لمن سمع الأذان أن یقول کما یقول المؤذن، وفیه، وفي الذخیرۃ: إلا عند قوله حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح، فإنه یقوله  عند هاتین الکلمتین لا حول ولا قوۃ إلا باﷲ العلي العظیم … والمتابعة لکل سامع من محدث وجنب وحائض وکبیر، وکذا الصغیر علی وجه  الاستحباب؛ لأنه  ذکر۔ (البنایة، کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۲/ ۹۹)
درمختار مع الشامی میں ہے: ولو بمسجد لا؛ لأنه أجاب بالحضورالخ (الدرالمختار للحصكفي وحاشية ابن عابدين) (1/397)، وينظر: (بدائع الصنائع) للكاساني (1/155)
واللہ اعلم 

No comments:

Post a Comment