Tuesday 15 October 2019

غیبت کی حقیقت ?Does Reality Backbite

(غیبت کی حقیقت، شناعت، محرکات واسباب، مباح شکلیں، مفاسد، تحفظ کے اسباب اور اس کا علاج)

اسلام میں ایک مسلم جان کی حرمت وتقدس کعبہ سے بھی بڑھ کے ہے۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہ حضور اکرام صلی اللہُ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی یہ حدیث نقل فرماتے ہیں:
- رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يطوفُ بالكعبةِ ويقولُ ما أطيبَك وما أطيبَ ريحَك ما أعظمَك وما أعظمَ حُرمتَك والَّذي نفسُ محمَّدٍ بيدِه لحُرمةُ المؤمنِ عند اللهِ أعظمُ من حُرمتِك مالُه ودمُه
 الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 3/276 خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]۔
اسی لئے اسلام نے ہر مومن کے عیوب واقعی کو چھپانے کا حکم دیا ہے۔ کسی کےافشاء راز کی اجازت قطعا نہ دی۔ ایسا کرنا اسلام میں سخت گناہ قرار پایا۔
حقیقت غیبت:
اپنے بھائی کے بارے میں اس کے خاندان، اخلاق، جسمانی ساخت، قول وفعل، حرکات وسکنات، یہاں تک کہ کپڑا، مکان اور سواری کے بارے میں "غائبانہ" ایسی واقعی بات کہنا یا اشارہ کنایہ کرنا جو متعلق شخص کو ناگوار گذرے "غیبت" کہلاتا ہے. (احیاء علوم الدین ۔جلد 3۔ صفحہ 143) 
پیٹھ پیچھے تکلیف دہ واقعی بات کا تذکرہ کرنا غیبت ہے۔ غیرواقعی بات کا تذکرہ کرنا خواہ سامنے ہو یا پیچھے "بہتان" کہلاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود غیبت اور بہتان کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں: 
ذكرك أخاك بما يكره..........ان كان فيه ما تقول فقد اغتبته. وان لم يكن فيه فقد بهته 
(أخرجه مسلم جلد 4. صفحه 2001. باب تحريم الغيبة)
غیبت کی تعریف میں یہ قید ضروری ہے کہ کسی کے امر واقعی کا ذکر اس کے غائبانہ میں ہو. اور یہ تذکرہ اس کے لئے باعث تکلیف بھی ہو۔ اس کے بغیر غیبت کی تعریف صادق نہیں آئے گی۔ ایک لفظ بہتان آتا ہے اس کے بارے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ تکلیف دہ امر غیرواقعی کو بیان کیا جائے خواہ سامنے ہو یا غیبوبت میں۔ تو غیبت کے لئے غیبوبت ضروری ہے. جرجانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
معنی اصطلاحی معنی لغوی سے خارج نہیں ہوسکتے۔
والفرق بين الغيبة والبهتان هو أن الغيبة ذكر الإنسان "في غيبته" بما يكره.والبهتان وصفه بما ليس فيه.سواء أكان ذا لك في غيبته أم في وجوده.
دیکھئے جامع البیان جلد 26۔ صفحہ 137۔ ط الحلبی ۔۔ التعریفات 143۔
غیبت کی شناعت: 
جمہور علماء امت کے یہاں غیبت حرام ہے اور گناہ کبیرہ میں داخل ہے۔ قرآن وحدیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ قرآن نے اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت قرار دیا ہے. 
(الحجرات :12 احکام القرآن للقرطبی۔ جلد 16۔ صفحہ 237۔ الزواجر۔ جلد 2۔صفحہ7) 
مختلف احادیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے سب سے بڑا گناہ کسی کی عزت کے پیچھے پڑنا ہے۔
ان من اکبر الکبائر استطالة المرء فی عرض رجل مسلم بغیر حق۔
(اخرجہ ابودائود جلد 5۔ صفحہ 193۔ عن ابی ھریرہ) 
ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن غیبت کر نے والے کے ناخن پیتل کے ہوں گے اور خود اپنے ناخن سے اپنے چہرے اور سینے کو نوچیں گے۔
(اخرجہ ابوداود جلد 5۔ صفحہ 164۔ عن انس بن مالک۔ وصححہ العراقی)۔
ایک حدیث میں ہے کہ غیبت زناء سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کیونکہ آدمی احوال سے مغلوب ہوکے اگر زناء کرلے پھر ندامت کے بعد توبہ کرلے تو اللہ اسے معاف فرمادیتے ہیں۔ جبکہ غیبت ایسا گناہ ہے کہ جب تک صاحب حق معاف نہ کرے اس کی مغفرت نہیں ہوگی۔ (یہ حدیث سند کے اعتبار سے اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کے معنی صحیح ہیں)
- الغِيبةُ أشدُّ من الزِّنا ، قالوا : يا رسولَ اللهِ! وكيف الغِيبةُ أشدُّ من الزِّنا؟ قال: إنَّ الرَّجلَ ليزني فيتوبُ فيتوبُ اللهُ عليه ، وفي روايةِ حمزةَ : فيتوبُ فيغفرُ له ، وإنَّ صاحبَ الغِيبةِ لا يُغفَرُ له حتَّى يغفِرَها له صاحبُه
 الراوي: أبو سعيد الخدري و جابر بن عبدالله المحدث: البيهقي- المصدر: شعب الإيمان - الصفحة أو الرقم: 5/2298 خلاصة حكم المحدث: إسناده ضعيف 
چونکہ غیبت سے انسانی عزت کی دھجیاں اڑتی ہیں اور ایک مسلم بے آبرو ہوتا ہے، اس لئے انسانی عزت کے پاس ولحاظ میں شریعت اسلامیہ میں اس کو حرام قرار دیا گیا. 
(الفروق للقرافی 2001/4)
غیبت ہی سے ملتے جلتے الفاظ بہتان، حسد، حقد وبغض، سب وشتم، چغلخوری (نمیمہ) وغیرہ ہیں. ان میں معمولی فرق کے سوا کوئی قابل ذکر بیں، فرق نہیں ہے۔ یہ سب اسلام کی نظر میں اخلاقی بیماریاں ہیں جن سے اسلامی معاشرہ کی تطہیر ضروری ہے۔
پتے کی بات: 
غیبت کے زنا سے بھی شدیدتر ہونے کی وجہ سید الطائفہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ یوں بیان فرماتے ہیں:
زناء "گناہ باہی" (شہوت سے صادر ہونے والا) ہے۔ اور غیبت "گناہ جاہی" (تکبر سے صادر ہونے والا گناہ) ہے۔ زناء کے صدور کے بعد آدمی میں ندامت وشرمندگی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں اسے توبہ کی توفیق مل جاتی ہے اور معافی مانگ کر اللہ کی مغفرت کا مستحق بن جاتا ہے۔ جبکہ مبتلائے غیبت کو ندامت تک نہیں ہوتی کیونکہ اسے ہلکا اور معمولی سمجھتا ہے بلکہ بعض اوقات اسے گناہ بھی نہیں سمجھا جاتا۔ جس کی وجہ سے نہ توبہ کی طرف توجہ ہوتی ہے اور نہ ہی توفیق۔ یوں توبہ سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس لئے حدیث میں اسے زناء سے زیادہ سخت کہاگیا ہے۔ ملفوظات حکیم الامت 218/2۔ ملفوظ نمبر 693۔۔
غیبت کیوں کی جاتی ہے؟
غیبت ایک اختیاری، اخلاقی اور نفسیاتی بیماری ہے۔ اس کے صدور کی تہ میں کوئی نہ کوئی اخلاقی کمزوری ضرور ہوتی ہے۔ اللہ حضرات فقہاء کو جزاء خیر عطاء فرمائے کہ ان کی دقیقہ ونکتہ سنج طبیعتوں نے یہاں بھی نکتہ سنجی کرتے ہوئے یہاں تک ذکر فرمادیا کہ آدمی کتنے وجوہ ومحرکات کے تحت دوسروں کی غیبت کرتا ہے. امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء میں اس کے گیارہ اسباب گنوائے ہیں۔ آٹھ اسباب عوام میں پائے جاتے ہیں اور تین خواص و اہل دین میں۔
(احیاء علوم الدین۔ جلد 3۔ صفحہ 145۔ ط الحلبی۔)۔
عوام میں غیبت کے محرکات:
1۔۔۔۔ غصہ کسی بات پر ناراضگی کی وجہ سے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے دوسروں کی برائی بیان کی جاتی ہے۔
2۔۔۔۔ دوستوں کی مجلس میں دیکھا دیکھی دوسروں کی برائی بیان کی جاتی ہے ۔
3۔۔ اپنے خلاف دی جانے والی کسی کی سچی گواہی کو غیرموثر اور ناقابل سماع کرنے کی خاطر پہلے ہی سے اس آدمی کی برائی بیان کی جانے لگتی ہے۔
4۔۔۔ حقیقت بیانی: یعنی کسی پہ کسی چیز کا بے بنیاد اور جھوٹا الزام تھونپ دیا جائے۔ جبکہ اصل مجرم کا اسے پتہ ہے۔ تو ذاتی برات وتصفیہ  کے لئے اب اصل مجرم کا نام اور برے کام بتایا جائے۔
5 ۔۔۔۔ تکبر: خود کو بڑا باور کروانے کے لئے دوسروں کے عیوب بیان کئے جائیں کہ مبادا اس کی بھی نہ تعظیم ہونے لگے! 
6 ۔۔۔۔ حسد: ابھرتے ہوئے شخص کو دیکھ کر اس کی عزت کو خاک میں ملانےکے درپے ہوجانا اور اس کی ترقی وعوامی پذیرائی کو روکنے کے لئے اس کی کردار کشی کی جائے۔ اور تسکین انا کی خاطر اس کے خلاف بے بنیاد الزامات کے جال بنے جائیں۔
7۔۔۔ ہنسی مذاق اور دوسروں کو ہنسانے کے لئے یا مجمع کو قہقہہ زار بنانے کے لئے دوسروں کی پگڑی اچھالی جائے اور عیوب بیان کئے جائیں۔
8۔۔۔ تمسخر اور استہزاء کے لئے کسی کی برائی بیان کی جائے۔
خواص میں غیبت کے اسباب:
1۔۔۔ تعجب 
2۔۔۔ رحمت 
3۔۔۔ غضب 
تعجب: کسی شخص کے ناجائز عمل پہ نکیر کرنے کے بعد مجلس میں جاکر بطور اظہار تعجب اس کا نام لیکر اس کے منکر کو بیان کیا جائے۔ منکر پہ نکیر اور پھر اس پہ تعجب یقینا امرمستحسن ہے لیکن نام لے لینے کی وجہ سے اب معروف منکر میں بدل گیا۔
رحمت: کسی کے فسق وفجور وآوارگی کو دیکھ کر تڑپ اٹھنا اور اس کے لئے سسکیاں یا آہیں بھرنا یقینا باعث ثواب عمل وجذبہ ہے لیکن پھر نجی مجلسوں میں جاکر اس شخص کا نام لے لینے سے اب یہ جذبہ حسیں غیبت کے زمرہ میں آگیا اور جو ثواب کمائے تھے شیطان نے اس پہ غیبت پہ قلعی چڑھا کے رائیگاں کردیا۔
غضب: کسی کی معصیت دیکھ ک غصہ ہوجانا اچھا جذبہ بیشک ہے!! لیکن اس اظہار غضب کے لئے مرتکب شخص کا نام لینا غیبت ہوجائے گا۔ احیاء العلوم 143/3 ۔۔۔ منہاج القاصدین ص 171 ۔۔۔
مباح شکلیں: 
قرآن وحدیث کی دلائل کی وجہ سے غیبت تو اصلا حرام ہی ہے لیکن بعض ناگزیر شرعی ضرورتوں کے پیش نظر بربنائے مصلحت اس کی بعض شکلیں مباح ہیں۔
 امام غزالی، علامہ نووی، امام قرطبی، قاضی شوکانی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ جیسے محققین نے اس  کے جواز کی چھ شکلیں نقل فرمائی ہیں۔
1۔۔۔۔ ظلم سے بچنے کے لئے حاکم یا قاضی کو کسی شخص کے ظلم وعدوان کی خبر دینا۔
2 ۔۔۔۔۔ کسی برائی کے دور کرنے اور اصلاح کے مقصد سے کسی کی غلطی اور خامیوں کو ذکر کرنا۔ بشرطیکہ اصلاح مقصود ہو  کسی کی توہین نہیں۔
3 ۔۔۔ دینی مسئلہ معلوم کرنے کے لئے کہ فلاں  مثلا میرے باپ یا بھائی نےمیرے ساتھ ایسے ویسے  ظلم کیا ہے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟۔
4 ۔۔ کسی مسلمان کو دین یا دنیا کے نقصان سے بچانے کے لئے کسی کی غیبت کی جاسکتی ہے تاکہ دوسرے مسلمان اس کے دام فریب میں نہ آسکیں۔ رشتہ ناطہ کے بارے میں کوئی کسی سے استفسار کرے تو صحیح صورتحال کی وضاحت ضروری ہے چاہے اس میں کسی کی عیب جوئی ہی کیوں نہ کرنا پڑے!
5 ۔۔۔ اگر انسان کسی ایسے لقب سے مشہور ہو جس میں اس کے نقص کا اظہار ہو لیکن یہی نام اس کے لئے معروف ہوچکا ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہے جیسے "اعمش" اعرج وغیرہ۔
6 ۔۔۔۔ ایسے شخص کی غیبت بھی ناجائز نہیں جس کی زندگی کے ظاہری احوال ہی اس کے گناہوں کا اعلان کرتے ہوں اور وہ برسرعام فسق وفجور کا مرتکب ہو۔ (احیاءعلوم الدین جلد 3۔صفحہ 145۔ شرح صحیح مسلم للنووی جلد2۔ صفحہ 322۔ ط ھند۔ الاذکار للنووی صفحہ 303 ۔۔ رفع الریبہ للشوکانی صفحہ 13۔ ط سلفیہ ۔۔۔ الجامع لاحکام القرآن جلد 16۔ صفحہ 339 ۔۔ ط مصر ۔۔۔۔ فتح الباری جلد 10۔ صفحہ 472۔ ط الریاض ۔۔)
جواز کی ان شکلوں کی بنیاد حضرت ھند زوجہ ابوسفیان  کی وہ حدیث ہے جو صحیحین میں مروی ہے کہ انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ سے اپنے شوہر ابوسفیان کی برائی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ، 
"ابو سفیان بڑا مکھی چوس ہے."
"ان ابا سفیان رجل شحیح" 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس عیب جوئی پہ کوئی نکیر نہ فرمائی. 
(اخرجہ البخاری۔ فتح الباری 507/9۔ ومسلم 1338/3۔ قاموس الفقہ 446/4۔)
اس سلسلہ میں مسند ابویعلی کی ایک مرفوع حدیث بھی ہے: "اذکروا الفاجر بمافیہ یحذرالناس" 
اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک نقل فرماتے ہیں کہ ہم سفر کے دوران ایک منزل پہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف افراد آتے۔ چلے جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے بارے میں فرماتے:
یہ بہت گھٹیا آدمی ہے۔ 
کسی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے: 
یہ بہت اچھا آدمی ہے۔
عن ابی ھریرہ: نزلنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منزلا فجعل الناس یمرون  فیقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعم عبد اللہ ھذا۔وبئس عبد اللہ ھذا۔
(مرقات المفاتیح شرح مشکات المصابیح لعلی القاری ۔جلد 11۔ صفحہ 446۔ ط رشیدیہ)
غیبت کے مفاسد:
شیخ عبد الوہاب شعرانی تنبیہ المغترین میں لکھتے ہیں کہ جو شخص غیبت کرتا ہے وہ اپنی نیکیوں کو منجنیق پر رکھ کر منتشر کرتا ہے اور دوسروں کو دے رہا ہے ۔
حضرت سلطان ابراھیم بن ادھم کسی کے یہاں مہمان بنے۔ میزبان نے کسی کی غیبت کی۔ فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ پہلے ہی گوشت کھلادیا! وہ بھی مردہ بھائی کا! اب کھاکر کیا کریں ؟؟؟۔ اگر شرم کی جگہ زخم ہو تو سوائے معالج کے کسی کو  دیکھنا دکھانا جائز نہیں۔ اسی طرح اپنے بھائی کے عیوب کو صرف اور صرف معالج اور مصلح کے علاوہ کسی سے کہنا جائز نہیں۔ حرام ہے۔ غیبت کرنا اور سننا دونوں حرام ہے ایسا شخص قیامت کے روز مفلس اٹھے گا۔
حضرت سفیان بن حسین ایک مرتبہ قاضی ایاس بن معاویہ کی مجلس میں بیٹھ کر کسی  کا تذکرہ کرنے لگے۔ جو غیبت تک جا پہنچا۔ تو قاضی ایاس بن معاویہ نے بڑی خوبی کے ساتھ اس پر متنبہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ کیا آپ نے رومیوں کے ساتھ جہاد کیا ہے ؟؟؟؟ کہنے لگے نہیں!! پھر فرمایا کہ کیا آپ نے سندھ وہند کے جہاد میں شرکت کی؟؟ کہا نہیں! تو قاضی صاحب نے فرمایا: عجیب بات ہے! روم سندھ وہند کے کفار تو آپ کی تلواروں سے محفوظ رہے لیکن ایک بیچارہ مسلمان بھائی آپ کی زبان اور غیبت سے نہ بچ سکا۔ آپ نے زبان کی تلواریں اس پر چلادیں!  
"دل دشمناں سلامت دل دوستاں نشانہ" 
والا معاملہ!!! 
حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے قاضی صاحب کے اس جملہ کا اتنا اثر ہوا کہ اس کے بعد زندگی بھر پھر میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔ البدایہ والنہایہ 336/9 
غیبت سے تحفظ کی صورتیں: 
غیبت انسان اپنے اختیار سے کرتا ہے۔ اس سے بچنا بھی اس کے اختیار میں ہے۔درج ذیل صورتوں سے بچا جاسکتا ہے۔
1 ۔۔۔ اللہ سے اس سے بچنے کی دل سے دعاء کرے۔
2 ۔۔۔ غیبت کی مذمت میں جو وعیدیں وارد ہیں ان کا استحضار کرے۔ جیسے کہ غیبت کرنے سے محنت کی کمائی مفت میں ہاتھ سے چلی جائے گی۔ اچھے اعمال غیبت کئے ہوئے آدمی لوگوں کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں۔ اور ان کی برائی اس کے سر تھونپ دی جائے گی۔
 - (أتدرون مَن المُفلِسُ) قالوا: المُفلِسُ فينا يا رسولَ اللهِ مَن لا درهمَ له ولا متاعَ له فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: (المُفلِسُ مِن أمَّتي مَن يأتي يومَ القيامةِ بصلاتِه وصيامِه وزكاتِه وقد شتَم هذا وأكَل مالَ هذا وسفَك دمَ هذا وضرَب هذا فيقعُدُ فيُعطى هذا مِن حسناتِه وهذا مِن حسناتِه فإنْ فنِيَتْ حسناتُه قبْلَ أنْ يُعطيَ ما عليه أُخِذ مِن خطاياهم فطُرِحت عليه ثمَّ طُرِح في النَّارِ)
الراوي: أبو هريرة المحدث: ابن حبان- المصدر: صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم:  4411 خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه۔ 
امام غزالی رحمة اللہ علیہ منہاج العابدین میں لکھتے ہیں کہ اگر اسلام میں غیبت جائز ہوتی تو ماں کی غیبت جائز ہوتی تاکہ ان کے عظیم احسانات کے بدلہ اولاد کی نیکیاں وضع ہوکے ماں ہی کو مل جائے۔ یعنی گھر کی نیکی گھر ہی میں رہ جائے!!! 
3 ۔۔۔ جب غیبت کا داعیہ پیدا ہو تو اس کے تقاضا پہ عمل نہ کرے۔ بلکہ اپنے عیوب پہ فورا نظر ڈال لے۔ جس کو اپنے عیوب کی فکر ہو وہ دوسروں کے عیوب کی تلاش میں کیوں پڑے گا؟ جو خود بیمار ہو اسے دوسرے بیماروں کی کیا فکر؟ 
بہادر شاہ ظفر مرحوم نے کتنی ظفر مندانہ بات کہی ہے: 
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر 
رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر 
پڑی اپنی برائی پہ جو نظر تو جہاں میں کوئی برا نہ رہا 
4 ۔۔۔ کسی کا کوئی تذکرہ ہی نہ کرے۔ نہ اچھا نہ برا! 
غیبت کا علاج: 
1۔۔ استحضار عقوبت وقت غیبت 
2 ۔۔ ۔تامل قبل کلام 
3 ۔۔۔ معافی چاہنا بعد صدورغیبت 
4 ۔۔۔ اپنے اوپر کچھ جرمانہ نقدی یا نوافل کا۔ تسہیل تربیت السالک 160/3۔۔۔۔
غیبت سے معافی کا طریقہ: 
دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اگر کبھی کسی کی غیبت کرلی گئی ہو تو اس کے تدارک کا طریقہ یہ ہے کہ اس آدمی کے پاس جاکے جو غیبتیں کی گئی تھیں ان کا تفصیلا بیان کرکے خلوص دل سے ان تمام برائیوں سے معافی مانگی جائے۔ البتہ اگر تفصیلی بیان میں اندیشہ ضرر ہو تو مجہولا بیان ہی میں معافی مانگ لے۔ اگر اس آدمی تک غیبت کی خبر نہ پہنچی ہو یا مرگیا ہو یا کافی دوردراز علاقہ میں رہتا ہو تو اس کے لئے اتنی مغفرت کرے کہ دل گواہی دیدے کہ اس گناہ کی تلافی ہوگئی ہوگی۔ اس کی تعریف کی جائے۔ اس کے لئے دعائے خیر کی جائے۔ اس کے لئے ایصال ثواب کیا جائے۔
 - إنَّ من كفَّارةِ الغيبةِ أن تستغفِرَ لِمَن اغتبتَهُ تقولُ اللَّهمَّ اغفِر لنا ولَهُ
 الراوي: أنس بن مالك المحدث: البيهقي- المصدر: الدعوات الكبير - الصفحة أو الرقم:  2/213 خلاصة حكم المحدث: في [إسناده] ضعف
واللہ اعلم بالصواب 

No comments:

Post a Comment