Thursday 31 October 2019

امیر تبلیغ مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی کے ملفوظات Quotes By Hadhratji ML Saad DB- Ameer of Da'wah and Tableegh

امیر تبلیغ حضرت مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی کے ملفوظات
Quotes By Hadhratji ML Saad DB- Ameer of Da'wah and Tableegh
--------------------------------------------------------
عالمی امیر حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب مولانا الیاس صاحب کے کام کی تکمیل کررہے ہیں. کسی کے اچھے دن آوے نہ آوے ابھی مولانا سعد صاحب کی اطاعت کرنے والوں کے اچھے دن آنے والے ہیں کیونکہ وہ امیر ہے ان شاءاللہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے تو چپ رہو غیبت سے اور حقارت سے اپنے آپ کو بچالو. کسی بھی مسلمان کی غیبت کرنا (حرام حرام حرام) ہے اور کبیرہ گناہ ہیں اور خاص کرکے عالمی امیر حضرت جی مولانا سعد صاحب کی غیبت کرنا تو ایمان اور نسلوں کو بھی برباد کرنے والا عمل ہے. مولانا سعد صاحب مجدد ہے. حضرت جی مولانا سعد صاحب پورے عالم کے امیر ہیں اور بنگلے والی مسجد حضرت نظام الدین پورے عالم کا مرکز ہے. حضرت جی مولانا سعد صاحب کے دل میں براہ راست اللہ کی طرف سے علم لدنی القا کیا جاتا ہے.
---------------------------------------------------------
گزشتہ سال نومبر 2014 کے رائے ونڈ میں ہونے والے دوسرے حصہ کے عالمی تبلیغی اجتماع میں بندہ کی حاضری ہوئی، دوسرے دن بروز جمعہ عالمی شوریٰ کے امیر حضرت مولانا محمد سعد کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں اپنی کتاب ”حیاتِ شیخ زبیر“ لے کر حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ تو بندہ مولانا کی پرکشش شخصیت سے مسحور ہوکر رہ گیا، پھر اگلے دن بعد مغرب مولانا نے جب ساڑھے تین گھنٹہ سے زائد ”الہامی“ بیان فرمایا اور اس میں دعوت کی محنت سے متعلق ہرہر چیز کو قرآن وسنت سے ثابت کیا تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ الفاظ ان کے سامنے پر باندھے کھڑے ہیں اور اپنے ہر ہر دعویٰ کے لیے دلائل ان کی زبان پر کھیل رہے ہیں اور یوں لگا کہ مولانا محمد یوسف صاحب(بقول مولانا نور عالم خلیل امینی کے کہ ان جیسا جادو طراز مبلغ پوری جماعت تبلیغ میں نہیں گزرا) پھر سے زندہ ہوگئے ہیں۔
مولانا محمد سعد صاحب نے دعوت و تبلیغ کے بنیادی تقاضوں اور اس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی، ان کے بیان میں بعض باتیں ایسی بھی تھیں جن کے بارے میں محسوس ہوا کہ وہ یہ باتیں عام معمول سے ہٹ کر بطورِ خاص ارشاد فرمارہے ہیں، مثلاً انہوں نے زور دیا کہ ایمان کی محنت کے ساتھ ساتھ، اعمالِ صالحہ، عبادات، معاملات، حلال و حرام، اخلاقیات اور باہمی حقوق کے بارے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو حرز جان بنایا جائے۔
بیان کے بعد بعض پرانے ضعیف العمر احباب کہنے لگے کہ حضرت جی مولانا محمد الیاس اور حضرت جی مولانا محمد یوسف کی نسبت اب ان میں منتقل ہوتی نظر آرہی ہے اور ان حضرات کے بارے میں جو سنتے تھے کہ چار چار گھنٹے کے بیانات میں ایسے ایسے مضامین ”قبیل از واردات غیبیہ“ بیان ہوتے تھے کہ لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے تھے، یقین کیجیے کہ مولانا سعد صاحب کے بیان میں یہی صورت حال تھی، کیا عالم اور کیا جاہل، کیا نیا اور کیا پرانا، کیا چھوٹا اور کیا بڑا؟ ہر ایک پر عجیب ہی کیفیت تھی، پورے مجمع پر سناٹا طاری تھا۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مقرر وقت پورا کرنے کے لیے اپنے بیان کو لمبا کرتا ہے، لیکن سامعین کو اندازہ ہوجاتا ہے، جب کہ یہاں ایسا کچھ نہیں تھا ہر ایک زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ ”وہ کہیں اور سنا کرے کوئی“۔
پھر اس کے علاوہ بعض دفعہ ایسا شخص مقرر طے ہوجاتا ہے، جس کے پاس کم علمی کی بنا پر بولنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے تو وہ ادھر ادھر کی باتیں کر کے بیان کو لمبا کرتا ہے، لیکن یہاں تو بیان میں علمی موتی جھڑرہے تھے، مولانا کا علم بلند طائر اونچے سے اونچے آشیانہ پر جاکر بادل کی طرح برس رہا تھا اور زبان حال وقال سے کہہ رہا تھا کہ جتنا کچھ سمیٹنا اور محفوظ کرنا چاہو کرلو، ”پھر موقع ملے نہ ملے“۔ اس سے زیادہ اور کیا عرض کروں؟
پھر چوں کہ شوریٰ کے سابقہ امیر حضرت مولانا محمد زبیر الحسن کاندھلوی کی وفات ہوچکی ہے تو اب ان کے اندر ایک ذمہ دارانہ شان بھی نظر آرہی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا کے بیان میں امت کا ایک درد وغم تھا، اللہ سے ملانے کا ایک سوز وعشق تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر لانے کا جوش وجذبہ تھا ان کے بیان میں وہ سب کچھ تھا جس کی آج امت کو ضرورت ہے، میری رائے میں تو دعوت کی محنت کے معترضین اگر مولانا کا اس دفعہ کا دوسرے حصہ کا بیان خالی الذہن ہوکر غور وفکر سے سن لیں تو ان کے سارے اشکالات کافور ہوجائیں۔
ان کی خدمت میں حاضری کی جو کیفیت تھی وہ بڑی عجیب تھی، فی الحال تو اتنا کہوں گا کہ ان کی نورانی اور پرکشش شخصیت کے سحر سے تین دن تک میں باہر نہیں آسکا تھا، حالاں کہ دوسرے اکابر (حاجی عبد الوہاب صاحب، مولانا زبیر الحسن اور مولانا شاہد سہارن پوری وغیرہ) سے بھی ملاقات ہوئی تھی، لیکن کسی کے بارے میں تین دن تک کوئی خیال نہ رہا! اللہ جل شانہ مولانا کو لمبی عمر عطا فرمائے اور صحت و عافیت بھی۔
مولانا محمد سعد کاندھلوی 8 محرم الحرام 1385ھ مطابق 10 مئی 1965ء کو دہلی مرکز نظام الدین میں مولانا محمد ہارون صاحب کاندھلوی کے گھر میں پیدا ہوئے، آپ کی بسم اللہ 1392ء میں والد مرحوم مولانا محمد ہارون نے اپنے آخری حج کے دوران حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی (رحمہ اللہ) سے ریاض الجنة میں کروائی، آپ کی پیدائش سے ایک ماہ قبل آپ کے دادا حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی کی وفات ہوچکی تھی اور پیدائش کے آٹھ سال بعد آپ کے والد ِمحترم مولانا محمد ہارون بھی اِنتقال فرماگئے، چناں چہ آپ کی پرورش و تربیت آپ کی والدہ اور نگرانی و سرپرستی آپ کے نانا حضرت مولانا محمد اظہارالحسن کاندھلوی، خاندانِ کاندھلہ کے سرپرست شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور دعوت و تبلیغ کے اُس وقت کے امیر حضرت مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی نے فرمائی، 1985ء میں مدرسہ کاشف العلوم دہلی سے پڑھ کر فاضل ہوئے اور وہیں پر تاحال علمی ودِینی خدمات میں مصروفِ عمل ہیں، ماشاء اللہ آپ کا علم شستہ اور عمل پختہ ہے، جب اجتماعات میں خطاب فرماتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت مولانا محمد یوسف پھر زندہ ہوگئے ہیں، علم وعمل، اِخلاص و للہیت، تقویٰ وانابت، ذمہ دارانہ حیثیت اور جود و سخا میں اپنے آباوٴ واجداد کے ثانی و پرتو ہیں، اس وقت دعوت وتبلیغ کے صف ِاوّل کے اکابر میں سے ہیں، بلکہ حضرت مولانا زبیر الحسن صاحب کی وفات کے بعد اب ان کی جگہ عالمی امیر کی حیثیت رکھتے ہیں اور مرکز نظام الدین بنگلہ والی مسجد کے متولی و ناظم اور مدرسہ کاشف العلوم کے بھی متولی و ناظم اور استاذ الحدیث ہیں، حضرت مولانا سید محمد سلمان سہارنپوری صاحب (داماد حضرت شیخ و موجودہ ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارن پور) کی بڑی صاحب زادی بریرہ خاتون آپ کے نکاح میں ہیں۔ جن سے حق تعالیٰ نے آپ کو تین فرزند محمد یوسف، محمد سعید اور محمد سعود عطا فرمائے ہیں۔
چونکہ آپ کے باپ، دادا اور پردادا سبھی اِس کام کے روحِ رواں رہے ہیں، اِس لئے اِس کام کی عظمت واہمیت اُن کے دِل ودماغ میں اس طرح جاگزیں ہے کہ جاگتے سوتے وہ اُسی کے داعی و مبلغ ہیں، حضرت مولانا محمد سعد صاحب نے موروثی طور پر اور اسی ماحول میں پروان چڑھنے اور اس کی قائد شخصیات کی صحبت اِختیار کرنے کی بنا پر دعوت کے مزاج ومذاق کو نہ صرف سمجھ لیا ہے، بلکہ اپنے اندر سمولیا اور اپنے اُوپر طاری کرلیا ہے۔
آپ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی، حضرت جی مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی، حضرت مولانا محمد اظہارالحسن کاندھلوی اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے ہیں اور اس وقت حضرت مولانا مفتی محمد افتخارالحسن کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم (موجودہ سرپرست خاندان کاندھلہ ومرکز نظام الدین اور خلیفہ مجاز حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری) سے اِصلاحی تعلق ہے، جب کہ اجازت وخلافت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی اور حضرت مولانا مفتی محمد افتخارالحسن کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم سے رائے پوری سلسلہ میں حاصل ہے۔
اب مولانا کے بیان سے کچھ منتخب ملفوظات پیش خدمت ہیں:
٭… امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ اُمت اس وقت تک سدھر نہیں سکتی جب تک اِس اُمت کے پچھلے وہ کام نہ کریں جو اِس کے پہلوں نے کیا، لہٰذا یقین سے کہاجاسکتاہے کہ اِس اُمت کی کام یابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہے۔ یہ اُمت اتنی ہی کامیاب ہوگی جتنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریق پر رہے گی۔ ہدایت اور کامیابی اسی طریقہٴ محنت میں ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہُ علیہ وسلم کے صحابہ کا تھا۔ صرف ایمان کی ابحاث سے ایمان میں ترقی ممکن نہیں، جب تک وہ محنت نصیب نہ ہوجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگیوں میں تھی۔ یقین کے سیکھنے کا وہ طریقہ جو صحابہ کرام کا تھا وہی مطلوب ہے۔ تبلیغی نصاب میں حیاة الصحابہ کی شمولیت پر غور کریں! یہ اِس لئے ہے کہ تبلیغ کی محنت جب صحابہ کرام کی سیرت کے موافق ہوگی تب کامیابی ہوگی۔
----------------------------------------------------------------------------
صحابہ کرام امت کے لئے نمونہ بنے، اُمت کے سامنے خودکو پیش کیا۔ لہٰذا دعوت کے کام میں کام یابی تب ہوگی جب دعوت مزاجِ صحابہ کے موافق ہوگی او رہم خود اُمت کے سامنے پیش ہوں گے۔ قرآن کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام کو سمجھنا ضروری ہے، صحابہ کو سمجھے بغیر قرآن کو نہیں سمجھ سکتے۔ صحابہ کرام قرآن کی تفسیرو تفصیل ہیں۔ لہٰذا اُن کو سمجھنا ضروری ہے، صحابہ کرام قیامت تک کے لیے راہ نما ہیں۔
٭… حدیث شریف میں ارشاد ہے: جس شخص کو مسجد میں آتاجاتا دیکھو، اُس کے ایمان کی گواہی دو! چناں چہ فرمایا: انما یعمر مسجداللہ من أمن باللہ۔ بے شک مساجد کی تعمیر وہ کرتے ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملہ میں صحابہ کا رخ مسجد کی طرف موڑا، صلوة الحاجة، صلوٰة الخوف، صلوٰ ة الکسوف، صلوٰ ة الخسوف وغیرہ پر غورکریں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اگر تین کام نہ ہوتے تو دنیا چھوڑکراللہ سے جاملتا۔ اللہ کے راستے میں پھرنا۔ علم کی مجالس میں بیٹھنا۔ علم کی باتیں ایسے حاصل کرنا جیسے کھجوروں میں سے عمدہ کھجوریں چن چن کر تلاش کی جاتی ہیں۔
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: ایمان کی تقویت کی جگہ مسجد کا ماحول ہے، خلوت کدوں، بازاروں اور دوسری جگہوں سے نکل کر مسجد میں آنا ضروری ہے۔ ہمار ا اَصل مقصد اُمت کو مسجد تک کھینچ لانا ہے۔
ہماری سب سے زیادہ محنت اس بات پر ہونی چاہئے کہ مسلمانوں کو مسجد کے ماحول میں لایا جائے، کیوں کہ ایمان واعمال کی تعلیم وتربیت ایمان کے ماحول میں ہوسکتی ہے اور اس کی جگہ مسجد ہے۔ مسجد سے باہر کئے جانے والے اعمال میں وہ برکت نہیں ہوتی جو مسجد میں ہوتی ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کو مسجد کے ماحول کا عادی بنائیں۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق اللہ کے گھر میں آنے سے ہی قائم ہوگا اور یہی دعوت و تبلیغ کا سب سے بڑا مقصد ہے کہ ہر ایک کا اللہ سے تعلق قائم ہوجائے۔
٭…نماز کی خاصیت ظاہر ہوکر رہتی ہے، تاہم ضروری ہے کہ نماز میں منکر نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس کی نماز اُسے گناہوں سے نہ روکے، اُس کی نماز اُسے اللہ سے دُور لے جائے گی۔ ﴿ان الحسنات یذھبن السیئات﴾۔ بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹادیتی ہیں۔
نما ز کا ایسا اہتمام کریں کہ اُس کا حق اداکردیں۔ نماز بلکہ تمام عبادات کو ہلکا مت سمجھیں، دعوت کے کام میں لگ کر عبادات سے غفلت استدراج ہے، دھوکاہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی قافلہ روانہ فرماتے تو نصیحت فرماتے: ”دیکھو! دن کے کاموں میں کام یابی تب نصیب ہوگی جب تمہیں رات کا قیام اور تلاوتِ قرآن نصیب ہوگی۔“
٭… اتباعِ سنت وہ کشتیٴ نوح ہے کہ جو اِس میں سوار ہوگیا وہ کام یاب ہوگیا اورجو باہر رہ گیا ناکام ہوگیا۔ فرائض، اِسلام میں آنے کے لئے شرائط ہیں، جب کہ اتباعِ سنت سے مسلم اور کافر میں امتیاز ہوتا ہے، سنت کو ہلکا مت سمجھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنت پر عمل کرتے تھے، اُس کے سنت ہونے کی وجہ سے۔ جب کہ ہم سنت کو اُس کے سنت ہونے کی وجہ سے چھوڑدیتے ہیں۔
٭… کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکام بدلیں گے تو حالات بدلیں گے۔ یاد رکھیں! حالات کا تعلق اَحکام کے ساتھ ہے، حکام کے ساتھ نہیں، حالات تب بدلیں گے جب ہم اَپنے اَعمال بدلیں گے، کیوں کہ حالات کا تعلق بدن سے نکلنے والے اَعمال کے ساتھ ہے۔ جب تک ہم کافروں کے اَسباب واَعمال کو نہیں چھوڑیں گے، تب تک اُن کے حق میں ہماری ہدایت کی دعا قبول ہوگی اور نہ تباہی کی بددعا۔ اگر اُن کی ہدایت یا تباہی مطلوب ہے تو پہلے اُن کے طور طریقے چھوڑدو!
٭… حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سنت دعوتِ ایمان ہے۔ اصل محنت انفرادی دعوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشادہوا: ﴿بلغ ماأنزل الیک من ربک﴾․ پہنچادیجئے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اُتارا گیا۔
داعی طالب ہے اور امت مطلوب، ایک ایک فرد کے پاس جاکر اللہ کی طرف بلانا اَصل ہے، اِس کا متبادل کوئی دوسرا طریق نہیں۔ بیٹھے بٹھائے علم یا روحانیت سے ہدایت نہ پھیلے گی۔ کیا حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو علم یا روحانیت حاصل تھی؟ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اذیتیں اٹھا اٹھاکر ایک ایک فرد کو دعوت دی اور اللہ کی طرف بلایا، لہٰذا وہ محنت مطلوب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔
٭… دین کے کسی کام کو ہلکا مت سمجھیں، امامت، خطابت، فتویٰ، درس وتدریس دین کے اہم شعبے ہیں۔ اِن کو ہلکا سمجھ کر نکلنے کے لیے اِصرارکرنا محض جہالت ہے۔ دعوت کاکام اِس لئے ہے کہ اُمت علم پر آجائے، یعنی دعوت کے کام کی آمدنی علم و عمل ہے، کون مزدور ایسا ہوگا کہ اپنی آمدنی پر اشکالات کرے اور اس کو رد کردے، لہٰذا علم اور علماء پر اعتراضات واشکالات بے وقوفی ہے، علم کو محفوظ رکھنے اور اس کو پھیلانے کا فریضہ مدارس انجام دے رہے ہیں۔
اپنی مساجد کے ساتھ جہاں جہاں مکتب نہیں ہے وہاں بچوں کا مکتب کھولو، تاکہ اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہو۔
٭… باہمی حقوق کی ادائیگی کا ماحول پیدا کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، اس لئے کہ حقوق العباد کبھی معاف نہیں ہوں گے جب تک کہ حقوق والے خود معاف نہ کردیں۔
٭… سود اور دیگر حرام ذرائع آمدنی کے استعمال کے ساتھ اپنی دعاوٴں اور عبادتوں کی قبولیت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ سودخوری تو اللہ تعالیٰ اور رسولِ خدا کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ ہورہی ہے اور دوسری طرف ان سے دعائیں بھی مانگی جارہی ہیں۔ ہمیں اپنی عبادات اور دعاوٴں کی قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حالت جنگ سے نکلنا ہوگا۔
٭… حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس بات سے دل میں اثر نہ ہو وہ کانوں کی عیاشی ہے، آج کل بڑوں کے ملفوظات پڑھنے کا شوق نہیں، قصے کہانیوں کو سننے اور پڑھنے کا شوق ہے، یہ کانوں کی عیاشی ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭…حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ آج کل لوگ قدرت سے فائدہ اُٹھانا جانتے نہیں اور نظامِ کائنات سے فائدہ ملنے کو قدرت کی طرف سے فائدہ جانتے ہیں، حالاں کہ اسباب سے فائدہ اٹھانا الگ ہے اور قدرت سے فائدہ اٹھانا الگ ہے۔ نظر اور خبر کا مقابلہ ہے، نظر پر یقین نہ ہو بلکہ خبر پر یقین ہو، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭… ایک ذہن یہ بن گیا ہے کہ اسباب اختیار کریں گے، اگر کام نہ بنا تو نماز پڑھیں گے۔ حالاں کہ نظامِ کائنات اللہ کا ضابطہ نہیں ہے کیوں کہ ضابطہ میں تبدیلی نہیں اور نظامِ کائنات میں تبدیلی ہے (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَحْوِيلا) اللہ کی طرف سے سبب پر کوئی امید نہیں اور سبب پر اس سے مدد نہیں مانگی جاسکتی، انبیائے کرام علیہم السلام نے فرشتوں کی مدد نہیں مانگی، اللہ نے مدد کی صورت میں ان کو بھیجا، سبب کو اللہ متوجہ کرتے ہیں۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)
٭…حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اسباب کا ترک کرنا مجاہدہ نہیں اور بیوی بچوں کو چھوڑدینا مجاہدہ نہیں ہے، بلکہ ان دونوں کے اشتغال کو کم کرکے دین کے لیے وقت نکالنا اور اس کو بڑھاتے چلے جانا یہ اصل ہے اور یہ اصل مجاہدہ ہے، دونوں میں فرق سمجھیں، خلیفہ اول خلافت کے بعد تجارت کے لیے چل دیے کیا یہ توکل کے خلاف ہے، بعض لوگ اسباب کے اختیار کرنے کو جرم سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ مشرکوں کا قول تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے کہ ﴿مالہٰذا الرسول یاکل الطعام﴾ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭… جن کے دل غیروں سے متأثر ہوتے ہیں ان کو غیروں کے لباس اچھے لگتے ہیں، حالاں کہ اصل تو سنت ہے اسلام تو سنت طریقہ پر آتا ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭… مسلمان کی شان اتباع سنت ہے، صرف فرائض کو انجام دینا کافی نہیں، اتباع سنت کی مثال کشتی نوح ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)
٭… حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ آج کل مصالح (مصلحت) کی وجہ سے اسلام کو پیسا جاتا ہے، حالاں کہ اسلام پیسنے کی چیز نہیں، بلکہ مصالحے (نمک مرچ وغیرہ) پیسنے کی چیز ہیں اور مصالحے کو جتنا پیسا جائے گا اتنا لذیذ ہوگا۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)
٭… نماز پڑھوانا دعوت ہے، نماز کا کہہ دینا دعوت نہیں، امت کے لوگوں کو یہ مغالطہ لگ گیا ہے کہ نماز کے کہہ دینے کو دعوت سمجھ بیٹھے، حالاں کہ عملی طور پر نماز پر لانا دعوت ہے، بات کا پہچانا تبلیغ نہیں بلکہ دل میں اتارنا تبلیغ ہے، یہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ کا ملفوظ ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭… صلوة الحاجة حاجت کی نماز نہیں، بلکہ اللہ سے قرب کے لیے ہے کہ اگر جب کبھی کوئی پریشانی آئے اللہ سے مانگو تو مسئلہ حل ہوجائے گا، حاجت کے پیش آنے کے لیے نماز نہیں، بلکہ عمل حاجت پر مقدم ہے کہ عمل سے حاجت پوری ہوتی ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭… قرآن میں صبر کو نماز پر مقدم کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ پہلے حرام سے بچو، پھر نماز کی طرف آوٴ، پہلے معاملات کو درست کرو، ظاہری پاکی (ہاتھوں اور پاوٴں کو دھونا) اور باطنی پاکی (سود اور حرام غذا سے بچنا) حاصل کرو، پھر نماز قبول ہوگی، نماز کی قبولیت کے لئے حرام غذا سے پاکی پہلے ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)
٭… جو حالات معاملات کی خرابی سے آئیں گے وہ عبادات سے درست نہیں ہوں گے، آج عبادات خوب ہیں، مگر معاملات درست نہیں (لوگوں کا حق دبانا وغیرہ) تو مدد کہاں سے آئے گی؟ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)
٭… اختلافات پر صبر کرنا اور دوسروں کو برداشت کرنا ہی ”اخلاق“ ہے..
٭… ایک انسان کی ہلاکت کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ کسی مسلمان کو حقیر سمجھے۔
٭… عصری فنون یہ علوم نہیں ہیں، ضروریاتِ زندگی کے حصول کے ظاہری ذرائع ہیں، ان کا حاصل کرنا منع نہیں ہے، لیکن ان پر فخر کرنا کفر کا مزاج ہے۔ علوم صرف اور صرف قرآن وحدیث ہے۔
تحریر: مولانا سید محمد زین العابدین
---------------------------------------------------
حضرت جی نے رائیونڈ 2012 کے اجتماع پر بیان کے آخر میں فرمایا: اللہ آپ حضرات کو جزائے خیر دے ایسا جم کر بیٹھ کر سننے والا مجمع میں نے کہیں نہیں دیکھا. یہ آپ کی طلب اور شوق کی بات ہے ۔۔۔ ہمارے مشورے کی بنیاد امور کا طے کرلینا نہیں ہے ہمارے مشورے کی بنیاد ہر ایمان والے کے دل میں اللہ کے دین کے مٹنے کا غم پیدا کرنا ہے۔ مشورہ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر آپ کسی دشمن سے بھی جاکر مشورہ لو تو دوست ہوجائے گا۔ مشورے سے بڑا امت کو جوڑنے والا کوئی عمل نہیں ہے ۔۔۔ ہمارے کام میں کسی کو نکالنا نہیں ہے کہ فلاں فلاں کو نکال دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اجتماعیت کو باقی رکھنے کے لئے منافقین کو اس طرع نبھارہے کہ نہیں ان کو نکالنا مت ورنہ غیر یہ کہیں گے کہ ان کی آپس میں اجتماعیت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ان کو ہمارا سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تبوک ایسا موقع لائے کہ منافقین خود ہی چھٹ گئے. یہ اس کام کی خاصیت ہے کہ ایسے حالات پیش آجائیں گے کہ نعوذباللہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ چھٹ جائیں گے۔
---------------------------------------------------------------
مسلمان کا عیب ظاہر کرنا مسلمان کو رسوا کرنا ہے اور مسلمان کو رسوا کرنے والا اللہ کی نظر میں رسوا ہوچکا ہے. جب امت میں سے مسجد کا دین نکل جائے گا تو مسجد کے باہر کا دین بھی نکل جائے گا. اس لئے کہ مسجد سے باہر کے تمام شعبوں کا دین وہ مسجد کے دین پر مؤقف ہے. غیرشرعی کام چاہے کتنے ہی اخلاص سے کیا جائے اس کو قبول نہیں کرتے بلکہ رد کرتے ہیں عالمی  شوری غیرشرعی ہے اس لیے اصولا اور نصوصا اس کو رد کیا جائے گا. ایمان کی تصدیق کے لئے مسجد  میں ایمان کے حلقے قائم کرنا یہ صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا معمول تھا۔ یہ معمول امت میں سے ختم ہوگیا اب ملاقات برائے ملاقات رہ گئی. سب سے زیادہ ترقی اس راستے میں وہ صبر اور برداشت کرنا ہے. جو شخص اللہ رب العزت سے اپنے لئے اور ساری امت کے لئے ہدایت کا طالب ہوگا وہ ہر ناگواری کو برداشت کرلے گا. اگر دس بار سورہ اخلاص کوئی فجر کی نماز کے بعد پڑھ لے تو رات تک شیطان  اپنی پوری کوشش کے باوجود اس سے گناہ نہیں کرواسکتا. اس سے معلوم یہ ہوا کہ شیطان کا جال بہت کمزور ہے. اللہ کے عذاب کو ہٹانے کا سب سے یقینی سبب وہ یہ ہے کہ تم ایک ایک کو دعوت دے کر اعمال مسجد کی طرف جوڑدو اس لئے کہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی وجہ سے عذاب ہٹا دیا جاتا ہے. مسجد کے ماحول کا کوئی متبادل نہیں ہے ہم یہ چاہتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں ہر وقت مسجد میں آنے والوں کو مسجد میں تربیت اور علم وایمان کا حلقہ ملے. جس طرح دین بہت سے اعمال کے مجموعہ کا نام اور نماز بہت سے اعمال کے مجموعہ کا نام اسی طرح مسجد بھی بہت سے اعمال کے مجموعہ کا نام ہے. مسجد صرف نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ دینی اور دنیاوی تمام مسائل کا تعلق مسجد سے ہے. اللہ نے ہدایت کا وعدہ اپنے راستے کے جہد پر کیا ہے صحیح حدیث میں ہیں کہ مسجد کی طرف چل کر آنا جہاد میں سے ہے. صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا کوئی عمل اپنے زمانے کے لیے نہیں قیامت تک آنے والی امت کے لئے ہے کیوں کہ زمانے کے بدلنے سے چیزیں بدلے گی اسباب بدلیں گے لیکن ہدایت کے ضابطے نہیں بدلیں گے ہدایت اور تربیت کے وہی ضابطے ہیں جو ضابطے دور نبوت میں تھے. اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک آدمی اگر مسجد کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو وہ اللہ کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور اللہ تعالی خود فرماتے ہیں جو بندہ میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں. صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین مسجد سے کائنات کے نظام کو ایسے کنٹرول کرتے تھے جیسے کسی بجلی گھر یعنی (پاورہاوس) سے پورے شہر کے بجلی کے نظام کو کنٹرول کیا جاتا ہے. مسجد کے اندر اعمال کا اجتماعی ماحول قائم ہو اور پھر اس اجتماعی ماحول میں لوگوں کو لاکر جوڑا جائے مسجد کے باہر دعوت دینا اجتماعی ماحول میں لانے کے لئے ہے. اللہ کے غیر کا تاثر نکلے گا نہیں جب تک اللہ کے گھر میں آکر اللہ کو نہیں سنوگے. اللہ کے غیر سے نہ ہونے اور محض اللہ سے ہونے کا یقین پیدا کرنے کے لئے امت کو اللہ کے گھر میں لاکر اللہ کا تعارف کروانا ہوگا. زندگیوں کے بدلنے کا تعلق اصل میں مسجد کے ماحول سے ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر جو لوگ اللہ کے تذکرے کرتے ہیں فرشتے اپنے پروں سے آسمان تک ان کو گھیرلیتے ہیں/ اللہ ان سے بہتر مخلوق میں ان کا ذکر فرما تے ہیں. عبادت کا نور مسجد میں ملے گا علم کا نور مدرسے میں ملے گا ذکر کا نور خانقاہ میں ملے گا ایمان کا نور اللہ کے راستے میں نکلنے سے ملے گا. اختلافات پر صبر کرنا اور دوسروں کو برداشت کرنا ہی اخلاق ہے. غلط کو غلط نہ سمجھ پانا جہالت کی نشانی ہے اور غلط کو غلط نہ کہنا غلامی کی نشانی ہے. 
--------------------------------------------------
رزق کے 16 دروازے
1 - نماز کا اہتمام کرنا
2  - استغفار کی کثرت
3 -  اللہ کے راستے میں خرچ کرنا
4 -  تقویٰ اختیار کرنا
5 -  کثرت سے عبادت
6 -  حج اور عمرہ کی کثرت
7 - کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا                             
8 - شکر ادا کرنا
9 - توکل کرنا
10 - انسان گھر جائے تو اہل خانہ کو مسکراکر سلام کرے
11 - والدین کی فرمابرداری کرنا
12 -  صلا رحمی کرنا
13- دوا م طہارت یعنی ہر وقت باوضو رہنا
14 - چاشت کی نماز پڑھنا
15 - سورہ واقعہ کا روزانہ پڑھنا
16 - اللہ پاک سے دعا کی کثرت
(27 شب کا بیان)
------------------------------------------------------------------
ہر عمر کے مسلمانوں کو مسجد میں تعلیم اور قرآن کے حلقوں سے جوڑنا چاہیے ہیں اور اب تو یہ چاہت اس بات کی ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد اور فرائض اور عبادات سے متعلق موٹے موٹے مسائل علماء مسجد کی سطح سے سکھلایا کریں ...
جب تک تعلیم کا نظام مسجد کی سطح پر نہیں آئے گا تو عوام جہالت سے نکلیں گے نہیں؛ یہ پکی بات ہے، اصل میں تعلیم کا تعلق مسجد اور علماء کی صحبت سے ہے .. کتابوں کا جو علم ہے وہ علم کی حفاظت کے لیے ہے؛ کتابوں کا علم تعلیم کے لئے نہیں؛ تعلیم کے لئے تو علماء کی صحبت ہے .. ایک صحابی (رضی اللہ عنہ) نے لکھا حضرت عمر (رضی اللہ عنہکو خط کہ مجھے علم لکھ کر بھیج دیجیے مدینہ منورہ سے، دیکھو ظاہری بات ہے کہ سارا علم مدینہ میں؛ حضرت عمر (رضی اللہ عنہنے جواب دیا اُس خط کا ...... مدارس تو اس لئے مطلوب ہیں، تاکہ یہاں عملہ تیار ہو، آپ دیکھتے ہیں کالجوں میں، یونیورسٹیوں میں ڈاکٹر تیار ہوتے ہیں، محلہ کے کلینک میں استعمال ہوتے ہیں، یہ نہیں کہ تمہیں علم لکھ کر بھیج دیا جاوے، کتنے نشرواشاعت کے اسباب اور ذرائع ہیں اور کتنی کتنی سہولتیں ہیں اور پھر اندازہ کرو کتنی جہالت ہے؛ اس لئے عرض کررہا ہوں کہ مسجد وہ اصل آنے والوں کو تعلیم دینے کی جگہ ہے ... حضرت عمر (رضی اللہ عنہنے جواب دیا اُس خط کا کہ: "علم لکھ کر بھیجنے کی چیز نہیں ہے. تم مدینہ میں آو، یہاں علماء کی صحبت اور اُن کی مجلس میں رہو، تو علم حاصل کروگے ........"
اُس محلے کے سارے عوام کے علاج اور ان کی ضروریات کے لیے وہ جاکر کلینک کھولتے ہیں. ہم سوچتے ہیں علم حاصل کیا؛ فارغ ہوگئے، اپنے لئے عمل کریں گے؛ حالانکہ کسی کے سوال کرنے پر علم کو چھپانا ہی حرام نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے سوال نہ کرنے پر اُمت کو علم نہ سکھلانا یہ خود گناہ ہے .... حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن علماء کو سخت دھمکی دی ہے، جن کو اللَّهَ نے علم دیا ہے مگر وہ عوام کو علم سکھاتے نہیں، اُن کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے "تعدّ دِعقوبت" کی دھمکی دی ہے ... آخرت میں جو حساب ہوگا وہ تو ہوگا، میں دنیا میں سزادوں گا اُن علماء کو جو جاہلوں کو دین نہیں سکھاتے، یہ صحیح روایت ہے.... علماء نے کہا کہ جی! یہ جاہل ہم سے سیکھتے نہیں، ہم تو ہر وقت تیار ہیں سکھانے کے لئے، وہ سیکھتے نہیں تو ہماری کیا خطاء ہے، وہ آئیں ہمارے پاس .... ہم تو بیٹھے سکھلانے کے لئے؛ سیکھنے کے لئے آتے ہی نہیں تو ہم کیا کریں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ یا تو تم جاہلوں کو دین سکھلاو، ورنہ میں تمہیں سخت سزا دوں گا. روایت میں تین مرتبہ ہے .. بار بار علماء نے اس بات کو دُہرایاکہ ابتغی غیرنا وہ سیکھتے نہیں تو ہم کیا کریں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ بات دہرائی؛ کہ تم سکھلاؤ ورنہ دُنیا میں تمہیں سزا دوں گا ..... تیسری مرتبہ میں جاکر سمجھے، کہا کہ ہاں! ہمیں ایک سال کی مہلت دے دیجئے؛ ہم جاکر اُن تک علم کو پہنچائیں گے؛ جہاں جہاں اسلام پہنچ گیا علم نہیں پہنچا؛ ہم جاکر علم پہنچائیں گے ....
------------------------------------------------------------------
گشت کوئی تبلیغی تحریک کا عمل نہیں ہے؛ بلکہ گشت وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادا کرنے کی عملی شکل ہے. امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرنے کی عملی شکل ہے، جو اس زمانے میں محض تحریک پر آکر رہ گی.... جس عمل کے پیچھے مجاہدہ نہ ہو اُس عمل کے ساتھ ہدایت نہیں؛ اور رہی یہ رواجی شکلیں! لوگ چاہتے ہیں کہ اخبار میں ایک کالم امر المعروف کا ہونا چاہئے ایک چینل اسلام کا بھی ہونا چاہئے تاکہ اسلام پھیل جائے .. ایسے بھی احمق ہیں! مولانا الیاس صاحب اور مولانا یوسف صاحب رحمۂ اللہ علیہ بہت قوت سے فرماتے تھے کہ جب حق کو چلانے کے لئے باطل کا سہارا لیا جائے گا، باطل چلے گا حق نہیں چلے گا؛سہارا سہولت کے عنوان سے لیا جاتا ہے .. یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی بادشاہتیں اللَّهَ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں ختم اس لئے کروادیں؛ خود جاکر دعوت دی ... ساری سہولت کی چیزیں باطل میں ملیں گی اور ساری مجاہدہ کی شکلیں سنت میں ملیں گی. دعوت میں بھی سنت ہے؛ وہ یہ ہے؛ خود جاکر دعوت دو ... کسریٰ کی بادشاہت کے ٹکڑے اس پر ہوئے کہ جماعت نے جاکر دعوت دی. جس طرح تمام ضروریات میں اتباعِ سنت ہے اسی طرح دعوت میں بھی اتباع سنت ہے. ہر گشت کر نے والا اس ارادے سے گشت کرے کہ وہ اللَّهَ کے بندوں کو اللَّهَ کے گھر میں لانے کے لئے جارہا ہے؛ مسجد کے ماحول میں لانے کے لئے جارہا ہے ... کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا گشت مسجد میں ایمان کے حلقوں پر جمع کرنے اور علم کے سیکھنے کے لئے ہوتا تھا.
اس لئے کہ تربیت اور ایمان کی تقویت کی اصل جگہ مسجد ہے، اس کا تو کوئی متبادل نہیں ہے، یہ تو پکی بات ہے؛ اس سے کسی شعبے کی تردید مراد نہیں ہے....
بلکہ حضور صلی اللہُ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  کے زمانے میں علم اور ایمان کے سیکھنے کی اصل جگہ مسجد تھی؛ ایمان مسجد سے کیسے سکھایا جاتا تھا اس سنت کے احیاء کے لئے اُمت کو متوجہ کرنا ہے؛ یہ ملےگا کہ آو ہمارے ساتھ! اپنے رب پر ایمان لاویں اور علم کے حلقوں پر جمع کرنا بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول تھا...
------------------------------------------------------------------
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر دیکھو کہ کسی سے سب خوش ہیں تو وہ مداہین (سب کی ہاں میں ہاں ملانے والا) ہے. آدمی حق پر ہو اور سب اُس سے خوش ہو اس کی مشال کسی بھی دور میں نہیں ملتی. حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: اے عمر! خلافت سنبھالو اور یاد رکھو تم سے سب خوش نہیں رہیں گے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کبھی میں مکھن سے زیادہ نرم ہوجاتا ہوں. اور کبھی پتھر سے زیادہ سخت، جب اللہ کا معاملہ آجائے. تعلیم شفقت سے دینی ہے نہ کہ مشقت سے. جن سے غلطی ہوجائے اُن کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ؛ کیوں کہ غلطی کرنے والے کو سمجھنا ہے. تعلیم رینی ہے تعلیم میں شفقت ہوتی ہے. مسجد میں پیشاپ کرنے والے کو اس طرح سمجھایا کہ وہ آپ کا گرویدہ ہوگیا. زنا کی اجازت مانگے والے کو اس طرح سمجھایا اور دعا دی کہ ہمیشہ کے لئے اُس کے دل سے زنا کی خواہش ختم ہوگئی. جب یہود نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے گوشت میں زہر ملاکر پیش کیا تھا اس کو بھی معاف کیا. معاف کرنے کے ان واقعات کو سننے سے دل میں سب کے لئے وسعت پیدا ہوتی ہے. دعوت کے کام میں عفوودرگزر بہت ضروری ہے جن سے غلطی ہوجائے اور جو ظلم کرے اس کو معاف کرنا چاہئے. دعوت کے کام کو محتاج بن کر کرنا ہے. احتجاج تو سیاست میں ہوتا ہے.
------------------------------------------------------------------
بہت سی بے اُصولیاں اور غلطیاں نفس کے تقاضہ سے ہوتی ہیں، اور رات کے قیام سے بڑھ کر نفس کو کچلنے والا اور کوئی سبب نہیں ہے .. ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ اپنی جماعتوں کو تاکید فرماتے تھے اِس کی، کہ دو کام زیادہ کروگے تو اللَّهَ کی مدد ساتھ ہوگی؛ ایک رات کا قیام، دوسرے قرآن کی تلاوت .... اس لئے اللَّهَ کے راستے میں نکل کر تلاوت کرنے والے کے لئے ایسا اجر ہے، حدیث میں ہے، کہ جو اللَّهَ کے راستہ میں نکل کر ہزار آیتیں تلاوت کرلے، اللَّهَ اُس کو انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی فہرست میں لکھ دیتے ہیں.... تین قسمیں ہیں محنت کرنے والوں کی؛ اگر حرمین میں بیٹھ کر بھی تلاوت کروگے تو ایک قسم کی لائن کا اجر ملے گا؛ جو صالحین ہیں.. لیکن اللَّهَ کے راستے میں نکل کر تلاوت کرنے پر تو انبیاء، صدیقین، شہداء، ان تینوں قسم کے لوگوں میں نام لکھا جائے گا ...... اگر انفرادی اعمال کررہا ہے تو صالحین کی لائن کا عادی ہے، اور نقل وحرکت کے ساتھ عمل کررہا ہے تو انبیاء، صدیقین، شہداء کی لائن کا فرد ہے .... اس لئے حضرت رحمہ اللہ فرماتے تھے؛ جس شہر میں بھی انبیاء، صدیقین، شہداء، والی محنت ہوگی، وہ شہر صالحین والا شہر بنے گا ... کیونکہ صالحین کی لائن کی محنت سے انبیاء، صدیقین، شہداء، نہ بنیں گے؛ لیکن انبیاء، صدیقین ،شہداء والی محنت سے صالحین بنیں گے. اس لئے اعمال کا تعدیہ نقل وحرکت میں ہے ... اس لئے خروج کے زمانہ کے اعمال مقام پر رہ کر کرنے سے زیادہ افضل ہیں، "وفضّل الله المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (نساء / ۹۵)".... نقل وحرکت کے ساتھ عمل کرنے والوں کا درجہ بیٹھ کر کرنے والوں سے بہت اُونچا ہے، خروج کے اعمال متعدّی ہونے کی وجہ سے افضل ہیں ... جو آدمی اپنی ذات سے کوئی ایک نیکی کرے گا اُس کو شخصی اجر ملے گا، جو دعوت ساتھ عمل کرے 
------------------------------------------------------------------
پوری زندگی کام کیا آخر میں دوسرے کے حوالے کیا کام کو تاکہ اخلاص کی جانچ ہو٬ حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) کا آخر وقت جنگ معزولی کی کہ امیر بن کر زندگی گزارا اب معمور بن کر کیا کرتا ہے. ہم سمجھتے ہیں کہ تقرری میں ترقی ہے. صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے دور میں صحابہ معزولی میں ترقی سمجھتے تھے٬ معزولی میں ترقی کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے امتحان میں کامیاب ہوگئے٬ اگر معزولی کے بعد وہی محنت رہی جیسے امیر بن کر کام کرتے تھے٬ اگر معزولی ہوکر کام چھوڑ دے تو مخلص نہیں ہیں٬ یعنی عہدوں کی وجہ سے کام کررہے تھے امتحان میں فیل ہوجائے تو جہاں تھا وہاں بھی نہیں رہتا-
------------------------------------------------------------------
لوگ کہتے ہیں کہ اللہ توفیق دے گا تو نکل جائیں گے، توفیق کسے کہتے ہیں اسباب خیر کا مہیا ہونا، ایک آدمی اندها ہے اس کو قرآن دیکھ کر پڑهنے کی توفیق نہیں ہے کیوں کہ وہ آنکھوں سے نابینا ہے، ایک آدمی کی ٹانگیں کٹی ہوئی ہے اس کو قیام کی نماز میں توفیق نہیں ہے کیوں کہ اس کے پاس ٹانگیں نہیں ہیں، ایک آدمی گونگا ہے اس کو بولنے کی توفیق نہیں ہے کیوں کہ اللہ نے اس کو زبان نہیں دی ہے، اللہ نے ہاتھ پیر دئے ہوئے ہیں سارے اعضاء سلامت ہیں پهر یہ کہنا کہ اللہ نے توفیق نہیں دی یہ سب سے بڑا جهوٹا ہے، جو اعضاء سلامت ہوتے ہوئے یہ کہرہا ہے کہ توفیق نہیں ہوسکی، توفیق اس کو نہیں کہتے عمل کی صلاحیت ہے پهر عمل نہیں کرتا نہیں توفیق اس کو ملی ہوئی ہے، توفیق اس کو نہیں ملی ہوئی ہے قیام کی جس کے پاس ٹانگیں نہیں ہے، توفیق اس کو نہیں ملی ہوئی ہے قرآن کو دیکھ کر پڑهنے کی جس کی آنکھیں نہیں ہیں، توفیق اس کو نہیں ملی ہے بولنے کی جس کے پاس زبان نہیں ہے، پهر کیا کہتے ہیں لوگ جب اللہ توفیق دے گا تو نکل جائیں گے، اللہ نے توفیق دی ہوئی ہے توفیق اس کو کہتے ہیں کہ اس کے اعضاء سلامات ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کو وسعت اور فرصت دی ہوئی ہے یہی توفیق ہے، اللہ کی طرف سے وسعت اور فرصت اور اعضاء کی سلامتی کا ملنا یہی توفیق ہے اس لئے اللہ کے سامنے اپنا عذر پیش نہیں کرسکتا کیوں کہ اللہ اس کو توفیق دی ہوئی ہے ہاں جو معذور ہے اس کو توفیق نہیں ہے. اس کا عذر اللہ کے یہاں قبول ہے.
------------------------------------------------------------------
معلومات میں اضافے کا نام علم نہیں. علم تو نام ہے یقین، عمل اور اخلاص کا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا آپس میں مقابلہ معلومات میں نہیں بلکہ یقین، عمل اور اخلاص پر تھا.
------------------------------------------------------------------
اس راستے کے اندر صبر ایسا ہے جیسا گاڑی کے اندر تیل٬ جب گاڑی کے اندر  تیل ختم ہوجائے گا تو گاڑی آگے نہیں چلے گی. اسی طرح کام میں جب صبر ختم ہوجائے گا تو کام کا سفر بھی ختم ہوجائے گا. 10 سال ۔۔۔ 20 سال ۔۔۔ 50 سال ۔۔۔۔ 50 سال کام میں چلنے کے بعد بھی اگر صبر ختم ہوا تو اس راستے کا سفر بھی ختم ہوجائے گا ۔۔۔۔۔ حضرت مولانا الیاس رحمت اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اس کام میں استقامت کا تعلق مدت سے نہیں ہے کہ بہت زمانے سے اس کام میں لگا ہوا ہو٬ اس کام میں استقامت کا تعلق تو موت سے ہے کہ اسی صبر کے ساتھ اجتماعیت کے ساتھ کام کرتے کرتے موت ہوجائے.
------------------------------------------------------------------
جنگل میں بکریاں چرارہا چرواہا؛ بھیڑیے نے بکریوں پر حملہ کیا، چرواہے نے بکری کو چھوڑادیا، بھیڑے نے کہا: ﷲ نے جو رزق دیا تھا آپ نے چھین لیا، تعجب کی بات ہے.....
تعجب کی بات ہے! ایک بھیڑیا انسانی زبان میں بات کررہا ہے؛ بھیڑیے نے کہا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے! مجھے تعجب اس پر ہے کہ مسجد نبوی میں حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم انبیاء کے واقعات سنارہے ہیں، تم یہاں جنگل میں پھررہے ہو .......
وہاں سے چرواہا ساری بکریوں کو لے کر مدینہ پہنچا، آپ صلی اللہُ تعالیٰ علیہ وسلم اتنے میں حاضر ہوئے، سارا واقعہ سنایا؛ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کیا؛ سب جمع ہوگئے.
سب جمع ہوگئے. دیہاتی چرواہے سے کہا کہ تم اس واقعہ کو سناؤ کہ تمہیں بھیڑئیے نے کس طرح یہاں بھیجا ہے....
اصل بات یہ تھی کہ دعوت دے کر عمل کے ماحول میں لایا جائے؛ اس لئے کہ تربیت عمل کے ماحول میں ہوگی...
کام میں بجائے اپنی رائے اور تجربات کو داخل کرنے کے ہر کام کرنے والے کہ ذمہ یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت سے کام کو دیکھے.
جو کچھ کہا جائے اُس کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت میں تلاش کرو، اس لئے علم کے ساتھ ساتھ ذکر کا بھی خوب اہتمام کیا جائے.....
------------------------------------------------------------------
اگر یقین ڈول اور رسسی پر ہے تو اللہ تعالیٰ ڈول اور رسسی کا محتاج بنائیں گے. اور یقین اللہ کی قدرت پر ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے پلائیں گے.
-----------------
مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ذکر کے بغیر علم ظلمت ہی ظلمت ہے اور علم کے بغیر ذکر؛ کہ شیطان جاہل صوفیا کو استعمال کرتا ہے اُمت کو گمراہ کرنے کے لئے،
اس لئے علم اور ذکر کا خلاصہ یہ ہے کہ اللَّهَ کی اطاعت اللَّهَ کے دھیان کے ساتھ، اس لئے ذکر کا خوب اہتمام کیا جائے ...... یہ بات تو دنیاوی کام میں مشغول رہنے والے کے لئے بھی ممکن نہیں کہ وہ یہ کہہ کہ مجھے ذکر کا وقت نہیں ملتا تو پھر مجھ پر اللَّهَ نے جو ذمہ داری رکھی ہے اور دعوت کا بوجھ رکھا ہے وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ذکر کا وقت نہیں ملتا .... حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم رات کو تاخیر سے عشاء کی نماز کے بعد انصار کے محلے میں جاتے تھے اور یہ آپ کا روزانہ کا معمول تھا؛ ایک دن تاخیر ہوئی جانے میں .... انصار نے عرض کیا: آج آنے میں دیر کردی! کیا وجہ ہوئی؟ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا جیتنا روزانہ کا پڑھنے کا معمول ہے وہ ذکر کا تلاوت کا معمول باقی رہے گیا تھا .. میرا دل نہ چاہا کہ میں اپنا معمول چھوڑکر آؤں.... ایک صحابی (رضی اللہُ عنہ) نے آپ صلی اللہُ علیہ وسلم کے سفر میں آپ کے خیمے میں آنے کی اجازت چاہی، اجازت نہ ملی، پھر بلایا، بلاکر فرمایا کہ میں اپنا معمول پورا کرنے میں مشغول تھا، اس لئے میں نے تمہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی .... معمولات کا اہتمام کروگے، تو کام اللَّهَ کے تعلق سے کروگے اور اگر یہ معمولات کا اہتمام نہیں ہے تو اللَّهَ کا کام کررہے ہوگے اور اللَّهَ سے غیر متعلق ہوکر.. اس لئے ذکر کا بہت اہتمام کیا کرو، ذکر میں اللَّهَ کا دھیان جمانے کی کوشش کیا کرو؛ مولانا الیاس صاحب رحمۂ اللہ علیہ فرماتے تھے اللَّهَ کے دھیان کے بغیر ذکر کرنے سے سستی غفلت پیدا ہوتی ہے ... حالانکہ دنیا کا معمولی کام بھی ایسا نہیں جسے کوئی کرتا ہو، اُس کام میں اپنے مالک سے غیر متعلق ہوکر؛کسی بھی لائن کا مزدور بڑا یا چھوٹا، تمام کے تمام اپنے مالک سے متعلق ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اللَّهَ کا کام کریں اللَّهَ کے تعلق کے بغیر .... کسی بھی چیز کو ذکر پر ترجیح نہ دو؛ بلکہ ذکرکا اہتمام کرو کیونکہ داعی جو ہوتا ہے وہ اللَّهَ کے بندوں کے درمیان ایک رابطہ ہوتا ہے .... جتنا تعلق کام کرنے والوں کا اللَّهَ کی ذات کے ساتھ ہوگا، اتنا ہی اللَّهَ کے بندوں کو اللَّهَ سے متعلق کرسکیں گے...
---------------------------------------------------------
ایک ہے دین کا معلومات میں ہونا اور ایک ہے دین کا یقین میں ہونا. آج دین امت کے معلومات میں ہے لیکن یقین میں نہیں ہے. اسباب کے یقین نے دین کے یقین کو دل میں داخل ہونے نہیں دیا. اس لیے دین کی معلومات ہونے کے باوجود بھی امت دین پر عمل نہیں کرتی. عمل کی بنیاد معلومات نہیں بلکہ یقین ہے. جس چیز کا یقین ہوگا اس لائن کی قربانی دینا آسان ہوگا. اسباب کے یقین کی وجہ سے لوگ اسباب حاصل کرنے کے لیے بڑی بڑی قربانیاں پیش کرتے ہے. مثلاً: تاجر دکان میں بیٹھ کر کھانا، پینا بھی بھول جاتا ہے. حدیث کا مفہوم ہے: "دین آسان ہے."
لکین دین ان کے لیے آسان ہے جن کا یقین ہوگا کی دین اللہ سے دنیا اور آخرت میں میں اپنی ضرورت پوری کروانے کا ذریعہ ہے اسباب نہیں ہے. اور جن کا یقین یہ ہوگا کے اسباب اللہ سے اپنی ضرورت پوری کروانے کا ذریعہ ہے ان کے لیے اسباب کے مقابلے دین پر عمل کرنا بہت بڑا بوجھ ہے. مولانا یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ کا قول ہے: "امت کو دین کی محنت یعنی ایمان کی محنت پر ڈالے بغیر امت کو صرف دین سکھانا خود کو ظالم اور امت کو مظلوم بنانا ہے. کیونکہ بغیر یقین کے دین پر اللہ کے وعدے پورے نہیں ھوں گے پھر امت دین کو بوج سمجھ کر چھوڑ دے گی. دین کا یقین جب دل سے نکل جاے گا تو لوگ دین کو ایک رسم اور اسباب کو اللہ سے نفع اٹھانے کے لیے سمجھنے لگیں گے.
جب دین کا یقین دل میں آے گا تو پھر اعمال میں لطف آے گا جس طرح تاجر کو اپنی دکان کے تقاضے پرے کرنے میں لطف آتا ہے.
---------------------------------
اکرام تو اصل اجنبیوں کے ساتھ نکلنے میں ہے؛ اگر پُرانے نئے لوگوں کو لے کر نکلیں تو پُرانوں کی ترقی ہوگی؛ اور نئے لوگوں کی تربیت ہوگی؛ اور یہی تشکیل کا مسنون طریقہ ہے.... وائل ابن حجر کو حوالہ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے؛ جبکہ وائل ابن حجر شہزادے تھے، اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) انتہائی سعلوک اور فقیر آدمی تھے؛ پہنے کے لئے جوتے بھی نہیں تھے اُن کے پاس اتنے فقیر! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشکیل کی ان دونوں کی...... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشکیل کی حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ؛ کہا کھلانا پلانا اور دین سیکھانا تمہارے ذمہ ہے، یہ لے کر چلے تو اُنہوں نے اپنے نخرے دکھلائے، وہ شہزادے، ........ حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے کہا؛ بھئی! میرے پیر جل رہے ہیں دھوپ سے، اپنے ساتھ سوار کرلو، کہا بھئی! نہیں یہ تو مناسب نہیں ہے، کہ ایک فقیر، بادشاہ کے ساتھ بیٹھے، اچھا تو اپنے جوتے دے دو، کہا کہ بھئی یہ بھی مناسب نہیں ہے، لوگ کہیں گے کہ ہے تو فقیر اور پہن رکھے ہیں جوتے بادشاہ کہ، مناسب نہیں......  جب بہت پیر جلے، حضرت معاویہؓ نے صبر کیا کہ بےچارہ نیا آدمی ہے؛ ہمیں ذمہ دار بنادیا جائے تو ہم چاہیں گے کہ جماعت ہمارا اکرم کرے، وہاں حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو امیر بنایا گیا ان کو پہننے کے لئے جوتے بھی نہیں دیے.... اللَّهَ کی شان؛ زمانہ بدلا؛ حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) ہوگئے امیرالمومنین؛ جن کے پاس جوتے نہیں تھے اُنہیں تخت مل گیا امارت کا، اب یہ آے، آکے اجازت چاہی؛ امیرالمومنین! کیا میں اندر آسکتا ہوں ..... امیرالمومنین کیا میں اندر آسکتا ہوں؛ حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا؛اے وائل پہلے یہ بتاؤ، میرا تخت بہتر ہے یا تمہارا گھوڑا بہتر تھا؛ تو حضرت وائل ابن حجر (رضی اللہ عنہ) معذرت کرنے لگے کہ امیرالمومنین؛ معاف کردیجے، ہم شاہی ماحول سے آئے تھے؛ ہم نے آپ کے مقام کو نہیں پہچانا ....... حضرت فرماتے تھے؛ اس اختلاط سے حضرت معاویہؓ کوتو ترقی ہوگی، حضرت وائل ابن حجر کی تربیت ہوگی. کام کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ عوام کے ساتھ نکلیں، یہ اختلاط بہت ضروری ہے، اسی میں اکرام کا مجاہدہ ہے،چونکہ مزاج کی مخالفت سے اکرام کا مجاہدہ بڑھتا ہے. مزاح کی مخالفت؛ مختلف مزاج کے لوگ ہیں....
--------------
سارے کام اللہ کی رضا کے لئے ہوں؛ ادنیٰ ریاء بھی شرک ہے؛ اور مخلصین کو ہی استقامت ہوگی..
ایک شخص نے حضرت سے پوچھا حضرت استقامت کیا ہے؛ حضرت نے فرمایا:بس استقامت یہ ہے کہ تم کام کرتے کرتے کام میں مرجاؤ...
جس طرح اطاعت کی بنیاد پر مرنا اسلام ہے؛ ولا تموتن الاوانتم مسلمون؛ بالکل اسی طرح کام کرتے ہوئے دنیا سے جانا یہ استقامت ہے..
ایک تو ہے اخلاص؛ کہ اللہ کے لئے کریں! اس لئے مخلصین کو ملامت کی پروا نہیں ہوتی؛ کیونکہ مخلصین وہ ہوتے ہیں کہ جو تعریف سے خوش نہیں ہوتے اور تنقید سے ناراض نہیں ہوتے.....
جو تعریف سے خوش ہوجائیں اور تنقید سے ناراض ہوجائیں وہ مخلص نہیں ہوتے...
اس لئے یہ بات ذہن رہے کہ؛ بعض مرتبہ دُشمن تنقید کردیتا ہے اور دوست تعریف کردیتا ہے؛ حالانکہ اُصولی بات یہ ہے کہ دشمن کی تنقید کا اور دوست کی تعریف کا کوئی اعتبار نہیں ہے ...
اس لئے دُشمن کی تنقید سے کبھی پریشان نہیں ہونا چاہئے کہ فلاں نے مجھے یوں کہہ دیا؛ دُشمن تنقید کرے تو متاثر نہیں ہونا چاہئے اور دوست تعریف کرے تو بھی متاثر نہیں ہونا چاہئے....
ہاں اگر دوست تنقید کرے اور دُشمن تعریف کرے تو واقعی دونوں سچے ہیں، کیونکہ دوست ہوکر تنقید کررہا ہے اور دُشمن ہوکر تعریف کررہا ہے ...
از: حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب دامت برکاتہم
(تدوین: ایس اے ساگر)


No comments:

Post a Comment