Thursday 22 August 2019

حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشین گوئیاں .... حقیقت یا افسانہ؟

حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشین گوئیاں .... حقیقت یا افسانہ؟

           اپنی یادداشت کے مطابق سقوط عراق سے لیکر آج تک جب بھی کوئی بڑا واقعہ پیش آیا ہے فوراً میڈیا میں حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشینگوئیوں کے چرچے ہونے لگے ہیں جیسا کہ آجکل غزوہ ھند کے حوالے سے آپ کی پیشین گوئیوں کے چرچے ہیں .جگہ جگہ آپ کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہیں . خوشخبری کا ماحول بنایا جانے لگا ہے اور یہ تاثر دینے کی بے پناہ کوشش ہورہی ہے کہ اب یا تو امت مسلمہ کے دن پھرنے والے ہیں. زوال کو عروج ملنے والا ہے. اور ذلت و پستی اب خیرباد کہنے والی ہے...... یا..... یہ کہ ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ سینکڑوں سال پہلے ہی ایک ولی نے یہ پیشین گوئی کر رکھی ہے
      ظاہر ہے کہ ایسے موقع سے ہر طالب علم کو یہ تجسس ہوگا کہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی آخر ہیں تو کون ہیں؟ اور ان کی پیشین گوئیوں کی حقیقت آخر کیا ہے؟ چنانچہ اسی جذبہ تجسس کے پیش نظر جب میں نے کچھ تحقیق کرنی چاہی تو حیرت واستعجاب میں ڈوبتا چلا گیا کہ اے خدا! یہ سب کچھ فراڈ ہے یا میری نظر کا دھوکہ؟ اے اللہ! میری سمجھ کا قصور ہے یا خرد برد کرنے والوں کا فریب؟ یعنی یہ ساری پیشین گوئیاں ..... حقیقت ہیں یا افسانہ؟
        دراصل کسی بھی ولی کی دور بیں نگاہوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا. ان کے مکاشفات و الہامات ایک مسلمہ حقیقت ہیں اور جس نور فراست سے وہ بہرہ اندوز ہوتے ہیں اس کے ادراک سے بھی ہم قاصر ہیں اس لیے کسی بھی درویش اور بزرگ کی باتوں کو نکار دینا کم از کم میرے لیے تو ممکن نہیں.
         لیکن کیا کیجیے کہ جب الہامات شیخ کو وحی ربانی کا درجہ مل جائے. مکاشفات درویش کو عرش الہی کی آواز سمجھ لیا جائے اور اشارات بزرگاں کو احادیث رسول کے مساوی بنادیا جائے تو لامحالہ حقیقت حال سے پردہ اٹھانا ہوگا اور فریب خوردہ شاھینوں کو ان کی اپنی عقابی نظر یاد دلانی ہوگی. چنانچہ زیر نظر تحریر میں محض نمونے کے طور پر صرف دوچار ایسی نشاندہی کی جائے گی کہ صاف صاف پتہ چل جائے کہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سب الحاقی اور بعد کی پیداوار ہیں. تاہم پہلے مختصر سا تعارف سامنے رکھئے تاکہ انطباق میں آسانی ہو 
           تذکرہ نویسوں کے مطابق آپ کا پورا نام سید نورالدین نعمت اللہ ہے آپ کی ولادت بمقام حلب 14 ربیع الاول 731ھ میں ہوئی جبکہ وفات 23 رجب 834ھ (قصبہ ہامان. متصل کرمان. ایران) میں ہوئی ہے.
 (تاریخ فرشتہ ج 2 ص 608)
           آپ کے اساتذہ میں سےسید جلال الدین خوارزمی. شیخ رکن الدین شیرازی اور شیخ شمش الدین مکی کا نام سرفہرست ہے. آپ نے 24 سال کی عمر میں حجاز مقدس کا سفر کیا اور شیخ عبداللہ یافعی سے بیعت ہوکر راہ سلوک کے منازل طے کئے.سوانح نگاروں کے مطابق آپ علم جفر کے ایک ماہر جفار اور ستارہ مریخ کے بہترین عامل تھے 
            850 صفحات پر پھیلا ہوا آپ کا مطبوعہ دیوان مختلف لائبریریوں میں موجود ہے جس میں کہیں تو پیدا شود کی ردیف ہے اور کہیں می بینم کا قافیہ.جبکہ بہت سارے اشعار بہانہ. شہانہ وغیرہ کی ردیف میں بھی کہے گئے ہیں. آجکل ہمارے درمیان جو دیوان خوب گردش میں ہے اور جس کے مخصوص قصائد کے جملے والفاظ پر ہمارے احباب نازاں ہیں اس دیوان کی پہلی پیشین گوئی امیر تیمور لنگ کی پیدائش و بادشاہی سے متعلق ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ
راست گوئیم بادشاہے درجہاں پیداشود
نام او تیمور شاہ صاحبقراں پیدا شود
       اس پیشین گوئی کی تشریح کرتے ہوئے شارح مترجم نے یہ بھی لکھا ہے کہ تیمور لنگ کی پیدائش سے 200 سال پہلے آپ نے یہ پیشین گوئی کردی تھی.
              اب آئیے ذرا تجزیاتی عینک سے بھی پرکھتے چلئے کہ شاہ نعمت اللہ ولی کے تعلق سے اب تک جتنی باتیں اوپر مرقوم ہوئی ہیں کیا واقعی وہ حقیقت ہیں؟ اور کیا واقعۃً یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ کہ آپ ہی نے یہ پیشین گوئی فرمائی ہے؟ تو سب سے پہلے
         (1) ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ آپ کی یہ ساری پیشین گوئیاں 1857ء سے پہلے کبھی بھی منظر عام پہ نہیں آئیں اور میرے علم کی حد تک کسی نے بھی 1857ء سے پہلے آپ کی پیشین گوئیوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا. حالانکہ متعدد مؤرخین آپ کی کرامات پہ رطب اللسان ہیں. کئی صاحب قلم آپ کی بزرگی کے معترف ہیں اور کتنوں نے آپ کو ایک صاحب کشف بزرگ مانا ہے مگر یہ بھی کتنی حیرت کی بات ہے کہ کسی نے بھی برصغیر سے متعلق آپ کی پیشین گوئیوں کو اپنا موضوع نہیں بنایا جبکہ آپ کے موجودہ قصیدے میں نہ صرف یہ کہ امیر تیمور کی بادشاہت کا ذکر ہے بلکہ تسلسل کے ساتھ نام بنام پورے مغلیہ دور کی پیشین گوئی بھی موجود ہے. اس کے باوجود قدیم تاریخوں میں ان پیشین گوئیوں کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا
      (2) دروغ گو را حافظہ نباشد کا جملہ تو ایک مشہور مقولہ ہے اسی جملہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک اور سفید جھوٹ کا معائنہ کیجئے کہ آپ نے امیر تیمور لنگ کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی کہ وہ پیدا ہوگا جبکہ صحیح صورت حال یہ ہے کہ شاہ نعمت اللہ ولی اور امیرتیمورلنگ دونوں کا زمانہ ایک ہی ہے اور تیمور لنگ کے کشت وریخت کا سلسلہ کوئی بعد کا نہیں بلکہ خود شاہ نعمت اللہ کے دور کا ہے بلکہ ان ہی کے زمانے میں امیر تیمور نے ایران وعراق کو بھی فتح کیا اور افغانستان وھندوستان کو بھی.... کیونکہ مؤرخین نے امیرتیمورلنگ کی تاریخ ولادت 8 اپریل 1334ء کی شب کو بتلایا ہے اور 15 فروری 1405ء کی شب کو تاریخ وفات کہا ہے اب اگر اسے ہجری سن میں تبدیل کیا جائے تو تاریخ ولادت 24 رجب 734ھ اور تاریخ وفات 6 شعبان 807ھ بنتی ہے گویا شاہ نعمت اللہ ولی کی حیات میں ہی تیمور لنگ کی ولادت بھی ہے اور وفات بھی ...... اس لئے کہ شاہ نعمت اللہ ولی کی ولادت 731ھ میں اور وفات 834ھ میں ہے (جو کہ تطابق سنین کے لحاظ سےسن ولادت 1331ء اور سن وفات 1431ء بنتا ہے) 
         اب ناظرین خود فیصلہ کریں کہ جب تیمور لنگ کی ولادت و وفات دونوں ہی آپ کی حین حیات میں ہے تو پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کہ
راست گوئیم بادشاہے در جہاں پیداشود
نام او تیمور شاہ صاحبقراں پیدا شود
     اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ شارحین مزے لے لے کر لکھ رہے ہیں کہ تیمور لنگ کی پیدائش سے 200 سال پہلے آپ نے اس کی پیشین گوئی کردی تھی...... فیاللعجب
(3)  مطبوعہ دیوان میں ایک شعر ایسا بھی ہے کہ اسے حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کا کلام اگر مان لیا جائے تو بالیقین یہ عجوبہ روزگار ہوگا اور تاریخ انسانی کی ایک ایسی کرامت سمجھی جائے گی جس کے بارے میں آج تک کسی نے تصور بھی نہ کیا ہوگا چنانچہ پہلے اس شعر سے اپنی نگاہیں چار کیجئے اور پھر فیصلہ لیجئے کہ کیا یہ آپ ہی کا کلام ہے؟ یا کسی اور نے اسے ملحق کردیا ہے؟ وہ شعر یہ ہے
پنج صدوھفتادھجری بود چوں ایں گفتہ شد
قادر مطلق چنیں   خواہد   چناں   پیدا  شود
یعنی جب یہ اشعار کہے گئے تھے تو اس وقت 570ھجری تھی. قادر مطلق اسی طرح چاھتا ہے. اور اسی طرح ظاہر ہوگا
          گویا یہ اشعار جن دنوں نوک زبان پہ آئے تھے اس وقت 570 ھجری تھی اور یہ دعویٰ واعتراف کسی اور کا نہیں بلکہ خود شاعر ومتکلم کا اعتراف ہے
       اب ذرا پیچھے پلٹئے اور شاہ نعمت اللہ ولی کی تاریخ ولادت کو یاد کیجیے کہ 731ھ میں آپ کا تولد ہوا ہے گویا شاہ نعمت اللہ ولی نے اپنی ولادت سے 161 سال پہلے ہی یہ اشعار کہہ ڈالے ...... کیا ایسی کرامت وبزرگی کا آج تک کسی نے تصور بھی کیا ہوگا؟....... نہیں ہرگز نہیں ...... مگر کیا کہئے کہ الحاق کرنے والے دوستوں کی عقل ماری گئی تھی اور خرد برد کرنے والوں کے وہم وخیال پر دبیز پردہ پڑچکا تھا اسی لیے انھوں نے ایسے مستبعد ومحال کلام کو بھی دیوان کا حصہ بنادیا
      ایسے ہی اشعار کو دیکھتے ہوئے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ برصغیر سے متعلق جتنی بھی پیشین گوئیاں آپ کی طرف منسوب ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں اور انہیں سینکڑوں سال پہلے کے سنسنی خیز انکشافات کا نام دینا صرف اور صرف دجل و فریب ہے-
(4)  بزرگان دین کے مکاشفات و الہامات اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ارشادات میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ انبیاء کرام کا فرمان یقینی ہوتا. اس کے وقوع پر ایمان واذعان ہوتا اور پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ انبیاء کرام نے جیسا ارشاد فرمایا ہے ویسا ہوکر رہے گا کیونکہ ان کے فرامین کا تمام تر رشتہ وحی ربانی سے ہوتا ہے جبکہ الہامات و مکاشفات کی یہ شان ہرگز نہیں .... اس کے باوجود حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کے مطبوعہ دیوان میں ایک شعر ایسا بھی ہے جسے پڑھ کر ادّعائے نبوت کا دھوکہ ہوتا اور غیب دانی کے دعوے سے طرح طرح کے خیالات ابھرنے لگتے ہیں. چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ
آگہی شد نعمت اللہ شاہ ازاسرارغیب
گفتہ او بر مہر وماہ بےگماں پیدا شود
یعنی نعمت اللہ شاہ غیب کے رازوں سے باخبر ہوا .... اس لئے اس کا کہا ہوا زمانے اور کائنات میں بالیقین ظاہر ہوگا
      مذکورہ بالا شعر میں کئے گئے دعویٰ اور تیقن پر ایک عام انسان کو بھی یہ دھوکہ ہوسکتا ہے کہ دبی زبان میں آپ نے نبوت کا دعویٰ کرڈالا ہے اور ظاہر ہے کہ اس طرح کے دعویداروں کا ایمان ہی مشکوک ہوجاتا. چہ جائیکہ اسے بزرگ اور ولی تسلیم کیا جائے
       راقم سطور کے خیال میں اگر اس شعر کا انتساب آپ کی طرف صحیح ہے تو پھر آپ کا یہ دعویٰ یا تو مغلوب الحال اور مجذوب کامل ہونے کی وجہ سے ہے یا یہ کہ آپ کا عقیدہ و نظریہ اہل سنت والجماعت کے عقائد سے منحرف ہے اور چونکہ آپ کے تینوں سرفہرست اساتذہ شیخ رکن الدین شیرازی. شیخ شمش الدین مکی اور سید جلال الدین خوارزمی بھی اہل تشیع کے پیشواؤں میں سے ہیں اس لیے کیا بعید ہے کہ آپ بھی اسی عقیدے کے حامل ہوں ....
      اگر ایسا ہی ہے تو کون نہیں جانتا کہ ولایت ونبوت کے حلول کا عقیدہ بھی اہلِ تشیع کا ایک امتیازی وصف ہے. اور چونکہ سوانح نگاروں نے آپ کو امام باقر کی اولاد میں شمار کیا ہے اس لیے ممکن ہے کہ آپ خود اپنی امامت کے بھی دعویدار ہوں اور ظاہر ہے کہ اہلِ تشیع کے یہاں ان کے بارہ اماموں میں سے ہرامام کا وہی درجہ ورتبہ ہوا کرتا جو شریعت اسلامیہ میں کسی نبی و رسول کا ہوتا ہے اس لیے جب آپ بزعم خود ایک امام ہیں تو پھر اس طرح کا دعویٰ کرنا کیونکر مستبعد ہوسکتا ہے؟ .... شاید یہی وجہ ہے کہ امام خمینی کے ایرانی انقلاب کے بعد آپ کے چاھنے والوں کو ملک بدر کردیا گیا اور سبھوں نے امریکہ جاکر اپنی اپنی اقامت اختیار کرلی. جوکہ تاحال باقی ہے
(5)  پیدا شود کی ردیف میں  مغلیہ دور حکومت سے متعلق جتنی بھی پیشین گوئیاں ہیں وہ سب کی سب بالترتيب اور نام بنام ہیں بلکہ اوصاف والقاب اور مقام وزمانہ کا تعین بھی کچھ اس انداز سے کیا گیا ہے جسے تعریض واشارہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا .... اب ذرا نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی پیشین گوئیاں بھی سامنے رکھئے کہ آپ نے جتنی بھی پیشین گوئی فرمائی ہے ان میں سے بیشتر میں نہ تو اس قدر تفصیل وتعیین ہے اور نہ ہی زمانہ ومقام کی اتنی وضاحت بلکہ کچھ نہ کچھ اغماض وابھام ضرور ہے .... اس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی کی پیشین گوئیاں تو مبھم ہوں اور امتی کی پیشین گوئیاں مرتب ومفصل؟ .... اسی بنا پر گمان غالب یہی ہے کہ برصغیر سے متعلق پیشین گوئیوں پہ مشتمل جتنے بھی اشعار ہیں یہ سب کے سب ملحق ہیں اور واقعات کے رونما ہوجانے کے بعد یہ سارے اشعار بناکر دیوان میں چسپاں کردئیے گئے ہیں بلکہ آئندہ بھی کئے جاتے رہیں گے کیونکہ صوفی نعمت اللہ کی تحریک کو باقی بھی تو رکھنا ہے اور امریکہ میں بیٹھے ہوئے اس تحریک کے جیالوں کو اپنی روٹی بھی تو سینکنی ہے
              ختم شد
            23 اگست 2019ء
از..... رضوان احمد قاسمی منوروا شریف سمستی پور بہار
https://saagartimes.blogspot.com/2019/08/blog-post_39.html


2 comments:

  1. جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدارین حضرت مولانا

    ReplyDelete