علماء کا مذاق کیوں اڑاتے ہو؟
جو لوگ دینی باتوں یا علماء کرام کے بارے میں مذاق کرتے ہیں وہ لوگ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں اور سچی توبہ کرلیں یہ تحریر ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ہے۔
ترجمہ حدیث: حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنه سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر کسی مجلس میں ایک شخص نے (رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے حفاظ صحابہ رضوان الله علیہم سے متعلق) کہا:
ہم نے اپنے ان قاریوں اور حافظوں سے بڑا پیٹو ان سے بڑا جھوٹا اور ان سے زیادہ بزدل کسی اور کو نہیں پایا،
اس مجلس میں موجود ایک صحابی نے کہا:
تو جھوٹ بول رہا ہے بلکہ تو منافق ہے میں اس بات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ضرور پہنچاوں گا.
چنانچہ یہ خبر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی جس پر قرآن نازل ہوا:
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّانَخُوضُ وَنَلْعَبُ.
ترجمه: اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے تو وہ صاف کہیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔
حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنه کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ شخص (جس نے یہ بات کہی تھی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے کجاوے کی رسی پکڑ دوڑ رہا تھا پتھر اس کے پاوں کو زخمی کر رہے تھے اور وہ معذرت کرتے ہوئے کہہ رہا تھا:
اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم تو صرف مذاق کی باتیں کررہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں صرف یہ فرماتے تھے:
قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65)
لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُم ْ(66)
ترجمه: کیا الله اس کی آیتیں اور اس کے رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں اب بہانے نہ بناؤ تم لوگ ایمان لانے کے بعد اب کافر ہوگئے ہو۔
{تفسیر الطبری: 6/409}
ذرا غور کریں کہ جن لوگوں سے متعلق الله تعالیٰ نے فرمایا کہ:
اب بہانے نہ بناو یقیناً تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے وہ لوگ یک گونہ مومن تھے اور یہ ساری باتیں انہوں نے بطور مذاق ہنسی اور صرف دلچسپی کے لئے کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کا عذر قبول نہ ہوا بلکہ ان کے اس موقف پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی دیکھئے کہ یہ بات کہنے والا شخص معذرت بھی کررہا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کےکجاوہ کا پٹہ پکڑے ہوئے دوڑ رہا ہے ننگے پیر ہونے کی وجہ سےاس کے پیر پتھروں سے زخمی ہورہے ہیں اور قسمیں کھا کھا کر یہ کہہ رہا ہے کہ اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا مقصد صرف اور صرف ہنسی مذاق تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی اس حد تک ہے کہ آپ صرف یہ جواب دے رہے ہیں:
کیا الله اور اس کے احکام اور اس کا رسول ہی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں؟
امام ابن تیمیہ رحمہ الله لکھتے ہیں:
یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ الله تعالیٰ اور اس کی آیتوں اور حکموں اور اس کے رسول کا مذاق اڑانا کفر ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: 15/48)
امام فخر الرازی لکھتے ہیں:
دین کا مذاق خواہ جس نیت سے ہو الله تعالیٰ کے ساتھ کفر ہے۔
(التفسیر الکبیر: 6/126)
علامہ کوسی لکھتے ہیں:
اس بارے میں اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (روح المعانی)
حاصل کلام:
۱- الله و رسول اور دینی احکام کا مذاق اڑانا کفر اور دین سے ارتداد ہے۔
۲- اہل دین کا ان کی دینداری کی وجہ سے مذاق اڑانا حقیقۃً دین کا مذاق اڑانا ہے کیونکہ زیرِ بحث واقعہ میں الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قاریوں اور حافظوں کے مذاق اڑانے کو الله تعالیٰ نے الله اور اپنی آیات کا مذاق اڑانا قرار دیا۔
۳- منکر اور گناہ کی بات کہنے والا اسے برضا ورغبت سننے والا اور پر موافقت کا اظہار کرنے والا سب کے سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔
https://saagartimes.blogspot.com/2019/10/blog-post_88.html
https://saagartimes.blogspot.com/2019/10/blog-post_88.html
No comments:
Post a Comment