Thursday 17 October 2019

کیا سلمان ندوی گستاخِ صحابہ ہیں؟

کیا سلمان ندوی گستاخِ صحابہ ہیں؟ پورا پڑھیں اس کے بعد جواب دیں
ایک سائل کے سوال پر جواب:
جناب والا جب آپ مولانا سید سلمان حسینی ندوی کے علم وفضل کو اور صلاحیت و صالحیت کو جانتے ہیں تو پھر یہ کہنا بے جا ہے کہ انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذات ستودہ صفات کے بارے میں تحقیق کی دعوت دیجئے
(١) جناب والا کوئی شخص دین کا عالم ہی نہیں ہوسکتا جب تک وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات سے واقف نہ ہو یا ان کی زندگی اور سیرت سے نابلد ہو،
کیونکہ دین کا ماخذ و مرجع انہیں کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے،
حقیقی اور سچا عالم وہ ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ساتھ رسول کے رفقاء اور صحابہ کی بھی معرفت حاصل ہو،
(٢) آپ نے جو بات کہی کہ گھٹیا ہونے میں انکے برابر کوئی نہیں بہت ہی غلط بات ہے اور قرآنی آیات اور تعلیمات کے بالکل منافی بات ہے، آپ صاحبِ علم ہیں قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہیں تو آپ بخوبی جانتے ہونگے اللہ کے احکامات کو
ولا تنابزوا بالالقاب: الایۃ
جہاں تک بات مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب کی ہے تو ان کا جو موقف ہے حضرت معاویہ ؓ کے سلسلے میں وہ حدیث پاک کی روشنی میں ہے
حضور صلی االلہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان عمارا تقتلہ الفئۃ الباغیہ،
اور آپ جانتے ہونگے کہ حضرت عمار (رضی اللہ عنہ) حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی جماعت میں تھے اور انہیں حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی جماعت نے قتل کیا سو وہ حدیث رسول کے مطابق باغی ٹھہرے،
اور اسی لیے جمہور کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرتِ معاویہ (رضی اللہ عنہ) حضرت علی (رضی اللہ عنہ) مقابل خاطی وباغی تھے،
اور امام اہلسنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنوی صاحب کا بھی یہی مذہب ہے،
اور سب مانتے ہیں کہ حضرت معاویہ باغی تھے،
ملا علی قاری نے شرح فقہ الاکبر میں  لکھا ہے کہ علماء کے درمیان اس پر اختلاف ہے کہ باغی کہا جائے انہیں یا نہیں لیکن زیادہ صحیح اور اصح یہ ہے کہ انہیں حضور کی حدیث کے مطابق باغی کہا جائے مانا جائے،
سو یہ علماء احناف کا مسلک ہے
اور جو بھی روایات مولانا ندوی پیش کررہے ہیں وہ سب معتبر ومستند کتابوں میں موجود ہیں،
اگر آپ مولانا کو گستاخ گردانتے ہیں تو جن کتابوں میں ان سارے مشاجرات کا تذکرہ انہیں سوخت کردیجئے کیونکہ جڑ یہی کتابیں ہیں، الاستیعاب، الاصابہ، ابن جریر، ابن کثیر،
یہ وہ کتابیں جن پر اساطین امت کا اتفاق ہے کہ یہ مستند ومعتبر کتب ہیں تو آپ الزام مولانا پر لگاکر ان مصنفین پر ان ڈائریکٹ لگارہے ہیں
مرجع وماخذ یہی کتابیں ہیں،
اب کیا آپ کے اندر اتنی ہمت ہے
کہ ابن حجر عسقلانی، ابن عبد البر، امام ذھبی، ابن جریر، ابن کثیر، کو گمراہ قرار دے دیں،
یقینا یہ جرأت آپ نہیں کرسکتے،
اور کرنی بھی نہیں چاہئے
(٣) اہلسنت والجماعت کا موقف پوری طرح واضح کرچکا ہوں کہ ان کے باغی ہونے پر امت کا اتفاق ہے،
لہذا وہ کوئی چرب زبانی نہیں تاریخی حقیقتیں جنہیں بیان کیا جارہا ہے،
ہاں یہ الگ بات ہے کہ اہلسنت والجماعت میں سے
اکثر اس موضوع پر لب کشائی نہیں کرتے بلکہ سکوت اختیار کرتے ہیں،
لیکن سکوت بغاوت پر نہیں بلکہ اس سلسلے کی مختلف روایات پر،
(٤) مولانا نے یہ جب یہ موضوع چھیڑا تو ایک علمی مجلس میں گفتگو فرمائی لیکن وہ گفتگو مجلس سے باہر کو آئی اور اس کو عوام کے درمیان لیکر آنے میں سب سے بڑا ہاتھ مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب لکھنوی کا ہے اگر وہ عوام کے درمیان اس کو موضوع بحث نہ بناتے تو یہ اک علمی مباحثہ تک ہی بات رہ جاتی،
لیکن جب عوام کے درمیان یا طلباء کے درمیان مولانا کی شبیہ کو انہوں نے داغدار کیا تو پھر مولانا کو تاریخی حقیقتیں بیان کرنی پڑیں،
اور بتانا پڑا کہ حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا،
آپ کی بات بالکل درست ہے وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس وقت جو حالات ہیں ان پر گفتگو ہو لیکن آپ یہ بھی جانتے ہونگے کہ سوشل میڈیا پر کچھ نا عاقبت اندیش، فتنہ پروروں نے اس موضوع کو پھر سے گرمایا اور گالم و گلوچ لہجۂ زباں بنایا پھر بھی مولانا خاموش رہے اور ابھی تک خاموش ہیں، اب اگر ان لوگوں کے ری ایکشن میں اور انکے عقیدہ کے درستگی کے لئے مولانا کوئی اقدام کرتے ہیں تو وہ رد عمل ہوگا ان شرارتوں کا اور اس کی وجہ یہی فتین لوگ ہونگے کیونکہ یہ لوگ مولانا پر جھوٹ افتراء کر رہے ہیں اور لوگ مولانا سے سوالات کرتے ہیں اور انکا موقف کیا ہے جاننا چاہتے ہیں اس لئے ممکن ہے بطور وضاحت کوئی بات کہی جائے یا کہی جا رہی ہو تو اس کی ذمہ داری بھی انہیں حضرات پر ہوتی ہے جو اس موضوع کو بار بار چھیڑتے ہیں اور حسد وجلن کے مارے شخصیت کو متہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں،
(٥) ایک مغالطہ: بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ مولانا العیاذ باللہ صحابہ کی شان میں گستاخی کررہے ہیں ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ مولانا نے اپنے بیانات میں یہ کہا کہ حضرت معاویہ خاطی و باغی تھے، اور اگر حضرت معاویہ کو باغی کہنا گستاخی ہے تو امام ابوحنیفہ کی فقہ الاکبر کے شارح سب سے بڑے گستاخِ صحابہ ہوئے کیوں کہ وہ کہتے ہیں حدیث کی رو سے انہیں باغی کہنا زیادہ صحیح ہے،اور صرف ملا علی قاری ہی نہیں بلکہ بہت سے مورخین و محدثین بلکہ اجماع امت ہے کہ وہ حضرت علی کے مقابل خاطی و باغی تھے،
امام اہلسنت نے بھی یہی کہا ہے، تو افراط و تفریط کا شکار نہ ہوں
اگر حضرت معاویہ ؓ کو خاطی و باغی کہنا گستاخی ہے تو سارے ائمہ گستاخ ہیں
خلاصہ یہ کہ مولانا کا اپنا موقف ہے اور وہ اسے امت پر تھوپنا نہیں چاہتے بلکہ پیش کرنا چاہتے ہیں، اور حقائق سے آگاہ کروانا چاہتے ہیں
نوٹ: میں اس موقف کا موئید ہرگز نہیں ہوں،
مولانا کا یہ اپنا موقف ہے، اس سلسلے میں جو مولانا کا لٹریچر ہے وہ زیر مطالعہ رہا ہے اور مولانا نے اس میں جو حوالہ جات نقل کئے ہیں بڑے ہی مضبوط ومستحکم ہیں،
لیکن پھر بھی، میں ایک ادنی سا انسان ہوں اور اکابر کی تشریحات وتوضیحات پر مکمل اعتماد کرتا ہوں اور سکوت ہی کو ذریعہ نجات سمجھتا ہوں،
لیکن مولانا کو گستاخ صحابہ کہنا بالکل بھی درست نہیں سمجھتا، بلکہ اسے مولانا کی ذات پر بہتان سمجھتا ہوں کیونکہ مولانا ہی سے ہم‌ نے صحابہ کرام کے  جنگی معرکہ جنگی زبان میں سنے ہیں اور صحابہ کرام کی کامیابی کی حکمتیں بھی مولانا کے بیانات میں بارہا سنی ہیں، اور گالم گلوچ کرن، لعنت و ملامت کرنا ہمارے اسلاف کا طریق نہیں ہے
بات ہو تو دلائل کی روشنی میں ہو ورنہ سکوت ہی بہتر ہے،
تحریر: عبد الصبور قاسمی

الجواب وباللہ التوفیق:
رائے کا اختلاف جمع ہونے کے لئے ہے
پلٹ کر مرکز آگئے تو ان میں کمزوری نہیں آئے گی اور اگر پلٹ کر مرکز کی طرف نہ آئے تو پھر کمزوری پیدا ہوگی.
اختلاف رائے تو ہوگا لیکن اختلاف ہو تو پھر اپنی رائے کو لے کر جمع ہوجاؤ، رائے کو لے کر الگ مت ہونا، رائے کا اختلاف جمع ہونے کے لئے ہے،
اس لئے اللّه نے شرط لگائی ہے اگر تم ایمان والے ہو تو تم اجتماعی طور پر آکر پوچھوگے اختلاف بانٹنے کے لئے نہیں ہے، اختلاف تو جمع ہونے کے لئے ہے، سو بار اختلاف ہو تو سو بار جمع ہو۔
اختلاف ہوگیا قرآن کی آیت میں، دونوں صحیح پر تھے، دونوں میں اتفاق جب ہوا جب یہ آپ کے پاس آگئے، ورنہ آپس میں اختلاف رہتا۔
کام کرنے والوں کو جو ناگواری پیش آرہی ہے وہ تو کام کوجاننے کے لئے پیش آرہی ہے، اور لوگ بجائے صبر اور تحمل سے کام کا تعارف کروائے اور وہ مقابلہ اور انتقام کا سوچے ۔
ایک یہودی نے آپ کو زہر دیا، تو گوشت نے بتایا کہ مجھے نہ کھائیے مجھ میں زہر ہے اور معلوم بھی ہوگیا کس نے کیا، صحابہ نے چاہا کہ اسے پکڑیں، آپ نے فرمایا نہیں، جب اللّه نے مجھے بتایا دیا اس میں زہر ہے تو پکڑنے کی کیا ضرورت ہے اور اس نے تو زہر ہمیں جاننے کے لئے دیا ہے پھر مارنے کا کیا مطلب، جاننے کے لئے کہ نبی ہیں یا نہیں، تو ہم تو آتے ہی اسی لئے ہیں کہ ہم کو نبی مانا جائے ہم پر ایمان لایا جائے تو پھر مارنے کا کیا مطلب اس کو ۔
حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہُ عنہم کے درمیان ایسا اختلاف ہوتا تھا، مشورہ میں لوگ کہتے تھے کہ آج کے بعد یہ کبھی ساتھ مل کر نہیں بیٹھیں گے، لیکن ان کی محبت اور اتفاق اس مشورے کے ختم ہونے سے پہلے اس سے زیادہ نظر آجاتا ۔
قرب پیدا کرنے کے لئے درگذر کرے، اور اگر یہ آپ کو ستائے تو درگذر کرے اس لئے کہ آپ کی طبیعت میں انتقام نہیں ہے، آپ کی طبیعت میں زہر دینے والے کو بھی معاف کرنا ہے۔
جو انتقام کے جذبہ کے ساتھ چلے گا وہ اس راستے میں صبر کی خیریں حاصل نہیں کرسکتا، کیونکہ ساری خیر صبر کے اندر رکھی گئی ہے، جس کے اندر انتقام کا جذبہ ہوگا وہ صبر کی خیر سے محروم ہوگا۔
اسلئے داعی کے مزاج میں انتقام نہیں ہوتا اور نہ انتقام کی چاہت، یہ دونوں ہمارے کام نہیں ہے، نہ انتقام نہ انتقام کی تقسیم

No comments:

Post a Comment