Sunday 13 October 2019

ایک عورت کو حج سے فارغ ہوکر ماہواری آگئی تو کیا کرے؟

ایک عورت کو حج سے فارغ ہوکر ماہواری آگئی تو کیا کرے؟
سوال: ایک عورت حج سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ آگئی وہاں آٹھ روز قیام کے بعد دوبارہ تین دن کیلئے مکہ مکرمہ آنا ہے وہاں سے اپنے وطن واپسی ہے، مسئلہ درپیش یہ ہے کہ وہ عورت ماہواری سے ہے اور تین دن میں پاک ہوگی نہیں، اب اسے قافلہ کے ساتھ جانا بھی ہے اگر وہ احرام کی نیت کرے بھی تو عمرہ تو کر نہیں پائے گی، اب یہ اس مشکل گھڑی میں کیا کرے، شریعت میں اس کا کیا حل ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
1: پہلا حل یہ ہے کہ 
وہ مکہ مکرمہ نہ جائے، بلکہ مدینہ منورہ ہی میں شوہر کے ساتھ رہے اور وہاں سے سیدھے ایرپورٹ چلے جائے، 
مکہ جانے کی صورت میں تو عمرہ لازم ہوجائے گا۔
2: دوسرا حل یہ ہے کہ 
ذوالحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھے 
چونکہ احرام کیلئے پاکی شرط نہیں ہے، 
مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ کا طواف ناپاکی ہی کی حالت میں استغفار کرتے ہوئے کرلے، چونکہ طواف کیلئے پاکی شرط ہے اس لئے دم واجب ہوجائے گا، لہذا عمرہ سے فراغت کے بعد حدود حرم میں ایک بکری یا بکرا بطور دم ذبح کرے، 
طواف کے بعد سعی و حلق سے فارغ ہوجائے، اور سعی وحلق کیلئے پاکی شرط نہیں ہے، 
اس طرح عمرہ ہوجائےگا، ادائے ناقص کے ساتھ، اور اس پر قضا بھی نہیں آئے گی، 
یاد رہے کہ یہ صورت اس وقت ہے جب پاکی تک وہاں قیام کی کوئی ممکنہ صورت نا ہو، 
مستفاد از 👇
نیچے دارالافتاء بنوریہ و دیوبند اور فتاوی قاسمیہ کے فتاوی ملاحظہ فرمائیں 
----------------
سوال # 58875
محترم مفتی صاحب: 
اگر عورت مکہ پہنچ جائے اور اس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اس کو حیض آجائے اگلے دن اس نے وطن واپس جانا ہے تو وہ احرام سے کیسے نکلے گی؟ 
ٹکٹ آگے کروانا بھی ممکن نہ ہواس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب:
بسم الله الرحمن الرحيم
اگر مذکور فی السوال عورت کے لیے مکہ مکرمہ میں اتنی مدت قیام کرنے کی کسی بھی صورت میں گنجائش نہیں جس میں وہ پاک ہو کر افعالِ عمرہ ادا کرکے حلال ہوسکے؛ تو اسے چاہیے کہ ترک عمرہ کے ارادے سے پوروے کے بہ قدر اپنے سر کے بال کٹوادے، اس سے وہ احرام سے نکل جائے گی؛ لیکن اس کے اوپر ترکِ عمرہ کی وجہ سے ایک دم اور آئندہ ایک عمرے کی قضاء ضروری ہے۔ 
- مستفاد از: وقد استدل بذلک الکوفیون علی أن للمرأة إذا أہلّت بالعمرة متمتعة فحاضت قبل أن تطوف أن تترک للمرة وتہل بالحج مفردةً کما صنعت عائشة - رضي اللہ عنہا- وإنما یلزمہا دم لرفض العمرة إلخ، انظر: أنوار المناسک وحاشیتہ (ص: ۳۳۲، ۳۳۳، ط: مکتبہ یوسفیہ دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
---------------------------------------
حالتِ حیض میں عورت ارکان عمرہ ادا کرکے حلال ہوگی تو دم لازم ہوگا
سوال (۵۱۰۶): کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: 
ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ حج کرنے کے لئے گئی، میقات سے احرام باندھ کر مکہ پہنچ گئی اور اسے حیض آگیا، مسئلہ معلوم نہیں تھا، اس نے سب لوگوں کے ساتھ اسی حالت میں طواف وسعی کرلی اور بال بھی کٹواکر حلال ہوگئی، بعد میں اسے پتہ چلا کہ ماہواری کی حالت میں ارکان عمرہ ادا کرنا جائز نہیں، 
اب اس کی تلافی کی کیا شکل ہے؟ 
کیا بعد میں مقیات جاکر دوبارہ عمرہ کرنے سے دم ساقط ہوجائے گا یا دم ہی دینا لازم ہے، شریعت کا اس سلسلہ میں کیا حکم ہے؟
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللہ التوفیق: 
جو عورت بحالتِ حیض عمرہ کرکے حلال ہوگئی ہو تو اس پر ایک بکرا یا بکری بطورِ دم کے واجب ہوگئی اب اعادۂ عمرہ سے بھی تلافی نہیں ہوگی؛ 
کیوں کہ اس کا عمرہ نقصانِ  یسیر کے ساتھ درست ہوگیا۔
فإن رجع إلی أہلہ قبل أن یعید فعلیہ دم لترک الطہارۃ فیہ، ولا یؤمر بالعود لوقوع التحلل بأداء الرکن۔ (ہندیۃ، الفصل الخامس في الطواف والسعي، والرمل، ورمي الجمار، زکریا قدیم ۱/ ۲۴۷، جدید ۱/ ۳۱۱، ہدایۃ أشرفیہ دیوبند ۱/ ۲۷۵)
وإن رجع إلی أہلہ ولم یعد یصیر حلالا، وعلیہ الدم لإدخال النقصان في طواف العمرۃ۔ (المحیط البرہاني، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ۳/ ۶۵، جدید المجلس العلمي ۳/ ۴۵۴، رقم: ۳۳۷۳)
أو طاف لعمرتہ وسعی محدثا ولم یعد، أي تجب شاۃ لترکہ الواجب، وہو الطہارۃ، ولا یؤمر بالعود إذا رجع إلی أہلہ لوقوع التحلل بأداء الرکن مع الحلق، والنقصان یسیر۔ (البحرالرائق، زکریا ۳/ ۳۸، کوئٹہ ۳/ ۲۲)طاف لعمرتہ وسعی علی غیر وضوء وحل وہو بمکۃ أعاد الطواف والسعي، وإن رجع إلی أہلہ ولم یعد یصیر حلالا، وعلیہ دم۔ (التاتارخانیۃ، زکریا ۳/ ۶۱۱، رقم: ۵۱۷۴، المحیط البرہاني، المجلس العلمي ۳/ ۴۵۳، رقم: ۳۳۷۳) 
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیراحمد قاسمی عفاﷲ عنہ 
فتاوی قاسمیہ ج 12 ص 417
--------------------------------------------
حالت حیض میں حج و عمرہ کا طریقہ
سوال: لڑکی کو حیض آجائے اور اسے حج یا عمرہ کے لیے نکلنا ہو تو کیا حکم ہے؟ 
کیا اس حالت میں اس لڑکی کا حرم شریف جانا جائز ہے؟ 
اگر جائز نہیں تو پھر وہ حج یا عمرہ کی ادائیگی کیسے کرے گی؟
جواب: جس عورت / لڑکی کو حج یا عمرہ کے لیے نکلنا ہو اور اسے حیض آجائے تو اگر اس نے ابھی تک احرام نہ باندھاہو  تو بھی کوئی حرج نہیں؛ 
کیوں کہ عورت حالتِ حیض میں بھی احرام باندھ سکتی ہے، 
حالتِ حیض میں احرام باندھنے کے بعد عورت کے لیے تمام افعال کرنا جائز ہیں، صرف طواف کرنا اور نماز پڑھنا منع ہے، اس لیے احرام کی نیت کرتے وقت جو دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے وہ نہ پڑھے، بلکہ غسل یا وضو کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر احرام کی نیت کر کے تلبیہ پڑھ لے، اب اگر اس عورت نے صرف حج کا احرام باندھا ہے تو چوں کہ حالتِ حیض میں مسجد میں داخل ہونا اور بیت اللہ کا طواف کرنا جائز نہیں؛ اس لیے مکہ مکرمہ پہنچ کر طوافِ قدوم نہ کرے، اگر منیٰ جانے سے پہلے پاک ہوجائے تو غسل کر کے طوافِ قدوم کر لے، اور اگر منیٰ جانے سے پہلے پاک نہیں ہوئی تو طوافِ قدوم چھوڑ دے اور منیٰ چلی جائے، طوافِ قدوم چھوڑنے کی وجہ سے کوئی کفارہ یا دم لازم نہیں ہوگا؛  
کیوں کہ طوافِ قدوم فرض یا واجب نہیں، بلکہ سنت ہے، البتہ دس ذی الحجہ سے بارہ ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے جو طواف کیا جاتا ہے جس کو "طوافِ زیارت" کہتے ہیں، یہ طواف فرض ہے، لہٰذا اگر عورت اس دوران حالتِ حیض میں ہو تو پاک ہونے تک طوافِ زیارت میں تاخیر کرے، پاک ہونے کے بعد غسل کرکے طواف کرے اور چوں کہ یہ تاخیر عذر کے سبب سے ہوئی اس لیے اس تاخیر کی وجہ سے کوئی کفارہ یا دم واجب نہیں ہوگا۔ 
لیکن اگر پاک ہونے تک وہاں رہنے کی اجازت نہیں ملتی ہے یا محرم واپس آرہا ہے تو اسی حالت میں طوافِ زیارت کرلے اور حدودِ حرم میں ایک بدنہ (اونٹ، گائے یا بھینس) ذبح کرے۔ 
مکہ مکرمہ سے رخصت ہونے کے وقت جو طواف کیا جاتا ہے وہ طوافِ وداع کہلاتا ہے، یہ طواف واجب ہے، لیکن اگر مکہ مکرمہ سے رخصت ہوتے وقت عورت حالت حیض میں ہو تو اس طواف کو چھوڑ دے، حیض کی وجہ سے طواف وداع چھوڑنے سے کوئی کفارہ، دم یا قضا لازم نہیں ہوگی۔
اگر عورت نے حالتِ حیض میں عمرہ کا احرام باندھا یا احرام باندھنے کے بعد حیض آگیا مثلاً: گھر سے مکہ مکرمہ کے لیے نکلتے وقت حیض تھا  اور اسی حالت میں احرام باندھنا پڑا یا احرام باندھنے کے بعد حیض آگیا تو مکہ مکرمہ جانے کے بعد پاک ہونے کا انتظار کرے اور پاک ہونے کے بعد غسل کرکے عمرہ کرلے، لیکن اگر واپسی سے پہلے پہلے حیض سے پاک ہوکر عمرہ کرنے کی کوئی صورت نہ ہو، یعنی ویزا بڑھانے کی یا محرم کے ساتھ رہنے کی کوئی صورت نہیں تو مجبوراً حالتِ حیض ہی میں عمرہ کرلے اور حرم کی حدود میں ایک دم (قربانی)  دے دے۔
إعلاء السنن (۱۰ ؍ ۳۱۷)
"عن عائشة عن النبي ﷺ قال: الحائض تقضي المناسک کلها إلا الطواف بالبیت. رواه أحمد و ابن أبي شیبة".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 290)
"ثم ذكر أحكامه بـ (قوله :يمنع صلاة)  مطلقاً، ولو سجدة شكر، (وصوماً) وجماعاً ... (و) يمنع حل (دخول مسجد و) حل (الطواف) ولو بعد دخولها المسجد وشروعها فيه".
الفتاوى الهندية (1/ 222)
"وإذا أراد الإحرام اغتسل أو توضأ، والغسل أفضل إلا أن هذا الغسل للتنظيف حتى تؤمر به الحائض، كذا في الهداية".
الفتاوى الهندية (1/ 38)
"(ومنها): أنه يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد سواء كان للجلوس أو للعبور ... (ومنها): حرمة الطواف لهما بالبيت وإن طافتا خارج المسجد . هكذا في الكفاية. وكذا يحرم الطواف للجنب. هكذا في التبيين".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 494)
"(وطاف بالبيت طواف القدوم ويسن) هذا الطواف (للآفاقي)؛ لأنه القادم".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 518)
"(و) طواف الزيارة (أول وقته بعد طلوع الفجر يوم النحر وهو فيه) أي الطواف في يوم النحر الأول (أفضل ويمتد) وقته إلى آخر العمر (وحل له النساء) بالحلق السابق، حتى لو طاف قبل الحلق لم يحل له شيء، فلو قلم ظفره مثلاً كان جناية؛ لأنه لا يخرج من الإحرام إلا بالحلق (فإن أخره عنها) أي أيام النحر ولياليها منها (كره) تحريماً (ووجب دم)؛ لترك الواجب، وهذا عند الإمكان، فلو طهرت الحائض إن قدر أربعة أشواط ولم تفعل لزم دم، وإلا لا.
 (قوله: وهذا) أي الكراهة ووجوب الدم بالتأخير ط (قوله: إن قدر أربعة أشواط) أي إن بقي إلى غروب الشمس من اليوم الثالث من أيام النحر مايسع طواف أربعة أشواط، والظاهر أنه يشترط مع ذلك زمن يسع خلع ثيابها واغتسالها ويراجع. اهـ. ح وعلى قياس بحثه ينبغي أن يشترط زمن قطع المسافة أن لو كانت في بيتها ط. قلت: وبالأخير صرح في شرح اللباب، وذلك كله مفهوم من قول البحر عن المحيط: إذا طهرت في آخر أيام النحر فإن أمكنها الطواف قبل الغروب ولم تفعل فعليها دم؛ للتأخير، وإن لم يمكن
ها طواف أربعة أشواط فلا شيء عليها اهـ فإن إمكان الطواف لا يكون إلا بعد الاغتسال وقطع المسافة. وفي البحر أيضاً: ولو حاضت بعدما قدرت على الطواف فلم تطف حتى مضى الوقت لزمها الدم؛ لأنها مقصرة بتفريطها اهـ أي بعدما قدرت على أربعة أشواط. زاد في اللباب: فقولهم: "لا شيء عليها لتأخير الطواف" مقيد بما إذا حاضت في وقت لم تقدر على أكثر الطواف أو حاضت قبل أيام النحر ولم تطهر إلا بعد مضيها، لكن إيجاب الدم فيما لو حاضت في وقته بعد ما قدرت عليه مشكل؛ لأنه لا يلزمها فعله في أول الوقت، نعم يظهر ذلك فيما لو علمت وقت حيضها فأخرته عنه، تأمل.
[تنبيه] نقل بعض المحشين عن منسك ابن أمير حاج: لو هم الركب على القفول ولم تطهر فاستفتت هل تطوف أم لا؟ قالوا: يقال لها: لا يحل لك دخول المسجد وإن دخلت وطفت أثمت، وصح طوافك وعليك ذبح بدنة. وهذه مسألة كثيرة الوقوع يتحير فيها النساء. اهـ. وتقدم حكم طواف المتحيرة في باب الحيض فراجعه".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 550)
"(أو طاف للقدوم)؛ لوجوبه بالشروع (أو للصدر جنباً) أو حائضاً (أو للفرض محدثاً ولو جنباً فبدنة إن) لم يعده، والأصح وجوبها في الجنابة، وندبها في الحدث، وأن المعتبر الأول، والثاني جابر له، فلا تجب إعادة السعي، جوهرة. وفي الفتح: لو طاف للعمرة جنباً أو محدثاً فعليه دم ، وكذا لو ترك من طوافها شوطاً؛ لأنه لا مدخل للصدقة في العمرة ... (قوله: بلا عذر) قيد للترك والركوب. قال في الفتح عن البدائع: وهذا حكم ترك الواجب في هذا الباب اهـ أي أنه إن تركه بلا عذر لزمه دم، وإن بعذر فلا شيء عليه مطلقاً. وقيل: فيما ورد به النص فقط، وهذا بخلاف ما لو ارتكب محظوراً  كاللبس والطيب، فإنه يلزمه موجبه ولو بعذر، كما قدمناه أول الباب".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 523)
"(ثم) إذا أراد السفر (طاف للصد) أي الوداع (سبعة أشواط بلا رمل وسعي، وهو واجب إلا على أهل مكة) ومن في حكمهم فلا يجب، بل يندب كمن مكث بعده.
(قوله: إلا على أهل مكة) أفاد وجوبه على كل حاج آفاقي مفرد أو متمتع أو قارن بشرط كونه مدركاً مكلفاً غير معذور، فلا يجب على المكي، ولاعلى المعتمر مطلقاً، وفائت الحج والمحصر والمجنون والصبي والحائض والنفساء، كما في اللباب وغيره". 
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 143909200565
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

No comments:

Post a Comment