Wednesday 30 October 2019

بوسیدہ قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا؟

بوسیدہ قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا؟

سوال ]۷۷۶۸[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ بہت پرانا قبرستان جس کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی جگہ ایسی نہ ہوگی جس میں کوئی قبر نہ ہو اس کے ایک حصہ میں مسجد تعمیر کرلی گئی ہے، کیا اس مسجد میں نماز ہو جائے گی یا نہیں؟
المستفتی: ماسٹر فرقان علی برامپور سیوہارہ بجنور
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
اگر قبریں پرانی ہو چکی ہیں اور میت کے اجزاء کے مٹی بن جانے کا غلبۂ ظن ہو تو اس کو برابر کرکے مسجد بنا کر نماز ادا کی جائے تو بلاکراہت نماز درست ہوجائے گی، چنانچہ مسجد نبوی بھی مشرکین کی بوسیدہ قبروں پر واقع ہے۔
قال أنس: فکان فیہ ما أقول لکم قبور المشرکین وفیہ خرب وفیہ نخل فأمر النبی ﷺ بقبور المشرکین فنبشت ثم بالخرب فسویت وبالنخل فقطع فصفو النخل قبلۃ المسجد۔ (بخاری شریف، الصلاۃ باب ہل تنبش قبور مشرکی الجاہلیۃ ویتخذ مکانہا مساجد، النسخۃ الہندیۃ ۱/۶۱، رقم: ۴۲۴، ف: ۴۲۸)
لو أن مقبرۃ من مقابر المسلمین عفت فبنی قوم علیہا مسجدا لم أر بذٰلک بأسا (إلی قولہ) فإذا درست و استغنی عن الدفن فیہا جاز صرفہا إلی المسجد۔ (عمدۃ القاری، الصلاۃ، باب ہل تنبش قبور مشرکی الجاہلیۃ و تیخذ مکانہا مساجد، دار إحیاء التراث العربی ۴/۱۷۹، زکریا ۳/۴۳۵، رقم: ۴۲۸)
فقط واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۴؍ ربیع الاول ۱۴۱۱ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۲۶/۲۱۴۹)
--------
پرانے قبرستان پر مسجد بنانا:
اگر وقف قبرستان میں لوگوں نے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دیا ہو اور سابقہ قبروں کے نشانات مٹ گئے ہوں تو وہاں مسجد بنانا جائز ہے، اسی طرح اگر قبرستان کسی کی ملکیت ہو اور اس میں قبریں مٹ چکی ہوں تو مالک کی اجازت سے وہاں مسجد بنانا جائز ہے۔ (۲)
------------------------------
۲- إمداد المفتین: ۷۸۲ ، أحسن الفتاویٰ : ۶/۴۰۹
-------
سوال یہ ہے کہ کیا قبر کے اوپر مسجد بنانا جائز ہے؟ 
(۲) ایک عالم نے جمعہ کے دن بیان میں کہا تھا کہ زکاة کے پیسے مدرسہ میں نہیں چلیں گے۔ کیا اس کا کہنا صحیح ہے؟ 
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
اگر قبر پرانی ہو کہ میت کی ہڈی وغیرہ بوسیدہ ہوکر خاک میں مل گئی ہو تو اس پر مسجد بنانا جائز ہے کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ مالک زمین کی اجازت ہو یا وقف قبرستان ہو اور تدفین وہاں بند ہوگئی ہو، تدفین کے لیے ضرورت باقی نہ ہو۔ عینی شرح بخاری میں ہے: قال ابن القاسم لو أن مقبرةً من مقابر المسلمین عفت فبنی فیہا مسجدًا لم أر بذلک بأسا، امداد الفتاوی: ۲/۶۰۰۔ میں بھی یہ مسئلہ مذکور ہے۔
(۲) نہیں چلیں گے سے کیا مراد ہے؟ مدرسہ میں غریب طلبہ جن کے کھانے رہنے کا انتظام منجانب مدرسہ ہوتا ہو رہتے ہیں یا نہیں؟ وضاحت لکھ کر دوبارہ سوال کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
https://saagartimes.blogspot.com/2019/10/blog-post_30.html



No comments:

Post a Comment