Wednesday 30 October 2019

ای کوڈ کی شرعی حیثیت Ruling on using foods which contain pork-derived substances and how to deal with them

ای کوڈ کی شرعی حیثیت
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ای کوڈ کے متعینہ نمبرات مثلاً E 471 وغیرہ کے پروڈکٹ میں سور کی چربی ملے ہونے کی باتیں کہی جارہی ہیں، ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس میں اسی کوڈ کے متعلق مذکورہ باتیں انٹرنیٹ کے حوالے سے بیان کی گئیں ہیں، ویڈیو بھی ارسال کی جارہی ہے، آپ سے درخواست ہے کہ شریعت مطھرہ کی روشنی میں اس کا حکم بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی ، ریحان احمد، مالیگاؤں)
الجواب وباللہ التوفيق : 
ارسال کردہ ویڈیو میں اور بعض افراد کی طرف سے ای کوڈ والے پروڈکٹس میں سور کی چربی شامل ہونے کی باتیں کہی جارہی ہیں، جبکہ یہ پروڈکٹس آج کل کثرت سے لوگوں کے استعمال میں ہیں اور بلا شبہ کروڑوں مسلمان بھی روز مرہ کی زندگی میں ان چیزوں کے عادی ہوچکے ہیں، اس لئے ان چیزوں کی حرمت کے بارے میں فتوی دیتے وقت نہایت احتیاط کی ضرورت ہے، کسی انجان اور غیرعالم شخص کی ویڈیو سے یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی کہ جو تحقیق اس ویڈیو میں بیان کی گئی ہے وہ بالکل درست ہے،  بلکہ ایسی چیزیں خود ہی قابلِ تحقیق ہیں اور اگر بالفرض اس ویڈیو میں بیان کی گئی تحقیق کو درست مان بھی لیا جائے، تو یہ امر قابلِ تحقیق رہ جاتا ہے کہ آیا وہ ناپاک اجزاء ان اشیاء میں مل کر اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں یا کیمیکلوں کے ذریعہ ان کی ماہیت تبدیل کر دی گئی ہے، اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ان کی ماہیت بدل چکی ہے، تو ایسی اشیاء کے استعمال میں شرعاً کوئی حرج نہ ہوگا جیسا کہ شراب کا شیرہ اگر سرکہ میں تبدیل ہوجائے، تو سرکہ کا استعمال درست ہوتا ہے، اسی طرح فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر ناپاک تیل سے صابون بنایا جائے، تو اس صابون کا استعمال درست ہے، کیونکہ ماہیت بدل جاتی ہے، اس لئے جب تک مذکورہ اشیاء میں ماہیت کی تبدیلی یا عدم تبدیلی کے متعلق مکمل تحقیق سامنے نہ آجائے، اس وقت تک مذکورہ اشیاء کو حلال ہی کہا جائے گا، ان کی حرمت کا فتوی نہیں دیاجاسکتا ۔ (مستفاد : کفایت المفتی ۲؍۲۷۷ تا ۲۸۴، ایضاح المسالک ۱۴۲، فتاوی قاسمیہ ٢٤/١٠١)
الأصل في الأشیاء الإباحۃ۔ (قواعد الفقہ اشرفي ۵۹)
من شک في إنائہ، أوثوبہ، أوبدنہ أصابتہ نجاسۃ أو لا، فہو طاہر مالم یستیقن، وکذا الآبار، والحیاض، والحباب الموضوعۃ في الطرقات، ویستقي منہا الصغار، والکبار، والمسلمون، والکفار، وکذا ما یتخذہ أہل الشرک، أوالجہلۃ من المسلمین کالسمن، والخبز، والأطعمۃ، والثیاب۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في أبحاث الغسل، زکریا۱/۲۸۳-۲۸۴، کراچي ۱/۱۵۱)
إن النجاسۃ لما استحالت وتبدلت أوصافہا، ومعانیہا خرجت عن کونہا نجاسۃ؛ لأنہا اسم لذات موصوفۃ فتنعدم بانعدام الوصف وصارت کالخمر إذا تخللت۔ (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، الدباغۃ، زکریا ۱/۲۴۳، کراچي۱/۸۵)
ثم اعلم أن العلۃ عند محمدؒ ہي التغیر وانقلاب الحقیقۃ، وإنہ یفتیٰ بہ للبلویٰ کما علم مما مرَّ، ومقتضاہ عدم اختصاص ذلک الحکم بالصابون فیدخل فیہ کل ما کان فیہ تغیر وانقلاب حقیقۃ، وکان فیہ بلویٰ عامۃ۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، زکریا۱/۵۱۹، کراچي۱/۳۱۶)
----------------------------------------------------------------------------
ای کوڈ (E Code) کی شرعی حیثیت
ناپاک چیزوں کی ملاوٹ کا شرعی حکم
آج کل بازار میں بکثرت ایسی چیزیں فروخت ہورہی ہیں، جن کے بارے میں مشہور کردیاگیا ہے کہ ان میں خنزیر کی چربی کی ملاوٹ ہے، جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں کہ آیا ایسی چیزوں کا استعمال شرعاً جائز ہے یا نہیں، اگر ناجائز ہے تو پھراس سے بچنے کی کیا شکل اور کیا تدبیر ہے، خاص کر ایسے وقت میں جب کہ ایسی چیزیں دھڑا دھڑ فروخت ہورہی ہیں اور ہر جگہ دستیاب ہیں اور لوگ ان کے استعمال کے عادی ہوگئے ہیں، تو پھر ان سے کیونکر بچا جاسکتا ہے۔
یہ وہ سوال ہے جس کو اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ خوب مشہور کیاگیا، لیکن طرفہ تماشہ اور عجوبہ ہے کہ اخبارات و رسائل اور پمفلٹ وغیرہ کے ذریعہ اسے خوب اچھالا اور پھیلایا جارہا ہے، لیکن کوئی بندئہ خدا یہ زحمت گوارا کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے کہ علماء کی طرف رجوع کرتا اور صورت حال کی وضاحت کرکے اس مسئلہ کی شرعی تحقیق معلوم کرکے پہلے اپنا اطمینان کرلیتا، پھر علماء کے مشورہ سے اسے شائع کرتا اور پھیلاتا۔
نئے درپیش مسائل اور شریعت کی تعلیم:
شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ معاشرے میں جب اس قسم کی کوئی نئی صورت پیش آئے تو آدمی پر تین باتیں فرض ہیں:
پہلا فرض: یہ کہ جو افواہ یا اڑتی ہوئی خبر پہنچی ہے، اس کی تحقیق کرکے ٹھوس ثبوت فراہم کرے، محض سنی سنائی یا کہیں سے بے تحقیق پھیلائی گئی بات پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینا شریعت کے بھی خلاف ہے اور عقلمندی اور شائستگی کا بھی شیوہ نہیں ہے، قرآن مجید کا ارشاد ہے: ﴿یٰآیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْ اِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبا فَتَبَیَّنُوْا أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَة فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ﴾ (ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی غیرمعتبر شخص کوئی خبر لیکر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو ایسا نہ ہوکہ تم نادانی کی وجہ سے کسی قوم کو ضرر پہنچادو پھر اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے) یہاں صورت حال یہ ہے کہ یہ معاملہ اب تک پایہٴ ثبوت تک نہیں پہنچا، خود اخبارات و رسائل میں شائع کرنے والوں کو اس کا پتہ نہیں، کہ یہ ملاوٹ کہاں اور کن کمپنیوں میں ہورہی ہے، اور کس نے اس کی تحقیق کی ہے، حتی کہ اخبارات میں اس قسم کے مضامین کی اشاعت کی وجہ سے ماحول میں بے چینی پیدا ہوئی تو شہر کے بعض ذمہ دار علماء نے ماہرین سے رجوع کرکے اس سلسلہ میں تحقیق کی تو انھوں نے دوباتوں کی وضاحت کی، ایک یہ کہ ملک میں کسی کمپنی میں یہ ملاوٹ ہرگز نہیں ہورہی ہے، دوسرے یہ کہ بیرونی ملکوں میں بھی یا بیرونی کمپنیوں کی طرف بھی یہ انتساب بلاسند و ثبوت ہے، جس کی ہمیں تحقیق نہیں۔
دوسرا فرض: شریعت کی دوسری تعلیم یہ ہے کہ ایسے درپیش مسائل میں علماء سے استصواب کئے بغیر اپنی طرف سے مسئلہ بتانا اور پھر اسے لوگوں میں پھیلاکر خواہ مخواہ ماحول میں تشویش اور بے چینی پھیلانا ناجائز ہے، قرآن مجید کا حکم ہے ﴿فَاسْئَلُوْا أَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ﴾ (ترجمہ: تم اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے) (سورة النحل:۴۳)
دوسری آیت ﴿وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلی الرَّسُوْلِ وَاِلی أُولِي الْأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْہُمْ﴾ (ترجمہ: اوراگر اسی خبر کو پہنچادیتے رسول اللہ … کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو ان میں سے فہم رکھنے والے ہیں، تو ان میں جو ایسے حضرات ہیں جو اس سے استخراج کرلیتے ہیں، وہ اس کو جان لیتے ہیں) (سورة النساء:۸۳)
          تیسرا فرض: اسلام کی تیسری تعلیم یہ ہے کہ مسلمان کے سامنے جب شرعی حکم واضح ہوجائے تو اپنی رائے اور عندیہ کو کالعدم سمجھتے ہوئے شرعی حکم کو برضا ورغبت اور بے چوں و چرا تسلیم کرلے ﴿ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِي أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (ترجمہ: پھر اپنے دلوں میں کسی بھی طرح کی تنگی محسوس نہ کریں اور پورا پورا تسلیم کرلیں) (سورة النساء: ۶۵) بہرحال مذکورہ صورت حال کو جب خوب مشتہرکیا گیا تو اس کی وجہ سے فضا میں بے چینی اور خلجان پیدا ہونا اور ماحول میں تشویش پھیلنا ایک فطری بات ہے، لہٰذا اس تشویش کو ختم کرنے اور صورت حال کو سمجھنے کی اور اس کے شرعی حکم کی تحقیق کی سخت ضرورت محسوس کی جارہی تھی، اسی احساس کا نتیجہ یہ ایک بے ربط اور مختصر سا مضمون ہے۔
مذکورہ اشیاء کی چار صورتیں ہیں:
ملاوٹ کی پہلی صورت:
(۱) یہ ہے کہ کسی چیز کے بارے میں تحقیق سے ثابت ہو کہ اس میں خنزیر کی چربی ملی ہوئی ہے اور پھر اسے پاک کرنے کے باوجود چربی کے آثار یا اوصاف یا شکل و صورت اور مزے کا شائبہ باقی ہو۔
اس صورت کا حکم بالکل واضح ہے کہ خنزیر بہ جمیع اجزاء ناپاک اور حرام ہے، اس لئے اسے پاک کرنے کی خواہ جتنی شکلوں کو استعمال کیا جائے یا جتنے مراحل سے اسے گذارا جائے، اگر چربی اپنی شکل اور اوصاف کے ساتھ رہ جائے تو ظاہر ہے کہ اس کے حرام اور ناپاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اس لئے کہ کسی چیز کو پاک کرنے اور دھونے یا اس طرح فلٹر کرنے سے کہ اس کے اوصاف اور حقیقت باقی رہ جائے، ماہیت میں کوئی تبدیلی نہ آئے، حکم میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی وہ ناپاک چربی ہی ہے اور حرام ہے، مثال کے طورپر منتخبات نظام الفتاویٰ میں درج ہے۔
مفتی نظام الدین صاحب کا فتویٰ
(سوال) بعض مقامات پر پیشاب کو پکاکر اس کی شوریت کو نکال کر نمک بنادیا جاتا ہے، شرعی نقطئہ نظر سے اس کا استعمال درست ہے یا نہیں:
(جواب) پیشاب شوریت وغیرشوریت بہ جمیع اجزاء نجس لعینہ اور غیرمباح الشرب والاکل ہے، اس لئے شوریت نکال دینے کے بعد بھی بقیہ اجزاء ناپاک و نجس ہی باقی رہیں گے اور ان کا استعمال ناجائز ہی رہے گا۔
مولانا خالد سیف اللہ صاحب کا فتویٰ:
جدید فقہی مسائل میں (ص:۳۹) مولانا خالد سیف اللہ رقم فرماتے ہیں: پیشاب فلٹر کرنے کی وجہ سے غالباً اپنی حقیقت نہیں کھوتا، بلکہ محض اس کے بدبودار اجزاء نکال لئے جاتے ہیں، اس لئے وہ ناپاک ہی رہیں گے، ان کا پینا وضو غسل وغیرہ کیلئے استعمال کرنا جائز نہ ہوگا اور وہ جسم کے جس حصہ پر لگایا جائے، اسے ناپاک ہی سمجھا جائے گا، مذکورہ عبارتوں سے یہ نتیجہ خود بخود نکل آتا ہے کہ مذکورہ اشیاء میں اگر خنزیر یا دیگر حرام گوشت کی چربی کی آمیزش واضح ہوتو پھر اسے جتنا بھی فلٹر اور صاف کیا جائے نجس اورحرام ہی رہے گا۔
ملاوٹ کی دوسری شکل:
(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ خنزیر یا کسی حرام چربی کی آمیزش اور ملاوٹ تو ثابت ہو، لیکن اسے اس طرح مختلف مراحل سے گذارا جائے کہ اب یہ نہ چربی معلوم ہوتی ہے، نہ اس کا مزہ، نہ اس کی شکل وصورت، بلکہ اس کی حقیقت، رنگ و روپ، سب بدل جائے اور وہ کچھ اور ہی نظر آئے تو اس کے بارے میں تقریباً تمام فقہاء کا یہی مذہب ہے کہ اس پر حکم لگاتے ہوئے موجودہ صورت کو دیکھا جائیگا، سابقہ صورت پر ہرگز حکم نہیں لگایا جائیگا۔ اسے فقہاء کی اصطلاح میں انقلاب ماہیت اور انقلاب عین اور استحالہ کہتے ہیں، کہ ایک چیز اپنی حقیقت کھودے اور دوسری حقیقت اپنالے۔ بظاہر یہ تعجب خیز بات ہے کہ ایک چیز کے بارے میں اس کی سابقہ حقیقت کے معلوم ہوتے ہوئے کہ وہ ناپاک اورنجس تھی اوراسے صرف نظر کرتے ہوئے موجودہ صورت کو دیکھتے ہوئے اس پر طاہر اور پاک ہونے کا حکم لگایا جائے، بظاہر نفاست مزاج اور عقل کے خلاف معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فقہاء کی یہ تحقیق کائنات کے فطری اصول اور غامض حکمتوں اور مصلحتوں پر اور انسانوں کی سہولت اور خیرخواہی پر مبنی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ دنیا دارالانقلاب ہے، یہاں کی کوئی چیز ہمیشہ ایک حال پر قائم نہیں رہتی مشہور اور مسلم جزئیہ ہے کہ ”العالم متغیر“ دنیا کی ہر چیز تغیرپذیر ہے، ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف بدلتی رہتی ہے، شاعر مشرق فرماتے ہیں: 
”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانہ میں“              
اس لیے پاک چیز جب ناپاک ہوجاتی ہے“
مثلاً پاک صاف اور شفاف پانی اور شربت پیشاب بن جاتا ہے اور بہترین خوشبودار اور لذیذ اور مزیدار کھانا فضلہ اور نجاست بن جاتا ہے، تو کون عقلمندگوارا کرے گا کہ پیشاب پاخانہ کو محض اس لئے پاک صاف کہہ دے کہ یہ بہترین شربت اور مزیدار کھانا تھا، اسی طرح بسا اوقات ناپاک چیز بدلتے بدلتے پاک صاف حالت اختیار کرلیتی ہے۔
ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی وضاحت:
علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اس پر بڑی تفصیل سے بحث فرمائی ہے کہ زمین پر پیشاب، پاخانہ، لید وغیرہ نجاستیں پڑتی رہتی ہیں اور زمین ناپاک ہوجاتی ہے، لیکن دھوپ اورہوا اور دوسری چیزیں ان نجاستوں کو مٹاکر پھر خالص مٹی بنادیتی ہیں تو اس پر نماز پڑھنا سب جائز ہوجاتا ہے، کیونکہ نجاست کی حقیقت اب مٹ گئی اور اب وہاں صرف مٹی رہ گئی ہے (وأما طین الشوارع فمبني علی أصل وہو أن الارض اذا أصابتہا نجاسة ثم ذہبت بالریح أو الشمس أو نحو ذلک ہل تطہر الأرض علی قولین أحدہما أنہا تطہر وہو مذہب أبي حنفیة وغیرہ وأما استحالة النجاسة کرماد السرجین النجس والزبل النجس یستحیل تراباً ففي ہذہ المسئلة قولان أحدہما أن ذلک طاہر وہو قول أبي حنفیة وأہل الظاہر وہو الصحیح الراجح)
اسی طرح ندیوں اور سمندروں میں ہزاروں آدمیوں اور جانوروں کی غلاظتیں اکٹھی ہوتی رہتی ہیں، لیکن پانی میں مل کر اپنی حقیقت کھودیتی ہیں اور خالص پانی بن جاتی ہیں، رنگ بو مزہ کچھ بھی نہیں رہتا تو ہر آدمی بے جھجک ایسے پانی کا استعمال کرتا اور کسی طرح کی قباحت یا کراہت محسوس نہیں کرتا، اسی طرح فرماتے ہیں:
”وتنازعوا فیما اذا صارت النجاسة ملحا في الملاحة أو صارت رماداً أوصارت المیتة والدم والصدید تراباً کتراب المقبرة فہذا فیہ قولان في مذہب مالک وأحمد․ أحدہما أن ذلک طاہر کمذہب أبي حنیفة وأہل الظاہر․ والثانی أنہ نجس کمذہب الشافعی․
والصواب أن ذلک کلہ طاہر اذا لم یبق شیء من أثر النجاسة لا طعمہا ولا ریحہا ولا لونہا لأن اللّٰہ أباح الطیبات وحرم الخبائث وذلک یتبع صفات الأعیان وحقائقہا فاذا کانت العین ملحاً أو خلا دخلت في الطیبات التی أباحہا اللّٰہ تعالیٰ ولم تدخل في الخبائث التی حرمہا اللّٰہ وکذلک التراب والرماد وغیر ذلک لایدخل فی نصوص التحریم واذا لم یتناولہا أدلة التحریم لا لفظا ولا معنی لم یجز القول بتنجسہ وتحریمہ فیکون طاہرًا“ (ص:۴۸۱-۴۸۲)
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ جب نجاست نمک کی کان میں گرکر نمک بن جائے یا جل کر راکھ ہوجائے یا یہ کہ مردہ اور خون پیپ وغیرہ مٹی میں مل کر مٹی بن جائے، جیسے کہ قبر کی مٹی میں ہوتا ہے تو اس صورت میں دو قول ہیں، امام مالک اور امام احمد کے قول میں ایک یہ کہ یہ سب کی سب چیزیں پاک ہوجائیں گی، یہی امام ابوحنیفہ اور اہل ظاہر کا مذہب ہے۔
دوسرا قول یہ کہ یہ سب چیزیں ناپاک ہیں، جیسے کہ امام شافعی کا ارشاد ہے، لیکن صحیح اور درست بات یہی ہے کہ یہ سب چیزیں پاک شمار ہوں گی، جب کہ ان میں سابقہ نجاست کاکوئی نشان اور اثر باقی نہ رہ جائے نہ رنگ ہو نہ بو نہ مزہ۔
جواز کی وجہ اور دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیا اور پاک ہونا نہ ہونا چیز کی حقیقت اور اس کی ذات کے تابع ہوتا ہے اور یہ چیز (جو پہلے نجاست تھی) اب نمک کی حقیقت اور نمک کی ذات بن گئی، پہلے شراب تھی تو اب اس نے سرکہ کی صفت اور حقیقت کو اپنا لیا تو پاکیزہ چیزوں میں داخل ہوگئی، جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے، ان ناپاک اور گندی چیزوں میں شامل نہیں رہی، جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، اسی طرح مٹی اور راکھ وغیرہ اشیاء تحریم کی نصوص میں داخل نہیں ہوتی، نہ حرام چیزوں کالفظ ان پر بولاجاتاہے نہ ان کی حقیقت ان پر صادق آتی ہے تو پھر ان کو ناپاک اور حرام قرار دینے کاکوئی معنی اورمطلب نہیں ہوتا، اس لئے لامحالہ یہ پاک اور حلال ہوں گی۔
ایک جگہ فرماتے ہیں: وذلک أن اللّٰہ حرم الخبائث التي ہي الدم والمیتة ولحم الخنزیر ونحو ذلک فاذا وقعت ہذہ في الماء أو غیرہ واستہلکت لم یبق ہناک دم ولا میتة ولا لحم خنزیر أصلاً کما أن الخمر اذا استہلکت في المائع لم یکن الشارب لہا شاربًا للخمر والخمرة اذا استحالت بنفسہا وصارت خلاً کانت طاہرة باتفاق العلماء وہذا علی قول من یقول ان النجاسة اذا استحالت طہرت أقوی کما ہو مذہب أبي حنفیة وأل الظاہر وأحد القولین في مذہب مالک وأحمد فان انقلاب النجاسة ملحا ورمادا ونحو ذلک ہو کانقلابہا ماء فلافرق بین أن تستحیل رماداً أو ملحاً أو تراباً أو ماءً أو ہواء ونحو ذلک واللّٰہ تعالیٰ قد أباح لنا الطیبات، وہذہ الأدہان والألبان والأشربة الحلوة والحامضہ وغیرہا من الطیبات والخبیثة قد استہلکت واستحالت فیہا فکیف یحرم الطیب الذی أباحہ اللّٰہ تعالیٰ، ومن الذي قال انہ اذا خالطہ الخبیث واستہلک فیہ واستحال قد حرم؟ ولیس علی ذلک دلیل لا من کتاب ولا من سنة ولا اجماع ولا قیاس․
پھر آگے فرماتے ہیں: فالحکم اذا ثبت بعلة زال بزوالہا کالخمر لما کان الموجب لتحریمہا ونجاستہا ہي شدة المطربة فاذا زالت بفعل اللّٰہ تعالیٰ طہرت․ (ص:۵۰۱-۵۰۲)
ترجمہ: (نجس چیزیں اپنی حقیقت بدلنے کے بعد پاک ہوجانے کا حکم لگانا) یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گندی چیزوں کو حرام قرار دیا، جیسے خون، مردار، سور کا گوشت وغیرہ۔ جب یہ چیزیں پانی میں یا دوسری پاک چیزوں میں مل کر اپنی شناخت ختم کردیں اور جس چیز میں ملی ہیں، اس کی حقیقت میں مل جائیں، تو اب نہ خون ہے، نہ مردار، نہ خنزیر کا گوشت، کچھ بھی نہ رہا صرف پانی یا وہ پاک چیز رہ گئی جس میں یہ ضم ہوگئی ہیں، جیسے کہ شراب جب سرکہ وغیرہ میں گرنے کے بعد سرکہ یا شربت وغیرہ بن گئی تواس کے پینے والے کو شراب پینے والا نہیں کہا جائے گا؛ بلکہ سرکہ یا شربت پینے والا ہی کہا جائے گا، یہ سب ان حضرات کے قول کے اعتبار سے ہے جو کہتے ہیں کہ نجاست جب اپنی شکل و صورت بدل دے تو پاک ہوجاتی ہے، جیسے کہ امام ابوحنیفہ اہل ظاہر اورامام مالک اور امام احمد کی ایک روایت ہے، اس لئے کہ نجاست کا نمک بن جانا یا جل کر راکھ ہوجانا، ایسے ہی ہے، جیسے یہی نجاستیں پانی میں مل کر پانی بن جائیں، پس راکھ ہونے نمک ہونے میں اور پانی یا ہوا بن جانے میں کوئی فرق نہیں۔ (سب میں استہلاک اور استحالہ ہی پایاجارہاہے)
اور یہ تیل دودھ میٹھے یا کھٹے مشروبات (جن میں مل کر نجاستیں اپنی حقیقتیں ختم کرلیتی ہیں اور تیل اور دودھ شربت وغیرہ پاک چیزوں کی شکل اپنالیتی ہیں) بلاشبہ یہ پاک چیزیں ہیں، ان کے اندر جو ناپاک چیزیں ملی تھیں وہ ختم ہوگئیں، اب صرف دودھ ہی رہ گیا تو کوئی شخص کیسے دودھ نمک اور مشروبات کو حرام کہنے کی جسارت کرسکتا ہے، جن کو اللہ نے پاک اور حلال قرار دیا ہے۔
رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ پاک چیز میں جب ناپاک کی ملاوٹ ہوجائے تو اگرچہ کہ وہ ناپاک چیز آگے اپنی شکل بدل دے اور اسی پاک چیز میں مدغم ہوجائے، تب بھی اس ناپاک کی ملاوٹ کی وجہ سے پاک چیز بھی ناجائز ہوجائے گی، یہ ایسی بودی اورناقابل التفات بات ہے، جو نہ قرآن سے، نہ حدیث سے، نہ اجماع امت سے اور نہ ہی قیاس سے یا دلائل شرعیہ سے ثابت ہے، اس کی کسی طرح کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں، اس لئے یہ بے بنیاد بات ہے، پھر آگے فرماتے ہیں کہ جب کوئی حکم کسی علت اور بنیاد پر مبنی اور موقوف ہوتا ہے تو جب تک وہ بنیاد ہے، اس پر حکم باقی رہے گا، جب وہ بنیاد ختم ہوجائے تو وہ حکم بھی ختم ہوجائے گا، جیساکہ شراب جب سرکہ بن جائے تو حرمت کی بنیاد شراب ہونے پر تھی جب شراب ہی نہ رہی صرف سرکہ رہ گیا تو وہ حرمت کا حکم بھی ختم ہوگیا اور وہ پاک چیز شمار ہوگئی۔
غنیة المستملی کی توضیح:
فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں میں اس پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے، علامہ ابن امیر الحاج غنیة المستملی شرح منیة المصلی (ص:۱۶۵) باب الآثار میں فرماتے ہیں: ولو أحرقت العذرة أو الروث فصار کل منہما رمادا أو مات الحمار فی الملحة وکذا ان وقع فیہا بعد موتہ وکذا الکلب أو الخنزیر لو وقع فیہا فصار ملحاً أو وقع الروث ونحوہ فی البئر فصار حمأة زالت النجاسة وطہر عند محمدؒ خلافا لأبی یوسفؒ فان عندہ الحرق لا یطہر العین النجسة بل یبقی الرماد نجساً لأنہ أجزاء تلک النجاسة فتبقی النجاسة من وجہ فلحقت بالنجس من کل وجہ احتیاطاً واختار صاحب الہدایة فی التجنیس قول أبي یوسفؒ وأکثر المشائخ اختاروا قول محمد وعلیہ الفتویٰ لأن الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وقد زالت بالکلیة فان الملح غیر العظم واللحم فاذا صارت الحقیقة ملحا ترتب علیہ حکم الملح وکذا الرماد حتی لو أکل الملح أو صلی علی ذلک الرماد - جاز نظیرہ : النطفة نجسة فتصیر علقة وہی نجسة وتصیر مضغة فتطہر وکذا الخمر تصیر خلاً فعلم أن استحالة العین تتبع زوال الوصف المرتب علیہا وعلی قول محمد فرّعوا طہارةَ صابون صُنع من دہن نجس وعلیہ یتفرَّع ما لو وقع انسان أو کلب فی قدر الصابون فصار صابونا یکون طاہرًا لتبدل الحقیقة)
(ترجمہ: اگر نجاست کو یا گوبر کو جلایا جائے پس وہ دونوں راکھ بن جائیں یا گدھا نمک کی کان میں گرکر نمک بن جائے یا مرکر اس میں پڑجائے، اسی طرح کتا اور سور اس میں گرجائیں اور نمک بن جائیں یا گوبر یا اسی طرح کی کوئی نجس چیز کنویں میں پڑجائے اور کیچڑ بن جائے تو نجاست کا حکم ختم ہوجائے گا اور وہ پاک ہوجائے گی امام محمد کے نزدیک، برخلاف امام ابویوسف کے، کیونکہ ان کے نزدیک جلاناناپاک چیز کو پاک نہیں بناتا، بلکہ وہ راکھ ناپاک ہی رہے گی، اس لئے کہ یہ اسی نجاست کے اجزاء ہیں، تو نجاست ایک طرح سے باقی رہ جائے گی تو احتیاطا اس کے نجس ہونے کا حکم لگایا جائے گا، صاحب ہدایہ نے تجنیس میں امام ابویوسف ہی کے قول کو اپنایا ہے اوراکثر مشائخ نے امام محمد کے قول کو اختیار کیا ہے اوراسی پر فتویٰ بھی ہے، اس لئے کہ شریعت نے نجاست کے وصف پر ناپاک ہونے کا حکم لگایا تھا اور وہ وصف بالکلیہ زائل ہوچکا ہے، اور دوسری حقیقت اور دوسرا روپ اپنا چکا ہے، اس لئے کہ نمک ہڈی یا گوشت نہیں ہوتا، پس جب اس چیز کی حقیقت ہی نمک یا راکھ ہوگئی تو اس پر نمک اور راکھ کا ہی حکم لگے گا، حتی کہ اگر کوئی یہ نمک کھالے، یا اس راکھ پر نماز پڑھے تو جائز ہوجائیگا، اس کی مثال نطفہ کی سی ہے کہ نطفہ نجس ہے اور پھر وہ خون کا ڈلا بن جاتا ہے تو وہ بھی نجس ہوتا ہے اورپھر گوشت بن جاتا ہے تو پاک ہوجاتا ہے، اسی طرح شراب سرکہ بن جاتی ہے، پس معلوم ہوا کہ ایک چیز کا بدل جانا اس وصف کے چلے جانے یا ختم ہوجانے کے تابع ہوتا ہے، جس وصف پر نجاست کا حکم تھا اور امام محمد ہی کے قول پر فقہاء نے اس صابون کے پاک ہونے کا مسئلہ نکالا، جو ناپاک تیل سے بنایاگیا ہے اوراسی پر یہ صورت بھی متفرع ہوتی ہے کہ اگر انسان یا کتا صابون کی دیگ میں گرجائے، پھر صابون بن جائے تو پاک ہوجائے گا حقیقت کے بدل جانے کی وجہ سے (کہ وہاں اب کوئی آدمی یا کتا نہیں رہا صرف صابون رہ گیا ہے)
علامہ شامی نے اسی عبارت کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش فرماکر ناپاک تیل سے بنے صابون کی طہارت پر استدلال کیاہے اور یہ نتیجہ اخذ فرمایا ہے: فعرفنا أن استحالة العین تتبع زوال الوصف المرتب علیہا․
چیز کا بدلنا اس وصف کے ختم ہوجانے کے تابع ہے، جس صفت پر نجاست کاحکم مرتب ہوتا ہو، اس صفت کے ختم ہوجانے سے گویا اصل چیز بدل گئی اور موجودہ صورت حال کا حکم لگے گا، (فتاویٰ عالمگیری:۱/۴۴) پر مرقوم ہے: تخلل الخمر في خابیة جدیدة طہرت بالاتفاق․ آگے (۴۵) پر مرقوم ہے: الحمار أو الخنزیر اذا وقع في الملحة فصار ملحاً أو بیر بالوعة اذا صار طینا یطہر عندہما خلافا لأبی یوسف، نیز آگے ہے:
جعل الدہن النجس فی الصابون یفتی بطہارتہ لأنہ تغیر (ترجمہ: شراب نئے مٹکے میں آکر سرکہ بن جائے تو بالاتفاق پاک ہے، گدھا یا سور نمک کی کان میں گرکر نمک بن جائے یا کیچڑ کے کنویں میں پڑکر کیچڑ بن جائے تو امام اعظم اورامام محمد رحمة اللہ علیہ کے نزدیک پاک ہوجائیں گے، برخلاف امام ابویوسف رحمة اللہ علیہ کے، آگے فرماتے ہیں ناپاک تیل صابون میں مل کر صابون بن جائے تو اس کے پاک ہونے کا فتویٰ دیا جائے گا، اس لئے کہ اس میں انقلاب اور تبدیلی ظاہر ہوگئی۔
اس مسئلہ کے سمجھنے کے لئے ماضی میں پیش آمدہ ایک مسئلہ سے مدد ملے گی وہ یہ کہ اسی طرح مغربی ممالک سے صابون کے بارے میں یہی افواہ مشہور ہوئی (اور اب بھی مشہور ہے) کہ وہاں صابون میں خنزیر کی چربی ملائی جاتی ہے۔
مولانا لدھیانوی کی رائے
(سوال) مردار اور حرام جانوروں کی چربی کے صابون سے طہارت ہوتی ہے اور نمازیں درست ہوتی ہیں یا نہیں؟
(جواب) ناپاک چربی کا استعمال جائز نہیں تاہم ایسے صابون کا استعمال کرنا جس میں یہ چربی ڈالی گئی ہو جائز ہے، کیونکہ صابون بن جانے کے بعد اس کی ماہیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ (ملاحظہ ہو آپ کے مسائل اوران کا حل: ۲/۷۱)
عزیز الفتاویٰ کا فتویٰ:
(سوال) صابون شحم نجس (ناپاک چربی) سے بنایاہوا پاک ہے ازروئے کتاب وجہ اس کی تبدیل ماہیت بیان کی جاتی ہے؟
(جواب) یہ تو کتب فقہ میں مصرح ہے کہ علت طہارت صابون میں تغیر انقلاب عین ہے، جس جگہ یہ علت پائی جائے گی حکم طہارت دیا جائے گا۔ (دارالعلوم دیوبند کے مفتی اوّل کے فتاویٰ، عزیز الفتاویٰ مرتبہ مفتی محمد شفیع ملاحظہ ہو: ۱/۱۹۰)
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ:
(سوال) صابون شحم نجس سے بنایا ہوا پاک ہے ازروئے کتاب وجہ اس کی تبدیل ماہیت بیان کی جاتی ہے؟
(جواب) یہ تو کتب فقہ میں تصریح ہے کہ علت طہارت صابون میں تغیر انقلاب عین ہے، جس جگہ یہ علت پائی جائے گی حکم طہارت دیا جائے گا، یوں تو ہر ایک مرکب میں خاصیت اور اثر پیدا ہوتا ہے،اس کو انقلاب عین نہ کہا جائے گا۔ (فتاویٰ دارالعلوم:۱/۳۰۲)
پھر آگے (۱/۳۰۵) پر فرماتے ہیں:
(سوال) بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ ناپاک تیل کا اگر صابون بنایا جائے تو پاک ہے؟
(جواب) یہ مسئلہ درمختار میں جس میں بایں عبارت مذکور ہے: ویطہر زیت تنجس صابونًا اور وجہ اسکی انقلاب عین (ماہیت) ہے شامی میں اس قول کے تحت مذکور ہے: وعلیہ یتفرع ما لو وقع انسان أو کلب في قدر الصابون فصار صابونا یکون طاہرا لتبدل الحقیقة․
یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ خنزیر کی حرمت دوسری حرام چیزوں کے بالمقابل اشد ہے، اس کے جواب میں فتاویٰ محمودیہ میں مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خنزیر اورمردار دونوں کے گوشت کی حرمت برابر ہے (قل لا أجد فیما أوحی الی) سے دونوں کی حرمت نص قطعی سے بلکہ ایک ہی آیت سے ثابت ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ: ۶/۳۷۱)
حضرت مفتی نظام الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ:
(سوال) مغربی ممالک سے جو صابون آتے ہیں ان کے متعلق سننے میں آتا ہے کہ ان میں ناپاک اجزاء اور خنزیر کی چربی کا استعمال ہوتا ہے اس طرح کے صابون سے کپڑے صاف کرنا کیسا ہے اور کپڑے پاک رہیں گے یا ناپاک؟
(جواب) مغربی ممالک سے آئے ہوئے صابون میں جب تک حرام چربی یا سور کی چربی کا ملا ہوا ہونا دلائل شرعیہ سے ثابت اور یقینی نہ ہوجائے اس وقت تک ان کے استعمال کو ناجائز نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اصل اشیاء میں حلت اوراباحت ہے، البتہ اس کے استعمال سے ان حالات میں اجتناب کرنا تقویٰ اوراحتیاط کہا جاسکتا ہے۔ جعل الدہن النجس فی صابون یفتی بطہارتہ لانہ تغیر والتغیر یطہر عند محمد ویفتی بہ لعموم البلوی․ (نظام الفتاویٰ: ۱/۲۴)
حضرت مولانا خالد سیف اللہ کی تحقیق:
مولانا نے اس پر واضح روشنی ڈالی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک چیز ہے کسی شئے کی ماہیت اور حقیقت کو تبدیل کردینا اور دوسری اس کا تجزیہ کرنا اگر کسی چیز کی حقیقت ہی یکسربدل دی جائے تواس کے احکام بھی بدل جائیں گے اور اگر محض اس کے بعض اجزاء اسی طرح الگ کرلئے جائیں تو اس کی وجہ سے اس کے احکام نہیں بدلیں گے، مثلاً پاخانہ جلاکر راکھ کردیا جائے تو اب وہ راکھ ناپاک شمار نہ ہوگی، شراب میں نمک ڈال کر سرکہ بنادیا جائے تو اس کی حرمت اور ناپاکی ختم ہوجائے گی۔
مغربی ممالک سے جو صابون آتے ہیں ان کے بارے میں کبھی کبھی اس قسم کی اطلاعات بھی سننے کو ملتی ہیں کہ ان میں ناپاک اجزاء سور کی چربی وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے، اول تو یہ یقینی اور معتبر اطلاع نہیں ہوتی محض ظن وگمان کے درجہ کی چیز ہوتی ہے اور شریعت اس قسم کے اندیشہ ہائے دراز کو پسند نہیں کرتی۔
دوسرے فقہاء نے اسکو دو وجوہ سے پاک قرار دیا ہے ایک یہ کہ ایسے ناپاک اجزاء صابون میں مل کر اپنی حقیقت کھودیتے ہیں اور کوئی ناپاک شئے جب اس حدتک بدل جائے کہ اپنی اصل حقیقت ہی کھودے تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں، مثلاً منی ناپاک ہے وہ خون بن جائے تو بھی ناپاک ہے، اس کے بعد جب گوشت بن جائے تو اب پاک ہے کہ حقیقت بدل چکی ہے، مشک ناپاک خون ہے، لیکن جب مشک بن گیا تو پاک ہے، غیرماکول اللحم جانوروں کی ہڈیاں بھی حرام ہیں، مگر جب ان کا نمک بنادیا گیا تو اب حلال ہیں۔
دوسرے اس کے استعمال کی اس قدر کثرت ہے کہ اس سے احتراز دشوار ہے، ایسی چیز کو فقہاء کی اصطلاح میں عموم بلوی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے حکم میں ایک گنا نرمی پیدا ہوجاتی ہے، اس کا تقاضا بھی ہے کہ ایسے صابونوں کا استعمال جائز اور درست ہو، علامہ شامی کا بیان ہے الخ (جدید فقہی مسائل: ۱/۱۰۸-۱۱۵)                                          
-------------------------------------------------------------------------------
دوسری قسط
ای کوڈ (E. Code) کی شرعی حیثیت
ناپاک چیزوں کی ملاوٹ کا شرعی حکم

فقیہ العصر مولانا تقی عثمانی کی توضیح:
            الکوہل سے بنی ہوئی دواؤں کے بارے میں فرماتے ہیں: وحیث عمت البلوی فی ہذہ الأدویة فینبغي أن یوخذ فی ہذا الباب کمذہب الحنفیة أو الشافعی واللّٰہ اعلم․ ثم ہناک جہة أخری ینبغی أن یسأل عنہا خبراء الکیمیائی وہو أن ہذہ الکحول بعد ترکیبہا بأدویة أخری ہل تبقی علی حقیقتہا؟ أو تستحیل حقیقتہا وماہیتہا بعملیات کیمیاویة فان کانت ماہیتہا تستحیل بہذہ العملیات بحیث لا تبقی الکحل وانما تصیر شیئاً آخر فیظہر أن عند ذلک یجوز تناولہ باتفاق الأئمة لأن الخمر اذا صارت خلاً جاز تناولہا فی قولہم جمیعاً لاستحالة الحقیقة․
            (جب الکحل سے بنی ہوئی دواؤں کا استعمال عام ہوگیا اوراس قسم کی دوائیں تمام لوگوں کی ضرورت میں داخل ہوگئیں تو عموم بلوی والی فقہاء کی اصطلاح کے اعتبار سے بھی جائز ہوگا، پھر ایک اور رخ سے بھی مسئلہ پر بحث ہوسکتی ہے، جس سے کیمیاء کیمسٹری کے ماہروں سے دریافت کیا جاسکتا ہے ، وہ یہ کہ الکحل کو دوسری دواؤں سے ملانے کے بعد کیا وہ الکحل اپنی اصل شکل میں رہ جاتا ہے یا اس کی شکل اور حقیقت مختلف کیمیائی مراحل اور ادوار سے گذارنے کے بعد وہ شکل و حقیقت اس طرح بدل جاتی ہے کہ الکحل کچھ بھی نہ رہے، پس صرف دوسری چیز وہ دوائیاں (الکحل جس سے بدل گئی ہیں) رہ گئی ہیں اور ظاہر ہے کہ الکحل جب اپنی حقیقت کھودیااور صرف دوائیاں رہ گئیں تو تمام ائمہ کے نزدیک اس کا استعمال جائز ہے، جیسا کہ شراب جب سرکہ بن جائے تو تبدیلیٴ ماہیت کی وجہ سے بالاتفاق جائز ہے، پھر آگے خنزیر کے اجزاء سے بنے جلاٹین سے بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان کان العنصر المستخلص من الخنزیر تستحیل ماہیتہ بعملیة کیمیاویة بحیث تنقلب حقیقتہ تماماً․ زالت حرمتہ ونجاستہ وان لم تنقلب حقیقتہ بقی علی حرمتہ ونجاستہ لأن انقلاب الحقیقة موثر فی زوال الطہارة والحرمة عند الحنفیة ․
            اگر خنزیر کے اجزاء سے بنا ہوا عنصر کیمیاوی تجزیہ سے اپنی پوری حقیقت بدل دے اور دوسری شکل اختیار کرلے تواس کی حرمت اور نجاست کا حکم بھی ختم ہوجائے گا اور اس کی اصلی شکل اور حقیقت باقی رہ جائے تو نجاست و حرمت کا حکم بھی باقی رہ جائیگا، اسلئے کہ طہارت و حرمت کے حکم کے بدل جانے میں حقیقت کا بدل جانا ہی اثرانداز ہوتا ہے۔ (بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة:۳۴۱)
الموسوعة الفقہیة کی صراحت:
            عصر حاضر کی مشہور اور معتبر فقہی انسائیکلوپیڈیا الموسوعة الفقہیة میں استحالہ کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے:
            الاستحالة - تغیر الشیء عن طبعہ ووصفہ (استحالة ایک چیز کے اپنی طبیعت اور صفت بدل دینے کا نام ہے) اس کے بعد استحالہ کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے: فالاستحالة قد تکون بمعنی التحول کاستحالة الأعیان النجسة من العذرة والخمر والخنزیر وتحولہا عن أعیانہا وتغیر أوصافہا وذلک با الاحتراق أو بالتخلیل أو بالوقوع فی شیء․
            ترجمہ: (استحالہ کبھی کسی چیز کے اپنی حالت بدل دینے سے ہوتا ہے، جیسے گوبر شراب اور سور جیسی ناپاک چیزوں کا اپنی ذات سے پھرجانا اوران کی صفات کا بدل جانا، اور یہ تبدیلی کبھی چیز کے جلادینے سے یا شراب کو سرکہ بنانے سے یا کسی چیز میں ڈال دینے سے ہوتی ہے، پھر استحالہ کاحکم اس طرح بیان کیاگیا ہے: تحول العین وأثرہ فی الطہارة والحل (ایک چیز کے بدل جانے کا اثر اور حکم پاک اور حلال ہونے میں) ذہب الحنفیة والمالکیة وہو روایة عن أحمد الی أن نجس العین یطہر بالاستحالة فرماد النجس لایکون نجساً - ولا یعتبر نجسا ملح کان حماراً أو خنزیرا أو غیرہما ․․․․ ولأن الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة فینتفی بانتفائہا فاذا صار العظم واللحم ملحاً أخذ حکم الملح لأن الملح غیر العظم واللحم ونظائر ذلک فی الشرع کثیرة․ (الموسوعة الفقہیة:۱۰/۲۷۸)
            ترجمہ: (حنفیہ مالکیہ اور (باعتبار ایک روایت کے) امام احمد اس طرف گئے ہیں کہ کوئی بھی نجس العین چیز اپنی حالت بدل دے تو پاک ہوجاتی ہے، ناپاک چیز کی راکھ ناپاک نہیں ہوتی اور وہ گدھا یا خنزیر یا کوئی بھی ناپاک جانورنمک بن جائے تو پھر ناپاک شمار نہیں ہوتا، کیونکہ شریعت نے ناپاکی کاحکم اس گندگی کی حقیقت پرلگایا تھا، جب وہ گندگی باقی نہیں رہی پوری طرح مٹ گئی تو گندگی کا حکم بھی ختم ہوجائے گا، پس جب وہ ناپاک گوشت اور پوست نمک بن جائے تواس پر نمک ہی کاحکم لگے گا، اس لئے کہ اب یہ صرف نمک رہ گیا ہے، گوشت پوست وغیرہ کچھ نہیں رہا کہ اس کا حکم لگے اس طرح کی مثالیں شریعت میں بہت سی ہیں۔
            حضرات فقہاء و مفتیان کی ان روایات اور فتاویٰ سے صورت مسئولہ بالکل نکھر جاتی اور صاف ہوجاتی ہے کہ اگر صابون یا پیسٹ یا کیک اور بسکٹ یااسی طرح دیگر ماکولات و مشروبات میں اگر ناپاک چربی یا اسی قسم کی ناپاک اشیاء کی ملاوٹ ہوتی بھی ہے تو تین وجوہات کی وجہ سے اس کے جائز اور حلال ہونے میں کوئی شبہ یا خلجان نہیں رہ جاتا۔
            پہلی بات یہ کہ دلائل شرعیہ کے ثبوت کے بغیر ملاوٹ مسلم نہیں، یعنی تسلیم نہیں کی جائے گی، جس کو حضرت مفتی نظام الدین صاحب نے بیان فرمایا کہ جب تک دلائل شرعیہ سے ملاوٹ ثابت نہ ہو اور یقینی نہ ہوجائے اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے اس کی طرف یوں اشارہ فرماکہ جب تک معتبراوریقینی اطلاع نہیں ملتی، بات محض ظن و گمان کے درجہ کی چیز ہوتی ہے اور شریعت اس قسم کے محض احتمالی اور شکی باتوں پر احکام کا دارومدار نہیں رکھتی، اس لئے بھی کہ اصل اشیاء میں اباحت ہی ہے، تو تحریم کے لئے معقول اور قوی وجہ پایا جانا ضروری ہے، نیز الیقین لایزول بالشک ․
            دوسری وجہ اگر ملاوٹ ہوئی بھی ہو اور ثابت بھی ہوجائے تو شرعی اصول استہلاک اور استحالہ، یعنی ایک چیز کا اپنی حالت بدل دینا نیز انقلاب العین اور تغیر ماہیت و حقیقت کا اصول نافذ ہوگا، جس کی تفصیلات دلائل و شواہد سمیت گذرچکی ہیں۔
            اس بحث کے اختتام سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مفتی کفایت اللہ صاحب کے فتویٰ سے چند اقتباسات پیش کردئیے جائیں جو بڑا مبسوط تشفی بخش اور بحث کے تمام گوشوں کو محیط ہے، نیز مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ جیسی عبقری شخصیتوں کے تائیدی دستخط سے بھی مزین ہے۔
مفتی کفایت اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ:
            (سوال) آج کل ولایتی صابون عموما استعمال کیاجاتا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، اس وجہ سے اس کے استعمال میں تردد پیداہوگیا ہے، شرعی حکم سے مطلع فرماکر ممنون فرمایا جائے۔ وأجرکم علی اللّٰہ ․
            (۳۵۲) جواب: اوّل تو یہ امر محقق نہیں کہ صابون میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، اگرچہ نصاریٰ کے نزدیک خنزیر کا استعمال جائز ہے، اور انہیں اس سے کوئی پرہیز واجتناب نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ ضروری نہیں کہ صابون میں اس کی چربی ضرور ڈالی جاتی ہو، ظاہر ہے کہ یورپین کارخانے تجارت کی غرض سے صابون بناتے ہیں، اورایسے ذرائع مہیا کرتے ہیں جن سے ان کی مصنوعہ اشیاء کی تجارت میں ترقی ہو۔
            آپ نے اکثر یورپین چیزوں کے اشتہاروں میں یہ الفاظ ملاحظہ فرمائے ہوں گے کہ ”اس چیز میں بنانے کے وقت ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے، اس چیز میں کسی مذہب کے خلاف کوئی چیز نہیں ڈالی گئی ہے، اس چیز کو ہر مذہب کے لوگ استعمال کرسکتے ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔
            ان باتوں سے ان کا مقصود کیاہوتا ہے؟ صرف یہی کہ اہل عالم کی رغبتیں اس چیز کی طرف مائل ہوں اوران کے مذہبی جذبات اور قومی خیالات ان اشیاء کے استعمال میں مزاحم نہ ہوں، اور ان کی تجارت ہرقوم میں عام ہوجائے، اور یہی ہر تجارت کرنے والے کے لئے پہلا مہتم بالشان اصول ہے کہ وہ اپنی تجارت کو پھیلانے کے لئے ان لوگوں کے مذہبی جذبات اور قومی خیالات کا لحاظ کرے، جن میں اس کی تجارت فروغ پذیر ہوسکتی ہے، اوراس کے مال کی کھپت ہے، اہل یوروپ جو ہندوستان اوراکثر اطراف عالم میں اپنا مال پھیلانا چاہتے ہیں، اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلمان ہر حصہ عالم میں بکثرت موجود ہیں، اور یہ کہ مسلمان خنزیر اور اس کے اجزاء کے استعمال کو حرام مطلق سمجھتے ہیں، پس موافق اصول تجارت ان کا اولین فرض یہ ہے کہ اشیاء تجارتی میں جن کی اشاعت و ترویج ان کا مطمح نظر ہے، ایسی چیزیں نہ ڈالیں جن کی خبر ہوجانے پر مسلمان ان چیزوں کے استعمال کو حرام سمجھیں اور ان کی تجارت کو ایک بڑا صدمہ پہنچے۔
            میرا یہ مطلب نہیں کہ یورپین اشیاء میں ایسی چیزوں کا استعمال جو مسلمانوں کے نزدیک حرام ہیں غیرممکن ہے، بلکہ غرض صرف یہ ہے کہ یقینی طور پر معلوم نہ ہونے کی صورت میں گمان غالب یہ ہے کہ اصول تجارت کے موافق وہ ایسی چیزیں نہ ڈالتے ہوں گے، پس صرف اس بنا پر کہ یہ چیزیں یوروپ سے آتی ہیں اور اہل یوروپ کے نزدیک خنزیر حلال ہے، یہ خیال قائم کرلینا کہ ان میں ضروری طورپر خنزیر کی چربی پڑتی ہوگی یا پڑنے کا غالب گمان ہے صحیح نہیں، ہندو جن کے ہاتھ میں ہندوستان کی اکثر تجارت کی باگ ہے، بہت سی ناپاک چیزوں کو پاک اور پوتر سمجھتے ہیں، گائے کا گوبر اور پیشاب ان کے نزدیک نہ صرف پاک بلکہ متبرک بھی ہے، باوجود اس کے ان کے ہاتھ کی بنی مٹھائیاں اور بہت سی خوردنی چیزیں عام طورپر مسلمان استعمال کرتے ہیں اوراستعمال کرنا شرعا جائز بھی ہے، یہ کیوں! صرف اس لئے کہ چونکہ ہندو دکاندار جانتے ہیں کہ ہمارے خریدار ہندومسلمان اور دیگر اقوام کے لوگ ہیں، اور ہندوؤں کے علاوہ دوسرے لوگ گائے کے گوبر اور پیشاب کو ناپاک سمجھتے ہیں، اس لئے وہ تجارتی اشیاء کو ایسی چیزوں سے علیحدہ اور صاف رکھتے ہیں، تاکہ خریداروں کو ان سے خریدنے میں تامل نہ ہو، اور خریداروں کے مذہبی جذبات ان کی تجارتی اغراض کی مزاحمت نہ کریں۔
            یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے،جس پر بہت سے جزئیات کا حکم متفرع ہوتاہے، اور نہ صرف صابون بلکہ یوروپ کی تمام مصنوعات کی طہارت و نجاست اسی قاعدہ کے نیچے داخل ہے، ولایتی کپڑے اور بالخصوص رنگین کپڑے جو مسلمان عموماً استعمال کرتے ہیں، کسے خبر ہے کہ ان رنگوں میں کیا کیا چیزیں ملائی جاتی ہیں، اور کن پاک یا ناپاک اشیاء کی آمیزش ہوتی ہے، لیکن قاعدئہ مذکورہ کی بنا پر ان چیزوں کا حکم بھی یہی ہے کہ جب تک یقینی طورپر یا بہ گمان غالب یہ ثابت نہ ہو کہ کوئی ناپاک چیز ملائی جاتی ہے، ناپاکی کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔
            اولاً: طہارت ونجاست کے باب میں کتب فقہیہ میں بہت سی ایسی نظیریں موجود ہیں، جن میں محض گمان اور شک کاکوئی اعتبار نہیں کیاگیا، ماہرین کتبِ فقہ پر یہ امر واضح ہے۔
            ثانیاً: اگر اس امر کا ثبوت اورکوئی دلیل بھی موجود ہو کہ صابون میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، تاہم صابون کا استعمال جائز ہے، کیونکہ صابون میں جو ناپاک تیل یا چربی پڑتی ہے، وہ صابون بن جانے کے بعد پاک ہوجاتی ہے۔
            اس کے بعد فقہ کی کتابوں سے بہت سی روایات کی تخریج کے بعد (جن میں سے کچھ روایات پہلے گذرچکی ہیں) فرماتے ہیں:
            ان روایات منقولہ سے امور ذیل بصراحت ثابت ہوگئے۔
            (۱) انقلاب حقیقت سے طہارت و نجاست کا حکم بدل جاتا ہے۔
            (۲) یہ حکم طہارت بانقلاب حقیقت امام محمد کا قول ہے، اوراسی پر فتویٰ ہے، اوراکثر مشائخ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
            (۳) صابون میں روغن نجس یا چربی کی حقیقت بدل جاتی ہے، اورانقلاب عین حاصل ہوجاتا ہے (درمختار اور مجتبیٰ کی عبارتیں دیکھو)۔
            پس اب سوال کاجواب واضح ہوگیا کہ صابون خواہ کسی چیز کی چربی یا روغن نجس سے بنایا جائے صابون بن جانے کے بعد وہ پاک ہوجاتا ہے، اور اس کااستعمال جائز ہے، کیونکہ انقلاب حقیقت کی وجہ سے وہ چربی چربی اور روغن روغن نہ رہا، بلکہ صابون ہوکر پاک ہوگیا، جیسے مشک ہے کہ اصل میں خون ناپاک ہوتا ہے، لیکن مشک بن جانے کے بعد وہ پاک اور جائز الاستعمال ہوجاتا ہے، پس ولایتی صابون کے استعمال کے لئے اس تحقیقات کی کچھ ضرورت نہیں کہ اس کے اجزاء کیا ہیں؟ وہ پاک ہیں یا ناپاک؟ کیونکہ حقیقت صابونیہ اس کی طہارت کی کفیل ہے، جیسے کہ حقیقت مسکیہ اس کی طہارت کی ضامن ہے۔
            اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ روایات مذکورہ سابقہ سے روغن نجس کے صابون کا پاک ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن ممکن ہے کہ یہ حکم روغن کے ساتھ خاص ہو کیونکہ اصل اس کی پاک ہے، ناپاکی باہر سے اسے عارض ہوئی ہے، پس اس سے خنزیر کی چربی کے صابون کا حکم نکالنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ خنزیر اوراس کے اجزاء نجس العین ہیں، تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ انقلاب عین سے پاک ہوجانا نجس العین اور غیر نجس العین دونوں میں یکساں طور پر جاری ہوتے ہیں، خون بھی نجس العین ہے، مشک بن جانے سے پاک ہوجاتا ہے، خود خنزیر کا انقلاب حقیقت کے بعد پاک ہوجانا بھی روایات ذیل سے ثابت ہے: ولا ملح کان حمارا أو خنزیرا ولا قذر وقع في بئر فصار حمأة لانقلاب العین بہ یفتی (درمختار) یعنی وہ نمک ناپاک نہیں جو دراصل گدھا یا خنزیر تھا۔ اور وہ پلیدی بھی جو کنویں میں گرکر کیچڑ بن جائے ناپاک نہیں، کیونکہ انقلاب حقیقت ہوگیا اسی پر فتویٰ ہے۔
            قولہ لانقلاب العین علة للکل وہذا قول محمد وذکر معہ فی الذخیرة والمحیط أبا حنیفة (حلیة) (یعنی مصنف کا قول کہ انقلاب عین موجب طہارت ہے یہ گدھے اور خنزیر کے نمک اور پلیدی کے کیچڑ بن جانے کے بعد پاک ہوجانے کی دلیل ہے اور یہ امام محمد رحمة اللہ علیہ کا قول ہے، اور ذخیرہ اور محیط میں امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کو بھی امام محمد رحمة اللہ علیہ کے ساتھ ذکر کیا ہے:
            قال فی الفتح: وکثیر من المشائخ اختاروہ وہو المختار لأن الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وتنتفی الحقیقة بانتفاء بعض اجزاء مفہومہا فکیف بالکل فان الملح غیر العظم واللحم فاذا صار ملحا ترتب حکم الملح ونظیرہ في الشرع: النطفة نجسة وتصیر علقة وہی نجسة وتصیر مضغة فتطہر والعصیر طاہر فیصیر خمرا فینجس ویصیرخلاً یطہر فعرفنا أن استحالة العین تستتبع زوال الوصف․
            ان نصوص فقہیہ سے امور ذیل ثابت ہوتے ہیں:
            (۱) گدھا، خنزیر، کتا، انسان انقلاب حقیقت کے حکم میں سب برابر ہیں کچھ تفاوت نہیں۔
            (۲) یہ نمک کی کان میں گرکر مریں یا مرے ہوئے گریں، دونوں حالتوں میں یکساں حکم ہے، یعنی میتہ جو بہ نص قرآنی حرام اورنجس ہے وہ بھی اسی حکم میں شامل ہے۔
            (۳) انسان جس کے اجزاء سے بوجہ کرامت انتفاع حرام ہے اور خنزیر وہ میتہ جن سے بوجہ نجاست انتفاع حرام ہے، انقلاب حقیقت کے بعد ان پر انسان اور خنزیر و میتہ کا حکم باقی نہیں رہتا، بلکہ بعد انقلاب حقیقت پاک اور جائز الانتفاع ہوجاتے ہیں، جبکہ انقلاب حقیقت طاہرہ کی طرف ہو۔
            (۴) نمک کی کان میں گرنے اور صابون کے دیگ میں گرنے کاحکم یکساں ہے، کیونکہ یہ دونوں صورتیں موجب انقلاب حقیقت ہیں، جیسا کہ کبیری شرح منیة کی عبارت میں صراحتاً مذکور ہے، ان امور کے ثبوت کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ خنزیر یا میتہ یاکتے کی چربی سے بنے ہوئے صابون کے جواز استعمال میں تردد کیا جائے، اور یہ شبہ کچھ وقعت نہیں رکھتا کہ خنزیر بہ نص قرآنی حرام اور نجس ہے، پس صابون بن جانے کے بعد اس کی طہارت کا حکم کرنا نص قرآنی کا معارضہ ہے، جواب اسکا یہ ہے کہ یہ معارضہ نہیں، نص قرآنی نے خنزیر یا میتہ کو نجس بتایا ہے، لیکن نمک یا صابون بن جانے کے بعد وہ خنزیر یا میتہ ہی کہاں رہے، دیکھو شراب بہ نص قرآنی حرام و نجس ہے،اور سرکہ بن جانے کے بعد بالاتفاق وہ پاک و حلال ہوجاتی ہے، پس جس طرح کہ شراب منصوص النجاسة پر سرکہ بن جانے کے بعد طہارت و حلت کا حکم کرنا نص قرآنی کا معارضہ نہیں، اسی طرح خنزیر کے صابون بن جانے کے بعد اس کی طہارت کا حکم نص قرآنی کا معارضہ نہیں، اصل یہ ہے کہ شریعت نے جس حقیقت پر نجاست کا حکم لگایا تھا وہ حقیقت ہی نہیں رہی اور بعد انقلاب جو حقیقت متحقق ہوئی وہ شریعت کے نزدیک پاک ہے، پس یہ حکم طہارت بھی حکم شرعی ہے نہ غیر۔
            تنبیہ اول: یہ بات ضروری طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگرچہ خنزیر و میتہ وغیرہ کی چربی سے بنے ہوئے صابون کا استعمال جائز ہے، لیکن کسی مسلمان کو یہ حلال نہیں ہے، کہ وہ خنزیر وغیرہ کی چربی سے صابون بنائے، کیونکہ قصدا ان چیزوں کو صابون بنانے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں اور یہ جدا بات ہے کہ غیرمسلموں کے بنانے اور صابون بن جانے کے بعد استعمال جائز ہوجائے ․․․․․ واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم ․
کتبہ الراجی رحمة ربہ محمد کفایت اللہ غفرلہ مدرس المدرسة الامینیہ
 ہذا التحقیق صحیح، عزیز الرحمن عفے عنہ مفتی مدرسہ دیوبند
 الجواب صحیح ، محمد انور عفا اللہ عنہ، دارالعلوم دیوبند
امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا مذہب:
            امام بخاری نے ما یقع من النجاسات باب باندھا ہے اور مختلف صورتوں سے بحث کرتے ہوئے اس صورت سے بھی بحث کی ہے، ایک ناپاک چیز جب اپنی ہیئت بدل کر پاک چیز بن جائے تو وہ پاک اورجائز ہوجاتی ہے اور مشک والی روایت سے استدلال کیا ہے کہ شہید کے خون کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں شہید اس طرح آئے گا کہ اس کے بدن سے بظاہر خون بہتاہوگا، لیکن اس سے مشک کی خوشبو پھوٹتی ہوگی:
            وقال بعضہم مقصود البخاری أن یبین طہارة المسک ردا علی من یقول بنجاستہ لکونہ دما انعقد فلما تغیر عن الحالة المکروہة من الدم وہي الزہم وقبح الرائحة الی الحالة الممدوحة وہي طیب الرائحة المسک دخل علیہ الحل وانتقل من الحالة النجاسة الی حال الطہارة کالخمرة اذا تخللت (فتح الباری: ۱/۲۳۶)
            ترجمہ: امام بخاری کا مقصد ان لوگوں پر رد ہے جو مشک کو اس لئے ناجائز کہتے ہیں کہ وہ بندھا ہوا خون ہے، ان کاجواب مقصود ہے کہ یہ ناپاک جما ہوا خون تھا، لیکن ناپاک حالت اور بدبو سے نکل گیا اور پاک اور خوشبو والی حالت میں بدل گیا، تو اب یہ بلاشبہ پاک اورجائزہے، جیسے کہ جب شراب سرکہ بن جائے۔
            مذکورہ اشیاء میں ظاہر ہے کہ بسکٹ چاکلیٹ اور بیکری کی مصنوعات میں چربی کی صورت شکل مزہ کچھ نظر نہیں آتا، اس لئے یہ مسئلہ بالکل واضح ہے ان کے استعمال کو بلاتحقیق حرام قرار دینا اور اس پر زبردستی اوراصرار کرنا خواہ مخواہ کی زیادتی ہے اوراحکام شرعیہ کے ساتھ مخول اور ٹھٹھا ہے، البتہ شکوک و شبہات سے بچتے ہوئے احتیاط اور تقویٰ کو اپنانا اولیٰ اور بہتر رہے گا۔
            تیسری چیز جس کی طرف اخیر فتویٰ میں اشارہ کیاگیاکہ ان اشیاء کے استعمال کی اس قدر کثرت ہے کہ اس سے احتراز کرنا تقریباً ناممکن یا دشوار ضرور ہے، اس عموم البلوی میں داخل ہوگا یا (الحرج مدفوع المشقة تجلب التیسیر) کے ضمن میں داخل ہوگا۔
ملاوٹ کی تیسری صورت:
            تیسری صورت یہ کہ محض احتمال اور شبہ ہو ملاوٹ کاکوئی شرعی ثبوت نہ ہو، اس کا حکم دوسری صورت کے ضمن میں تفصیل سے گذرچکا ہے کہ ملاوٹ جب تک یقینی ثابت نہ ہوجائے محض گمان پر کوئی حکم شریعت نہیں لگاتی۔
ملاوٹ کی چوتھی صورت:
            چوتھی صورت یہ کہ کمپنیوں کی طرف سے مختلف چربیوں (حلال وحرام) ملانے کا احتمال ہو اس کی وضاحت نہ ہو کہ کس چیز میں کونسی چربی ملائی جارہی ہے۔
            مذکورہ بالا صورت بظاہر مخدوش اور مشتبہ ہے، اس لئے احتیاطاً یہاں بھی یہی کہاجائے گا کہ انفرادی طورپر آدمی حتی المقدور پرہیز اوراحتیاط کو اپنائے، یہی بہتر اورمناسب ہے لیکن شرعی قانون کی بات وہی ہے جو اوپر مذکور ہوچکی ہے کہ محض شبہات کی بنیاد پر ساری چیزوں پر بے تحقیق حکم لگاکر امت کو مشقت میں ڈالنا عقل کے بھی خلاف ہے اور شریعت تو ویسے بھی بے بنیاد حکم لگانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتی، اوریہ مسئلہ بہت پرانے زمانہ سے چلا آرہا ہے۔
فرنگی پنیر کے بارے میں ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی تحقیق:
            علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے بھی اس پر بحث فرمائی ہے کہ افرنچ (یعنی فرنگی اور یوروپی ممالک) سے آئے ہوئے پنیر کے بارے میں اسی وقت سے دو باتیں مشہور تھیں، ایک یہ کہ اس میں خنزیر کے دودھ کا استعمال یا غیر مذبوحہ جانور کے پیٹ سے جما ہوا دودھ جودہی کی شکل کا ہوتا ہے، اس سے پنیر (Cheese) بنایا جاتا ہے تو اس کے بارے میں علامہ نے یہ فرمایا کہ امت میں اس کا استعمال بلانکیر چلا آرہا ہے، حتی کہ صحابہ کے زمانہ میں مجوسیوں کا بنایا ہوا پنیر استعمال کیاجانا بھی عام ہوگیا تھا، جب کہ ان کے بارے میں یقینی معلوم تھا کہ وہ جانور ذبح نہیں کرتے اور باقی افرنگی اہل کتاب کا معاملہ مشکوک تھا کہ وہ کبھی ذبح کرتے ہیں کبھی ذبح نہیں کرتے اور پھر خنزیر کے پیٹ کا مادہ بھی اس میں استعمال کئے جانے کی خبر تھی، اس کے باوجود علماء اور فقہاء اور بزرگان دین نے اس کے جواز پر کبھی نکیر نہیں فرمائی۔
            الثانی أنہم لایذکون ما تضع منہ الأنفخة بل یضربون رأس البقر ولا یذکونہ وأما الوجہ الثانی فقد علم أنہ لیس کل یعقرونہ من الأنعام یترکون ذکوٰتہ بل قد قیل انہم انما یفعلون ہذا بالبقر وقیل انہم یفعلون ذلک حتی یسقط ثم یذکونہ ومثل ہذا لایوجب تحریم ذبائحہم بل اذا اختلط الحلال بالحرام فی عدد لا ینحصر کاختلاط أختہ بأہل البلد واختلاط المیتة والمغضوب بأہل بلدة لم یوجب ذلک تحریم ما فی البلد کما اذا اختلط الاخت بالأجنبیة والمذکی بالمیتة فہذا القدر المذکور لا یوجب تحریم ذبائحہم المجہولة الحال وبتقدیر أن یکون الجبن مصنوعا من أنفخة میتة فہذہ المسئلة فیہا قولان أحدہما أن ذلک مباح طاہر کما ہو قول أبی حنیفة و أحمد احدی الروایتین، والثانی أنہ حرام نجس کقول مالک والشافعی الخ والمطہرون احتجوا بأن الصحابة أکلواجبن المجوس مع کون ذبائحہم میتة ․ (فتاویٰ ابن تیمیہ ۱۲/۵۳۳)
            ترجمہ: دوسری صورت یہ ہے کہ افرنگی انفخہ بچھڑے کے پیٹ سے نکالے جانے والے رینٹ اور پنیر کے بارے میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ وہ لوگ جانورکو ذبح نہیں کرتے، بلکہ اس کا سرزمین سے یا دیوار سے زور سے مارتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مردار ہوجاتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تمام جانوروں کو اس طرح نہیں مارڈالتے، بلکہ صرف گائے کے ساتھ کرتے ہیں، باقی جانور (بکری وغیرہ) ذبح کرتے ہیں اور یوں بھی کہاجاتا ہے کہ سرٹکرانا صرف گرانے کیلئے ہوتا ہے، پھرجب وہ سست ہوتا ہے تو پھر ذبح کرتے ہیں،اس طرح کے مخلوط اور مشتبہ چیزوں کو حرام نہیں کہا جائے گا، بلکہ جب حلال و حرام مخلوط ہوجائے اور امتیاز مشکل ہوجائے تو یہ بالکل اسی طرح ہے، جیسے کسی شہر میں مردار اور چوری اور غصب کے کچھ جانور عام جانوروں میں رل مل جائیں تو ظاہر ہے کہ ان چند غلط جانوروں کے مل جانے کی وجہ سے پورے جانوروں کو حرام نہیں کہا جائے گا، پھر اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ پنیر مردار جانوروں سے بنا ہے، تب بھی اس مسئلہ میں دو قول ہیں، ایک امام ابوحنیفہ اورامام احمد کی ایک روایت کہ یہ جائز اور پاک ہے، دوسرا قول امام شافعی ومالک کا کہ ناپاک اور ناجائز ہے، جائز قرار دینے والے اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ صحابہ مجوس کے بنے ہوئے پنیر کو استعمال کرتے تھے، جبکہ وہ ذبح کرنے کے عادی نہیں تھے۔
ولایتی پنیر کے بارے میں مفتی نظام الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ
            افریقہ سے آئے ہوئے اسی قسم کی صورت حال کے بارے میں استفسار کے جواب میں حضرت فرماتے ہیں:
            (سوال) جس طرح ملک میں اکثر کھانے پینے کی چیزیں غیرمسلم عیسائیوں یہودیوں کی فیکٹریوں میں بنتی ہے اور مسلمان ان کو خریدکر کھاتے ہیں، اسی طرح پنیر اپنے تمام اقسام کے ساتھ انہیں غیرمسلموں کے فیکٹریوں میں بنتا ہے اور مسلمان انہیں خریدکر کھاتے ہیں، الی أن․․․․․
            اب سوال یہ ہے کہ غیرمسلم کے ذبیحہ سے کشیدہ انفخہ سے بنایا ہوا پنیر مسلمان کے لئے حلال ہے یا نہیں؟
            (جواب) البیضة اذا وقعت من الدجاجة فی الماء والمرقة لا تفسدہ وکذا سبخلة وکذا الأنفخة وہی ماتکون فی معدة الرضیع من أجزاء اللبن طاہرة عند أبی حنیفة لاتفسد الماء ولاغیرہ واذا خرجت من شاة میتة سواء کانت جامدة أو مائعة وعندہما المائعة نجسة والجامدة متنجسة طہر بالغسل فیفسدان فی الماء وغیرہ الا اذ اغتسلت الجامدة أما لو خرجت من مذکاة فلا خلاف فی طہارتہا․ الخ
            اس عبارت سے معلوم ہوا ہے کہ انفخہ جو گائے کے بچہ کے شکم سے یا بکری وغیرہ کسی بھی ایسے جانور سے جس کا گوشت حلال ہے وہ انفخہ اس جانور کے شکم سے شرعی طریقہ سے ذبح کرکے نکالا جائے تو وہ بالاتفاق حلال وپاک ہوتا ہے اس کا کھانا اور استعمال کرنا درست ہوتا ہے اورجو انفخہ ماکول اللحم ہی سے نکالا جائے، مگر بغیر شرعی ذبیحہ کے (مردار) جانور سے نکال دیا جائے تو صاحبین کے نزدیک حلال ہوتا ہے، امام صاحب رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ہرحال میں اس کا استعمال درست ہوتا ہے۔
            آگے فرماتے ہیں:
            (سوال) یہ کہ محکمہ زراعت و اقتصادیات کے ذمہ دار شخص نے بتلایا کہ پنیر بناتے وقت دودھ کو منجمد کرنے کے لئے خنزیر کے پیٹ سے کوئی سیال مادہ بھی استعمال ہوتا ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ اس ملک میں بھی استعمال ہوتا ہے یا نہیں؟ اور بعض ذمہ دار شخص نے بتایا کہ اب حیوانی رینٹ کے بجائے نباتاتی رینٹ استعمال ہوتاہے، تو کیا ایسی صورت حال میں پنیر کو مشکوک ٹھہراکر حرام سمجھا جائے یا دوسرے ذمہ دار کے انکار کی بنا پر اسے حلال ٹھہرایا جائے؟
            (جواب) خنزیر مثل غلاظت کے ناپاک یعنی نجس العین اورحرام ہے، ذبح کے بعد بھی یہ پاک نہیں ہوتا، اس کے پیٹ سے کشید کیا ہوا کوئی مادہ سیال ہو یا منجمد پاک و حلال نہ ہوگا، ناپاک و حرام ہی رہے گا اوراس کا استعمال جس کھانے وغیرہ میں ہوجائے گا، وہ بھی ناپاک و حرام ہوجائے گا اوراس کا کھانا اوراس کا استعمال کرنا بھی درست اورجائز نہ رہے گا، البتہ جب تک حرام و ناپاک کی آمیزش کا ثبوت یقینی نہ ہوجائے اس وقت تک قطعی حرمت کا حکم نہیں دیا جائے گا لیکن احتیاط اولیٰ اور بہتر رہے گی مکروہ یا حرام نہ کہہ سکیں گے۔
            اس طرح کے مخلوط حرام اور حلال دونوں قسم کے دودھ سے بنایا ہوا مشکوک اورمشتبہ پنیر کا استعمال جائز ہے یا نہیں اس کے بارے میں آگے فرماتے ہیں۔ (حرمت کیلئے قطعی ثبوت ضروری ہے محض اندازہ سے حکم لگانے سے تمام علماء نے پرہیز کیا ہے)
            غرض جب پنیر بنانے میں دونوں قسم کے (حرام و ناپاک اورحلال) رینٹ استعمال کرتے ہیں اور دراصل اشیاء میں حلت اوراباحت ہی ہے تو جب تک کسی پنیر کے بارے میں دلیل سے متحقق نہ ہوجائے کہ اس میں حرام و ناپاک رینٹ استعمال ہوا ہے، اس وقت تک اس پر حرام و ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگائیں گے۔ ہاں جب دلیل سے یقین ہوجائے اور ثبوت مل جائے کہ اس میں کوئی حرام یا ناپاک چیز ملی ہے جیسے یہ کہ پیکٹ وڈبہ پر ہی لکھا ہو یہ پنیر کسی حرام یا ناپاک چیز سے تیار شدہ ہے تواس کو ہرگز استعمال نہ کیا جائے یا مثلاً معتبر شہادت مل جائے کہ اس میں حرام وناپاک چیز ملی ہوئی ہے۔
            نیز اس سلسلہ میں تجارتی اصول کے ماتحت ذمہ دار اشخاص کے بیان پر اعتماد کیا جائے گا، کیونکہ دنیوی اصول کے مطابق بھی تجارت کو سچائی اور دیانت ہی سے فروغ ہوتا ہے اس لئے بغیر وجہ شرعی کے کسی کو جھوٹا و دغاباز سمجھنا یا کہنا صحیح نہیں ہوگا (منتخبات نظام الفتاویٰ: ۱/۴۲)
            پنیر کا مسئلہ اگرچہ کہ گوشت اور چربی کے مسئلہ سے جدا ہے، لیکن حلال وحرام کی آمیزش کی وجہ سے صورت حال چونکہ مشترک ہے، اس لئے مشتبہ ہونے کی صورت میں کس بات کااعتبار کیا جائے اورکونسی بات غیر معتبر ہوگی، اس کے اصول کو اس میں واضح کردیاگیا ہے۔
            خلاصہ یہ کہ ناپاک چربی کی آمیزش والی چیزیں اگر اپنی حقیقت بدل دیں اور کسی پاک چیز کی شکل اپنالیں تو یہ دوسری صورت میں شامل ہوگا، جس کی تفصیل گذرچکی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ بسکٹ کیک اور پیسٹ کی شکل میں بدل چکی ہے اور ناپاک چربی کی حقیقت بالکل ختم ہوچکی ہے، تو اب نہ اس کا رنگ روپ باقی ہے، نہ ہی ذائقہ اور شائبہ تو اس کے کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اس پنیر والی صورت سے ملتی جلتی شکل ہے کہ جن چیزوں کا استعمال کیاجارہا ہے، ان میں ناپاک چیزوں کی ملاوٹ کا ثابت ہونا شرعی دلائل سے ثابت ہی نہیں ہے، جب کہ کمپنیوں سے ہر طرح کی سینکڑوں قسم کی چیزیں (پاک اور ناپاک ملاوٹ والی) تیار ہوکر نکلتی رہتی ہیں تو کسی کے بارے میں جب تک کمپنی کی طرف سے یا عینی شاہدین کی طرف سے متعین طور پر نہ کہہ دیا جائے کہ اس میں ملاوٹ ہے، اس وقت تک ملاوٹ کا دعویٰ محض بلادلیل ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے اور متعین طور پر ثابت ہونے کی صورت میں تبدیلی ماہیت کے ہونے کی وجہ سے جائز ہے، (بہت سے لوگ خود پنیر کا استعمال کرتے ہیں، اس مسئلہ میں ان کے لئے بھی مستقل رہنمائی ہے)
            خلاصہ کلام یہ ہے حضرات علماء کرام مفتیان عظام کے سامنے کئی اصول و ضوابط ہیں، ان سب کا لحاظ کرنا ان کیلئے ضروری ہوتا ہے، ورنہ ایک ضابطہ کو لے کر باقی اصول سے صرف نظر کرنے کی صورت میں امت کیلئے دشواریاں اور مشکلات کھڑی ہوجانے کا خدشہ ہے تو دوسری طرف شریعت کے بہت سے مصالح اور فوائد سے محرومی کا خطرہ ہے، اس لئے مسئلہ کے سارے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی تفکر و تدبر کے ساتھ ساری صورتوں کو انھوں نے واضح کردیا ہے۔
            یہ بات ملحوظ رہے کہ ملاوٹ ثابت ہوجائے، تب بھی اصول وضوابط کی رو سے مسئلہ شرعیہ وہی ہے جو مذکور ہوا، اس لئے کہ فتویٰ میں سہولت و آسانی اور یسر مطلوب ہوتاہے، لوگوں کو مشقت تنگی و دشواری اورحرج میں ڈالنا ہرگز پسندیدہ نہیں ہوسکتا۔ ﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِي الدِّیْنِ مِنْ حَرَج﴾ (یسروا ولاتعسروا) لیکن عموما یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ناعاقبت اندیشی اور جلد بازی کا شکارہوکر یا جذبات سے مغلوبیت کے نتیجہ میں لوگ بائیکاٹ کی اور حرام ہونے کی باتیں کرتے رہتے ہیں، لیکن عملی میدان میں جب بازار کی صورت حالی یہ سامنے آتی ہے کہ مارکیٹ پر انہیں یہودی، عیسائیوں کاقبضہ ہے اور یہی مخدوش و مشتبہ کمپنیاں ہرطرف چھائی ہوئی ہیں، ان کی مصنوعات سے ان شبہات والی مشتبہ چیزوں سے بچنا اپنے قبضہ سے باہر معلوم ہوتا ہے تو بے بسی کا شکار ہوجاتے ہیں، انجام کار شرعی مسئلہ ایک تماشہ اور اضحوکہ یا عجوبہ بن جاتا ہے، اس کا علاج اور تیربہدف نسخہ یہی ہے، جس کو قرآن وحدیث نے بتایا ہے کہ مسلمان خصوصاً یہود و نصاریٰ سے دوستی، ان پر بھروسہ، ان سے لین دین اور معاملات سے حتی الامکان بالکلیہ پرہیز کریں اوراپنے طور پر یا حکومتوں کے تعاون سے میدان عمل میںآ گے بڑھ کر ذرائع اور وسائل کو اپنے ہاتھ میں لیں، مارکیٹ پر اپنا قبضہ کریں اور جہاں تک ہوسکے خودکفیل ہونے کی کوشش کریں اورحکومتوں کو بھی بیدار کریں، بیداری کی تحریک چلائیں، عوام اور حکومتوں کو تفصیل سے بتائیں کہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مارکیٹ پر قبضہ ملک و قوم کے لئے اور ملک کی اقتصادی حالت کیلئے انتہائی تباہ کن اور غربت اور بے روزگاری کو بڑھاوادینے والا ہے،تو دوسری طرف نت نئی بیماریوں کا جنم دینے والا ہے۔
            خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کو ملّی، دینی غیرت وحمیت کا اور ملکی و قومی مصالح کا مقتضا یہی ہے کہ ملک و قوم اورملت ان دشمنوں کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کرے اوراپنی مصنوعات کو فروغ دے اور بیرونی مصنوعات یعنی یہود ونصاریٰ جو شروع سے سازشی طور پر دنیا کے مارکیٹ پر قبضہ کئے ہوئے اور ساری دنیا سے دولت سمیٹ کر ان کے کھاتوں میں منجمد ہورہی ہے، تو عوام کی اسی دولت سے وہ دنیا میں بدامنی انتشار اور خوں ریزی پھیلارہے ہیں۔
            ان سب کا علاج یہی ہے کہ ان کے مقابلہ میں اپنی مصنوعات کو ہرطرف پھیلایا جائے تاکہ ماحول میں شفافیت برقرار رہے اور معاشرے کو سکون ملے۔ وما علینا الا البلاغ۔
          اللہم ارنا الاشیاء کما ہی اللہم فقہنا فی الدین وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین․

Ruling on using foods which contain pork-derived substances and how to deal with them

Question
I would like to ask you bout the products that we buy not knowing what it contains, which may contain something haram. I have read on the Internet that the products that contain one of the following substances are haram:
  E100 , E110 , E120 , E140 , E141 , E153 , E210 , E213 , E214 , E216 , E234 , E252 , E270 , E280 , E325 , E326 , E327 , E334 , E335 , E336 , E337 , E422 , E430 , E431 , E432 , E433 , E434 , E435 , E436 , E440 , E470 , E471 , E472 , E473 , E474 , E475 , E476 , E477 , E478 , E481 , E482 , E483 , E492 , E493 , E494 , E495 , E542 , E570 , E570 , E572 , E631 , E635 , E904 (risque de le contenir E104-E122-E141-E150-E153-E171-E173-E180-E240-E214-E477-E151 .
The fatwa is on the websites 
“The mentioned above numbers according to Muslim scientists are substances that have been transformed into totally different substances. They cannot have their original attributes and thus they cannot be named according to the original substance they are made of.
This chemical or natural transformation made the substance into another one. It is permissible then to eat products containing those substances after it loses its original attributes. The Muslim scholars know that transformation cancels prohibition. An example of this was given by the known scholar imam ibn taymiyah :” if a pig or a dog falls into a saltcellar and transformed under the effect of salt until it loses its original attributes, it is permissible to use this salt” this is a known rule to the early Muslim scholars. They used transformation as a way to make some impermissible things permissible. What is haram is to use products that contain pork fat or meat, as fat does not normally change by heating or boiling. So if it is written on the cover of the product that it contains pork fat or animals fat, this makes the particular product impermissible to eat, and it is haram to eat it for the mentioned reason” 
Do I have to search on the covers of all products I buy? And how can we know the haram substances? If these numbers are not prohibited, then what is their purpose? A common person does not understand some of these numbers, and some products may contain these substances but they will not be written on the cover. 
Is it correct that if the mentioned substances exist in a product but in small proportion, it becomes halal? And what if we do not know the exact proportion? 
What is your opinion regarding who says that some firms feed turkeys with pork products? 
Will I be sinful if I eat a product that I found it contains one of a substance that maybe extracted from pork? Will I be sinful if I eat a product and after eating it discover that it contains one of the mentioned numbers referring that it maybe extracted from pork?  
I apologise for this long question. May Allah reward you greatly!.
Answer
Praise be to Allaah.
Firstly: 
One of the things that distinguishes the Muslim from others is that he pays attention to the shar’i rulings that have to do with his life. That includes his earnings, his food, his drink. The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) stated the importance of halaal food to the Muslim in this world and the Hereafter. He stated that eating haraam food is a cause of du’aa’s not being answered and with regard to the Hereafter, there is a stern warning to the one who nourishes his body with haraam things. 
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Every body that is nourished with haraam things, the Fire is more befitting for it.” Narrated by al-Tabaraani; classed as saheeh by Shaykh al-Albaani in Saheeh al-Jaami’ (4519).  
The Muslim should beware of eating that which is it not permissible for him to eat, and he should seek out halaal food, even if it is more expensive than other food, and even if obtaining it involves more effort. 
Secondly: 
The pig is haraam and najis (impure); it is haraam to eat its meat or fat, and it is not permissible to eat a little of it or part of it. If some parts of its meat or fat is found in bread, food or medicine, it is haraam to consume it at all. 
The scholars of the Standing Committee for Issuing Fatwas said:  
If the Muslim is certain or thinks it most like that any pork, lard (pig fat), or ground up pig bones has gotten into his food, medicine, toothpaste and so on, then it is not permissible for him to eat it or drink it, or apply it to his skin. Whatever he is uncertain about, he should abstain from it, because the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Leave that which makes you doubt for that which does not make you doubt.” End quote. 
Shaykh ‘Abd al-‘Azeez ibn Baaz, Shaykh ‘Abd al-Razzaaq ‘Afeefi, Shaykh ‘Abd-Allaah ibn Ghadyaan, Shaykh ‘Abd0Allaah ibn Qa’ood. 
Fataawa al-Lajnah al-Daa’imah (22/281). 
Thirdly: 
Does the Muslim have to ask and find out before eating any ingredients if he is uncertain about whether there is anything haraam in them? 
The scholars of the Standing Committee said: If he is uncertain about something, he should leave it. Elsewhere (22/285) they said: He should ask for details because it is obligatory to beware of eating haraam things. 
This is what must be done if the country where those foods and drinks were manufactured is one where factories are not banned from using pork derivatives. Those people use a lot of pork by-products such as lard (pig fat) which they use in many kinds of food, drink, medicines, pastes and so on. 
If the country of manufacture is a Muslim country which bans the use of pork and its by-products, then the Muslim does not have to research and enquire and ask about product that is permissible in and of itself, as it is unlikely that there will be any of these haraam things in it. 
Depending on the country where the food is produced or manufactured, the scholars will say whether one should enquire or not. Part of enquiring is asking scientists and experts about the chemical composition and organic materials. It also includes reading the lists of ingredients on foods. This is sufficient to make sure, even if it comes from a kaafir country, because such lists are paid proper attention to for fear of the laws and penalties. They are slaves to money and do not indulge in lying – in most cases. What is written on them of symbols and names of ingredients that are not understood should also be asked about by the one who is able to do that. Knowledge is available nowadays via many means. The one who trusts them regarding this matter and trusts what they write can read the list of ingredients, otherwise he has to enquire further, or avoid it altogether, which is safer for him. 
The scholars of the Standing Committee for Issuing Fatwas were asked: 
Is it essential to read the list of ingredients written on food, to make sure that there are no pork or alcohol related products? 
They relied: 
Yes, that is essential. End quote. 
Shaykh ‘Abd al-‘Azeez ibn Baaz, Shaykh ‘Abd al-Razzaaq ‘Afeefi. 
Fataawa al-Lajnah al-Daa’imah (22/285) 
Fourthly: 
Everything mentioned above applies whether there is a little pork or lard or there is a lot in food, drink or medicine. If that meat or fat is manufactured in a manner that changes its form, is the prohibition lifted or does it remain haraam and must be avoided? 
The scholars differed concerning that. The scholars of the Standing Committee for Issuing Fatwas are of the view that the prohibition is not lifted, and the ruling does not change at all. Others – such as the Islamic Organization for Medical Sciences – disagreed and said that najis, haraam substances become permissible if they are turned into something else, and the quality of impurity and the name no longer apply to them. This is in accordance with what Ibn al-Qayyim (may Allaah have mercy on him) thought most likely to be correct and what we think is most likely to be correct. We have quoted both opinions in the answer to question no. 97541. 
We should add here that this is also the view regarded as more correct by the Council of Senior Scholars in the Kingdom of Saudi Arabia. In their book al-Buhooth al-‘Ilmiyyah (3/467), they said: 
Similar to that is the purity of that which has been fertilized of trees and crops with impure things; their fruits are permissible because of the transformation of the impure substance. Another similar case is the purity of alcohol which turns into vinegar; it is permissible to consume it, sell it, drink it and use it in other ways, after it had been alcohol which it is haraam to drink, sell or buy, and that is because of this transformation. End quote. 
Fifthly: 
If a person eats some haraam food and does not know anything about it, he should avoid the rest (as soon as he finds out that it is haraam); he does not have to do anything about what happened in the past, but he should be careful in the future. 
The scholars of the Standing Committee for Issuing Fatwas were asked: 
A man ate pork without realizing, then another man came to him after he had finished eating and told him that it was pork, and as we know, pork is haraam for Muslims. What should he do? 
They replied: 
He does not have to do anything about that, and there is no sin on him, because he did not know that it was pork. But he has to be careful and be cautious in the future. End quote. 
Shaykh ‘Abd al-‘Azeez ibn Baaz, Shaykh ‘Abd al-Razzaaq ‘Afeefi, Shaykh ‘Abd-Allaah ibn Qa’ood. 
Fataawa al-Lajnah al-Daa’imah (22/282, 283) 


No comments:

Post a Comment