Thursday 6 June 2019

سوال اس بات کا نہیں ہے ......

سوال 
اس بات کا نہیں ہے 
(کہ برادران وطن کا ہمارے ساتھ 
کیا سلوک ہے بلکہ) سوال یہ ہے کہ ہم اس ملک میں تیس کروڑ ہونے کے باوجود ہم نے کیا کیا؟ اپنے کتنے غیرمسلم بھائیوں کو ہم نے اسلام اور اخلاق کی دعوت دیکر اچھائی اور ہدایت کے راستے پر لانے کی کوشش کی؟ اگر ہم اس طرف توجہ دیتے تو ملک کا نقشہ اس وقت کچھ اور ہوتا اگر پانچ کروڑ مسلم نوجوان اپنے پانچ کروڑ غیر مسلم دوستوں کو اپنا بناتے اپنا بھائی بنانے کی کوشش کرتے تو اللہ ضرور ان کے دل میں ہدایت کے چراغ جلاتا اور آج جن خطرات ہم دوچار ہیں یا ہونے والے ہیں نہ ہوتے. یہی وہ کام ہے جسے ہم نے نہیں کیا. اللہ نے ہم کو بہت موقع دیا مگر ہم گنواتے رہے. آخر ذرا سوچئے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کیسے اسلام کے سپاہی بنے؟ عمر (رضی اللہ عنہ) کیسے اسلام کے سپہ سالار بنے؟ خالد (رضی اللہ عنہ) کیسے اسلام کے دفاع میں آئے؟ وہی طریقہ اختیار کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا. ڈرو مت گھبراؤ مت ..... ذرا سوچو ذرا سوچو ابھی وقت ہے ... یہ جو کچھ ہے اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کرنے کے نتائج سامنے آرہے ہیں .... اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہے... . سیاسی حالات سے خوف کھانا بزدلی ہے .... میرے بھائی حوصلے سے کام لو .... حکمت عملی اختیار کرو.. مقصد زندگی کی طرف قدم بڑھاو۔ بھلا وہ قوم  نامساعد حالات کے سامنے کیسے گھبرا جائے گی جس کے سامنے اسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی  سیرت اور رسول صلی علیہ وسلم کا اسوہ اور قران جیسی ہدایت موجود ہے .... آج ہی سے اس مہم پر حکمت کے ساتھ لگ جائیے۔ ان شآءاللہ حالات خود بہ خود آپ کے حق میں آنے شروع ہوجائیں۔ جب دعوت کی بدولت باطل نظریات کی حامل اقوام کامیاب ہوسکتی ہیں تو آپ تو حق کے علمبردار ہیں: 
وَ مَا کَانَ اللّٰہُ  لِیُعَذِّبَہُمۡ  وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ ﴿۳۳﴾ سورہ الانفال آیت نمبر 33
ترجمہ: اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو، اور اللہ اس حالت میں بھی ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے جب وہ استغفار کرتے ہوں۔ (١٩)
تفسیر: 19: مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے کفر اور شرک کی وجہ سے مستحق تو اسی بات کے تھے کہ ان پر عذاب نازل کیا جائے، لیکن دو وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل نہیں فرمایا، ایک وجہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں موجود ہیں اور آپ کے ہوتے ہوئے عذاب نازل نہیں ہوسکتا، کیونکہ نبی کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتا، جب نبی بستی سے نکل جاتے ہیں تب عذاب آتا ہے، اس کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ اللعلمین بناکر بھیجا گیا ہے اس لئے آپ کی برکت سے عذاب عام اس امت پر نہیں آئے گا، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں بہت سے مسلمان استغفار کرتے رہتے ہیں ان کے استغفار کی برکت سے عذاب رکا ہوا ہے اور بعض مفسرین نے اس کی یہ تشریح بھی کی ہے کہ خود مشرکین مکہ بھی اپنے طواف کے دوران کثرت سے غفرانک کہتے رہتے تھے جو استغفار ہی کی ایک قسم ہے اگرچہ کفر وشرک کے ساتھ استغفار آخرت کے عذاب کو دور کرنے کے لئے تو کافی نہیں تھا؛ لیکن اللہ تعالیٰ کافروں کی نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اس لئے ان کے استغفار کا اثر یہ ہے کہ ان پر دنیا میں کوئی اس طرح کا عذاب عام نازل نہیں ہوا جیسا عاد وثمود وغیرہ پر آیا تھا۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
آپ کا خادم نادر قاسمی

No comments:

Post a Comment