Wednesday 21 August 2019

"عقیدہ امامت" روافض کا ایک جُز "عقیدہ ختمِ نبوت" سے بغاوت اور انکار پر مشتمل

"عقیدہ امامت" روافض کا ایک جُز "عقیدہ ختمِ نبوت" سے بغاوت اور انکار پر مشتمل

تاریخِ اسلام کے قدیم ترین فتنہ روافض کے بارے میں حقیقت پسند جانتے  ہیں کہ "عقیدہ امامت" روافض کا بنیادی عقیدہ ہے۔ جس میں وہ اپنے بارہ آئمہ کے لیے نزول وحی، گناہوں سے معصوم،  صاحبِ شریعت اور حلال و حرام میں مختار وغیرہ ہونے کا پختہ عقیدہ رکھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس عقیدے کا ایک ایک جُز "عقیدہ ختمِ نبوت" سے بغاوت اور انکار پر مشتمل ہے۔
امام کا لفظ اہلِ حق کے یہاں بھی استعمال ہوتا ہے، اور شیعوں کے یہاں بھی، اہلِ حق کے ہاں اس کے معنی ’’پیشوا، رہبر،اور مقتَدیٰ‘‘ کے ہیں، اور اہلِ تشیُّع کے یہاں ’’امام‘‘ عالم الغیب اور معصوم ہوتے ہیں، یعنی اُن کے یہاں ’’امام‘‘ کا درجہ نبیوں سے بھی بڑا ہے، اہلِ حق یعنی اہلِ سنت والجماعت جب لفظ ’’امام‘‘ استعمال کرتے ہیں، تو ظاہری معنی ’’پیشوا، رہبر، مقتَدیٰ‘‘ ہی مراد ہوتے ہیں، اس اعتبار سے تمام انبیاء، صحابہ، تابعین، اولیاء اللہ اور علماء  امام  ہیں، اس لیے  امام  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،  امام عمر فاروق رضی اللہ عنہ،  امام عثمان رضی اللہ عنہ،  امام  حضرت علی رضی اللہ عنہ،  امام  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ  کہنا  چاہیے ۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ لوگ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم کو ’’امام‘‘ نہیں کہتے، بلکہ صرف حضرت حسن وحسین  رضی اللہ عنہما  کو ہی ’’امام‘‘ کہتے ہیں، معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں یہ اثر کہیں غیر سے آیا ہے، یہ تشیُّع (شیعیت) کا اثر ہے، جو مسلمانوں میں سرایت کرگیا ہے، ہاں! البتہ اگر اہلِ حق میں سے کسی نے ان کو  امام کہا ہے، تو وہ صحیح معنی میں کہا ہے، مگر اِس سے مُغالَطہ ضرور ہوتا ہے، اس لیے اِس سے احتراز ضروری ہے ۔
فقیہ العصر مفتی اعظم مفتی رشید احمد رحمہ اللہ تعالیٰ
(احسن الفتاوی : ۱/۳۹۰)
-------------------
عقیدہ امامت اورانکار ختم نبوت 
سوال: شیعہ اثناءعشری کے عقائد
(1) تحریف قرآن
(2) سب الشیخین
(3) انکار عفت سیدہ عائشہ  اور 
(4) عقیدہ امامت جیسے عقائد جب ہم اُن شیعوں پر پیش کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے تین تو ہمارے عقائد نہیں بلکہ ہمارے علمائ کے قول ہیں جو ہم پر حجت نہیں ۔۔۔۔
(1) کیا اُن کا یہ کہنا قابلِ تسلیم ہے یا نہیں؟
وہ کہتے ہیں جہاں تک ”عقیدہ امامت“ کا تعلق ہے تو ہم اُس کے قائل ہیں اور وہ ہمارا اساسی عقیدہ ہے۔ مہربانی فرماکریہ بتائیں کہ
(2) شیعہ کا ”عقیدہ امامت “ انکار ختم نبوت کو مستلزم ہے کہ نہیں؟ اور کیا صرف اس عقیدہ کی بنیاد پر شیعہ کافر ہے یا نہیں؟ 
(3) اگر شیعہ اثناء عشری کا ”عقیدہ امامت “ختم نبوت کے انکار کو مستلزم ہے۔ تو کیا اُن کو ”ختم نبوت“ کی کانفرنسوں میں باقاعدہ ختم نبوت کے اسٹیج پر دعوت دینا جائز ہے یا نہیں؟ 
(4) اگر شیعہ اثناء عشری کا ”عقیدہ امامت“ ختم نبوت کے انکار کو مستلزم ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں شیعہ علماء کو ”تحفظِ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم“ کی تحریک اور”تحفظِ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس“ میں بلانا جائز ہے؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
(۱) شیعوں کے وہ کفریہ عقائد جن کی وجہ سے وہ لوگ کافر ومرتد اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہیں، بے شمار ہیں، جن میں سے آپ نے ان کے بعض مشہور عقائد کو ذکر کیا ہے، اور یہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں عقیدہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے بلکہ ہمارے علماء کا قول ہے جو ہم پر حجت نہیں ہے، یہ لوگ بطور تقیہ ایسا کہتے ہیں اور تقیہ یعنی جھوٹ بولنا اپنے عقائد کفریہ کو چھپالینا، ان کے نزدیک نہ صرف جائز ہے بلکہ عبادت اور دین وایمان کا حصہ ہے، چنانچہ خود ان کی سب سے معتبر اور صحیح ترین کتاب اصول کافی میں ہے: ”لادین لمن لا تقیة لہ، لا إیمان لمن لا تقیة لہ“ کہ جو شخص تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین اور بے ایمان ہے، لہٰذا ان کا یہ کہنا کہ یہ ہمارے عقائد نہیں ہیں بلکہ ہمارے علماء کا قول ہے، قابل تسلیم نہیں ہے، بلکہ جو کچھ ان کی مذہبی کتابوں میں ہے اسی کے اعتبار سے حکم ہوگا، چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے مفتی اول حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب عثمانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: 
”اور واضح ہو کہ روافض تبرا گو ہی ہوتے ہیں اگرچہ بوجہ تقیہ کے جو اُن کے نزدیک دینی فعل ہے اپنے آپکو چھپاتے ہیں اور اپنے عقائد باطلہ مخفی رکھتے ہیں لہٰذا ان کے قول وفعل کا اعتبار نہ کیا جاوے، بلکہ ان کے اصول مذہب کو دیکھا جاوے“۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند ج۱۲ ص۳۹۷)
اور اگر بالفرض ان کی اس بات کو تسلیم کیا جائے تو صرف اتنی بات کہنے سے کہ یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے بلکہ ہمارے علماء کا قول ہے، کام نہیں بنتا، بلکہ اگر وہ لوگ سچے ہیں تو اپنے ان علماء کو جنھوں نے اپنی کتابوں میں یہ کفریہ عقائد لکھے ہیں ان سب کو یہ کافر ومرتد کہہ دیں اور ان کی کتابوں کو آگ لگادیں، لیکن قیامت کی صبح تک کوئی بھی شیعہ اس پر تیار نہیں ہوگا، پھر ان کے عدم تکفیر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مزید تفصیل کے لیے احسن الفتاوی ج ۱ ، اور ج ۱۰ کی طرف رجوع کریں۔
(۲) جی ہاں عقیدہٴ امامت ایک ایسا عقیدہ ہے کہ تمام شیعہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو، مرد ہو یا عورت ہو، سب کے سب اس عقیدہ کو ظاہر کرتے ہیں، اس کو چھپاتے نہیں ہیں، شیعوں کے نزدیک امام مفترض الطاعة ہوتا ہے یعنی اس کی اطاعت فرض ہے اور اسکی ہربات کو ماننا نبی کی طرح فرض ہے، اسی طرح امام ان کے نزدیک منصوص من اللہ ہوتا ہے، امام گناہوں اور خطاوٴں سے بھی معصوم ہوتا ہے، امام شریعت کے حکم کو منسوخ کرسکتا ہے، امام حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرسکتا ہے، اسی طرح فرشتوں کے ذریعہ امام پر وحی آتی ہے وغیرہ۔ حالانکہ مفترض الطاعة ہونا، منصوص من اللہ ہونا اورمعصوم ہونا یہ انبیائے کرام ہی کی خصوصیات اور ان ہی کے اوصاف ہیں، امام کے بارے میں ایسے عقائد رکھنا موجب کفر وارتداد ہیں اورختم نبوت کے انکار کو مستلزم ہے، لہٰذا عقیدہ امامت ہی کی بنیاد پر شیعہ کافر، مرتد اور زندیق ہیں اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہیں، چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے المسوی شرح موطا مالک میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے: ”وکذلک من قال فيالشیخین أبي بکر وعمر مثلاً لیسا من أھل الجنة مع تواتر الحدیث في بشارتہما أو قال إن النبي صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبوة ولکن معنی ہذا الکلام أنہ لا یجوز أن یسمي بعدہ أحد بالنبي، وأما معنی النبوة وہو کون الإنسان مبعوثا من اللہ تعالی إلی الخلق مفترض الطاعة معصوما من الذنوب ومن البقاء علی الخطاء فیما یری فہو موجود في الأئمة بعدہ فذلک ہو الزندیق وقد اتفق جماہیر المتأخرین من الحنفیة والشافعیة علی قتل من یجري ہذا المجری واللہ أعلم․ (المسوی شرح موٴطا مالک باب حکم الخوارج) قدیم زمانہ سے لے کر ملعون قادیان مرزا غلام احمد قادیانی تک جتنے جھوٹے مدعیان نبوت ورسالت گذرے ہیں سب نے اپنے دعووں کا مصالحہ شیعوں کے عقیدہٴ امامت ہی سے مستعار لیا ہے، لہٰذا شیعوں کا عقیدہٴ امامت ختم نبوت کے خلاف ایک بغاوت اور اسلام کے خلاف ایک کھلی سازش ہے۔
(۳-۴) جی ہاں شیعوں کا عقیدہٴ امامت ختم نبوت کے انکار کو مستلزم ہے اور اس کی وجہ سے یہ لوگ کافر ومرتد ہیں اور شرعی اعتبار سے مرتدین سے قطع تعلق رکھنا واجب وضروری ہے لہٰذا شیعوں کو ختم نبوت کی کانفرنسوں میں اسٹیج پر دعوت دینا ناجائز ہے اسی طرح شیعوں کو تحفظ ناموس رسالت کی کانفرنسوں میں بھی دعوت دینا جائز نہیں ہے، بلکہ علمائے اہل حق کی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں میں وقتاً فوقتاً اعلان کریں کہ عقیدہٴ امامت ختم نبوت کے انکار کومستلزم ہے اور شیعہ اثنا عشری حقیقت میں ختم نبوت کے منکر ہیں، چنانچہ اسی فتنہ کی سرکوبی کے لیے ۱۹۸۶ء میں دارالعلوم دیوبند میں تحفظ ختم نبوت کا اجلاس ہوا تھا، اور اجلاس کی کچھ رپورٹ ماہنامہ دار العلوم ماہ جنوری ۱۹۸۷ء میں شائع ہوئی تھی، چنانچہ ماہنامہ دارالعلوم میں ہے: ”اس لیے عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم (منعقدہ ۲۹/۳۰/۳۱/ اکتوبر ۱۹۸۶ء کے موقع پر اسی تقاضہٴ شرعی کے تحت حضرت مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہ العالی نے ایک تجویز پیش فرمائی جو بحث وتمحیص کے بعد اجلاس نمائندگان میں منظور کرلی گئی، تجویز کا متن یہ ہے:
یہ اجلاس علان کرتا ہے کہ شیعی اثناء عشری مسلک کا جو فی زمانہ دنیا کے شیعوں کی اکثریت کا مسلک ہے، اس مسلک کا ایک بنیادی عقیدہ عقیدہٴ امامت براہِ راست ختم نبوت کا انکار ہے، اسی بناء پر حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ ان کی تکفیر کی ہے، لہٰذا یہ اجلاس تحفظ ختم نبوت کا اعلان کرتا ہے کہ یہ مسلک موجب کفر اورختم نبوت کے خلاف پرفریب بغاوت ہے، نیز یہ اجلاس تمام اہل علم سے اس فتنہ کے خلاف سرگرم عمل ہونے کی اپیل کرتا ہے۔ (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند ص۶ ماہ جنوری ۱۹۸۷ء)
https://saagartimes.blogspot.com/2019/08/blog-post_49.html

No comments:

Post a Comment